ترجمہ و تفسیر — سورۃ الهمزة (104) — آیت 1
وَیۡلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِۣ ۙ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
بڑی ہلاکت ہے ہر بہت طعنہ دینے والے، بہت عیب لگانے والے کے لیے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغل خور کی خرابی ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے واﻻ غیبت کرنے واﻻ ہو

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 1) {وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ: هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ هَمَزَ يَهْمُزُ هَمْزًا} (ن،ض) اور{لَمَزَ يَلْمُزُ لَمْزًا} (ن، ض) سے مبالغے کے صیغے ہیں، دونوں کے معنی آپس میں اس قدر ملتے ہیں کہ بعض نے انھیں ہم معنی قرار دیا ہے اور بعض نے فرق کیا ہے۔ دونوں کے مفہوم میں اشارہ بازی، طعن اور عیب لگانا شامل ہے۔ دوسری جگہ فرمایا: «‏‏‏‏وَ لَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِيْنٍ (10) هَمَّازٍ مَّشَّآءٍ بِنَمِيْمٍ» [القلم: 11،10] ہر بہت قسمیں کھانے والے حقیر کی اطاعت نہ کر، جو بہت طعنہ مارنے والا (یا عیب لگانے والا)، چغلی میں بہت دوڑ دھوپ کرنے والا ہے۔ اور فرمایا: «‏‏‏‏وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ» [الحجرات: ۱۱] اور تم آپس میں عیب نہ لگاؤ۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے والا غیبت کرنے والا ہو۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

وزنی بیڑیاں اور قید و بند کو یاد رکھو ٭٭
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے زبان سے لوگوں کی عیب گیری کرنے والا، اپنے کاموں سے دوسروں کی حقارت کرنے والا، خرابی والا شخص ہے۔ «هَمَّاز مَشَّاء بِنَمِيمٍ» ۱؎ [68-القلم:11]‏‏‏‏ کی تفسیر بیان ہو چکی ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ اس سے مراد طعنہ دینے والا غیبت کرنے والا ہے۔
ربیع بن انس رحمہ اللہ کہتے ہیں سامنے برا کہنا تو «هُمَزَ» ہے اور پیٹھ پیچھے عیب بیان کرنا «لُّمَزَ» ہے۔
قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں زبان سے اور آنکھ کے اشاروں سے بندگان اللہ کو ستانا اور چڑانا مراد ہے کہ کبھی تو ان کا گوشت کھائے یعنی غیبت کرے اور کبھی ان پر طعنہ زنی کرے۔
مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں «هُمَزَ» ہاتھ اور آنکھ سے ہوتا ہے اور «لُّمَزَ» زبان سے بعض کہتے ہیں اس سے مراد اخنس بن شریق کافر ہے۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں آیت عام ہے۔
پھر فرمایا: جو جمع کرتا ہے اور گن گن کر رکھتا جاتا ہے، جیسے اور جگہ ہے «وَجَمَعَ فَأَوْعَىٰ» ۱؎۔ [70-المعارج:18]‏‏‏‏
سیدنا کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پھر تو مال کمانے کی ہائے وائے میں لگا رہا اور رات کو سڑی بھسی لاش کی طرح پڑ رہا اس کا خیال یہ ہے کہ اس کا مال اسے ہمیشہ دنیا میں رکھے گا حالانکہ واقعہ یوں نہیں بلکہ یہ بخیل اور لالچی انسان جہنم کے اس طبقے میں گرے گا جو ہر اس چیز کو جو اس میں گرے چور چور کر دیتا ہے۔
پھر فرماتا ہے یہ توڑ پھوڑ کرنے والی کیا چیز ہے؟ اس کا حال اے نبی! تمہیں معلوم نہیں یہ اللہ کی سلگائی ہوئی آگ ہے جو دلوں پر چڑھ جاتی ہے جلا کر بھسم کر دیتی ہے لیکن مرتے نہیں۔
ثابت بنانی رحمہ اللہ جب اس آیت کی تلاوت کر کے اس کا یہ معنی بیان کرتے تو رو دیتے اور کہتے انہیں عذاب نے بڑا ستایا۔
محمد بن کعب رحمہ اللہ فرماتے ہیں آگ جلاتی ہوئی حلق تک پہنچ جاتی ہے پھر لوٹتی پھر پہنچی ہے یہ آگ ان پر چاروں طرف سے بند کر دی گئی ہے جیسے کہ سورۃ البلد کی تفسیر میں گزرا۔
ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ ہے۔ ۱؎ [ابن مردودیہ:اسنادہ ضعیف]‏‏‏‏
اور دوسرا طریق اس کا موقوف ہے لوہا جو مثل آگ کے ہے اس کے ستونوں میں یہ لمبے لمبے دروازے ہیں۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرات میں «بِعَمَدٍ» مروی ہے، ان دوزخیوں کی گردنوں میں زنجیریں ہوں گی یہ لمبے لمبے ستونوں میں جکڑے ہوئے ہوں گے اور اوپر سے دروازے بند کر دئیے جائیں گے ان آگ کے ستونوں میں انہیں بدترین عذاب کیے جائیں گے۔
ابوصالح رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی وزنی بیڑیاں اور قید و بند ان کے لیے ہو گی۔
اس سورت کی تفسیر بھی اللہ کے فضل و کرم سے پوری ہوئی۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل