ترجمہ و تفسیر — سورۃ هود (11) — آیت 3
وَّ اَنِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ یُمَتِّعۡکُمۡ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّ یُؤۡتِ کُلَّ ذِیۡ فَضۡلٍ فَضۡلَہٗ ؕ وَ اِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ عَذَابَ یَوۡمٍ کَبِیۡرٍ ﴿۳﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور یہ کہ اپنے رب سے بخشش مانگو، پھر اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ تمھیں ایک معین مدت تک اچھا ساز وسامان دے گا اور ہر زیادہ عمل والے کو اس کا زیادہ ثواب دے گا اور اگر تم پھر گئے تو یقینا میں تم پر ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور یہ کہ اپنے پروردگار سے بخشش مانگو اور اس کے آگے توبہ کرو وہ تو تم کو ایک وقت مقررہ تک متاع نیک سے بہرہ مند کرے گا اور ہر صاحب بزرگ کو اس کی بزرگی (کی داد) دے گا۔ اور اگر روگردانی کرو گے تو مجھے تمہارے بارے میں (قیامت کے) بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور یہ کہ تم لوگ اپنے گناه اپنے رب سے معاف کراؤ پھر اسی کی طرف متوجہ رہو، وه تم کو وقت مقرر تک اچھا سامان (زندگی) دے گا اور ہر زیاده عمل کرنے والے کو زیاده ﺛواب دے گا۔ اور اگر تم لوگ اعراض کرتے رہے تو مجھ کو تمہارے لیے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 3) ➊ {وَ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَيْهِ:} پچھلی آیت میں { اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّا اللّٰهَ } سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں استغفار اور توبہ سے مراد غیر اللہ کی عبادت سے استغفار اور توبہ ہے، یعنی تم اللہ کے ساتھ جو بھی شرک اور اس کی نافرمانیاں کر چکے ہو ان کی معافی اور بخشش مانگو، مگر اس استغفار کا فائدہ تب ہے کہ ان گناہوں سے واپس پلٹ آؤ اور آئندہ کے لیے نہ کرنے کا خلوصِ دل سے عزم کرو، پھر اگر انسانی کمزوری سے کوئی گناہ ہو جائے تو پھر معافی مانگو اور ساتھ ہی آئندہ کے لیے خلوص دل سے پھر توبہ کرو اور یہ سلسلہ ساری زندگی ہر لغزش پر، خواہ کتنی بار بھی ہو جائے جاری رکھو۔ نہ گناہ کے بعد معافی مانگنے میں دیر کرو اور نہ معافی مانگنے کے ساتھ توبہ میں۔ تب استغفار اور توبہ کا فائدہ ہے۔ دیکھیے سورۂ نساء (۱۷، ۱۸)۔
➋ { يُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى:} اس میں استغفار اور توبہ کا کمال فائدہ بیان فرمایا ہے۔ یہ دنیا جسے اللہ تعالیٰ نے متاع غرور بتایا ہے، اسے اللہ تعالیٰ استغفار اور توبہ کرنے والے مومن کے لیے موت تک متاع حسن بنا دے گا۔ وہ دنیا کی نعمتوں سے سرفراز ہو کر بھی متاع غرور کے بجائے متاع حسن سے فائدہ اٹھائے گا۔ وہ استغفار اور توبہ کے ساتھ اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں بسر کرے گا، تو اس کی نفسانی لذتیں بھی اس کے لیے ثواب بن جائیں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا: [وَلَسْتَ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِيْ بِهَا وَجْهَ اللّٰهِ إِلاَّ أُجِرْتَ بِهَا وَ فِيْ رِوَايَةِ الْبُخَارِيِّ: فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ حَتَّي اللُّقْمَةَ تَجْعَلُهَا فِيْ فِيْ امْرَأَتِكَ] [مسلم، الوصیۃ، باب الوصیۃ بالثلث: ۱۶۲۸۔ بخاری: ۲۷۴۲] تم جو بھی خرچ کرو گے، جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا چاہو گے، اس پر تمھیں اجر دیا جائے گا (بخاری کے الفاظ ہیں کہ وہی صدقہ بن جائے گا) یہاں تک کہ وہ لقمہ بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے۔ ایسے مومن کو دنیا میں حیات طیبہ عطا ہوتی ہے (خواہ بظاہر وہ مصیبت میں گرفتار ہو) اور آخرت کا بہترین اجر عطا ہو گا۔ دیکھیے سورۂ نحل (۹۷) عمل صالح اور استغفار کی بے شمار برکات اور فوائد ہیں، چند فوائد کے لیے دیکھیے سورۂ ہود (۵۲، ۶۱، ۹۰)۔
➌ { وَ يُؤْتِ كُلَّ ذِيْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ: فَضْلٍ }کا معنی زائد ہے، یعنی جو اطاعت اور نیک اعمال میں جتنا زیادہ ہو گا اسے اللہ تعالیٰ دنیا یا آخرت یا دونوں میں زیادہ اجر دے گا۔ اللہ کے ہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے، اس کا قاعدہ ہے کہ جو کوئی برائی کرتا ہے اس کے لیے ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے اور جو نیکی کرتا ہے اس کے لیے کم از کم دس(۱۰)نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ کا کوئی حساب نہیں، فرمایا: «{ وَ اللّٰهُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ [النور: ۳۸] اور اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے۔ ایک مطلب یہ بھی ہے کہ صدقہ عموماً اپنی ضرورت سے زائد چیز ہی کا کیا جاتا ہے، تو ہر شخص جو اپنی ضرورت سے زائد چیز اللہ کی راہ میں خرچ کر دے، تو اللہ تعالیٰ اسے ہر گز کمی نہیں ہونے دے گا، بلکہ اس کی زائد چیز ضرور اسے دے گا، پھر جو اپنی ضرورت کے باوجود صدقہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس پر کس قدر فضل فرمائے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِّنْ مَّالٍ] [مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب استحباب العفو والتواضع: ۲۵۸۸، عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ] کوئی صدقہ کسی مال میں کمی نہیں کرتا۔
➍ {وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّيْۤ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيْرٍ:} بہت بڑے دن کے عذاب سے، یعنی میں تم پر دنیا کے عذاب کے علاوہ آخرت کے دن کے عذاب سے بھی ڈرتا ہوں، جو بہت بڑا، یعنی پچاس ہزار سال کا دن ہے اور جس کے بعد پھر کفار کے لیے ہمیشہ کا عذاب ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

3۔ 1 یہاں اس سامان دنیا کو جس کو قرآن نے عام طور پر ' متاع غرور ' دھوکے کا سامان کہا ہے، یہاں اسے ' متاع حسن ' قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو آخرت سے غافل ہو کر متاع دنیا سے استفادہ کرلے گا، اس کے لئے یہ متاع غرور ہے، کیونکہ اس کے بعد اسے برے انجام سے دو چار ہونا ہے اور جو آخرت کی تیاری کے ساتھ ساتھ اس سے فائدہ اٹھائے گا، اس کے لئے یہ چند روزہ سامان زندگی متاع حسن ہے، کیونکہ اس نے اللہ کے احکام کے مطابق برتا ہے۔ 3۔ 2 بڑے دن سے مراد قیامت کا دن ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

3۔ اور یہ کہ اپنے پروردگار سے معافی مانگو اور اس [3] کے حضور توبہ کرو۔ وہ ایک خاص مدت تک تمہیں اچھا سامان زندگی دے گا اور ہر صاحب [4] فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا اور اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں تمہارے حق میں بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا [5] ہوں
[3] توبہ و استغفار کے فائدے:۔
اس آیت میں توبہ و استغفار کی کمال فضیلت بیان ہوئی ہے توبہ و استغفار سے اصل مطلوب تو اپنے گناہوں کی بخشش ہے اگر خلوص نیت سے توبہ کی جائے تو اللہ تعالیٰ یقیناً گناہ معاف فرما دینے والا ہے۔ مزید فائدہ یہ ہے کہ جب تک توبہ و استغفار کرنے والا زندہ رہے گا اللہ اسے متاع حسن سے نوازے گا۔ متاع حسن سے مراد پاکیزہ اور حلال رزق، اس رزق میں برکت اور قلبی اطمینان اور سکھ چین کی زندگی ہے اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا کہ اللہ اس قوم پر عذاب نازل نہیں کرتا جس میں توبہ و استغفار کرنے والے لوگ موجود ہوں۔ [8: 33] نیز استغفار سے ایسے ہی مصائب اور بلائیں دور ہوتی ہیں جیسے صدقہ سے ہوتی ہیں جیسا کہ بہت سی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔
متاع حسن اور متاع غرور:۔
متاع حسن کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے متاع الغرور کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ یعنی کافروں کو جو متاع زیست دیا جاتا ہے خواہ وہ مومنوں کے سامان زیست سے زیادہ ہی ہو اور بسا اوقات ہوتا بھی ایسے ہی ہے تو وہ سامان زیست انھیں دھوکہ اور فریب میں مبتلا کیے رکھتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ بہترین زندگی گزر رہی ہے اور اللہ ان پر مہربان ہے حالانکہ حلال و حرام کی تمیز کے بغیر وہی کمایا ہوا مال و دولت بسا اوقات اس دنیا میں بھی ان کے لیے وبال جان بن جاتا ہے اور آخرت میں تو یقینی طور پر بن جائے گا۔
[4] یعنی اللہ تعالیٰ توبہ و استغفار کرنے اور نیک اعمال بجا لانے والوں کا بڑا قدر دان ہے کسی نے جتنے بھی نیک اعمال کیے ہوں گے اللہ تعالیٰ اسے اتنا ہی بلند درجہ عطا فرمائے گا واضح رہے کہ توبہ و استغفار کرتے رہنا بجائے خود بہت بڑا نیک عمل ہے۔
[5] ہولناک دن کے عذاب سے ڈرنا تو ان لوگوں کو چاہیے جو دعوت حق سے منہ پھیرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ میں تم پر واقع ہونے والے عذاب سے ڈرتا ہوں تو یہ آپ کی اس کمال شفقت اور ہمدردی کی وجہ سے ہے جو آپ کو تمام لوگوں سے تھی۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

اس آیت کی تفسیر اگلی آیات کیساتھ ملاحظہ کریں۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل