الٓرٰ ۟ کِتٰبٌ اُحۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتۡ مِنۡ لَّدُنۡ حَکِیۡمٍ خَبِیۡرٍ ۙ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
الر ۔ ایک کتاب ہے جس کی آیات محکم کی گئیں، پھر انھیں کھول کر بیان کیا گیا ایک کمال حکمت والے کی طرف سے جو پوری خبر رکھنے والا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
الٓرا۔ یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم وخبیر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
الرٰ، یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں، پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم باخبر کی طرف سے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
اس سورت میں توحید کی دعوت، انبیاء کی اس دعوت کے دوران میں عزیمت اور ان پر گزرنے والے حالات و واقعات، انھیں جھٹلانے والوں کا بدترین انجام اور ان پر آنے والے عذابوں کے تذکرے اور اہل ایمان کی نجات اور ان پر اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر ہے۔ چونکہ اس میں انذار (ڈرانے)کا پہلو غالب ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا بہت اثر ہوا، چنانچہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: [يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! قَدْ شِبْتَ، قَالَ شَيَّبَتْنِيْ هُوْدٌ وَالْوَاقِعَةُ وَالْمُرْسَلاَتُ وَ { عَمَّ يَتَسَآءَلُوْنَ۠} وَ { اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ }] [ترمذی، التفسیر، باب ومن سورۃ الواقعۃ: ۳۲۹۷۔ السلسلۃ الصحیحۃ: ۹۵۵] ”یا رسول اللہ! آپ بوڑھے ہو گئے۔“ فرمایا: ”مجھے ہود، واقعہ، مرسلات، عم یتساء لون اور تکویر نے بوڑھا کر دیا۔“
(آیت 1) ➊ {الٓرٰ:} دیکھیے سورۂ بقرہ کی پہلی آیت۔
➋ {كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ:} یہاں قرآن کریم کی چار صفات بیان ہوئی ہیں، پہلی یہ کہ یہ قرآن (پڑھا جانے والا مجموعہ) کتاب (لکھا ہوا مجموعہ) بھی ہے، دوسری یہ کہ اس کی آیات محکم یعنی خوب پختہ، مضبوط اور اٹل نازل کی گئی ہیں، جن میں کوئی عیب یا کمی نہیں اور نہ وہ (مجموعی اعتبار سے) منسوخ ہیں، نہ منسوخ ہوں گی اور نہ اس کے مقابلے میں کوئی کتاب لائی جا سکتی ہے، خواہ ساری مخلوق جمع ہو جائے، ایسی محکم آیات والی کتاب صرف یہ ہے۔
➌ { ثُمَّ فُصِّلَتْ:} تیسری یہ کہ اس کی آیات ایسی واضح ہیں اور کھول کر بیان کی گئی ہیں کہ کسی آیت کے مفہوم میں ابہام یا پیچیدگی نہیں ہے، پھر ساری کتاب مختلف سورتوں اور آیتوں میں تقسیم ہے۔ ہر آیت جدا جدا ہے، اپنی جگہ مستقل، ایک بے حد خوبصورت ہار کی طرح جو رنگا رنگ مضامین توحید، آخرت، نبوت، قصص کے موتیوں سے پرویا ہوا ہے اور وہ نہایت مناسب فاصلے، ترتیب اور حسن سے اپنی اپنی جگہ جگمگا رہے ہیں، پھر نزول میں بھی آیات اور سورتیں ضرورت کے مطابق الگ الگ نازل کی گئی ہیں۔ {” فُصِّلَتْ “} میں یہ سب باتیں آ جاتی ہیں۔
➍ { مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ:} چوتھی یہ کہ یہ کسی انسان، فرشتے، جن یا کسی بھی مخلوق کی تصنیف نہیں، بلکہ اس ذات پاک کا کلام ہے جو حکیم ہے۔ حکیم کا ایک معنی پختہ و محکم بنانے والا ہے، جس کی بنائی ہوئی ہر چیز نہایت محکم، پختہ اور مضبوط ہے، فرمایا: «{ صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِيْۤ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ }» [النمل: ۸۸] ”اس اللہ کی کاری گری سے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔“ یعنی پہاڑ اور ان کا قیامت کو بادلوں کی طرح چلنا اس اللہ کی کاری گری ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ جب اس کی مخلوق کا یہ حال ہے تو اس کے کلام کے محکم ہونے کی کوئی حد ہو گی؟ حکیم کا دوسرا معنی حکمت، یعنی دانائی والا ہے، یعنی اس کی تمام آیات کمال حکمت اور دانائی سے پُر ہیں، خبیر یعنی ان کو اتارنے والا ہر چیز سے پوری طرح باخبر ہے۔
(آیت 1) ➊ {الٓرٰ:} دیکھیے سورۂ بقرہ کی پہلی آیت۔
➋ {كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ:} یہاں قرآن کریم کی چار صفات بیان ہوئی ہیں، پہلی یہ کہ یہ قرآن (پڑھا جانے والا مجموعہ) کتاب (لکھا ہوا مجموعہ) بھی ہے، دوسری یہ کہ اس کی آیات محکم یعنی خوب پختہ، مضبوط اور اٹل نازل کی گئی ہیں، جن میں کوئی عیب یا کمی نہیں اور نہ وہ (مجموعی اعتبار سے) منسوخ ہیں، نہ منسوخ ہوں گی اور نہ اس کے مقابلے میں کوئی کتاب لائی جا سکتی ہے، خواہ ساری مخلوق جمع ہو جائے، ایسی محکم آیات والی کتاب صرف یہ ہے۔
➌ { ثُمَّ فُصِّلَتْ:} تیسری یہ کہ اس کی آیات ایسی واضح ہیں اور کھول کر بیان کی گئی ہیں کہ کسی آیت کے مفہوم میں ابہام یا پیچیدگی نہیں ہے، پھر ساری کتاب مختلف سورتوں اور آیتوں میں تقسیم ہے۔ ہر آیت جدا جدا ہے، اپنی جگہ مستقل، ایک بے حد خوبصورت ہار کی طرح جو رنگا رنگ مضامین توحید، آخرت، نبوت، قصص کے موتیوں سے پرویا ہوا ہے اور وہ نہایت مناسب فاصلے، ترتیب اور حسن سے اپنی اپنی جگہ جگمگا رہے ہیں، پھر نزول میں بھی آیات اور سورتیں ضرورت کے مطابق الگ الگ نازل کی گئی ہیں۔ {” فُصِّلَتْ “} میں یہ سب باتیں آ جاتی ہیں۔
➍ { مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ:} چوتھی یہ کہ یہ کسی انسان، فرشتے، جن یا کسی بھی مخلوق کی تصنیف نہیں، بلکہ اس ذات پاک کا کلام ہے جو حکیم ہے۔ حکیم کا ایک معنی پختہ و محکم بنانے والا ہے، جس کی بنائی ہوئی ہر چیز نہایت محکم، پختہ اور مضبوط ہے، فرمایا: «{ صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِيْۤ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ }» [النمل: ۸۸] ”اس اللہ کی کاری گری سے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔“ یعنی پہاڑ اور ان کا قیامت کو بادلوں کی طرح چلنا اس اللہ کی کاری گری ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ جب اس کی مخلوق کا یہ حال ہے تو اس کے کلام کے محکم ہونے کی کوئی حد ہو گی؟ حکیم کا دوسرا معنی حکمت، یعنی دانائی والا ہے، یعنی اس کی تمام آیات کمال حکمت اور دانائی سے پُر ہیں، خبیر یعنی ان کو اتارنے والا ہر چیز سے پوری طرح باخبر ہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
الر، یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں (1) پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں (2) ایک حکیم باخبر کی طرف سے (3)
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
1۔ ا۔ ل۔ ر یہ ایسی کتاب ہے جس کی آیات کو محکم [1] بنایا گیا ہے اور یہ حکیم و خبیر ہستی کی طرف سے تفصیلاً بیان کی گئی ہے
[1] محکم آیات کا مفہوم:۔
سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 7 میں بیان کیا گیا ہے کہ قرآن کریم کی بعض آیات محکم ہیں اور بعض دوسری متشابہ۔ لغوی لحاظ سے تو محکم ہر اس چیز کو کہا جا سکتا ہے جسے حکمت، دانائی اور تجربہ سے اس کو ساخت میں مضبوط بنا دیا گیا ہو جیسے ارشاد باری ہے۔ ﴿ثُمَّ يُحْكِمُ اللّٰهُ اٰيٰتِهٖ﴾ [52: 22] اور جب محکم کے مقابلے میں متشابہ کا لفظ آئے تو محکم کا معنی ایسی آیات ہیں جن میں کوئی لفظی یا معنوی اشتباہ نہ ہو بالفاظ دیگر اس کے معنی بالکل واضح ہوں جن کی کوئی اور تاویل نہ ہو سکتی ہو یعنی قرآن کی آیات محکم ہیں اور ان کی حکمت اور تفصیل بعض دوسرے مقامات پر دوسری آیات میں بیان کر دی گئی ہے مثلاً ﴿لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ﴾ ایک ایسی حقیقت ہے جو تمام آسمانی شریعتوں میں مذکور ہے اور قرآن کریم میں بیسیوں بلکہ سینکڑوں مقامات پر مختلف اوقات میں اس کی تفصیلات نازل ہوتی رہی ہیں لیکن وہ سب اس حقیقت کو مزید مستحکم و مضبوط بناتی چلی جاتی ہیں اور ان میں کہیں بھی اختلاف یا تضاد واقع نہیں ہوتا جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن کریم سارے کا سارا ہی کسی حکیم اور خبیر ہستی سے نازل شدہ ہے۔ بعض مفسرین آیات کو محکم بنانے سے مراد یہ لیتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیات ایسی ہیں جن میں عقل سلیم اگر غور و فکر کرے تو کوئی خرابی اور نقص معلوم نہیں ہوتا اور وہ ہر معیار پر پوری اترتی ہیں وہ ماضی کے حالات سے متعلق ہوں یا آئندہ کے متعلق پیشین گوئیاں ہوں اور وہ احکام سے متعلق ہوں جو تہذیب اخلاق سے لے کر سیاست ملکی تک نیز عالم آخرت میں سعادت عظمیٰ تک پھیلے ہوئے ہوں اور زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتے ہوں اور اثبات توحید کے دلائل ہوں اور ان میں سے جن احکام کی اس دنیا میں تجربہ کی کسوٹی پر جانچ کی جا سکتی ہے وہ سچ اور درست ہی ثابت ہوتے ہیں ایسے اخبار اور ایسے احکام بھی قرآن میں جا بجا کہیں اجمالاً اور کہیں تفصیلاً مذکور ہوئے ہیں اور ایسی تمام آیات میں کسی نقص، خرابی یا اختلاف کا نہ ہونا ہی اس بات پر دلیل ہے کہ یہ کسی حکیم و خبیر ہستی کی طرف سے نازل شدہ ہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
تعارف قرآن حکیم ٭٭
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جو حروف سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی پوری تفصیل اس تفسیر کے شروع میں سورۃ البقرہ کے ان حروف کے بیان میں گزر چکی ہے جسے دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہاں فرمان ہے کہ ’ یہ قرآن لفظوں میں محکم اور معنی میں مفصل ہے ‘۔
پس مضمون اور معنی ہر طرح سے کامل ہے۔ یہ اس للہ کا کلام ہے جو اپنے اقوال و احکام میں حکیم ہے۔ جو کاموں کے انجام سے خبردار ہے۔ یہ قرآن اللہ کی عبادت کرانے اور دوسروں کی عبادت سے روکنے کے لیے اترا ہے۔ سب رسولوں پر پہلی وحی توحید کی آتی رہی ہے، سب سے یہی فرمایا گیا ہے کہ لوگ اللہ کی عبادت کریں۔ اس کے سوا اور کسی کی پرستش نہ کریں۔
پھر فرمایا کہ ’ اللہ کی مخالفت کی وجہ سے جو عذاب آ جاتے ہیں ان سے میں ڈرا رہا ہوں اور اس کی اطاعت کی بنا پر جو ثواب ملتے ہیں، ان کی میں بشارت سناتا ہوں ‘۔
{ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ کر قریش کے خاندانوں کو آواز دیتے ہیں۔ زیادہ قریب والے پہلے، پھر ترتیب وار جب سب جمع ہو جاتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے دریافت فرماتے ہیں کہ { اگر میں تم سے کہوں کہ کوئی لشکر صبح کو تم پر دھاوا کرنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے؟ } انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے آج تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کوئی جھوٹ سنا ہی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { سنو میں تم سے کہتا ہوں کہ قیامت کے دن تمہاری ان بد اعمالیوں کی وجہ سے سخت تر عذاب ہو گا، پس تم ان سے ہوشیار ہو جاؤ }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4770]
پس مضمون اور معنی ہر طرح سے کامل ہے۔ یہ اس للہ کا کلام ہے جو اپنے اقوال و احکام میں حکیم ہے۔ جو کاموں کے انجام سے خبردار ہے۔ یہ قرآن اللہ کی عبادت کرانے اور دوسروں کی عبادت سے روکنے کے لیے اترا ہے۔ سب رسولوں پر پہلی وحی توحید کی آتی رہی ہے، سب سے یہی فرمایا گیا ہے کہ لوگ اللہ کی عبادت کریں۔ اس کے سوا اور کسی کی پرستش نہ کریں۔
پھر فرمایا کہ ’ اللہ کی مخالفت کی وجہ سے جو عذاب آ جاتے ہیں ان سے میں ڈرا رہا ہوں اور اس کی اطاعت کی بنا پر جو ثواب ملتے ہیں، ان کی میں بشارت سناتا ہوں ‘۔
{ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ کر قریش کے خاندانوں کو آواز دیتے ہیں۔ زیادہ قریب والے پہلے، پھر ترتیب وار جب سب جمع ہو جاتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے دریافت فرماتے ہیں کہ { اگر میں تم سے کہوں کہ کوئی لشکر صبح کو تم پر دھاوا کرنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے؟ } انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے آج تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کوئی جھوٹ سنا ہی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { سنو میں تم سے کہتا ہوں کہ قیامت کے دن تمہاری ان بد اعمالیوں کی وجہ سے سخت تر عذاب ہو گا، پس تم ان سے ہوشیار ہو جاؤ }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4770]
پھر ارشاد ہے کہ ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی کہہ دو کہ میں تمہیں اپنے گزشتہ گناہوں سے توبہ کرنے اور آئندہ کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت کرتا ہوں اگر تم بھی ایسا ہی کرتے رہے تو دنیا میں بھی اچھی زندگی بسر کرو گے اور نیک عمل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ آخرت میں بھی بڑے بلند درجے عنایت فرمائے گا ‘۔
قرآن کریم نے «مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً وَلَـنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ» ۱؎ [16-النحل:97] میں فرمایا ہے کہ ’ جو مرد و عورت ایماندار ہو کر نیک عمل بھی کرتا رہے، اسے ہم پاکیزہ زندگی سے زندہ رکھیں گے ‘۔
صحیح حدیث میں بھی ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ { اللہ کی رضا مندی کی تلاش میں تو جو کچھ بھی خرچ کرے گا اس کا اجر اللہ تعالیٰ سے پائے گا، یہاں تک کہ جو لقمہ تو اپنی بیوی کے منہ میں دے اس کا بھی۔ فضل والوں کو اللہ تعالیٰ فضل دے گا } }۔ [صحیح بخاری:2742]
یعنی گناہ تو برابر لکھا جاتا ہے اور نیکی دس گناہ لکھی جاتی ہے پھر اگر گناہ کی سزا دنیا میں ہی ہوگئی تو نیکیاں جوں کی توں باقی رہیں۔ اور اگر یہاں اس کی سزا نہ ملی تو زیادہ سے زیادہ ایک نیکی اس کے مقابل جا کر بھی نو نیکیاں بچ رہیں۔ پھر جس کی اکائیاں دھائیوں پر غالب آ جائیں وہ تو واقعی خود ہی بد اور برا ہے۔
پھر انہیں دھمکایا جاتا ہے جو اللہ کے احکام کی روگردانی کر لیں اور رسولوں کی نہ مانیں کہ ایسے لوگوں کو ضرور ضرور قیامت کے دن سخت عذاب ہوگا۔ تم سب کو لوٹ کر مالک ہی کے پاس جانا ہے، اسی کے سامنے جمع ہونا ہے۔ وہ ہرچیز پر قادر ہے، اپنے دوستوں سے احسان اپنے دشمنوں سے انتقام، مخلوق کی نئی پیدائش، سب اس کے قبضے میں ہے۔ پس پہلے رغبت دلائی اور اب ڈرایا۔
قرآن کریم نے «مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً وَلَـنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ» ۱؎ [16-النحل:97] میں فرمایا ہے کہ ’ جو مرد و عورت ایماندار ہو کر نیک عمل بھی کرتا رہے، اسے ہم پاکیزہ زندگی سے زندہ رکھیں گے ‘۔
صحیح حدیث میں بھی ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ { اللہ کی رضا مندی کی تلاش میں تو جو کچھ بھی خرچ کرے گا اس کا اجر اللہ تعالیٰ سے پائے گا، یہاں تک کہ جو لقمہ تو اپنی بیوی کے منہ میں دے اس کا بھی۔ فضل والوں کو اللہ تعالیٰ فضل دے گا } }۔ [صحیح بخاری:2742]
یعنی گناہ تو برابر لکھا جاتا ہے اور نیکی دس گناہ لکھی جاتی ہے پھر اگر گناہ کی سزا دنیا میں ہی ہوگئی تو نیکیاں جوں کی توں باقی رہیں۔ اور اگر یہاں اس کی سزا نہ ملی تو زیادہ سے زیادہ ایک نیکی اس کے مقابل جا کر بھی نو نیکیاں بچ رہیں۔ پھر جس کی اکائیاں دھائیوں پر غالب آ جائیں وہ تو واقعی خود ہی بد اور برا ہے۔
پھر انہیں دھمکایا جاتا ہے جو اللہ کے احکام کی روگردانی کر لیں اور رسولوں کی نہ مانیں کہ ایسے لوگوں کو ضرور ضرور قیامت کے دن سخت عذاب ہوگا۔ تم سب کو لوٹ کر مالک ہی کے پاس جانا ہے، اسی کے سامنے جمع ہونا ہے۔ وہ ہرچیز پر قادر ہے، اپنے دوستوں سے احسان اپنے دشمنوں سے انتقام، مخلوق کی نئی پیدائش، سب اس کے قبضے میں ہے۔ پس پہلے رغبت دلائی اور اب ڈرایا۔