بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اللہ کے نام سے جو بےحد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم واﻻ ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
صحیح احادیث میں اس کا نام {”فَاتِحَةُ الْكِتَابِ، اَلصَّلَاةُ، سُوْرَةُ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، سُوْرَةُ الْحَمْدِ، اَلسَّبْعُ الْمَثَانِيْ، اَلْقُرْآنُ الْعَظِيْمُ، اُمُّ الْقُرْآنِ“} اور {”اُمُّ الْكِتَابِ“} آیا ہے، جیسا کہ فاتحہ کے فضائل کی احادیث میں آ رہا ہے۔ اسماء کی کثرت سورت کے معانی و مطالب کی کثرت کی دلیل ہے۔
سورۂ فاتحہ کے فضائل: ➊ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا: ”ایک دفعہ جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انھوں نے اپنے اوپر زور سے دروازہ کھلنے کی آواز سنی تو سر اٹھایا اور فرمایا: ”یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جو آج کھولا گیا ہے، آج سے پہلے یہ کبھی نہیں کھولا گیا۔“ تو اس سے ایک فرشتہ اترا، پھر فرمایا: ”یہ فرشتہ زمین پر اترا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں اترا۔“ اس فرشتے نے سلام کہا اور کہا: ”آپ کو دو نوروں کی خوش خبری ہو، جو آپ کو دیے گئے ہیں، آپ سے پہلے وہ کسی نبی کو عطا نہیں ہوئے، فاتحۃ الکتاب اور سورۂ بقرہ کی آخری آیات۔ آپ ان دونوں میں سے جو حرف بھی پڑھیں گے وہ چیز آپ کو ضرور عطا کر دی جائے گی۔“ [مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضل الفاتحۃ… ۸۰۶]
➋ ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے، میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ نے مجھے بلایا، میں نہ آیا، یہاں تک کہ میں نے نماز پڑھی، پھر آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمھارے آنے میں کیا رکاوٹ بنی؟“ میں نے عرض کیا: ”میں نماز پڑھ رہا تھا۔“ فرمایا: ”کیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اور رسول کی دعوت قبول کرو۔“ پھر فرمایا: ”کیا میں تمھیں مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن مجید کی سب سے عظیم سورت نہ سکھاؤں؟“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے آپ کو یاد دلایا تو آپ نے فرمایا: ”الحمد للہ رب العالمین ہی ”سبع مثانی“ ہے، (یعنی وہ سات آیتیں ہیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیں) اور یہی القرآن العظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔“ [بخاری، التفسیر، باب قولہ: «ولقد آتیناک سبعا…» : ۴۷۰۳]
➌ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اپنے ایک سفر میں تھے، راستے میں اترے تو ایک لڑکی آئی اور کہنے لگی: ”قبیلے کے سردار کو سانپ نے کاٹ لیا ہے اور ہمارے لوگ غائب ہیں تو کیا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟“ چنانچہ اس کے ساتھ ایک آدمی گیا جس کے متعلق ہمیں دم کرنے کا گمان نہیں تھا، اس نے اسے دم کیا تو وہ تندرست ہو گیا۔ سردار نے اسے تیس بکریاں دینے کو کہا اور ہمیں دودھ پلایا۔ جب وہ واپس آیا تو ہم نے اس سے پوچھا: ”کیا تم اچھی طرح دم کر لیا کرتے تھے؟“ اس نے کہا: ”نہیں، میں نے صرف ام الکتاب کے ساتھ دم کیا ہے۔“ ہم نے کہا: ”جب تک ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ پہنچیں کچھ نہ کرو۔“ جب ہم مدینہ میں آئے تو ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے کیسے معلوم ہوا کہ یہ دم ہے؟ (بکریاں) تقسیم کر لو اور میرا حصہ بھی رکھو۔“ [بخاری، فضائل القرآن، باب فضل فاتحۃ الکتاب: ۵۰۰۷] بخاری کی ایک روایت (۵۷۳۶) میں ہے کہ ان لوگوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی مہمان نوازی سے انکار کر دیا تھا، جب انھوں نے دم کی درخواست کی تو صحابہ رضی اللہ عنھم نے یہ کہہ کر کہ تم نے ہماری ضیافت نہیں کی تیس بکریوں کی شرط طے کی تھی۔ مسلم (۲۲۰۱) میں ہے کہ یہ دم کرنے والے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ہی تھے۔
➍ خارجہ بن صلت کے چچا (علاقہ بن صحار تمیمی رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر اسلام لے آئے، پھر واپس گئے تو ان کا گزر کچھ لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے پاس ایک پاگل آدمی لوہے کی زنجیروں میں بندھا ہوا تھا۔ اس کے گھر والے کہنے لگے: ”تمھارا یہ ساتھی (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) خیر لے کر آیا ہے تو تمھارے پاس کوئی چیز ہے جس سے تم اس کا علاج کرو؟“ تو میں نے اسے فاتحۃ الکتاب کے ساتھ دم کیا تو وہ تندرست ہو گیا، انھوں نے مجھے ایک سو بکریاں دیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو (سارا واقعہ) بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اس کے علاوہ بھی کچھ پڑھا؟“ میں نے کہا: ”نہیں!“ آپ نے فرمایا: ”بکریاں لے لو! مجھے اپنی عمر کی قسم! جس نے باطل دم کے ساتھ کھایا (وہ جانے) تم نے تو حق دم کے ساتھ کھایا ہے۔“ [أبوداوٗد، الطب، باب کیف الرقٰی: ۳۸۹۶]
➎ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں: ”جس نے کوئی نماز پڑھی جس میں ام القرآن نہ پڑھی، وہ ناقص ہے۔“ تین دفعہ فرمایا تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا: ”ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں۔“ تو فرمایا: ”اسے اپنے دل میں پڑھو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا، میں نے ”صلاۃ“ (نماز) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو نصف حصوں میں تقسیم کر لیا ہے اور میرے بندے کے لیے ہے جو اس نے سوال کیا۔ تو جب بندہ «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”میرے بندے نے میری حمد کی“ اور جب وہ «الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”میرے بندے نے میری ثنا کی“ اور جب وہ «مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ» کہتا ہے تو وہ فرماتا ہے: ”میرے بندے نے میری تمجید کی (بزرگی بیان کی)“ اور کبھی فرماتا ہے: ”میرے بندے نے (اپنا آپ) میرے سپرد کر دیا۔“ پھر جب وہ «اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ» کہتا ہے تو وہ فرماتا ہے: ”یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لیے ہے جو اس نے سوال کیا۔“ پھر جب وہ «اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ (5) صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ» کہتا ہے تو وہ فرماتا ہے: ”یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے ہے جو اس نے سوال کیا۔“ [مسلم، الصلاۃ، باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی …: ۳۹۵]
چند فوائد:
➊ جس طرح اللہ تعالیٰ کے رسولوں کے مراتب میں فرق ہے، ان میں سے بعض بعض سے افضل ہیں، ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوری اولاد آدم کے سردار ہیں، اسی طرح سورۂ فاتحہ تورات، انجیل اور قرآن کی ہر سورت سے بڑی سورت ہے، اگرچہ بہت سی سورتیں آیات کے اعتبار سے اس سے لمبی ہیں، مگر عظمت میں یہ سب سے بڑھ کر ہے، جیسا کہ آیات میں آیت الکرسی سب سے عظیم آیت ہے، گو اس سے لمبی آیات بہت سی ہیں۔
➋ اس سورت کا نام ”فاتحہ“ اس لیے ہے کہ اس سے کتاب اللہ کا آغاز ہوتا ہے۔نماز میں قراء ت کا آغاز بھی اسی سے ہوتا ہے۔ قاموس میں ہے: {” فَاتِحَةُ كُلِّ شَيْ ءٍ اَوَّلُهُ “} ”ہر چیز کا فاتحہ اس کے اوّل کو کہتے ہیں۔“
➌ اس سورت کا نام {” اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ “} یا {”سُوْرَةُ الْحَمْدِ“} اس لیے ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی جامع حمد آئی ہے۔
➍ اس کا نام {”اَلسَّبْعُ الْمَثَانِيْ“} اس لیے ہے کہ یہ سات آیات ہیں جو ہر نماز (فرض ہو یا نفل) کی ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہیں، نماز کے علاوہ بھی کثرت سے پڑھی جاتی ہیں۔ دیکھیے سورۂ حجر (۸۷)۔
➎ اس کے نام ”ام القرآن، ام الکتاب، القرآن العظیم“ اس لیے ہیں کہ اس میں مختصر طور پر قرآن مجید کے تمام بنیادی مضامین آگئے ہیں، باقی قرآن ان کی تفصیل ہے، چنانچہ ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کمال، اس کی حمد، ثنا اور تمجید آ گئی ہیں، جیسا کہ اوپر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں گزرا اور آگے آیات کی تفسیر میں بیان ہو گا۔ {” يَوْمِ الدِّيْنِ “} میں آخرت، ثواب و عذاب اور وعدے اور وعید کا ذکر ہے۔ {” اِيَّاكَ نَعْبُدُ “} میں بندوں کو ایک اللہ سے مانگنے، اسی کے سامنے عاجزی کرنے، اپنی تمام عبادات زبانی ہوں یا بدنی یا مالی اسی کے لیے خاص کرنے اور اسے ہر شریک سے پاک قرار دینے کی تعلیم ہے۔ اسے ”توحید الوہیت“ کہتے ہیں، تمام پیغمبر اسی کی دعوت لے کر آئے۔ {” وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ “} میں اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنے، اسی پر توکل کرنے اور عبادت اور دوسرے تمام معاملات میں اسی سے مدد مانگنے کی تعلیم ہے کہ اگر اس کی مدد نہ ہو تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اسے ”استعانت“ کہتے ہیں۔ {” الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ “} میں شریعت کے تمام احکام، پورا اسلام اور پورا قرآن شامل ہے۔ {” اِهْدِنَا “} میں زندگی کے ایک ایک لمحہ میں راہِ راست پر چلنے اور آخری دم تک بلکہ جنت میں پہنچنے تک اس پر قائم رہنے کی دعا کی تعلیم ہے۔ {” اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ “} میں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی تاریخ اور ان کے واقعات کی طرف اشارہ ہے اور ان جیسے اعمال صالحہ اختیار کرنے کی ترغیب ہے، تاکہ ان کے ساتھ جنت میں جا سکیں۔ {” الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ “} میں یہود اور ان تمام اقوام کی تاریخ کا ذکر ہے جو حق جاننے کے باوجود اس کی مخالفت پر اڑ گئے اور {” الضَّآلِّيْنَ “} میں نصاریٰ اور ان تمام لوگوں کے واقعات کی طرف اشارہ ہے جو راہِ راست سے بھٹک گئے اور ان دونوں قسم کے لوگوں کے اعمال بد سے اجتناب کی تلقین ہے، تاکہ ان کے ساتھ جہنم میں جانے سے بچے رہیں۔ (القاسمی) ان سات آیات میں قرآن مجید کے مزید مضامین کا ذکر ہر آیت کی الگ تفسیر میں بھی آئے گا۔ (ان شاء اللہ العزیز)
➏ اس سورت کا نام ”صلاۃ“ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، میں نے صلاۃ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو نصف حصوں میں تقسیم کر لیا ہے، اس کی وضاحت سورۃ الفاتحہ کے ساتھ فرمائی۔ معلوم ہوا جو ”صلاۃ“(نماز) اس ”صلاۃ“ (فاتحہ) کے بغیر ہو وہ ”صلاۃ“(نماز) ہی نہیں، جیسا کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرمایا: [لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَّمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ] ”اس شخص کی کوئی نماز نہیں جو سورۂ فاتحہ نہ پڑھے۔“ [بخاری، الأذان، باب وجوب القراء ۃ للإمام…: ۷۵۶۔ مسلم: ۳۹۴]
➐ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ پورے قرآن کے اسرار سورۂ فاتحہ میں، فاتحہ کے اسرار {” بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “} میں {” بِسْمِ اللّٰهِ “ } کے اسرار اس کی باء میں اور باء کے اسرار اس کے نقطے میں آ گئے ہیں۔ مگر سورۂ فاتحہ میں پورے قرآن کے مضامین آ جانے کا یہ مطلب درست نہیں، دراصل یہ ان لوگوں کا طریقہ ہے جو نہ قرآن سمجھنا چاہتے ہیں نہ اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں، بلکہ اپنے ایجاد کر دہ طریقوں کو قرآن کا نام دے کر مسلمانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ (المنار)
➑ سورۂ فاتحہ کا دوسری سورتوں سے تعلق: (1)کائنات کی تمام چیزوں کی تخلیق، پرورش اور حفاظت {” رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ “} اور {” الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “} کے تحت ہیں۔ (2) توحید کے متعلق تمام قرآنی آیات {” اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ “} کے تحت ہیں۔ (3) داؤد علیہ السلام کے واقعہ میں اور دوسرے تمام مقامات میں عدل و انصاف کا ذکر {” مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ “} کے تحت ہے۔ (4) ابراہیم علیہ السلام کی قربانی {” اِيَّاكَ نَعْبُدُ “} کے تحت اور ان کی اور تمام انبیاء کی دعائیں {” اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ “} کے تحت ہیں۔ (5) ایوب علیہ السلام کی شفا، یونس علیہ السلام کی نجات، ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں محفوظ رہنا، زکریا علیہ السلام کو بڑھاپے میں اولاد ملنا وغیرہ سب {” الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “} کے تحت ہیں۔ (6) ایمان دار اور متقی لوگوں کے احوال و واقعات اور ان کا نیک انجام آخری آیت کے تحت ہیں۔ اسی طرح بدکار اور سرکش لوگوں کے احوال و واقعات اور ان کا انجام بد بھی اسی آیت کے تحت ہیں۔ اسی کے مطابق دوسری تمام آیات و واقعات سمجھ لیں۔ (7) شیطان کا تکبر کے باعث دھتکارا ہوا ہونا {” الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ “} کی مثال ہے۔ (بدیع التفاسیر)
➒ یہ سورت اگرچہ اللہ کا کلام ہے مگر یہ بندوں کو سکھانے کے لیے نازل ہوئی ہے کہ وہ یوں کہیں۔ دلیل اس کی گزشتہ حدیث ہے کہ بندہ یوں کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے۔ اس میں بندے کو اللہ تعالیٰ سے مانگنے کا طریقہ سکھایا گیا ہے کہ پہلے اس کی حمد و ثنا اور تمجید کی جائے، پھر اللہ تعالیٰ سے اس کا بندہ ہونے کے تعلق کا ذکر کیا جائے اور اپنی بندگی کا وسیلہ پیش کیا جائے، اس کے بعد اللہ سے مدد مانگتے ہوئے اصل مقصد کا سوال کیا جائے جو صراط مستقیم کی ہدایت کا سوال ہے، جس سے اہم کوئی سوال نہیں۔ اس لیے بعض اہل علم نے اس کا نام ”تعلیم المسئلہ“ بھی رکھا ہے، یعنی مانگنے کا طریقہ سکھانے والی سورت۔
➓ بعض لوگ زندہ یا فوت شدہ لوگوں کے نام کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ! فلاں کے وسیلے سے یا واسطے سے یا بحرمت فلاں میری دعا قبول فرما، یہ بدعت ہے اور قرآن و سنت سے کہیں ثابت نہیں اور اگر یہ عقیدہ رکھے کہ ان بزرگوں کا نام لیا جائے تو وہ اللہ تعالیٰ سے منوا لیتے ہیں تو یہ شرک ہے جس میں مشرکین عرب مبتلا تھے۔ دیکھیے سورۂ یونس (۱۸) اور سورۂ زمر (۳)۔ صحیح وسیلہ جو ثابت ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے وسیلے سے دعا کرنا ہے، یا اپنے کسی صالح عمل کے وسیلے سے دعا کرنا، جیسا کہ {” اِيَّاكَ نَعْبُدُ “} میں ہے اور جیسا کہ آل عمران (۱۹۳) میں ایمان لانے کے وسیلے سے دعا کی گئی ہے اور غار والے تین اصحاب نے اپنے اپنے خالص عمل کے وسیلے سے دعا کی تھی۔ [بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب حدیث الغار: ۳۴۶۵، عن ابن عمر رضی اللہ عنھما] یا کسی زندہ آدمی سے دعا کروانا، جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کروایا کرتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ عباس رضی اللہ عنہ سے بارش کی دعا کروایا کرتے تھے۔ [بخاری، فضائل أصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، باب ذکر العباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ: ۳۷۱۰، عن أنس رضی اللہ عنہ] ان تین صورتوں کے سوا وسیلے کی جتنی صورتیں ہیں وہ کچھ بدعت ہیں اور کچھ شرک کے زمرے میں آتی ہیں، اس لیے ان سے اجتناب لازم ہے۔
⓫ یہ سورت بہترین دم ہے، سانپ کے زہر جیسی خطرناک بیماری اور دیوانگی جیسی مشکل سے درست ہونے والی بیماری کا دور ہونا اس کی بے انتہا شفائی تاثیر کی دلیل ہے۔ میری ہمشیرہ ایک ٹانگ سے معذور تھی اور بیساکھی کے سہارے سے چلتی تھی، اس کی تندرست ٹانگ بھی بے کار ہو گئی، سارے گھر والے سخت مصیبت میں پھنس گئے، میرے والد صاحب کو ایک عالم نے سورۂ فاتحہ کا دم کرنے کی تاکید کی۔ تیرھویں دن ہمشیرہ دیوار کے سہارے سے ٹانگ پر کھڑی ہو گئی اور پھر اس کی ٹانگ بالکل تندرست ہو گئی۔ تقریباً چالیس برس ہو گئے آج تک وہ بیساکھی کے ساتھ اس ٹانگ پر چلتی پھرتی ہے۔ مجھے زندگی میں دو تین دفعہ نہایت سخت بیماری پیش آئی، علاج کے ساتھ ساتھ گھر والے سورۂ فاتحہ کا دم کرتے رہے، اگرچہ کچھ مدت لگی مگر اللہ تعالیٰ نے شفا دے دی۔ (الحمد للہ)
⓬ ان احادیث سے قرآن کے ساتھ دم پر اجرت کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ: [اِنَّ اَحَقَّ مَا اَخَذْتُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا كِتَابُ اللّٰهِ] (سب سے زیادہ حق چیز جس پر تم اجرت لو اللہ کی کتاب ہے) [بخاری، الطب، باب الشروط فی الرقیۃ بفاتحۃ الکتاب: ۵۷۳۷] اس کی دلیل ہیں۔کتاب اللہ کی کتابت، طباعت، جلد بندی، خرید و فروخت اور تعلیم وغیرہ پر اجرت نہایت پاکیزہ اجرت ہے۔ اہل کتاب کو جو اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی قیمت لینے پر ملامت کی گئی اس کی وجہ ان کا حق کو چھپانا اور دنیاوی مفاد کے لیے غلط فتوے دینا تھا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۴۱، ۷۹، ۱۷۴) اور آل عمران (۱۸۷)۔
(آیت 1){ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ:} شیخ المفسرین طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ادب سکھایا کہ اپنے تمام کاموں اور اہم مواقع سے پہلے اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور اس کی صفات عالیہ کا ذکر کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اپنی تمام مخلوق کو طریقہ سکھایا کہ اپنی گفتگو کا آغاز اور اپنے خطوط، کتابوں اور تمام ضروری کاموں کی ابتدا اسی کے ساتھ کریں، یہاں تک کہ {” بِسْمِ اللّٰهِ “} (اللہ کے نام کے ساتھ) کہتے ہوئے یہ بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ اللہ کے نام کے ساتھ کیا کرنا ہے، حذف شدہ لفظ خود ہی واضح ہوتا ہے کہ میں اللہ کے نام کے ساتھ پڑھتا ہوں یا کھاتا ہوں یا فلاں کام کرتا ہوں۔ یہاں {” اسم“} (نام) {”تَسْمِيَةٌ“} (نام لینے) کے معنی میں ہے، جیسا کہ{”كَلَامٌ“ ”تَكْلِيْمٌ“} (کلام کرنے) کے معنی میں اور {”عَطَاءٌ“ ”اِعْطَاءٌ“} (دینے) کے معنی میں ہے۔ معنی یہ ہے کہ میں اللہ کا نام لینے اور اسے یاد کرنے کے ساتھ پڑھتا ہوں (یا کوئی بھی کام کرتا ہوں) اور اس کے اسمائے حسنیٰ اور صفات علیا کا نام لینے کے ساتھ قراء ت (یا کسی بھی کام) کا آغاز کرتا ہوں۔“ مختصراً لفظ {” اللّٰه “} اس ہستی کا علم (ذاتی نام) ہے جو سب سے بلند و برتر اور سب کی خالق و مالک ہے۔ اس لفظ کا اصل {”اِلَاهٌ“} ہے۔ الف لام لگایا تو {”اَلْاِلَاهٌ“} بن گیا۔ کثرت استعمال کی وجہ سے تخفیف کے لیے {” اِلاَهٌ “} کا ہمزہ حذف کر دیا گیا اور الف لام والے لام کو {”اِلَاهٌ“} کے لام میں مدغم کر دیا، {”اِلَاهٌ“} کے لام کے بعد والا الف بھی کثرت استعمال کی وجہ سے لکھنے میں ترک کر دیا گیا، تو لفظ {” اللّٰه “} ہو گیا۔ یہ {”فِعَالٌ“} بمعنی ”مفعول“ ہے، یعنی {”اِلَاهٌ“} بمعنی {”مَأْلُوْهٌ“} ہے، یعنی وہ ذات جس کی عبادت کی جاتی ہے۔ {”الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “} کی تفسیر اگلی آیت میں آ رہی ہے۔
{”بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “} سورۂ نمل میں بالاتفاق آیت کا جزو ہے۔ صحابہ کے اجماع کے ساتھ اسے فاتحہ اور دوسری سورتوں کے شروع میں لکھا گیا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سورۂ توبہ کے سوا ہر سورت کا جزو ہے۔ ہر سورت کے ساتھ اس کا نازل ہونا صحیح حدیث سے بھی ثابت ہے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک سورت کا دوسری سے الگ ہونا اس وقت تک نہیں پہچانتے تھے جب تک آپ پر {” بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “} نازل نہیں ہوتی تھی۔ [أبوداوٗد، الصلاۃ، باب من جھر بھا: ۷۸۸]
سورۂ فاتحہ کے فضائل: ➊ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا: ”ایک دفعہ جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انھوں نے اپنے اوپر زور سے دروازہ کھلنے کی آواز سنی تو سر اٹھایا اور فرمایا: ”یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جو آج کھولا گیا ہے، آج سے پہلے یہ کبھی نہیں کھولا گیا۔“ تو اس سے ایک فرشتہ اترا، پھر فرمایا: ”یہ فرشتہ زمین پر اترا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں اترا۔“ اس فرشتے نے سلام کہا اور کہا: ”آپ کو دو نوروں کی خوش خبری ہو، جو آپ کو دیے گئے ہیں، آپ سے پہلے وہ کسی نبی کو عطا نہیں ہوئے، فاتحۃ الکتاب اور سورۂ بقرہ کی آخری آیات۔ آپ ان دونوں میں سے جو حرف بھی پڑھیں گے وہ چیز آپ کو ضرور عطا کر دی جائے گی۔“ [مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضل الفاتحۃ… ۸۰۶]
➋ ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے، میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ نے مجھے بلایا، میں نہ آیا، یہاں تک کہ میں نے نماز پڑھی، پھر آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمھارے آنے میں کیا رکاوٹ بنی؟“ میں نے عرض کیا: ”میں نماز پڑھ رہا تھا۔“ فرمایا: ”کیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اور رسول کی دعوت قبول کرو۔“ پھر فرمایا: ”کیا میں تمھیں مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن مجید کی سب سے عظیم سورت نہ سکھاؤں؟“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے آپ کو یاد دلایا تو آپ نے فرمایا: ”الحمد للہ رب العالمین ہی ”سبع مثانی“ ہے، (یعنی وہ سات آیتیں ہیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیں) اور یہی القرآن العظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔“ [بخاری، التفسیر، باب قولہ: «ولقد آتیناک سبعا…» : ۴۷۰۳]
➌ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اپنے ایک سفر میں تھے، راستے میں اترے تو ایک لڑکی آئی اور کہنے لگی: ”قبیلے کے سردار کو سانپ نے کاٹ لیا ہے اور ہمارے لوگ غائب ہیں تو کیا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟“ چنانچہ اس کے ساتھ ایک آدمی گیا جس کے متعلق ہمیں دم کرنے کا گمان نہیں تھا، اس نے اسے دم کیا تو وہ تندرست ہو گیا۔ سردار نے اسے تیس بکریاں دینے کو کہا اور ہمیں دودھ پلایا۔ جب وہ واپس آیا تو ہم نے اس سے پوچھا: ”کیا تم اچھی طرح دم کر لیا کرتے تھے؟“ اس نے کہا: ”نہیں، میں نے صرف ام الکتاب کے ساتھ دم کیا ہے۔“ ہم نے کہا: ”جب تک ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ پہنچیں کچھ نہ کرو۔“ جب ہم مدینہ میں آئے تو ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے کیسے معلوم ہوا کہ یہ دم ہے؟ (بکریاں) تقسیم کر لو اور میرا حصہ بھی رکھو۔“ [بخاری، فضائل القرآن، باب فضل فاتحۃ الکتاب: ۵۰۰۷] بخاری کی ایک روایت (۵۷۳۶) میں ہے کہ ان لوگوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی مہمان نوازی سے انکار کر دیا تھا، جب انھوں نے دم کی درخواست کی تو صحابہ رضی اللہ عنھم نے یہ کہہ کر کہ تم نے ہماری ضیافت نہیں کی تیس بکریوں کی شرط طے کی تھی۔ مسلم (۲۲۰۱) میں ہے کہ یہ دم کرنے والے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ہی تھے۔
➍ خارجہ بن صلت کے چچا (علاقہ بن صحار تمیمی رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر اسلام لے آئے، پھر واپس گئے تو ان کا گزر کچھ لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے پاس ایک پاگل آدمی لوہے کی زنجیروں میں بندھا ہوا تھا۔ اس کے گھر والے کہنے لگے: ”تمھارا یہ ساتھی (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) خیر لے کر آیا ہے تو تمھارے پاس کوئی چیز ہے جس سے تم اس کا علاج کرو؟“ تو میں نے اسے فاتحۃ الکتاب کے ساتھ دم کیا تو وہ تندرست ہو گیا، انھوں نے مجھے ایک سو بکریاں دیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو (سارا واقعہ) بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اس کے علاوہ بھی کچھ پڑھا؟“ میں نے کہا: ”نہیں!“ آپ نے فرمایا: ”بکریاں لے لو! مجھے اپنی عمر کی قسم! جس نے باطل دم کے ساتھ کھایا (وہ جانے) تم نے تو حق دم کے ساتھ کھایا ہے۔“ [أبوداوٗد، الطب، باب کیف الرقٰی: ۳۸۹۶]
➎ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں: ”جس نے کوئی نماز پڑھی جس میں ام القرآن نہ پڑھی، وہ ناقص ہے۔“ تین دفعہ فرمایا تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا: ”ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں۔“ تو فرمایا: ”اسے اپنے دل میں پڑھو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا، میں نے ”صلاۃ“ (نماز) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو نصف حصوں میں تقسیم کر لیا ہے اور میرے بندے کے لیے ہے جو اس نے سوال کیا۔ تو جب بندہ «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”میرے بندے نے میری حمد کی“ اور جب وہ «الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”میرے بندے نے میری ثنا کی“ اور جب وہ «مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ» کہتا ہے تو وہ فرماتا ہے: ”میرے بندے نے میری تمجید کی (بزرگی بیان کی)“ اور کبھی فرماتا ہے: ”میرے بندے نے (اپنا آپ) میرے سپرد کر دیا۔“ پھر جب وہ «اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ» کہتا ہے تو وہ فرماتا ہے: ”یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لیے ہے جو اس نے سوال کیا۔“ پھر جب وہ «اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ (5) صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ» کہتا ہے تو وہ فرماتا ہے: ”یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے ہے جو اس نے سوال کیا۔“ [مسلم، الصلاۃ، باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی …: ۳۹۵]
چند فوائد:
➊ جس طرح اللہ تعالیٰ کے رسولوں کے مراتب میں فرق ہے، ان میں سے بعض بعض سے افضل ہیں، ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوری اولاد آدم کے سردار ہیں، اسی طرح سورۂ فاتحہ تورات، انجیل اور قرآن کی ہر سورت سے بڑی سورت ہے، اگرچہ بہت سی سورتیں آیات کے اعتبار سے اس سے لمبی ہیں، مگر عظمت میں یہ سب سے بڑھ کر ہے، جیسا کہ آیات میں آیت الکرسی سب سے عظیم آیت ہے، گو اس سے لمبی آیات بہت سی ہیں۔
➋ اس سورت کا نام ”فاتحہ“ اس لیے ہے کہ اس سے کتاب اللہ کا آغاز ہوتا ہے۔نماز میں قراء ت کا آغاز بھی اسی سے ہوتا ہے۔ قاموس میں ہے: {” فَاتِحَةُ كُلِّ شَيْ ءٍ اَوَّلُهُ “} ”ہر چیز کا فاتحہ اس کے اوّل کو کہتے ہیں۔“
➌ اس سورت کا نام {” اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ “} یا {”سُوْرَةُ الْحَمْدِ“} اس لیے ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی جامع حمد آئی ہے۔
➍ اس کا نام {”اَلسَّبْعُ الْمَثَانِيْ“} اس لیے ہے کہ یہ سات آیات ہیں جو ہر نماز (فرض ہو یا نفل) کی ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہیں، نماز کے علاوہ بھی کثرت سے پڑھی جاتی ہیں۔ دیکھیے سورۂ حجر (۸۷)۔
➎ اس کے نام ”ام القرآن، ام الکتاب، القرآن العظیم“ اس لیے ہیں کہ اس میں مختصر طور پر قرآن مجید کے تمام بنیادی مضامین آگئے ہیں، باقی قرآن ان کی تفصیل ہے، چنانچہ ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کمال، اس کی حمد، ثنا اور تمجید آ گئی ہیں، جیسا کہ اوپر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں گزرا اور آگے آیات کی تفسیر میں بیان ہو گا۔ {” يَوْمِ الدِّيْنِ “} میں آخرت، ثواب و عذاب اور وعدے اور وعید کا ذکر ہے۔ {” اِيَّاكَ نَعْبُدُ “} میں بندوں کو ایک اللہ سے مانگنے، اسی کے سامنے عاجزی کرنے، اپنی تمام عبادات زبانی ہوں یا بدنی یا مالی اسی کے لیے خاص کرنے اور اسے ہر شریک سے پاک قرار دینے کی تعلیم ہے۔ اسے ”توحید الوہیت“ کہتے ہیں، تمام پیغمبر اسی کی دعوت لے کر آئے۔ {” وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ “} میں اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنے، اسی پر توکل کرنے اور عبادت اور دوسرے تمام معاملات میں اسی سے مدد مانگنے کی تعلیم ہے کہ اگر اس کی مدد نہ ہو تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اسے ”استعانت“ کہتے ہیں۔ {” الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ “} میں شریعت کے تمام احکام، پورا اسلام اور پورا قرآن شامل ہے۔ {” اِهْدِنَا “} میں زندگی کے ایک ایک لمحہ میں راہِ راست پر چلنے اور آخری دم تک بلکہ جنت میں پہنچنے تک اس پر قائم رہنے کی دعا کی تعلیم ہے۔ {” اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ “} میں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی تاریخ اور ان کے واقعات کی طرف اشارہ ہے اور ان جیسے اعمال صالحہ اختیار کرنے کی ترغیب ہے، تاکہ ان کے ساتھ جنت میں جا سکیں۔ {” الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ “} میں یہود اور ان تمام اقوام کی تاریخ کا ذکر ہے جو حق جاننے کے باوجود اس کی مخالفت پر اڑ گئے اور {” الضَّآلِّيْنَ “} میں نصاریٰ اور ان تمام لوگوں کے واقعات کی طرف اشارہ ہے جو راہِ راست سے بھٹک گئے اور ان دونوں قسم کے لوگوں کے اعمال بد سے اجتناب کی تلقین ہے، تاکہ ان کے ساتھ جہنم میں جانے سے بچے رہیں۔ (القاسمی) ان سات آیات میں قرآن مجید کے مزید مضامین کا ذکر ہر آیت کی الگ تفسیر میں بھی آئے گا۔ (ان شاء اللہ العزیز)
➏ اس سورت کا نام ”صلاۃ“ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، میں نے صلاۃ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو نصف حصوں میں تقسیم کر لیا ہے، اس کی وضاحت سورۃ الفاتحہ کے ساتھ فرمائی۔ معلوم ہوا جو ”صلاۃ“(نماز) اس ”صلاۃ“ (فاتحہ) کے بغیر ہو وہ ”صلاۃ“(نماز) ہی نہیں، جیسا کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرمایا: [لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَّمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ] ”اس شخص کی کوئی نماز نہیں جو سورۂ فاتحہ نہ پڑھے۔“ [بخاری، الأذان، باب وجوب القراء ۃ للإمام…: ۷۵۶۔ مسلم: ۳۹۴]
➐ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ پورے قرآن کے اسرار سورۂ فاتحہ میں، فاتحہ کے اسرار {” بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “} میں {” بِسْمِ اللّٰهِ “ } کے اسرار اس کی باء میں اور باء کے اسرار اس کے نقطے میں آ گئے ہیں۔ مگر سورۂ فاتحہ میں پورے قرآن کے مضامین آ جانے کا یہ مطلب درست نہیں، دراصل یہ ان لوگوں کا طریقہ ہے جو نہ قرآن سمجھنا چاہتے ہیں نہ اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں، بلکہ اپنے ایجاد کر دہ طریقوں کو قرآن کا نام دے کر مسلمانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ (المنار)
➑ سورۂ فاتحہ کا دوسری سورتوں سے تعلق: (1)کائنات کی تمام چیزوں کی تخلیق، پرورش اور حفاظت {” رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ “} اور {” الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “} کے تحت ہیں۔ (2) توحید کے متعلق تمام قرآنی آیات {” اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ “} کے تحت ہیں۔ (3) داؤد علیہ السلام کے واقعہ میں اور دوسرے تمام مقامات میں عدل و انصاف کا ذکر {” مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ “} کے تحت ہے۔ (4) ابراہیم علیہ السلام کی قربانی {” اِيَّاكَ نَعْبُدُ “} کے تحت اور ان کی اور تمام انبیاء کی دعائیں {” اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ “} کے تحت ہیں۔ (5) ایوب علیہ السلام کی شفا، یونس علیہ السلام کی نجات، ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں محفوظ رہنا، زکریا علیہ السلام کو بڑھاپے میں اولاد ملنا وغیرہ سب {” الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “} کے تحت ہیں۔ (6) ایمان دار اور متقی لوگوں کے احوال و واقعات اور ان کا نیک انجام آخری آیت کے تحت ہیں۔ اسی طرح بدکار اور سرکش لوگوں کے احوال و واقعات اور ان کا انجام بد بھی اسی آیت کے تحت ہیں۔ اسی کے مطابق دوسری تمام آیات و واقعات سمجھ لیں۔ (7) شیطان کا تکبر کے باعث دھتکارا ہوا ہونا {” الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ “} کی مثال ہے۔ (بدیع التفاسیر)
➒ یہ سورت اگرچہ اللہ کا کلام ہے مگر یہ بندوں کو سکھانے کے لیے نازل ہوئی ہے کہ وہ یوں کہیں۔ دلیل اس کی گزشتہ حدیث ہے کہ بندہ یوں کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے۔ اس میں بندے کو اللہ تعالیٰ سے مانگنے کا طریقہ سکھایا گیا ہے کہ پہلے اس کی حمد و ثنا اور تمجید کی جائے، پھر اللہ تعالیٰ سے اس کا بندہ ہونے کے تعلق کا ذکر کیا جائے اور اپنی بندگی کا وسیلہ پیش کیا جائے، اس کے بعد اللہ سے مدد مانگتے ہوئے اصل مقصد کا سوال کیا جائے جو صراط مستقیم کی ہدایت کا سوال ہے، جس سے اہم کوئی سوال نہیں۔ اس لیے بعض اہل علم نے اس کا نام ”تعلیم المسئلہ“ بھی رکھا ہے، یعنی مانگنے کا طریقہ سکھانے والی سورت۔
➓ بعض لوگ زندہ یا فوت شدہ لوگوں کے نام کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ! فلاں کے وسیلے سے یا واسطے سے یا بحرمت فلاں میری دعا قبول فرما، یہ بدعت ہے اور قرآن و سنت سے کہیں ثابت نہیں اور اگر یہ عقیدہ رکھے کہ ان بزرگوں کا نام لیا جائے تو وہ اللہ تعالیٰ سے منوا لیتے ہیں تو یہ شرک ہے جس میں مشرکین عرب مبتلا تھے۔ دیکھیے سورۂ یونس (۱۸) اور سورۂ زمر (۳)۔ صحیح وسیلہ جو ثابت ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے وسیلے سے دعا کرنا ہے، یا اپنے کسی صالح عمل کے وسیلے سے دعا کرنا، جیسا کہ {” اِيَّاكَ نَعْبُدُ “} میں ہے اور جیسا کہ آل عمران (۱۹۳) میں ایمان لانے کے وسیلے سے دعا کی گئی ہے اور غار والے تین اصحاب نے اپنے اپنے خالص عمل کے وسیلے سے دعا کی تھی۔ [بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب حدیث الغار: ۳۴۶۵، عن ابن عمر رضی اللہ عنھما] یا کسی زندہ آدمی سے دعا کروانا، جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کروایا کرتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ عباس رضی اللہ عنہ سے بارش کی دعا کروایا کرتے تھے۔ [بخاری، فضائل أصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، باب ذکر العباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ: ۳۷۱۰، عن أنس رضی اللہ عنہ] ان تین صورتوں کے سوا وسیلے کی جتنی صورتیں ہیں وہ کچھ بدعت ہیں اور کچھ شرک کے زمرے میں آتی ہیں، اس لیے ان سے اجتناب لازم ہے۔
⓫ یہ سورت بہترین دم ہے، سانپ کے زہر جیسی خطرناک بیماری اور دیوانگی جیسی مشکل سے درست ہونے والی بیماری کا دور ہونا اس کی بے انتہا شفائی تاثیر کی دلیل ہے۔ میری ہمشیرہ ایک ٹانگ سے معذور تھی اور بیساکھی کے سہارے سے چلتی تھی، اس کی تندرست ٹانگ بھی بے کار ہو گئی، سارے گھر والے سخت مصیبت میں پھنس گئے، میرے والد صاحب کو ایک عالم نے سورۂ فاتحہ کا دم کرنے کی تاکید کی۔ تیرھویں دن ہمشیرہ دیوار کے سہارے سے ٹانگ پر کھڑی ہو گئی اور پھر اس کی ٹانگ بالکل تندرست ہو گئی۔ تقریباً چالیس برس ہو گئے آج تک وہ بیساکھی کے ساتھ اس ٹانگ پر چلتی پھرتی ہے۔ مجھے زندگی میں دو تین دفعہ نہایت سخت بیماری پیش آئی، علاج کے ساتھ ساتھ گھر والے سورۂ فاتحہ کا دم کرتے رہے، اگرچہ کچھ مدت لگی مگر اللہ تعالیٰ نے شفا دے دی۔ (الحمد للہ)
⓬ ان احادیث سے قرآن کے ساتھ دم پر اجرت کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ: [اِنَّ اَحَقَّ مَا اَخَذْتُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا كِتَابُ اللّٰهِ] (سب سے زیادہ حق چیز جس پر تم اجرت لو اللہ کی کتاب ہے) [بخاری، الطب، باب الشروط فی الرقیۃ بفاتحۃ الکتاب: ۵۷۳۷] اس کی دلیل ہیں۔کتاب اللہ کی کتابت، طباعت، جلد بندی، خرید و فروخت اور تعلیم وغیرہ پر اجرت نہایت پاکیزہ اجرت ہے۔ اہل کتاب کو جو اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی قیمت لینے پر ملامت کی گئی اس کی وجہ ان کا حق کو چھپانا اور دنیاوی مفاد کے لیے غلط فتوے دینا تھا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۴۱، ۷۹، ۱۷۴) اور آل عمران (۱۸۷)۔
(آیت 1){ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ:} شیخ المفسرین طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ادب سکھایا کہ اپنے تمام کاموں اور اہم مواقع سے پہلے اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور اس کی صفات عالیہ کا ذکر کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اپنی تمام مخلوق کو طریقہ سکھایا کہ اپنی گفتگو کا آغاز اور اپنے خطوط، کتابوں اور تمام ضروری کاموں کی ابتدا اسی کے ساتھ کریں، یہاں تک کہ {” بِسْمِ اللّٰهِ “} (اللہ کے نام کے ساتھ) کہتے ہوئے یہ بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ اللہ کے نام کے ساتھ کیا کرنا ہے، حذف شدہ لفظ خود ہی واضح ہوتا ہے کہ میں اللہ کے نام کے ساتھ پڑھتا ہوں یا کھاتا ہوں یا فلاں کام کرتا ہوں۔ یہاں {” اسم“} (نام) {”تَسْمِيَةٌ“} (نام لینے) کے معنی میں ہے، جیسا کہ{”كَلَامٌ“ ”تَكْلِيْمٌ“} (کلام کرنے) کے معنی میں اور {”عَطَاءٌ“ ”اِعْطَاءٌ“} (دینے) کے معنی میں ہے۔ معنی یہ ہے کہ میں اللہ کا نام لینے اور اسے یاد کرنے کے ساتھ پڑھتا ہوں (یا کوئی بھی کام کرتا ہوں) اور اس کے اسمائے حسنیٰ اور صفات علیا کا نام لینے کے ساتھ قراء ت (یا کسی بھی کام) کا آغاز کرتا ہوں۔“ مختصراً لفظ {” اللّٰه “} اس ہستی کا علم (ذاتی نام) ہے جو سب سے بلند و برتر اور سب کی خالق و مالک ہے۔ اس لفظ کا اصل {”اِلَاهٌ“} ہے۔ الف لام لگایا تو {”اَلْاِلَاهٌ“} بن گیا۔ کثرت استعمال کی وجہ سے تخفیف کے لیے {” اِلاَهٌ “} کا ہمزہ حذف کر دیا گیا اور الف لام والے لام کو {”اِلَاهٌ“} کے لام میں مدغم کر دیا، {”اِلَاهٌ“} کے لام کے بعد والا الف بھی کثرت استعمال کی وجہ سے لکھنے میں ترک کر دیا گیا، تو لفظ {” اللّٰه “} ہو گیا۔ یہ {”فِعَالٌ“} بمعنی ”مفعول“ ہے، یعنی {”اِلَاهٌ“} بمعنی {”مَأْلُوْهٌ“} ہے، یعنی وہ ذات جس کی عبادت کی جاتی ہے۔ {”الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “} کی تفسیر اگلی آیت میں آ رہی ہے۔
{”بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “} سورۂ نمل میں بالاتفاق آیت کا جزو ہے۔ صحابہ کے اجماع کے ساتھ اسے فاتحہ اور دوسری سورتوں کے شروع میں لکھا گیا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سورۂ توبہ کے سوا ہر سورت کا جزو ہے۔ ہر سورت کے ساتھ اس کا نازل ہونا صحیح حدیث سے بھی ثابت ہے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک سورت کا دوسری سے الگ ہونا اس وقت تک نہیں پہچانتے تھے جب تک آپ پر {” بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “} نازل نہیں ہوتی تھی۔ [أبوداوٗد، الصلاۃ، باب من جھر بھا: ۷۸۸]
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
سورة الفاتحہ قرآن مجید کی سب سے پہلی سورت ہے جس کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے فاتحہ کے معنی آغاز اور ابتدا کے ہیں۔ اس لئے اسے الفاتحہ یعنی فاتحۃ الکتاب کہا جاتا ہے۔
اس کے اور بھی متعدد نام احادیث سے ثابت ہیں مثلاً ام القرآن، السبع المثانی، القرآن العظیم، الشفاء، الرقیہ (دم) وغیرھا من الاسماء اس کا ایک اہم نام الصلوۃ بھی ہے جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «قسمت الصلوة بيني وبين عبدي.» [الحديث صحيح مسلم كتاب الصلوة] میں نے «صلوة» (نماز) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا ہے۔
مراد سورة فاتحہ ہے جس کا نصف حصہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء اور اس کی رحمت و ربوبیت اور عدل و بادشاہت کے بیان میں ہے اور نصف حصے میں دعا و مناجات ہے جو بندہ اللہ کی بارگاہ میں کرتا ہے۔ اس حدیث میں سورة فاتحہ کو نماز سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں اس کا پڑھنا بہت ضروری ہے۔ چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں اس کی خوب وضاحت کردی گئی ہے فرمایا۔ «لاصلوة لمن لم يقرا بفاتحه الكتاب» [صحيح بخاري و مسلم] اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورة فاتحہ نہیں پڑھی۔
اس حدیث میں «من» کا لفظ عام ہے جو ہر نمازی کو شامل ہے منفرد ہو یا امام کے پیچھے مقتدی۔ سری نماز ہو یا جہری فرض نماز ہو یا نفل ہر نمازی کے لئے سورة فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔ اس عموم کی مزید تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نماز فجر میں بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کریم پڑھتے رہے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرات بوجھل ہوگئی، نماز ختم ہونے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم بھی ساتھ پڑھتے رہے ہو؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لاتفعلوا الابام القرآن فانه لاصلوة لمن لم يقرابها» تم ایسا مت کرو (یعنی ساتھ ساتھ مت پڑھا کرو) البتہ سورة فاتحہ ضرور پڑھا کرو کیونکہ اس کے پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی [ابوداؤد، ترمذي، نسائي]
اسی طرح حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من صلى صلوة لم يقرا فيها بام القرآن فهي خداج. ثلاثا غير تمام» جس نے بغیر فاتحہ کے نماز پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ابوہریرہ ؓ سے عرض کیا گیا: «انانكون وراء الامام» امام کے پیچھے بھی ہم نماز پڑھتے ہیں اس وقت کیا کریں؟ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا: «اقرا بها فى نفسك» امام کے پیچھے تم سورة فاتحہ اپنے جی میں پڑھو۔ [صحيح مسلم]
مذکورہ دونوں حدیثوں سے واضح ہوا کہ قرآن مجید میں جو آتا ہے ﴿وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾ [7: 24]
جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو، یا حدیث «واذا قرا فانصتوا» (بشرط صحت) جب امام قرات کرے تو خاموش رہو۔ کا مطلب یہ ہے کہ جہری نمازوں میں مقتدی سورة فاتحہ کے علاوہ باقی قرات خاموشی سے سنیں۔ امام کے ساتھ قرآن نہ پڑھیں۔ یا امام سورة فاتحہ کی فاتحۃ کی آیات وقفوں کے ساتھ پڑھے تاکہ مقتدی بھی احادیث صحیحہ کے مطابق سورة فاتحہ پڑھ سکیں یا امام سورة فاتحہ کے بعد اتنا سکتہ کرے کہ مقتدی سورة فاتحہ پڑھ لیں۔ اس طرح آیت قرآنی اور احادیث صحیحہ میں الحمد للہ کوئی تعارض نہیں رہتا۔ دونوں پر عمل ہو جاتا ہے۔ جب کہ سورة فاتحہ کی ممانعت سے یہ بات ثابت ہوتی کہ خاکم بدہن قرآن کریم اور احادیث ٹکراؤ ہے اور دونوں میں سے کسی ایک پر ہی عمل ہو سکتا ہے۔ بیک وقت دونوں پر عمل ممکن نہیں۔ «فتعوذ بالله من هذا.» دیکھئے سورة اعراف آیت 24 کا حاشیہ (اس مسئلے کی تحقیق کے لئے ملاحظہ ہو کتاب تحقیق الکلام از مولانا عبدالرحمن مبارک پوری و توضیح الکلام مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ وغیرہ)۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ کے نزدیک سلف کی اکثریت کا قول یہ ہے کہ اگر مقتدی امام کی قرات سن رہا ہو تو نہ پڑھے اور اگر نہ سن رہا ہو تو پڑھے۔ [مجموع فتاوي ابن تيميه 23/265]
➊ یہ سورة مکی ہے۔ مکی یا مدنی کا مطلب یہ ہے کہ جو سورتیں ہجرت (3 1 نبوت) سے قبل نازل ہوئیں وہ مکی ہیں خواہ ان کا نزول مکہ مکرمہ میں ہوا ہو یا اس کے آس پاس اور مدنی وہ سورتیں ہیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں خواہ وہ مدینہ یا اس کے آس پاس میں نازل ہوئیں یا اس سے دور حتیٰ کہ مکہ اور اس کے اطراف ہی میں کیوں نہ نازل ہوئی ہوں۔ «بِسْمِ اللّٰهِ» کی بابت اختلاف کہ آیا یہ ہر سورت کی مستقل آیت ہے یا ہر سورت کی آیت کا حصہ ہے یا یہ صرف سورة فاتحہ کی ایک آیت ہے یا کسی بھی سورت کی مستقل آیت نہیں ہے اسے صرف دوسری سورت سے ممتاز کرنے کیلئے ہر سورت کے آغاز میں لکھا جاتا ہے علماء مکہ و کوفہ نے اسے سورة فاتحہ سمیت ہر سورت کی آیت قرار دیا ہے جبکہ علماء مدینہ بصرہ اور شام نے اسے کسی بھی سورت کی آیت تسلیم نہیں کیا۔ سوائے سورة نمل کی آیت نمبر 30 کے کہ اس میں بالاتفاق «بِسْمِ اللّٰهِ» اس کا جزو ہے۔ اس طرح (جہری) نمازوں میں اس کے اونچی آواز سے پڑھنے پر بھی اختلاف ہے۔ بعض اونچی آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں اور بعض سری (دھیمی) آواز سے اکثر علماء نے سری آواز سے پڑھنے کو بہتر قرار دیا ہے۔ «بِسْمِ اللّٰهِ» کو آغاز میں ہی الگ کیا گیا ہے یعنی اللہ کے نام سے پڑھتا یا شروع کرتا یا تلاوت کرتا ہوں ہر اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے «» بسم اللہ پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ چناچہ حکم دیا گیا ہے کہ کھانے، ذبح، وضو اور جماع سے پہلے «بِسْمِ اللّٰهِ» پڑھو۔ تاہم قرآن کریم کی تلاوت کے وقت، «بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» ، سے پہلے «اَعُوْذُ باللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ» پڑھنا بھی ضروری ہے جب تم قرآن کریم پڑھنے لگو تو اللہ کی جناب میں شیطان رجیم سے پناہ مانگو۔
اس کے اور بھی متعدد نام احادیث سے ثابت ہیں مثلاً ام القرآن، السبع المثانی، القرآن العظیم، الشفاء، الرقیہ (دم) وغیرھا من الاسماء اس کا ایک اہم نام الصلوۃ بھی ہے جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «قسمت الصلوة بيني وبين عبدي.» [الحديث صحيح مسلم كتاب الصلوة] میں نے «صلوة» (نماز) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا ہے۔
مراد سورة فاتحہ ہے جس کا نصف حصہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء اور اس کی رحمت و ربوبیت اور عدل و بادشاہت کے بیان میں ہے اور نصف حصے میں دعا و مناجات ہے جو بندہ اللہ کی بارگاہ میں کرتا ہے۔ اس حدیث میں سورة فاتحہ کو نماز سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں اس کا پڑھنا بہت ضروری ہے۔ چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں اس کی خوب وضاحت کردی گئی ہے فرمایا۔ «لاصلوة لمن لم يقرا بفاتحه الكتاب» [صحيح بخاري و مسلم] اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورة فاتحہ نہیں پڑھی۔
اس حدیث میں «من» کا لفظ عام ہے جو ہر نمازی کو شامل ہے منفرد ہو یا امام کے پیچھے مقتدی۔ سری نماز ہو یا جہری فرض نماز ہو یا نفل ہر نمازی کے لئے سورة فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔ اس عموم کی مزید تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نماز فجر میں بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کریم پڑھتے رہے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرات بوجھل ہوگئی، نماز ختم ہونے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم بھی ساتھ پڑھتے رہے ہو؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لاتفعلوا الابام القرآن فانه لاصلوة لمن لم يقرابها» تم ایسا مت کرو (یعنی ساتھ ساتھ مت پڑھا کرو) البتہ سورة فاتحہ ضرور پڑھا کرو کیونکہ اس کے پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی [ابوداؤد، ترمذي، نسائي]
اسی طرح حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من صلى صلوة لم يقرا فيها بام القرآن فهي خداج. ثلاثا غير تمام» جس نے بغیر فاتحہ کے نماز پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ابوہریرہ ؓ سے عرض کیا گیا: «انانكون وراء الامام» امام کے پیچھے بھی ہم نماز پڑھتے ہیں اس وقت کیا کریں؟ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا: «اقرا بها فى نفسك» امام کے پیچھے تم سورة فاتحہ اپنے جی میں پڑھو۔ [صحيح مسلم]
مذکورہ دونوں حدیثوں سے واضح ہوا کہ قرآن مجید میں جو آتا ہے ﴿وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾ [7: 24]
جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو، یا حدیث «واذا قرا فانصتوا» (بشرط صحت) جب امام قرات کرے تو خاموش رہو۔ کا مطلب یہ ہے کہ جہری نمازوں میں مقتدی سورة فاتحہ کے علاوہ باقی قرات خاموشی سے سنیں۔ امام کے ساتھ قرآن نہ پڑھیں۔ یا امام سورة فاتحہ کی فاتحۃ کی آیات وقفوں کے ساتھ پڑھے تاکہ مقتدی بھی احادیث صحیحہ کے مطابق سورة فاتحہ پڑھ سکیں یا امام سورة فاتحہ کے بعد اتنا سکتہ کرے کہ مقتدی سورة فاتحہ پڑھ لیں۔ اس طرح آیت قرآنی اور احادیث صحیحہ میں الحمد للہ کوئی تعارض نہیں رہتا۔ دونوں پر عمل ہو جاتا ہے۔ جب کہ سورة فاتحہ کی ممانعت سے یہ بات ثابت ہوتی کہ خاکم بدہن قرآن کریم اور احادیث ٹکراؤ ہے اور دونوں میں سے کسی ایک پر ہی عمل ہو سکتا ہے۔ بیک وقت دونوں پر عمل ممکن نہیں۔ «فتعوذ بالله من هذا.» دیکھئے سورة اعراف آیت 24 کا حاشیہ (اس مسئلے کی تحقیق کے لئے ملاحظہ ہو کتاب تحقیق الکلام از مولانا عبدالرحمن مبارک پوری و توضیح الکلام مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ وغیرہ)۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ کے نزدیک سلف کی اکثریت کا قول یہ ہے کہ اگر مقتدی امام کی قرات سن رہا ہو تو نہ پڑھے اور اگر نہ سن رہا ہو تو پڑھے۔ [مجموع فتاوي ابن تيميه 23/265]
➊ یہ سورة مکی ہے۔ مکی یا مدنی کا مطلب یہ ہے کہ جو سورتیں ہجرت (3 1 نبوت) سے قبل نازل ہوئیں وہ مکی ہیں خواہ ان کا نزول مکہ مکرمہ میں ہوا ہو یا اس کے آس پاس اور مدنی وہ سورتیں ہیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں خواہ وہ مدینہ یا اس کے آس پاس میں نازل ہوئیں یا اس سے دور حتیٰ کہ مکہ اور اس کے اطراف ہی میں کیوں نہ نازل ہوئی ہوں۔ «بِسْمِ اللّٰهِ» کی بابت اختلاف کہ آیا یہ ہر سورت کی مستقل آیت ہے یا ہر سورت کی آیت کا حصہ ہے یا یہ صرف سورة فاتحہ کی ایک آیت ہے یا کسی بھی سورت کی مستقل آیت نہیں ہے اسے صرف دوسری سورت سے ممتاز کرنے کیلئے ہر سورت کے آغاز میں لکھا جاتا ہے علماء مکہ و کوفہ نے اسے سورة فاتحہ سمیت ہر سورت کی آیت قرار دیا ہے جبکہ علماء مدینہ بصرہ اور شام نے اسے کسی بھی سورت کی آیت تسلیم نہیں کیا۔ سوائے سورة نمل کی آیت نمبر 30 کے کہ اس میں بالاتفاق «بِسْمِ اللّٰهِ» اس کا جزو ہے۔ اس طرح (جہری) نمازوں میں اس کے اونچی آواز سے پڑھنے پر بھی اختلاف ہے۔ بعض اونچی آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں اور بعض سری (دھیمی) آواز سے اکثر علماء نے سری آواز سے پڑھنے کو بہتر قرار دیا ہے۔ «بِسْمِ اللّٰهِ» کو آغاز میں ہی الگ کیا گیا ہے یعنی اللہ کے نام سے پڑھتا یا شروع کرتا یا تلاوت کرتا ہوں ہر اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے «» بسم اللہ پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ چناچہ حکم دیا گیا ہے کہ کھانے، ذبح، وضو اور جماع سے پہلے «بِسْمِ اللّٰهِ» پڑھو۔ تاہم قرآن کریم کی تلاوت کے وقت، «بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» ، سے پہلے «اَعُوْذُ باللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ» پڑھنا بھی ضروری ہے جب تم قرآن کریم پڑھنے لگو تو اللہ کی جناب میں شیطان رجیم سے پناہ مانگو۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
تلاوت سے پہلے تعوذ کا حکم :
قرآن کریم کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے
﴿ اَعوذ باللّٰه من الشيطٰن الرّجيم ﴾
ضرور پڑھ لینا چاہیے۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے آیت:
﴿ فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ باللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ﴾ [16: 98]
”جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کیجئے“ اور یہ تو ظاہر ہے کہ پناہ کسی نقصان پہچانے والی چیز یا دشمن سے درکار ہوتی ہے اور ایسی ہستی سے پناہ طلب کی جاتی ہے جو اس نقصان پہچانے والے دشمن سے زیادہ طاقتور ہو۔ شیطان چونکہ غیر محسوس طور پر انسان کی فکر پر اثر انداز ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ دعا در اصل قرآن کی تلاوت کے دوران کج فکری سے بچنے اور قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کی دعا ہے۔ نیز یہ وہ دعا ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بندوں کو سکھائی اور اسے پڑھنے کا حکم دیا۔
﴿ اَعوذ باللّٰه من الشيطٰن الرّجيم ﴾
ضرور پڑھ لینا چاہیے۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے آیت:
﴿ فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ باللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ﴾ [16: 98]
”جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کیجئے“ اور یہ تو ظاہر ہے کہ پناہ کسی نقصان پہچانے والی چیز یا دشمن سے درکار ہوتی ہے اور ایسی ہستی سے پناہ طلب کی جاتی ہے جو اس نقصان پہچانے والے دشمن سے زیادہ طاقتور ہو۔ شیطان چونکہ غیر محسوس طور پر انسان کی فکر پر اثر انداز ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ دعا در اصل قرآن کی تلاوت کے دوران کج فکری سے بچنے اور قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کی دعا ہے۔ نیز یہ وہ دعا ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بندوں کو سکھائی اور اسے پڑھنے کا حکم دیا۔
فضائل سورۃ فاتحہ :
سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن جبرئیلؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے اپنے اوپر ایک زور دار آواز سنی انہوں نے اپنا سر اٹھایا۔ پھر فرمایا: ”یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں کھلا“ پھر فرمایا: ”یہ ایک فرشتہ ہے جو آج سے پہلے زمین پر کبھی نازل نہیں ہوا۔ پھر اس فرشتے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور دو نوروں کی خوشخبری دی اور کہا: ”یہ دو نور آپ ہی کو دئیے جا رہے ہیں۔ آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیئے گئے۔ ایک سورۃ فاتحہ اور دوسرا سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات۔ آپ جب کبھی ان دونوں میں سے کوئی کلمہ تلاوت کریں گے تو آپ کو طلب کردہ چیز ضرور عطا کی جائے گی۔“ [صحيح مسلم۔ كتاب فضائل القرآن۔ باب فضل الفاتحه]
سورۃ فاتحہ کے مختلف نام :
سیدنا ابو سعید بن معلیؓ فرماتے ہیں کہ آپ نے مجھے فرمایا: ”میں تجھے قرآن کی ایک ایسی سورت بتاؤں گا جو قرآن کی سب سورتوں سے بڑھ کر ہے اور وہ ہے ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ﴾ وہی «سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ» اور قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا۔“
[بخاري: كتاب التفسير، سورة انفال: 24 ﴿يٓاَيّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا نيز تفسير سورة فاتحه﴾]
(3) سیدنا ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورۃ الحمد ہی ام القرآن، ام الکتاب اور دہرائی ہوئی سات آیتیں ہیں۔ [ترمذي: ابواب التفسير، تفسير سورة محمد]
اس سورۃ کا سب سے زیادہ مشہور نام الفاتحة ہے جس کے معنی ہیں کھولنے والی یعنی دیباچہ، مقدمہ یا پیش لفظ۔ اس کے متعلق علماء کی دو آرا ہیں: ایک یہ کہ یہ سورۃ ایک دعا ہے جو بندوں کو سکھائی گئی ہے کہ وہ اس انداز سے اللہ سے ہدایت طلب کیا کریں اور باقی سارا قرآن اس دعا کا جواب ہے۔ ان حضرات کی توجیہ یہ ہے کہ اس سورۃ کا ایک نام سورۃ الدعاء بھی ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ سورۃ سارے مضامین قرآن کا اجمالی خلاصہ ہے۔ پھر اس سورۃ کا خلاصہ
﴿ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾
ہے۔ ہمارے نزدیک دوسری رائے ہی راجح ہے اور اس کی مندرجہ ذیل دو وجوہ ہیں:
1۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورۃ کو قرآن عظیم، ام الکتاب اور ام القرآن فرمایا ہے جس کا مفہوم یہی ہے کہ یہ سورۃ سارے قرآن کا خلاصہ ہے۔
2۔ اس سورۃ کی آیات پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی از خود یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اس میں پورے قرآن کا خلاصہ یا اجمالی ذکر کیا گیا ہے تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ علمائے تفسیر نے قرآن کے مضامین کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا ہے جو یہ ہیں:
(1)
[بخاري: كتاب التفسير، سورة انفال: 24 ﴿يٓاَيّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا نيز تفسير سورة فاتحه﴾]
(3) سیدنا ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورۃ الحمد ہی ام القرآن، ام الکتاب اور دہرائی ہوئی سات آیتیں ہیں۔ [ترمذي: ابواب التفسير، تفسير سورة محمد]
اس سورۃ کا سب سے زیادہ مشہور نام الفاتحة ہے جس کے معنی ہیں کھولنے والی یعنی دیباچہ، مقدمہ یا پیش لفظ۔ اس کے متعلق علماء کی دو آرا ہیں: ایک یہ کہ یہ سورۃ ایک دعا ہے جو بندوں کو سکھائی گئی ہے کہ وہ اس انداز سے اللہ سے ہدایت طلب کیا کریں اور باقی سارا قرآن اس دعا کا جواب ہے۔ ان حضرات کی توجیہ یہ ہے کہ اس سورۃ کا ایک نام سورۃ الدعاء بھی ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ سورۃ سارے مضامین قرآن کا اجمالی خلاصہ ہے۔ پھر اس سورۃ کا خلاصہ
﴿ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾
ہے۔ ہمارے نزدیک دوسری رائے ہی راجح ہے اور اس کی مندرجہ ذیل دو وجوہ ہیں:
1۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورۃ کو قرآن عظیم، ام الکتاب اور ام القرآن فرمایا ہے جس کا مفہوم یہی ہے کہ یہ سورۃ سارے قرآن کا خلاصہ ہے۔
2۔ اس سورۃ کی آیات پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی از خود یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اس میں پورے قرآن کا خلاصہ یا اجمالی ذکر کیا گیا ہے تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ علمائے تفسیر نے قرآن کے مضامین کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا ہے جو یہ ہیں:
(1)
تذکیر بالآء اللہ:
یعنی اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا بیان جو انسانی زندگی اور اس کی بقا کے لیے ضروری تھیں اور اس میں زمین، آسمان، چاند، سورج اور ہواؤں اور بادلوں وغیرہ کا ذکر سب کچھ آجاتا ہے۔
(2)
(2)
تذکیر بایام اللہ:
یعنی مخلوق کے ساتھ واقعات اور حوادث کا بیان اس میں قصص الانبیاء اور نافرمانی کی بنا پر ہلاک شدہ قوموں کا ذکر شامل ہے۔
(3)
(3)
تذکیر بالموت و مابعدہ:
یعنی موت کے بعد آخرت کے احوال۔ اس میں اللہ کے ہاں باز پرس اور جنت و دوزخ کے سب احوال شامل ہیں۔
(4)
(4)
علم الاحکام یعنی احکام شریعت:
تذکیر بالآء اللہ، تذکیر بایام اللہ اور تذکیر بالموت، سب کا مقصد حقیقی یہی ہے کہ ان کے ذکر سے انسان کو برضاء و رغبت احکام شریعت کی بجا آوری پر آمادہ کیا جائے۔
(5)
(5)
علم المخاصمہ:
یعنی گمراہ فرقوں کے عقائد باطلہ کا رد۔
اب دیکھئے اس سورۃ کی پہلی تین آیات میں یعنی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے لے کر دوسری بار الرحمٰن الرحیم تک اللہ تعالیٰ کی ربوبیت عامہ اور رحمت کی وسعت کا ذکر ہے اور یہ تذکیر بالآء اللہ کے ذیل میں آتی ہیں اور چوتھی آیت ﴿مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ﴾ تذکیر بالموت کے ذیل میں۔ پانچویں آیت ﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ﴾علم الاحکام کا نچوڑ ہے۔ اور چھٹی آیت اللہ سے دعا اور تعلق باللہ پر مشتمل ہے اور یہ علم الاحکام ہی کے ذیل میں آتی ہے۔ اور ساتویں آیت میں تذکیر بایام اللہ بھی ہے اور علم المخاصمہ بھی۔ اس لحاظ سے یہ سورۃ فی الواقع قرآن کی اجمالی فہرست ہے اور اس ساری سورۃ کا خلاصہ آیت ﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ ہے۔ یعنی انسان صرف ایک اللہ کی عبادت کرے جس میں کسی قسم کے شرک کا شائبہ تک نہ ہو۔
اس سورۃ کا نام الشفاء اور الرقیہ بھی ہے اور ان ناموں کی وجہ تسمیہ درج ذیل حدیث ہے:
سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی اصحاب عرب کے ایک قبیلہ پر پہنچے۔ جنہوں نے ان کی ضیافت نہ کی۔ اتفاق سے ان کے سردار کو بچھونے کاٹ لیا۔ وہ صحابہؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے: ”تم میں سے کسی کے پاس بچھو کے کاٹے کی کوئی دوا یا منتر ہے؟“ انہوں نے کہا: ”ہاں ہے۔ مگر چونکہ تم نے ہماری ضیافت نہیں کی اس لیے ہم اس کا معاوضہ لیں گے“ انہوں نے چند بکریاں (ایک دوسری روایت کے مطابق 30 بکریاں) دینا قبول کیں۔ ایک صحابی (خود ابو سعیدؓ) نے سورۃ فاتحہ پڑھنا شروع کی۔ وہ سورۃ فاتحہ پڑھ کر پھونک مار دیا کرتے۔ چند دنوں میں وہ سردار اچھا ہو گیا۔ (حسب وعدہ) قبیلہ کے لوگ بکریاں لے آئے تو صحابہؓ کو تردد ہوا (کہ آیا یہ معاوضہ لینا بھی چاہئے یا نہیں) اور کہنے لگے کہ جب تک ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ نہ لیں یہ بکریاں نہ لینا چاہئیں۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ منتر بھی ہے؟ وہ بکریاں لے لو اور (ان میں سے) میرا حصہ بھی نکالو“ اور ابن عباسؓ کی روایت میں ہے کہ جب صحابہؓ مدینہ پہنچے تو کسی نے کہا: ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص (ابو سعید خدریؓ) نے کتاب اللہ پر اجرت لی ہے“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ»
(تمہارے اجرت لینے کی سب سے زیادہ مستحق تو کتاب اللہ ہی ہے) [بخاري۔ كتاب الطب والرقي۔ باب الرقي بفاتحة الكتاب]
اس حدیث سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوئیں:
1۔ صحابہؓ نے اجرت کا مطالبہ صرف اس لیے کیا تھا کہ ان بستی والوں نے ان کی مہمانی سے انکار کر دیا تھا۔ بالخصوص ان دنوں میں جبکہ وسائل سفر محدود، سست رفتار اور ہوٹل وغیرہ بھی نہیں ہوتے تھے اور ملکی دستور یہ تھا کہ مہمانی سے انکار کو قتل کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔
2۔ اگر دم جھاڑ کی ضرورت پیش آئے تو صرف کتاب اللہ سے ہی کرنا چاہئے یا کم از کم دم جھاڑ کرنے والا شرکیہ یا مہمل الفاظ نہ پڑھے۔
3۔ ضرورت مند لوگ دم جھاڑ کی اجرت بھی لے سکتے ہیں۔
رہا علی الاطلاق دم جھاڑ کو ایک مستقل پیشہ بنا لینا یا خانے بنا کر یا مہمل الفاظ سے تعویذ لکھنا۔ انہیں پانی میں گھول کر پلانا۔ گلے میں لٹکانا یا کسی دوسری جگہ باندھنا، ایسے سب کام شرعاً نا جائز ہیں اور اس کی تفصیل سورۃ القیامۃ میں آئے گی۔ نیز اس سورۃ کا نام سورۃ الصلوٰۃ اور سورۃ الدعا اور تعلیم المسئلہ (مانگنے کے آداب) بھی ہے۔
اب دیکھئے اس سورۃ کی پہلی تین آیات میں یعنی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے لے کر دوسری بار الرحمٰن الرحیم تک اللہ تعالیٰ کی ربوبیت عامہ اور رحمت کی وسعت کا ذکر ہے اور یہ تذکیر بالآء اللہ کے ذیل میں آتی ہیں اور چوتھی آیت ﴿مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ﴾ تذکیر بالموت کے ذیل میں۔ پانچویں آیت ﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ﴾علم الاحکام کا نچوڑ ہے۔ اور چھٹی آیت اللہ سے دعا اور تعلق باللہ پر مشتمل ہے اور یہ علم الاحکام ہی کے ذیل میں آتی ہے۔ اور ساتویں آیت میں تذکیر بایام اللہ بھی ہے اور علم المخاصمہ بھی۔ اس لحاظ سے یہ سورۃ فی الواقع قرآن کی اجمالی فہرست ہے اور اس ساری سورۃ کا خلاصہ آیت ﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ ہے۔ یعنی انسان صرف ایک اللہ کی عبادت کرے جس میں کسی قسم کے شرک کا شائبہ تک نہ ہو۔
اس سورۃ کا نام الشفاء اور الرقیہ بھی ہے اور ان ناموں کی وجہ تسمیہ درج ذیل حدیث ہے:
سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی اصحاب عرب کے ایک قبیلہ پر پہنچے۔ جنہوں نے ان کی ضیافت نہ کی۔ اتفاق سے ان کے سردار کو بچھونے کاٹ لیا۔ وہ صحابہؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے: ”تم میں سے کسی کے پاس بچھو کے کاٹے کی کوئی دوا یا منتر ہے؟“ انہوں نے کہا: ”ہاں ہے۔ مگر چونکہ تم نے ہماری ضیافت نہیں کی اس لیے ہم اس کا معاوضہ لیں گے“ انہوں نے چند بکریاں (ایک دوسری روایت کے مطابق 30 بکریاں) دینا قبول کیں۔ ایک صحابی (خود ابو سعیدؓ) نے سورۃ فاتحہ پڑھنا شروع کی۔ وہ سورۃ فاتحہ پڑھ کر پھونک مار دیا کرتے۔ چند دنوں میں وہ سردار اچھا ہو گیا۔ (حسب وعدہ) قبیلہ کے لوگ بکریاں لے آئے تو صحابہؓ کو تردد ہوا (کہ آیا یہ معاوضہ لینا بھی چاہئے یا نہیں) اور کہنے لگے کہ جب تک ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ نہ لیں یہ بکریاں نہ لینا چاہئیں۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ منتر بھی ہے؟ وہ بکریاں لے لو اور (ان میں سے) میرا حصہ بھی نکالو“ اور ابن عباسؓ کی روایت میں ہے کہ جب صحابہؓ مدینہ پہنچے تو کسی نے کہا: ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص (ابو سعید خدریؓ) نے کتاب اللہ پر اجرت لی ہے“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ»
(تمہارے اجرت لینے کی سب سے زیادہ مستحق تو کتاب اللہ ہی ہے) [بخاري۔ كتاب الطب والرقي۔ باب الرقي بفاتحة الكتاب]
اس حدیث سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوئیں:
1۔ صحابہؓ نے اجرت کا مطالبہ صرف اس لیے کیا تھا کہ ان بستی والوں نے ان کی مہمانی سے انکار کر دیا تھا۔ بالخصوص ان دنوں میں جبکہ وسائل سفر محدود، سست رفتار اور ہوٹل وغیرہ بھی نہیں ہوتے تھے اور ملکی دستور یہ تھا کہ مہمانی سے انکار کو قتل کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔
2۔ اگر دم جھاڑ کی ضرورت پیش آئے تو صرف کتاب اللہ سے ہی کرنا چاہئے یا کم از کم دم جھاڑ کرنے والا شرکیہ یا مہمل الفاظ نہ پڑھے۔
3۔ ضرورت مند لوگ دم جھاڑ کی اجرت بھی لے سکتے ہیں۔
رہا علی الاطلاق دم جھاڑ کو ایک مستقل پیشہ بنا لینا یا خانے بنا کر یا مہمل الفاظ سے تعویذ لکھنا۔ انہیں پانی میں گھول کر پلانا۔ گلے میں لٹکانا یا کسی دوسری جگہ باندھنا، ایسے سب کام شرعاً نا جائز ہیں اور اس کی تفصیل سورۃ القیامۃ میں آئے گی۔ نیز اس سورۃ کا نام سورۃ الصلوٰۃ اور سورۃ الدعا اور تعلیم المسئلہ (مانگنے کے آداب) بھی ہے۔
قراۃ فاتحہ خلف الامام :
چنانچہ ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے نماز پڑھی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی اس کی نماز ناقص، ناقص، ناقص اور ناتمام ہے“ ابو ہریرہؓ سے پوچھا گیا: ”ابوہریرہ! کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں؟“ وہ کہنے لگے: ”'فارسی کے بیٹے دل میں (چپکے چپکے) پڑھ لو۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے نماز (سورہ فاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کر دیا ہے۔ آدھی میرے لیے ہے اور آدھی میرے بندے کے لیے جو کچھ وہ سوال کرے۔ میرا بندہ (نماز میں) کھڑا ہوتا اور کہتا ہے
﴿اَلْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ﴾
تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف کی۔ پھر وہ کہتا ہے
﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾
تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری ثناء بیان کی۔ پھر وہ کہتا ہے
﴿ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ﴾
تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور
﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾
میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور سورت کا باقی حصہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کو وہ کچھ ملے گا جو اس نے مانگا۔ [مسلم۔ كتاب الصلوة۔ باب وجوب قراءة الفاتحة فى كل ركعة۔ ترمذي۔ ابواب التفسير۔ سورة الفاتحة]
سیدنا عبادہ بن صامتؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لاَ صَلٰوةَ لِمَنْ لَّمْ يَقْرَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ»
[بخاري كتاب الاذان]
اور امام بخاری نے تو باب کا نام ہی ان الفاظ سے قائم کیا ہے۔ «وجوب القرأة للامام و المأموم فى الصلوة كلها فى الحضر والسفر وما يجهر فيها وما يخافت» اس باب کے الفاظ کے عموم سے ہی یہ بات واضح ہے کہ خواہ کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا ہو یا مقتدی ہو یا امام ہو، نماز خواہ سری ہو یا جہری ہو ہر صورت میں اور ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔
ترمذی، ابو داؤد، احمد اور ابن حبان کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ہم سے پوچھا: ”تم لوگ اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے رہتے ہو؟“ ہم نے کہا: ”ہاں“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاتحہ الکتاب کے سوا اور کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔ [سبل السلام۔ كتاب الصلوة۔ باب صفة الصلٰوة حديث نمبر 13]
گویا سورۃ فاتحہ کے کل دس نام معلوم ہوئے۔ «سورة الفاتحة، الحمد، سبعا من المثاني، أم القرآن، أم الكتاب، الشفاء، الرقية، الدعاء، تعليم المسئلة، الصلوة» اور بعض نے اس سے بھی زیادہ لکھے ہیں۔
﴿اَلْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ﴾
تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف کی۔ پھر وہ کہتا ہے
﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾
تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری ثناء بیان کی۔ پھر وہ کہتا ہے
﴿ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ﴾
تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور
﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾
میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور سورت کا باقی حصہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کو وہ کچھ ملے گا جو اس نے مانگا۔ [مسلم۔ كتاب الصلوة۔ باب وجوب قراءة الفاتحة فى كل ركعة۔ ترمذي۔ ابواب التفسير۔ سورة الفاتحة]
سیدنا عبادہ بن صامتؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لاَ صَلٰوةَ لِمَنْ لَّمْ يَقْرَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ»
[بخاري كتاب الاذان]
اور امام بخاری نے تو باب کا نام ہی ان الفاظ سے قائم کیا ہے۔ «وجوب القرأة للامام و المأموم فى الصلوة كلها فى الحضر والسفر وما يجهر فيها وما يخافت» اس باب کے الفاظ کے عموم سے ہی یہ بات واضح ہے کہ خواہ کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا ہو یا مقتدی ہو یا امام ہو، نماز خواہ سری ہو یا جہری ہو ہر صورت میں اور ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔
ترمذی، ابو داؤد، احمد اور ابن حبان کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ہم سے پوچھا: ”تم لوگ اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے رہتے ہو؟“ ہم نے کہا: ”ہاں“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاتحہ الکتاب کے سوا اور کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔ [سبل السلام۔ كتاب الصلوة۔ باب صفة الصلٰوة حديث نمبر 13]
گویا سورۃ فاتحہ کے کل دس نام معلوم ہوئے۔ «سورة الفاتحة، الحمد، سبعا من المثاني، أم القرآن، أم الكتاب، الشفاء، الرقية، الدعاء، تعليم المسئلة، الصلوة» اور بعض نے اس سے بھی زیادہ لکھے ہیں۔
زمانہ نزول :
اس سورۃ کا ترتیب نزول کے لحاظ سے پانچواں نمبر ہے۔ گویا یہ اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی اور یہی پہلی سورت ہے جو پوری کی پوری یکبارگی نازل ہوئی۔
[2] کیا بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورۃ فاتحہ کا جز ہے؟
﴿بسم الله الرحمٰن الرحيم﴾ کے زمانہ نزول میں بتایا جا چکا ہے کہ اس میں اقرا یا ابدا محذوف ہے۔ اسی لیے ہم نے ترجمہ میں (شروع) کا لفظ بڑھایا ہے۔ اب یہ بحث باقی رہ جاتی ہے کہ آیا یہ آیت سورۃ فاتحہ کا جز ہے یا نہیں۔ اور اس کی اہمیت یہ ہے کہ آیا جہری نمازوں میں امام کو اس کی قرأت بلند آواز سے کرنی چاہئے یا خفی آواز سے؟
سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورت کے ختم ہونے کو نہیں پہچانتے تھے جب تک ﴿بسم الله الرحمٰن الرحيم﴾ نازل نہ ہوتی [ابوداؤد۔ كتاب الصلوة۔ باب ماجاء من جهر بها] جس کا مطلب یہ ہوا کہ ﴿بسم الله الرحمٰن الرحيم﴾ سورتوں کی تعداد کے برابر (ماسوائے سورۃ التوبہ) یعنی 113 بار نازل ہوئی۔
سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ آپ پر ایک غنودگی سی طاری ہوئی۔ پھر آپ نے مسکراتے ہوئے اپنا سر اٹھایا۔ ہم نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کس بات پر مسکرا رہے ہیں؟ فرمایا: مجھ پر ابھی ابھی ایک سورت نازل ہوئی ہے۔ چنانچہ آپ نے ﴿بسم الله الرحمٰن الرحيم﴾ پڑھ کر ﴿اِنَّآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ﴾ پوری سورت پڑھی۔ [مسلم: كتاب الصلوة، باب حجة من قال البسملة آية من اول كل سورة سواء براءة]
امام مسلم اس حدیث کو جس باب کے تحت لائے ہیں اس کے عنوان کا ترجمہ یہ ہے ”سورۃ توبہ کے ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم﴾ کو ہر سورت کا جز کہنے والوں کی دلیل“ اس دلیل کی رو سے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم صرف سورۃ فاتحہ کا ہی جز نہیں بلکہ ہر سورت کا جز قرار پاتی ہے۔
نیز یہ آیت سورۃ نمل کی ایک مستقل آیت بھی ہے۔ [27: 30] علاوہ ازیں قرآن کی تصریح کے مطابق سورۃ فاتحہ کی سات آیات ہیں۔ اور یہ سات آیات تب ہی بنتی ہیں جب ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم﴾ کو سورۃ فاتحہ کی پہلی آیت شمار کیا جائے۔ یہ سب وجوہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس آیت کی قرأت جہری ہونا چاہئے۔ اس سلسلے میں متضاد روایات ملتی ہیں سب سے زیادہ مشہور سیدنا انسؓ سے مروی وہ حدیث ہے جسے بخاری، مسلم اور نسائی وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکرؓ اور سیدنا عمرؓ ﴿اَلْحَمْدُ الله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ﴾ سے نماز شروع کیا کرتے تھے اور مسلم میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ: ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم﴾ نہ قرأت کی ابتدا میں پڑھتے تھے اور نہ آخر میں“
اب یہ تو واضح ہے کہ مسلم میں مروی جملہ میں فی نفسہ مبالغہ میں زیادتی ہے ورنہ سورۃ فاتحہ کے آخر میں ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم﴾ ہے کب؟ اور جو لوگ بسم اللہ بالجہر پڑھنے کے قائل ہیں وہ اس سے یہ مراد لیتے ہیں کہ آپ سورۃ فاتحہ کے بعد جو سورۃ پڑھتے تھے اس کی ابتدا میں بھی بسم اللہ بلند آواز سے نہیں پڑھتے تھے۔
اب اس کے برعکس نسائی کی درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے:
نعیم مجمر کہتے ہیں کہ میں نے ابو ہریرہؓ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم﴾ پڑھی۔ پھر ام القرآن پڑھی تا آنکہ وہ
﴿وَلاَالضَّالِيْنَ﴾ تک پہنچے تو آمین کہا۔ پھر جب بھی سجدہ کرتے یا بیٹھنے کے بعد کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے۔ پھر جب سلام پھیرتے تو کہتے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تم سب سے زیادہ میری نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہے۔ [نسائي۔ كتاب الصلوة۔ باب قراءة بسم الله الرحمٰن الرحيم]
صاحب سبل السلام کہتے ہیں کہ یہ سب سے زیادہ صحیح حدیث ہے اور یہ اصل کی تائید کرتی ہے جو یہ ہے کہ قرأت میں جو حکم فاتحہ کا ہے وہی بسملہ کا ہے۔ خواہ یہ جہراً ہو یا سراً ہو۔ کیونکہ ابو ہریرہؓ کے اس قول کہ ”میری نماز تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہے“ سے واضح ہے کہ آپ بسملہ کی قرأت فرماتے تھے۔ اگرچہ اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے ابو ہریرہؓ کی مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے اکثر افعال و اقوال سے ہو مگر یہ ظاہر کے خلاف ہے اور کسی صحابی سے یہ بعید ہے کہ اس نے اپنی نماز میں کوئی ایسا نیا کام کیا ہو جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کیا ہو۔ [سبل السلام مطبوعه دار نشر الكتب الاسلاميه۔ شيش محل روڈ لاهور۔ الجزء الاول ص 173]
نیز صاحب سبل السلام کہتے ہیں کہ: ”اس مسئلہ میں علماء نے لمبی چوڑی بحث کی ہے اور بعض نامور شخصیات نے کتابیں بھی تالیف کی ہیں۔ اور یہ وضاحت کی ہے کہ سیدنا انسؓ کی مندرجہ بالا حدیث مضطرب ہے۔ ابن عبد البر ’الاستذکار‘ میں کہتے ہیں کہ سیدنا انسؓ کی تمام روایات کی تحقیق کا ماحصل یہ ہے کہ اس اضطراب کی وجہ سے کسی بھی فقیہ کے لیے اس سے حجت قائم نہیں ہوتی، نہ اس کے لیے جو بسملہ کی قرأت کرتے ہیں اور نہ ان کے لیے جو نہیں کرتے۔ اس کے متعلق سیدنا انسؓ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ ”میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور بھول جاتا ہوں، لہٰذا اس میں کوئی حجت نہیں“ [ايضاً، ص 172]
بعض علماء نہ اس آیت کی جہری قرأت کے قائل ہیں اور نہ ہی اس آیت کو سورۃ فاتحہ کا جز قرار دیتے ہیں اور سات آیات کی تعداد پورا کرنے کے لیے ﴿صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِم﴾ کے آگے 5 کا ہندسہ لکھ دیتے ہیں۔ جو کوفیوں کے نزدیک آیت کی علامت ہے لیکن یہ متفق علیہ آیت نہیں ہوتی۔ پھر لطف یہ کہ اس 5 پر لا بھی لکھ دیا گیا ہے۔ یعنی یہاں وقف ممنوع ہے اور یہ تکلف صرف اس لیے کیا گیا کہ بسم اللہ کو نہ فاتحہ کا جزء سمجھا جائے اور نہ اسے جہری نمازوں میں بلند آواز سے پڑھا جائے۔
مجمع ملک فہد نے عرب ممالک کے لیے جو قرآن طبع کیا ہے ہمارے خیال میں اس میں معتدل رویہ اختیار کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ میں تو اس آیت کو سورۃ کا جزء قرار دیا گیا ہے اور اس پر ایک کا نمبر لکھا گیا ہے۔ ﴿اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ﴾ کے آگے کچھ نہیں لکھا۔ البتہ باقی سورتوں میں اس آیت کو سورۃ کا جز قرار نہیں دیا گیا جس سے از خود یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے کہ سورۃ فاتحہ سے پہلے یہ آیت جہری نمازوں میں جہر سے پڑھنا بہتر ہے اور دوسری سورتوں میں سر سے۔
[3] رحمٰن اور رحیم دونوں مبالغہ کے صیغے اور اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام اور رحم سے مشتق ہیں۔ لیکن لفظ رحمان میں رحیم کی نسبت اتنا زیادہ مبالغہ ہے کہ رحمٰن کا لفظ دوسرے نمبر پر اللہ کے ذاتی نام کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کی صراحت قرآن کی بے شمار آیات میں مذکور ہے۔ مثلاً:
﴿ الرَّحْمَٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآن﴾ [55۔ 1]
﴿ اَلرحمٰن عَلَي الْعَرْشِ اسْتَويٰ﴾ [5: 20]
﴿قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنيٰ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا﴾ [17: 110]
اس لحاظ سے اللہ کی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی سب صفات پائی جا سکتی ہیں سوائے رحمٰن کے۔ ایک انسان رحیم، رؤف، کریم وغیرہ سب کچھ ہو سکتا ہے مگر رحمٰن اللہ کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث صحیح میں مذکور ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ دو نام پسند ہیں ایک عبد اللہ، دوسرا عبد الرحمٰن۔ [ترمذي: ابواب الادب، باب ماجاء ما يستحب من الاسماء] اکثر علماء نے رحمٰن اور رحیم کے فرق کو رحمت کی کیفیت اور کمیت کی کمی بیشی کی مختلف صورتوں سے واضح کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ اور ایک عام قول یہ ہے «رحمٰن فى الدنيا رحيم فى الاخرة» یعنی اللہ تعالیٰ دنیا میں رحمان ہے جو مسلمان، کافر، مشرک سب پر ایک جیسی رحمتیں نازل فرماتا ہے اور رحیم آخرت میں ہے۔ جو صرف ایمانداروں پر رحمتیں نازل فرمائے گا۔ اس کی ایک توجیہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ صفت رحمانیت کا تقاضا ایسی نعمتیں اور رحمتیں ہیں جو حیات کے وجود اور بقا کے لیے ضروری ہیں۔ اور اس میں صرف انسان ہی نہیں جملہ جاندار مخلوقات شامل ہیں۔ جیسے سورج، چاند، نور و ظلمت، ہوا، پانی اور زمین کی تخلیق جو زندگی کی جملہ ضروریات کی کفیل ہے نیز ماں کی مامتا اور فطری محبت کے تقاضے بھی اس میں شامل ہیں اور رحیم سے مراد وہ رحمت ہے کہ کسی مصیبت یا ضرورت کے وقت پہنچ کر سہارا دیتی ہے۔ «والله اعلم بالصواب»
سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورت کے ختم ہونے کو نہیں پہچانتے تھے جب تک ﴿بسم الله الرحمٰن الرحيم﴾ نازل نہ ہوتی [ابوداؤد۔ كتاب الصلوة۔ باب ماجاء من جهر بها] جس کا مطلب یہ ہوا کہ ﴿بسم الله الرحمٰن الرحيم﴾ سورتوں کی تعداد کے برابر (ماسوائے سورۃ التوبہ) یعنی 113 بار نازل ہوئی۔
سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ آپ پر ایک غنودگی سی طاری ہوئی۔ پھر آپ نے مسکراتے ہوئے اپنا سر اٹھایا۔ ہم نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کس بات پر مسکرا رہے ہیں؟ فرمایا: مجھ پر ابھی ابھی ایک سورت نازل ہوئی ہے۔ چنانچہ آپ نے ﴿بسم الله الرحمٰن الرحيم﴾ پڑھ کر ﴿اِنَّآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ﴾ پوری سورت پڑھی۔ [مسلم: كتاب الصلوة، باب حجة من قال البسملة آية من اول كل سورة سواء براءة]
امام مسلم اس حدیث کو جس باب کے تحت لائے ہیں اس کے عنوان کا ترجمہ یہ ہے ”سورۃ توبہ کے ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم﴾ کو ہر سورت کا جز کہنے والوں کی دلیل“ اس دلیل کی رو سے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم صرف سورۃ فاتحہ کا ہی جز نہیں بلکہ ہر سورت کا جز قرار پاتی ہے۔
نیز یہ آیت سورۃ نمل کی ایک مستقل آیت بھی ہے۔ [27: 30] علاوہ ازیں قرآن کی تصریح کے مطابق سورۃ فاتحہ کی سات آیات ہیں۔ اور یہ سات آیات تب ہی بنتی ہیں جب ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم﴾ کو سورۃ فاتحہ کی پہلی آیت شمار کیا جائے۔ یہ سب وجوہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس آیت کی قرأت جہری ہونا چاہئے۔ اس سلسلے میں متضاد روایات ملتی ہیں سب سے زیادہ مشہور سیدنا انسؓ سے مروی وہ حدیث ہے جسے بخاری، مسلم اور نسائی وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکرؓ اور سیدنا عمرؓ ﴿اَلْحَمْدُ الله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ﴾ سے نماز شروع کیا کرتے تھے اور مسلم میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ: ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم﴾ نہ قرأت کی ابتدا میں پڑھتے تھے اور نہ آخر میں“
اب یہ تو واضح ہے کہ مسلم میں مروی جملہ میں فی نفسہ مبالغہ میں زیادتی ہے ورنہ سورۃ فاتحہ کے آخر میں ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم﴾ ہے کب؟ اور جو لوگ بسم اللہ بالجہر پڑھنے کے قائل ہیں وہ اس سے یہ مراد لیتے ہیں کہ آپ سورۃ فاتحہ کے بعد جو سورۃ پڑھتے تھے اس کی ابتدا میں بھی بسم اللہ بلند آواز سے نہیں پڑھتے تھے۔
اب اس کے برعکس نسائی کی درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے:
نعیم مجمر کہتے ہیں کہ میں نے ابو ہریرہؓ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم﴾ پڑھی۔ پھر ام القرآن پڑھی تا آنکہ وہ
﴿وَلاَالضَّالِيْنَ﴾ تک پہنچے تو آمین کہا۔ پھر جب بھی سجدہ کرتے یا بیٹھنے کے بعد کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے۔ پھر جب سلام پھیرتے تو کہتے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تم سب سے زیادہ میری نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہے۔ [نسائي۔ كتاب الصلوة۔ باب قراءة بسم الله الرحمٰن الرحيم]
صاحب سبل السلام کہتے ہیں کہ یہ سب سے زیادہ صحیح حدیث ہے اور یہ اصل کی تائید کرتی ہے جو یہ ہے کہ قرأت میں جو حکم فاتحہ کا ہے وہی بسملہ کا ہے۔ خواہ یہ جہراً ہو یا سراً ہو۔ کیونکہ ابو ہریرہؓ کے اس قول کہ ”میری نماز تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہے“ سے واضح ہے کہ آپ بسملہ کی قرأت فرماتے تھے۔ اگرچہ اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے ابو ہریرہؓ کی مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے اکثر افعال و اقوال سے ہو مگر یہ ظاہر کے خلاف ہے اور کسی صحابی سے یہ بعید ہے کہ اس نے اپنی نماز میں کوئی ایسا نیا کام کیا ہو جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کیا ہو۔ [سبل السلام مطبوعه دار نشر الكتب الاسلاميه۔ شيش محل روڈ لاهور۔ الجزء الاول ص 173]
نیز صاحب سبل السلام کہتے ہیں کہ: ”اس مسئلہ میں علماء نے لمبی چوڑی بحث کی ہے اور بعض نامور شخصیات نے کتابیں بھی تالیف کی ہیں۔ اور یہ وضاحت کی ہے کہ سیدنا انسؓ کی مندرجہ بالا حدیث مضطرب ہے۔ ابن عبد البر ’الاستذکار‘ میں کہتے ہیں کہ سیدنا انسؓ کی تمام روایات کی تحقیق کا ماحصل یہ ہے کہ اس اضطراب کی وجہ سے کسی بھی فقیہ کے لیے اس سے حجت قائم نہیں ہوتی، نہ اس کے لیے جو بسملہ کی قرأت کرتے ہیں اور نہ ان کے لیے جو نہیں کرتے۔ اس کے متعلق سیدنا انسؓ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ ”میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور بھول جاتا ہوں، لہٰذا اس میں کوئی حجت نہیں“ [ايضاً، ص 172]
