ترجمہ و تفسیر — سورۃ يونس (10) — آیت 1
الٓرٰ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡحَکِیۡمِ ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
الر۔ یہ کمال حکمت والی کتاب کی آیات ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
آلرا ۔ یہ بڑی دانائی کی کتاب کی آیتیں ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
الرٰ۔ یہ پرحکمت کتاب کی آیتیں ہیں

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

سورۃ یونس
(آیت 1) ➊ { الٓرٰ:} یہ حروف مقطعات ہیں، تشریح کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ کی پہلی آیت۔
➋ {تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ: تِلْكَ } اسم اشارہ ہے، مشار الیہ { اَلْآيَاتُ } مقدر ہے۔ مراد قرآن مجید کی تمام آیات ہیں جن میں ہماری یہ سورت بھی شامل ہے، یعنی یہ عظیم الشان آیات کتاب حکیم کی آیات ہیں۔ { الْحَكِيْمِ } (کمال حکمت والی) کا ایک مطلب یہ ہے کہ یہ دانائی اور حکمت سے بھری ہوئی ہے، اس کی کوئی بات نہ خطا ہے، نہ عقل کے خلاف اور نہ کمتر درجہ کی، بلکہ ہر بات ہی کمال عقل و دانش پر مبنی ہے اور ایک معنی یہ ہے کہ یہ کتاب انتہائی محکم اور مضبوط ہے، اس کی آیات میں کوئی باہمی اختلاف نہیں، نہ ہی اس کے حلال و حرام اور حدود و احکام کبھی منسوخ ہوں گے، یعنی حکیم بمعنی محکم ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

الر یہ پُر حکمت کتاب کی آیتیں ہیں (1)

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

[1] ا۔ ل۔ ر یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں [1] یہ سورۃ مکی ہے اور اس کے مخاطب وہ قریش مکہ ہیں جو اللہ کے متعلق بھی غلط قسم کا تصور رکھتے تھے اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرنے کی بجائے اسلام کی تعلیم اور قرآنی آیات پر طرح طرح کے اعتراضات وارد کر رہے تھے اور عملاً مسلمانوں پر اتنی سختیاں اور مظالم ڈھا رہے تھے کہ ان کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

عقل زدہ کافر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٭٭
کافروں کو اس پر بڑا تعجب ہوتا تھا کہ ایک انسان اللہ کا رسول بن جائے، کہتے تھے کہ «فَقَالُوا أَبَشَرٌ يَهْدُونَنَا» ۱؎ [64-التغابن:6]‏‏‏‏ ’ کیا بشر ہمارا ہادی ہوگا؟ ‘
حضرت ہود علیہ السلام اور حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ «‏‏‏‏أَوَعَجِبْتُمْ أَن جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنكُمْ لِيُنذِرَكُمْ وَلِتَتَّقُوا وَلَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ» ۱؎ [7-الأعراف:63-69]‏‏‏‏ ’ کیا تمہیں یہ کوئی انوکھی بات لگتی ہے کہ تم میں سے ہی ایک شخص پر تمہارے رب کی وحی نازل ہوئی تاکہ وہ تم کو ڈرائے اور تاکہ تم پرہیزگار بنو اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے ‘۔
کفار قریش نے بھی کہا تھا کہ «‏‏‏‏أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ» ۱؎ [38-ص:5]‏‏‏‏ ’ کیا اس نے اتنے سارے معبودوں کے بجائے ایک ہی اللہ مقرر کر دیا؟ یہ تو بڑے ہی تعجب کی بات ہے ‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے بھی انہوں نے صاف انکار کر دیا اور انکار کی وجہ یہی پیش کی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے ایک انسان پر اللہ کی وحی کا آنا ہی نہیں مان سکتے۔ اس کا ذکر اس آیت میں ہے۔
سچے پائے سے مراد سعادت اور نیکی کا ذکر ہے۔ بھلائیوں کا اجر ہے۔ ان کے نیک کام ہیں۔ مثلاً نماز روزہ صدقہ تسبیح۔ اور ان کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت الغرض ان کی سچائی کا ثبوت اللہ کو پہنچ چکا ہے۔ ان کے نیک اعمال وہاں جمع ہیں۔ یہ سابق لوگ ہیں۔ عرب کے شعروں میں بھی قدیم کا لفظ ان معنوں میں بولا گیا ہے۔ جو رسول ان میں ہے وہ بشیر بھی ہے، نذیر بھی ہے، لیکن کافروں نے اسے جادوگر کہہ کر اپنے جھوٹ پر مہر لگا دی۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل