قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الۡکٰفِرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
کہہ دے اے کافرو!
ترجمہ فتح محمد جالندھری
(اے پیغمبر ان منکران اسلام سے) کہہ دو کہ اے کافرو!
ترجمہ محمد جوناگڑھی
آپ کہہ دیجئے کہ اے کافرو!
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 1تا6) ➊ {قُلْ يٰۤاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ …:} طبرانی اور تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے جو روایتیں آئی ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ ولید بن مغیرہ اور چند دیگر مشرکوں نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ تم ہمارے معبودوں کو برا کہنا چھوڑ دو، اس طرح ہم اور تم مل جل کر مکہ میں رہیں، اگر تم ایسا نہیں کرتے تو ایک سال تم ہمارے بتوں کی پوجا کر لیا کرو، دوسرے سال ہم تمھارے الٰہ کی بندگی کر لیا کریں گے، تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔ اگرچہ اس شان نزول کی روایت کی سند میں ایک شخص ابو خلف عبداللہ ضعیف ہے، لیکن آیت: «قُلْ اَفَغَيْرَ اللّٰهِ تَاْمُرُوْٓنِّيْۤ اَعْبُدُ اَيُّهَا الْجٰهِلُوْنَ» [الزمر: ۶۴] (کہہ دے! پھر کیا اللہ کے غیر کے بارے میں تم مجھے حکم دیتے ہو کہ میں اس کی عبادت کروں اے جاہلو!) کے مضمون سے اس شان نزول کی تائید ہوتی ہے، کیونکہ قریش کی جس فرمائش کا ذکر اس شان نزول کی روایت میں ہے، آیت کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کی فرمائش ضرور کی تھی۔ (احسن التفاسیر)
➋ صحیح مسلم میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کی دو رکعتوں میں سورۂ اخلاص اور سورۂ کافرون پڑھی۔ [مسلم، الحج، باب حجۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم : ۱۲۱۸] صحیح مسلم ہی میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں سورتیں یعنی سورۂ کافرون اور سورۂ اخلاص فجر کی دو رکعتوں (سنتوں) میں پڑھیں۔ [مسلم، صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب استحباب رکعتي سنۃ الفجر…: ۷۲۶] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین وتر پڑھتے تو اس کی دوسری رکعت میں سورۂ کافرون پڑھا کرتے تھے۔ [دیکھیے ترمذي، الوتر، باب ما جاء في ما یقرأ بہ في الوتر: ۴۶۲، صححہ الألباني]
➌ سورت کا مضمون یہ ہے کہ ساری دنیا کے کافروں کو سنا دو کہ مسلمان غیر اللہ کی عبادت کسی صورت نہیں کر سکتے، اس مسئلے پر سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں۔
➍ تکرار کی حکمت: (1) بہت سے اہلِ علم نے فرمایا کہ آیات میں تکرار تاکید کے لیے ہے کہ مسلمان کسی صورت بھی توحید کے متعلق کفار سے سمجھوتہ نہیں کر سکتے اور یہ کلام عرب اور قرآن مجید کا عام اسلوب ہے، جیسے فرمایا: «كَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ (4) ثُمَّ كَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ» [النبا: ۴، ۵] ”ہرگز نہیں، عنقریب وہ جان لیں گے۔ پھر ہرگز نہیں، عنقریب وہ جان لیں گے۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنھا کی موجودگی میں علی رضی اللہ عنہ کو دوسرے نکاح کی اجازت کے متعلق فرمایا: [فَلاَ آذَنُ، ثُمَّ لاَ آذَنُ، ثُمَّ لاَ آذَنُ] [بخاري، النکاح، باب ذبّ الرجل عن ابنتہ في…: ۵۲۳۰] ”میں اس کی اجازت نہیں دیتا، پھر اس کی اجازت نہیں دیتا، پھر میں اس کی اجازت نہیں دیتا۔“ اسی طرح سورۂ رحمان اور مرسلات میں آیات کا بار بار تکرار ہے۔ یہاں تکرار کا مقصد یہ ہے کہ یہ کبھی ممکن ہی نہیں کہ میں توحید کا راستہ چھوڑ کر شرک کا راستہ اختیار کر لوں اور نہ یہ ممکن ہے کہ تم کافر رہتے ہوئے غیر اللہ کی عبادت کو یکسر ترک کرکے ایک اللہ کی عبادت پر قانع ہو جاؤ۔ شوکانی نے تکرار تاکید کے لیے ہونے کے علاوہ دوسری توجیہات کو تکلف قرار دیا ہے۔
(2) بخاری رحمہ اللہ نے (ابو عبیدہ سے) یہ تفسیر نقل فرمائی ہے کہ آیت: «لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ» کا مطلب ہے کہ میں اب موجودہ وقت میں اس کی عبادت نہیں کرتا جس کی تم کرتے ہو اور آیت: «وَ لَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ» کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ بھی جب تک میں زندہ ہوں کبھی اس کی عبادت نہیں کروں گا جس کی تم نے عبادت کی ہے۔ اسی طرح کفار کے متعلق فرمایا کہ نہ اب زمانۂ حال میں تم اس (اکیلے اللہ) کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں اور نہ آئندہ زمانۂ استقبال میں۔ اس پر ایک سوال ہے کہ کافروں کے متعلق کیسے فرمایا کہ وہ آئندہ ایک اللہ کی عبادت نہیں کریں گے، ہو سکتا ہے آئندہ وہ مسلمان ہو جائیں اور فی الواقع بے شمار کافر مسلمان ہوئے بھی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کافر رہتے ہوئے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کریں، مسلمان ہو جائیں تو الگ بات ہے۔ دوسرا جواب بخاری رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں کہ آیات سن کر ان کے کفر میں اضافہ ہی ہوتا ہے، ایمان ان کی قسمت میں نہیں، جیساکہ فرمایا: «وَ لَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ مَّاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَّ كُفْرًا» [المائدۃ: ۶۸] ”اور یقینا جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے وہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو سرکشی اور کفر میں ضرور بڑھا دے گا۔“ بخاری رحمہ اللہ کے الفاظ یہ ہیں: {”وَقَالَ غَيْرُهُ: «لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ» اَلْآنَ وَلَا أُجِيْبُكُمْ فِيْمَا بَقِيَ مِنْ عُمُرِيْ «وَ لَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُ» وَهُمُ الَّذِيْنَ قَالَ: «وَ لَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ مَّاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَّ كُفْرًا» [المائدة: ۶۷] “} [بخاري، التفسیر، سورۃ: «قل یأیھا الکافرون» ، قبل ح: ۴۹۶۷] مطلب وہی ہے جو اوپر بیان ہوا۔
(3) حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس معنی کو ترجیح دی ہے کہ پہلی دو آیات میں {” مَا “} موصولہ ہے اور دوسری دو میں مصدریہ۔ معنی یہ ہوگا کہ میں اس چیز کی عبادت نہیں کرتا جس کی تم کرتے ہو (یعنی معبودانِ باطلہ کی) اور تم اس کی عبادت نہیں کرتے جس کی میں کرتا ہوں (یعنی ایک اللہ کی) اور نہ میں وہ عبادت کرنے والا ہوں جو تم کرتے ہو (یعنی جس طرح تم تالیاں اور سیٹیاں بجا کر ذکر کرتے ہو اور کپڑے اتار کر ننگے ہو کر طواف کرتے ہو، میں اس طرح عبادت نہیں کرتا) اور نہ تم وہ عبادت کرنے والے ہو جو میں کرتا ہوں، یعنی صرف اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر عبادت کرو، تم ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں۔
(4) حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا {” لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ “} جملہ فعلیہ ہے، اس کا معنی ہے کہ نہ میں اس کی عبادت کرتا ہوں جس کی تم کرتے ہو اور {” وَ لَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ “} جملہ اسمیہ ہے، جس میں نفی کی تاکید زیادہ ہے، یعنی میری شان ہی نہیں اور نہ کسی وقت مجھ سے ممکن ہے کہ (رسول ہوتے ہوئے) شرک کا ارتکاب کروں۔ یعنی نہ مجھ سے یہ فعل واقع ہوا ہے اور نہ مجھ سے اس کا شرعی امکان ہے۔ {” مَا عَبَدْتُّمْ “} ماضی شاید اس لیے فرمایا کہ میری نبوت سے پہلے بھی تم نے جو شرک کیا اس وقت بھی وہ میرے لائق نہیں تھا، نہ میں نے اس وقت یا بعد میں کسی غیر کی پرستش کی۔ کفار کا حال دونوں جگہ جملہ اسمیہ {” وَ لَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُ “} سے بیان فرمایا، یعنی تم میں استعداد ہی نہیں اور نہ تم سے ممکن ہے کہ تم بلاشریک غیرے اللہ واحد کی پرستش کرو۔
➎ {لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَ لِيَ دِيْنِ:} اس کے متعلق بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ آیت آیاتِ جہاد سے منسوخ ہے، مگر یہ درست نہیں۔ اب بھی کسی کافر کو زبردستی مسلمان بنانا جائز نہیں، جیسا کہ فرمایا: «لَاۤ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ» [البقرۃ: ۲۵۶] ”دین میں زبردستی نہیں۔“ اگر وہ کفر پر قائم رہنا چاہتے ہیں تو جزیہ ادا کرکے کفر پر رہ سکتے ہیں، ہاں فیصلہ قیامت کے دن ہو گا۔ اس آیت سے ان لوگوں کے نظریے کی تردید ہوتی ہے جو اسلام، موجودہ نصرانیت، یہودیت، ہندو ازم اور تمام مذاہب کو ایک ہی حقیقت کے مختلف مظاہر قرار دے کر سب کو درست قرار دیتے ہیں۔
➏ {” وَ لِيَ دِيْنِ “} اصل {” وَلِيَ دِيْنِيْ “} ہے، چونکہ دوسری آیات نون پر ختم ہو رہی ہیں اس لیے آخر سے ”یاء“ حذف کردی، مگر اس پر کسرہ باقی رکھا ہے۔
➋ صحیح مسلم میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کی دو رکعتوں میں سورۂ اخلاص اور سورۂ کافرون پڑھی۔ [مسلم، الحج، باب حجۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم : ۱۲۱۸] صحیح مسلم ہی میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں سورتیں یعنی سورۂ کافرون اور سورۂ اخلاص فجر کی دو رکعتوں (سنتوں) میں پڑھیں۔ [مسلم، صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب استحباب رکعتي سنۃ الفجر…: ۷۲۶] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین وتر پڑھتے تو اس کی دوسری رکعت میں سورۂ کافرون پڑھا کرتے تھے۔ [دیکھیے ترمذي، الوتر، باب ما جاء في ما یقرأ بہ في الوتر: ۴۶۲، صححہ الألباني]
➌ سورت کا مضمون یہ ہے کہ ساری دنیا کے کافروں کو سنا دو کہ مسلمان غیر اللہ کی عبادت کسی صورت نہیں کر سکتے، اس مسئلے پر سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں۔
➍ تکرار کی حکمت: (1) بہت سے اہلِ علم نے فرمایا کہ آیات میں تکرار تاکید کے لیے ہے کہ مسلمان کسی صورت بھی توحید کے متعلق کفار سے سمجھوتہ نہیں کر سکتے اور یہ کلام عرب اور قرآن مجید کا عام اسلوب ہے، جیسے فرمایا: «كَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ (4) ثُمَّ كَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ» [النبا: ۴، ۵] ”ہرگز نہیں، عنقریب وہ جان لیں گے۔ پھر ہرگز نہیں، عنقریب وہ جان لیں گے۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنھا کی موجودگی میں علی رضی اللہ عنہ کو دوسرے نکاح کی اجازت کے متعلق فرمایا: [فَلاَ آذَنُ، ثُمَّ لاَ آذَنُ، ثُمَّ لاَ آذَنُ] [بخاري، النکاح، باب ذبّ الرجل عن ابنتہ في…: ۵۲۳۰] ”میں اس کی اجازت نہیں دیتا، پھر اس کی اجازت نہیں دیتا، پھر میں اس کی اجازت نہیں دیتا۔“ اسی طرح سورۂ رحمان اور مرسلات میں آیات کا بار بار تکرار ہے۔ یہاں تکرار کا مقصد یہ ہے کہ یہ کبھی ممکن ہی نہیں کہ میں توحید کا راستہ چھوڑ کر شرک کا راستہ اختیار کر لوں اور نہ یہ ممکن ہے کہ تم کافر رہتے ہوئے غیر اللہ کی عبادت کو یکسر ترک کرکے ایک اللہ کی عبادت پر قانع ہو جاؤ۔ شوکانی نے تکرار تاکید کے لیے ہونے کے علاوہ دوسری توجیہات کو تکلف قرار دیا ہے۔
(2) بخاری رحمہ اللہ نے (ابو عبیدہ سے) یہ تفسیر نقل فرمائی ہے کہ آیت: «لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ» کا مطلب ہے کہ میں اب موجودہ وقت میں اس کی عبادت نہیں کرتا جس کی تم کرتے ہو اور آیت: «وَ لَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ» کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ بھی جب تک میں زندہ ہوں کبھی اس کی عبادت نہیں کروں گا جس کی تم نے عبادت کی ہے۔ اسی طرح کفار کے متعلق فرمایا کہ نہ اب زمانۂ حال میں تم اس (اکیلے اللہ) کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں اور نہ آئندہ زمانۂ استقبال میں۔ اس پر ایک سوال ہے کہ کافروں کے متعلق کیسے فرمایا کہ وہ آئندہ ایک اللہ کی عبادت نہیں کریں گے، ہو سکتا ہے آئندہ وہ مسلمان ہو جائیں اور فی الواقع بے شمار کافر مسلمان ہوئے بھی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کافر رہتے ہوئے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کریں، مسلمان ہو جائیں تو الگ بات ہے۔ دوسرا جواب بخاری رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں کہ آیات سن کر ان کے کفر میں اضافہ ہی ہوتا ہے، ایمان ان کی قسمت میں نہیں، جیساکہ فرمایا: «وَ لَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ مَّاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَّ كُفْرًا» [المائدۃ: ۶۸] ”اور یقینا جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے وہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو سرکشی اور کفر میں ضرور بڑھا دے گا۔“ بخاری رحمہ اللہ کے الفاظ یہ ہیں: {”وَقَالَ غَيْرُهُ: «لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ» اَلْآنَ وَلَا أُجِيْبُكُمْ فِيْمَا بَقِيَ مِنْ عُمُرِيْ «وَ لَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُ» وَهُمُ الَّذِيْنَ قَالَ: «وَ لَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ مَّاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَّ كُفْرًا» [المائدة: ۶۷] “} [بخاري، التفسیر، سورۃ: «قل یأیھا الکافرون» ، قبل ح: ۴۹۶۷] مطلب وہی ہے جو اوپر بیان ہوا۔
(3) حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس معنی کو ترجیح دی ہے کہ پہلی دو آیات میں {” مَا “} موصولہ ہے اور دوسری دو میں مصدریہ۔ معنی یہ ہوگا کہ میں اس چیز کی عبادت نہیں کرتا جس کی تم کرتے ہو (یعنی معبودانِ باطلہ کی) اور تم اس کی عبادت نہیں کرتے جس کی میں کرتا ہوں (یعنی ایک اللہ کی) اور نہ میں وہ عبادت کرنے والا ہوں جو تم کرتے ہو (یعنی جس طرح تم تالیاں اور سیٹیاں بجا کر ذکر کرتے ہو اور کپڑے اتار کر ننگے ہو کر طواف کرتے ہو، میں اس طرح عبادت نہیں کرتا) اور نہ تم وہ عبادت کرنے والے ہو جو میں کرتا ہوں، یعنی صرف اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر عبادت کرو، تم ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں۔
(4) حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا {” لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ “} جملہ فعلیہ ہے، اس کا معنی ہے کہ نہ میں اس کی عبادت کرتا ہوں جس کی تم کرتے ہو اور {” وَ لَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ “} جملہ اسمیہ ہے، جس میں نفی کی تاکید زیادہ ہے، یعنی میری شان ہی نہیں اور نہ کسی وقت مجھ سے ممکن ہے کہ (رسول ہوتے ہوئے) شرک کا ارتکاب کروں۔ یعنی نہ مجھ سے یہ فعل واقع ہوا ہے اور نہ مجھ سے اس کا شرعی امکان ہے۔ {” مَا عَبَدْتُّمْ “} ماضی شاید اس لیے فرمایا کہ میری نبوت سے پہلے بھی تم نے جو شرک کیا اس وقت بھی وہ میرے لائق نہیں تھا، نہ میں نے اس وقت یا بعد میں کسی غیر کی پرستش کی۔ کفار کا حال دونوں جگہ جملہ اسمیہ {” وَ لَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُ “} سے بیان فرمایا، یعنی تم میں استعداد ہی نہیں اور نہ تم سے ممکن ہے کہ تم بلاشریک غیرے اللہ واحد کی پرستش کرو۔
➎ {لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَ لِيَ دِيْنِ:} اس کے متعلق بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ آیت آیاتِ جہاد سے منسوخ ہے، مگر یہ درست نہیں۔ اب بھی کسی کافر کو زبردستی مسلمان بنانا جائز نہیں، جیسا کہ فرمایا: «لَاۤ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ» [البقرۃ: ۲۵۶] ”دین میں زبردستی نہیں۔“ اگر وہ کفر پر قائم رہنا چاہتے ہیں تو جزیہ ادا کرکے کفر پر رہ سکتے ہیں، ہاں فیصلہ قیامت کے دن ہو گا۔ اس آیت سے ان لوگوں کے نظریے کی تردید ہوتی ہے جو اسلام، موجودہ نصرانیت، یہودیت، ہندو ازم اور تمام مذاہب کو ایک ہی حقیقت کے مختلف مظاہر قرار دے کر سب کو درست قرار دیتے ہیں۔
➏ {” وَ لِيَ دِيْنِ “} اصل {” وَلِيَ دِيْنِيْ “} ہے، چونکہ دوسری آیات نون پر ختم ہو رہی ہیں اس لیے آخر سے ”یاء“ حذف کردی، مگر اس پر کسرہ باقی رکھا ہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
آپ کہہ دیجئے کہ اے کافرو (1)
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
مشرک سے براۃ اور بیزاری ٭٭
اس سورۃ مبارکہ میں مشرکین کے عمل سے بیزاری کا اعلان ہے اور اللہ کی عبادت کے اخلاص کا حکم ہے گو یہاں خطاب مکہ کے کفار قریش سے ہے لیکن دراصل روئے زمین کے تمام کافر مراد ہیں اس کی شان نزول یہ ہے کہ ان کافروں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں تو اگلے سال ہم بھی اللہ کی عبادت کریں گے اس پر یہ سورت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ان کے دین سے اپنی پوری بیزاری کا اعلان فرما دیں کہ میں تمہارے ان بتوں کو اور جن جن کو تم اللہ کا شریک مان رہے ہو ہرگز نہ پوجوں گا گو تم بھی میرے معبود برحق اللہ «وحدہ لا شریک لہ» کو نہ پوجو۔
پس «مَا» یہاں پر معنی میں «من» کے ہے پھر دوبارہ یہی فرمایا کہ میں تم جیسی عبادت نہ کروں گا تمہارے مذہب پر میں کاربند نہیں ہو سکتا نہ میں تمہارے پیچھے لگ سکتا ہوں بلکہ میں تو صرف اپنے رب کی عبادت کروں گا اور وہ بھی اس طریقے پر جو اسے پسند ہو اور جیسے وہ چاہے اسی لیے فرمایا کہ نہ تم میرے رب کے احکام کے آگے سر جھکاؤ گے نہ اس کی عبادت اس کے فرمان کے مطابق بجا لاؤ گے بلکہ تم نے تو اپنی طرف سے طریقے مقرر کر لیے ہیں۔
جیسے اور جگہ ہے «إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنْفُسُ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدَىٰ» ۱؎ [53-النجم:23] الخ یعنی ’یہ لوگ صرف وہم و گمان اور خواہش نفسانی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت پہنچ چکی ہے‘۔
پس نبی اللہ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طرح اپنا دامن ان سے چھڑا لیا اور صاف طور پر ان کے معبودوں سے اور ان کی عبادت کے طریقوں سے علیحدگی اور ناپسندیدگی کا اعلان فرما دیا ظاہر ہے کہ ہر عابد کا معبود ہو گا اور طریقہ عبادت ہو گا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت صرف اللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور طریقہ عبادت ان کا وہ ہے جو سرور رسل صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمایا ہے۔
پس «مَا» یہاں پر معنی میں «من» کے ہے پھر دوبارہ یہی فرمایا کہ میں تم جیسی عبادت نہ کروں گا تمہارے مذہب پر میں کاربند نہیں ہو سکتا نہ میں تمہارے پیچھے لگ سکتا ہوں بلکہ میں تو صرف اپنے رب کی عبادت کروں گا اور وہ بھی اس طریقے پر جو اسے پسند ہو اور جیسے وہ چاہے اسی لیے فرمایا کہ نہ تم میرے رب کے احکام کے آگے سر جھکاؤ گے نہ اس کی عبادت اس کے فرمان کے مطابق بجا لاؤ گے بلکہ تم نے تو اپنی طرف سے طریقے مقرر کر لیے ہیں۔
جیسے اور جگہ ہے «إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنْفُسُ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدَىٰ» ۱؎ [53-النجم:23] الخ یعنی ’یہ لوگ صرف وہم و گمان اور خواہش نفسانی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت پہنچ چکی ہے‘۔
پس نبی اللہ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طرح اپنا دامن ان سے چھڑا لیا اور صاف طور پر ان کے معبودوں سے اور ان کی عبادت کے طریقوں سے علیحدگی اور ناپسندیدگی کا اعلان فرما دیا ظاہر ہے کہ ہر عابد کا معبود ہو گا اور طریقہ عبادت ہو گا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت صرف اللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور طریقہ عبادت ان کا وہ ہے جو سرور رسل صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمایا ہے۔
اسی لیے کلمہ اخلاص «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ» ہے یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا راستہ وہی ہے جس کے بتانے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو اللہ کے پیغمبر ہیں اور مشرکین کے معبود بھی اللہ کے سوا غیر ہیں اور طریقہ عبادت بھی اللہ کا بتلایا ہوا نہیں اسی لیے فرمایا کہ تمہارا دین تمہارے لیے، میرا میرے لیے۔
جیسے اور جگہ ہے «وَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ لِي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ أَنْتُمْ بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ» ۱؎ [10-یونس:41] یعنی ’اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہہ دے کہ میرے لیے میرا عمل اور تمہارے لیے تمہارا عمل ہے، تم میرے اعمال سے الگ ہو اور میں تمہارے کاموں سے بیزار ہوں‘۔
اور جگہ فرمایا: «لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ» ۱؎ [28-القصص:55] الخ یعنی ’ہمارے عمل ہمارے ساتھ اور تمہارے تمہارے ساتھ‘۔
صحیح بخاری میں اس آیت کی تفسیر میں ہے تمہارے لیے تمہارا دین ہے یعنی کفر اور میرے لیے میرا دین ہے یعنی اسلام یہ لفظ اصل میں «دِينِي» تھا لیکن چونکہ اور آیتوں کا وقف «نون» پر ہے اس لیے اس میں بھی «يَاءُ» کو حذف کر دیا جیسے «فَهُوَ يَهْدِينِ» ۱؎ [26-الشعراء:78] میں اور «يَشْفِينِ» ۱؎ [26-الشعراء:80] میں بعض مفسرین نے کہا ہے مطلب یہ ہے کہ میں اب تو تمہارے معبودوں کی پرستش کرتا نہیں اور آگے کے لیے بھی تمہیں ناامید کر دیتا ہوں کہ عمر بھر میں کبھی بھی یہ کفر مجھ سے نہ ہو سکے گا اسی طرح نہ تم اب میرے اللہ کو پوجتے ہو نہ آئندہ اس کی عبادت کرو گے اس سے مراد وہ کفار ہیں جن کا ایمان نہ لانا اللہ کو معلوم تھا جیسے قرآن میں اور جگہ ہے «وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا» [5-المائدة:64] ۱؎ الخ یعنی ’تیری طرف جو اترتا ہے اس سے ان میں سے اکثر تو سرکشی اور کفر میں بڑھ جاتے ہیں‘۔
ابن جریر رحمہ اللہ نے بعض عربی دان حضرات سے نقل کیا ہے کہ دو مرتبہ اس جملے کا لانا صرف تاکید کے لیے ہے جیسے «فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا» * «إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا» ۱؎ [94-الشرح:5-6] میں اور جیسے «لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ» * «ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ» ۱؎ [102-التكاثر:6-7] پس ان دونوں جملوں کو دو مرتبہ لانے کی حکمت میں یہ تین قول ہوئے ایک تو یہ کہ پہلے جملے سے مراد معبود دوسرے سے مراد طریق عبادت دوسرے یہ کہ پہلے جملے سے مراد حال دوسرے سے مراد استقبال یعنی آئندہ تیسرے یہ کہ پہلے جملے کی تاکید دوسرے جملے سے ہے۔
لیکن یہ یاد رہے کہ یہاں ایک چوتھی توجیہ بھی ہے جسے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی بعض تصنیفات میں قوت دیتے ہیں وہ یہ کہ پہلے تو جملہ فعلیہ ہے اور دوبارہ جملہ اسمیہ ہے تو مراد یہ ہوئی کہ نہ تو میں غیر اللہ کی عبادت کرتا ہوں نہ مجھ سے کبھی بھی کوئی امید رکھ سکتا ہے یعنی واقعہ کی بھی نفی ہے اور شرعی طور پر ممکن ہونے کا بھی انکار ہے یہ قول بھی بہت اچھا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
جیسے اور جگہ ہے «وَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ لِي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ أَنْتُمْ بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ» ۱؎ [10-یونس:41] یعنی ’اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہہ دے کہ میرے لیے میرا عمل اور تمہارے لیے تمہارا عمل ہے، تم میرے اعمال سے الگ ہو اور میں تمہارے کاموں سے بیزار ہوں‘۔
اور جگہ فرمایا: «لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ» ۱؎ [28-القصص:55] الخ یعنی ’ہمارے عمل ہمارے ساتھ اور تمہارے تمہارے ساتھ‘۔
صحیح بخاری میں اس آیت کی تفسیر میں ہے تمہارے لیے تمہارا دین ہے یعنی کفر اور میرے لیے میرا دین ہے یعنی اسلام یہ لفظ اصل میں «دِينِي» تھا لیکن چونکہ اور آیتوں کا وقف «نون» پر ہے اس لیے اس میں بھی «يَاءُ» کو حذف کر دیا جیسے «فَهُوَ يَهْدِينِ» ۱؎ [26-الشعراء:78] میں اور «يَشْفِينِ» ۱؎ [26-الشعراء:80] میں بعض مفسرین نے کہا ہے مطلب یہ ہے کہ میں اب تو تمہارے معبودوں کی پرستش کرتا نہیں اور آگے کے لیے بھی تمہیں ناامید کر دیتا ہوں کہ عمر بھر میں کبھی بھی یہ کفر مجھ سے نہ ہو سکے گا اسی طرح نہ تم اب میرے اللہ کو پوجتے ہو نہ آئندہ اس کی عبادت کرو گے اس سے مراد وہ کفار ہیں جن کا ایمان نہ لانا اللہ کو معلوم تھا جیسے قرآن میں اور جگہ ہے «وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا» [5-المائدة:64] ۱؎ الخ یعنی ’تیری طرف جو اترتا ہے اس سے ان میں سے اکثر تو سرکشی اور کفر میں بڑھ جاتے ہیں‘۔
ابن جریر رحمہ اللہ نے بعض عربی دان حضرات سے نقل کیا ہے کہ دو مرتبہ اس جملے کا لانا صرف تاکید کے لیے ہے جیسے «فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا» * «إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا» ۱؎ [94-الشرح:5-6] میں اور جیسے «لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ» * «ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ» ۱؎ [102-التكاثر:6-7] پس ان دونوں جملوں کو دو مرتبہ لانے کی حکمت میں یہ تین قول ہوئے ایک تو یہ کہ پہلے جملے سے مراد معبود دوسرے سے مراد طریق عبادت دوسرے یہ کہ پہلے جملے سے مراد حال دوسرے سے مراد استقبال یعنی آئندہ تیسرے یہ کہ پہلے جملے کی تاکید دوسرے جملے سے ہے۔
لیکن یہ یاد رہے کہ یہاں ایک چوتھی توجیہ بھی ہے جسے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی بعض تصنیفات میں قوت دیتے ہیں وہ یہ کہ پہلے تو جملہ فعلیہ ہے اور دوبارہ جملہ اسمیہ ہے تو مراد یہ ہوئی کہ نہ تو میں غیر اللہ کی عبادت کرتا ہوں نہ مجھ سے کبھی بھی کوئی امید رکھ سکتا ہے یعنی واقعہ کی بھی نفی ہے اور شرعی طور پر ممکن ہونے کا بھی انکار ہے یہ قول بھی بہت اچھا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
امام ابوعبداللہ شافعی رحمہ اللہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ کفر ایک ہی ملت ہے اس لیے یہود نصرانی کا اور نصرانی یہود کا وارث ہو سکتا ہے جبکہ ان دونوں میں نسب یا سبب ورثے کا پایا جائے اس لیے کہ اسلام کے سوا کفر کی جتنی راہیں ہیں وہ سب باطل ہونے میں ایک ہی ہیں ۱؎ [سنن ابوداود:2911،قال الشيخ الألباني:حسن صحيح]
امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے موافقین کا مذہب اس کے برخلاف ہے کہ نہ یہودی نصرانی کا وارث ہو سکتا ہے نہ نصرانی یہود کا کیونکہ حدیث ہے دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے
سورۃ الکافرون کی تفسیر ختم ہوئی۔ «فالحمداللہ احسانہ»
امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے موافقین کا مذہب اس کے برخلاف ہے کہ نہ یہودی نصرانی کا وارث ہو سکتا ہے نہ نصرانی یہود کا کیونکہ حدیث ہے دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے
سورۃ الکافرون کی تفسیر ختم ہوئی۔ «فالحمداللہ احسانہ»