بعض علماء نہ اس آیت کی جہری قرأت کے قائل ہیں اور نہ ہی اس آیت کو سورۃ فاتحہ کا جز قرار دیتے ہیں اور سات آیات کی تعداد پورا کرنے کے لیے ﴿صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِم﴾ کے آگے 5 کا ہندسہ لکھ دیتے ہیں۔ جو کوفیوں کے نزدیک آیت کی علامت ہے لیکن یہ متفق علیہ آیت نہیں ہوتی۔ پھر لطف یہ کہ اس 5 پر لا بھی لکھ دیا گیا ہے۔ یعنی یہاں وقف ممنوع ہے اور یہ تکلف صرف اس لیے کیا گیا کہ بسم اللہ کو نہ فاتحہ کا جزء سمجھا جائے اور نہ اسے جہری نمازوں میں بلند آواز سے پڑھا جائے۔
مجمع ملک فہد نے عرب ممالک کے لیے جو قرآن طبع کیا ہے ہمارے خیال میں اس میں معتدل رویہ اختیار کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ میں تو اس آیت کو سورۃ کا جزء قرار دیا گیا ہے اور اس پر ایک کا نمبر لکھا گیا ہے۔ ﴿اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ﴾ کے آگے کچھ نہیں لکھا۔ البتہ باقی سورتوں میں اس آیت کو سورۃ کا جز قرار نہیں دیا گیا جس سے از خود یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے کہ سورۃ فاتحہ سے پہلے یہ آیت جہری نمازوں میں جہر سے پڑھنا بہتر ہے اور دوسری سورتوں میں سر سے۔
[3] رحمٰن اور رحیم دونوں مبالغہ کے صیغے اور اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام اور رحم سے مشتق ہیں۔ لیکن لفظ رحمان میں رحیم کی نسبت اتنا زیادہ مبالغہ ہے کہ رحمٰن کا لفظ دوسرے نمبر پر اللہ کے ذاتی نام کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کی صراحت قرآن کی بے شمار آیات میں مذکور ہے۔ مثلاً:
﴿ الرَّحْمَٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآن﴾ [55۔ 1]
﴿ اَلرحمٰن عَلَي الْعَرْشِ اسْتَويٰ﴾ [5: 20]
﴿قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنيٰ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا﴾ [17: 110]
اس لحاظ سے اللہ کی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی سب صفات پائی جا سکتی ہیں سوائے رحمٰن کے۔ ایک انسان رحیم، رؤف، کریم وغیرہ سب کچھ ہو سکتا ہے مگر رحمٰن اللہ کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث صحیح میں مذکور ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ دو نام پسند ہیں ایک عبد اللہ، دوسرا عبد الرحمٰن۔ [ترمذي: ابواب الادب، باب ماجاء ما يستحب من الاسماء] اکثر علماء نے رحمٰن اور رحیم کے فرق کو رحمت کی کیفیت اور کمیت کی کمی بیشی کی مختلف صورتوں سے واضح کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ اور ایک عام قول یہ ہے «رحمٰن فى الدنيا رحيم فى الاخرة» یعنی اللہ تعالیٰ دنیا میں رحمان ہے جو مسلمان، کافر، مشرک سب پر ایک جیسی رحمتیں نازل فرماتا ہے اور رحیم آخرت میں ہے۔ جو صرف ایمانداروں پر رحمتیں نازل فرمائے گا۔ اس کی ایک توجیہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ صفت رحمانیت کا تقاضا ایسی نعمتیں اور رحمتیں ہیں جو حیات کے وجود اور بقا کے لیے ضروری ہیں۔ اور اس میں صرف انسان ہی نہیں جملہ جاندار مخلوقات شامل ہیں۔ جیسے سورج، چاند، نور و ظلمت، ہوا، پانی اور زمین کی تخلیق جو زندگی کی جملہ ضروریات کی کفیل ہے نیز ماں کی مامتا اور فطری محبت کے تقاضے بھی اس میں شامل ہیں اور رحیم سے مراد وہ رحمت ہے کہ کسی مصیبت یا ضرورت کے وقت پہنچ کر سہارا دیتی ہے۔ «والله اعلم بالصواب»
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
بسم اللہ سورہ نمل کی ایک آیت یا؟ ٭٭
صحابہ رضی اللہ عنہم نے اللہ کی کتاب کو اسی یعنی «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» سے شروع کیا۔ علماء کا اتفاق ہے کہ آیت «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» سورۃ نمل کی ایک آیت ہے۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ وہ ہر سورت کے شروع میں خود مستقل آیت ہے؟ یا ہر سورت کی ایک مستقل آیت ہے جو اس کے شروع میں لکھی گئی ہے؟ یا ہر سورت کی آیت کا جزو ہے؟ یا صرف سورۃ فاتحہ ہی کی آیت ہے اور دوسری سورتوں کی نہیں؟ صرف ایک سورت کو دوسری سورت سے علیحدہ کرنے کے لیے لکھی گئی ہے؟ اور خود آیت نہیں ہے؟ علماء سلف اور خلف کا ان آرا میں اختلاف چلا آتا ہے ان کی تفصیل اپنی جگہ پر موجود ہے۔
سنن ابوداؤد میں صحیح سند کے ساتھ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورتوں کی جدائی نہیں جانتے تھے جب تک آپ پر «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» نازل نہیں ہوتی تھی} ۱؎۔ [سنن ابوداود:788، قال الشيخ الألباني:صحیح] یہ حدیث مستدرک حاکم میں بھی ہے ۲؎ [مستدرک حاکم:231/1] ایک مرسل حدیث میں یہ روایت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے۔
چنانچہ صحیح ابن خزیمہ میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «بِسْمِ اللَّـهِ» کو سورۃ فاتحہ کے شروع میں نماز میں پڑھا اور اسے ایک آیت شمار کیا۔} ۳؎ [ابن خزیمہ:493:ضعیف] لیکن اس کے ایک راوی عمر بن ہارون بلخی ضعیف ہیں اسی مفہوم کی ایک روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ۴؎۔ [دارقطنی:312/1:ضعیف]
سنن ابوداؤد میں صحیح سند کے ساتھ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورتوں کی جدائی نہیں جانتے تھے جب تک آپ پر «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» نازل نہیں ہوتی تھی} ۱؎۔ [سنن ابوداود:788، قال الشيخ الألباني:صحیح] یہ حدیث مستدرک حاکم میں بھی ہے ۲؎ [مستدرک حاکم:231/1] ایک مرسل حدیث میں یہ روایت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے۔
چنانچہ صحیح ابن خزیمہ میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «بِسْمِ اللَّـهِ» کو سورۃ فاتحہ کے شروع میں نماز میں پڑھا اور اسے ایک آیت شمار کیا۔} ۳؎ [ابن خزیمہ:493:ضعیف] لیکن اس کے ایک راوی عمر بن ہارون بلخی ضعیف ہیں اسی مفہوم کی ایک روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ۴؎۔ [دارقطنی:312/1:ضعیف]
سیدنا علی، سیدنا ابن عباس، سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا عبداللہ بن زبیر، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم، عطا، طاؤس، سعید بن جبیر، مکحول اور زہری رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے کہ «بِسْمِ اللَّـهِ» ہر سورت کے آغاز میں ایک مستقل آیت ہے سوائے سورۃ برات کے۔ ان صحابہ اور تابعین کے علاوہ عبداللہ بن مبارک، امام شافعی، امام احمد اور اسحٰق بن راہویہ اور ابوعبیدہ قاسم بن سلام رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔
البتہ امام مالک رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں۔ کہ «بِسْمِ اللَّـهِ» الخ نہ تو سورۃ فاتحہ کی آیت ہے نہ کسی اور سورت کی۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول یہ بھی ہے کہ «بِسْمِ اللَّـهِ» الخ سورۃ فاتحہ کی تو ایک آیت ہے لیکن کسی اور سورۃ کی نہیں۔ ان کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ہر سورت کے اول کی آیت کا حصہ ہے لیکن یہ دونوں قول غریب ہیں۔ داؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ ہر سورت کے اول میں «بِسْمِ اللَّـهِ» ایک مستقل آیت ہے سورت میں داخل نہیں۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بھی یہی روایت ہے ۱؎ اور ابوبکر رازی رحمہ اللہ نے ابوحسن کرخی رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب بیان کیا ہے جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بڑے پایہ کے ساتھی تھے۔
یہ تو تھی بحث «بِسْمِ اللَّـهِ» کے سورۃ فاتحہ کی آیت ہونے یا نہ ہونے کی۔
(صحیح مذہب یہی معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کہیں قرآن پاک میں یہ آیت شریفہ ہے وہاں مستقل آیت ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» مترجم)
البتہ امام مالک رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں۔ کہ «بِسْمِ اللَّـهِ» الخ نہ تو سورۃ فاتحہ کی آیت ہے نہ کسی اور سورت کی۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول یہ بھی ہے کہ «بِسْمِ اللَّـهِ» الخ سورۃ فاتحہ کی تو ایک آیت ہے لیکن کسی اور سورۃ کی نہیں۔ ان کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ہر سورت کے اول کی آیت کا حصہ ہے لیکن یہ دونوں قول غریب ہیں۔ داؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ ہر سورت کے اول میں «بِسْمِ اللَّـهِ» ایک مستقل آیت ہے سورت میں داخل نہیں۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بھی یہی روایت ہے ۱؎ اور ابوبکر رازی رحمہ اللہ نے ابوحسن کرخی رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب بیان کیا ہے جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بڑے پایہ کے ساتھی تھے۔
یہ تو تھی بحث «بِسْمِ اللَّـهِ» کے سورۃ فاتحہ کی آیت ہونے یا نہ ہونے کی۔
(صحیح مذہب یہی معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کہیں قرآن پاک میں یہ آیت شریفہ ہے وہاں مستقل آیت ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» مترجم)
بسم اللہ با آواز بلند یا دبی آواز سے؟ ٭٭
اب اس میں بھی اختلاف ہے کہ آیا اسے با آواز بلند پڑھنا چاہیئے یا پست آواز سے؟ جو لوگ اسے سورۃ فاتحہ کی آیت نہیں کہتے وہ تو اسے بلند آواز سے پڑھنے کے بھی قائل نہیں۔ اسی طرح جو لوگ اسے سورۃ فاتحہ سے الگ ایک آیت مانتے ہیں وہ بھی اس کے پست آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں۔ رہے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہ ہر سورت کے اول سے ہے۔ ان میں اختلاف ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا تو مذہب ہے کہ سورۃ فاتحہ اور ہر سورت سے پہلے اسے اونچی آواز سے پڑھنا چاہیئے۔ صحابہ، تابعین اور مسلمانوں کے مقدم و مؤخر امامین کی جماعتوں کا یہی مذہب ہے صحابہ میں سے اسے اونچی آواز سے پڑھنے والے سیدنا ابوہریرہ، سیدنا ابن عمر، سیدنا ابن عباس، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ بیہقی رحمہ اللہ اور ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے سیدنا عمر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے بھی روایت کیا ۱؎ اور سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم سے بھی غریب سند سے امام خطیب بغدادی نے نقل کیا ہے۔
تابعین میں سے سعید بن جبیر، عکرمہ، ابوقلابہ، زہری، علی بن حسن ان کے لڑکے محمد، سعید بن مسیب، عطاء، طاؤس، مجاہد، سالم، محمد بن کعب قرظی، عبید، ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم، ابووائل ابن سیرین، محمد بن منکدر، علی بن عبداللہ بن عباس ان کے صاحبزادے محمد نافع ابن عمر کے مولیٰ زید بن اسلم، عمر بن عبدالعزیز، ارزق بن قیس، حبیب بن ابی ثابت، ابوشعثا، مکحول، عبداللہ بن معقل بن مقرن اور بروایت بیہقی، عبداللہ بن صفوان، محمد بن حنفیہ اور بروایت ابن عبدالبر عمرو بن دینار رحمہم اللہ سب کے سب ان نمازوں میں جن میں قرأت اونچی آواز سے پڑھی جاتی ہے «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» بھی بلند آواز سے پڑھتے تھے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا تو مذہب ہے کہ سورۃ فاتحہ اور ہر سورت سے پہلے اسے اونچی آواز سے پڑھنا چاہیئے۔ صحابہ، تابعین اور مسلمانوں کے مقدم و مؤخر امامین کی جماعتوں کا یہی مذہب ہے صحابہ میں سے اسے اونچی آواز سے پڑھنے والے سیدنا ابوہریرہ، سیدنا ابن عمر، سیدنا ابن عباس، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ بیہقی رحمہ اللہ اور ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے سیدنا عمر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے بھی روایت کیا ۱؎ اور سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم سے بھی غریب سند سے امام خطیب بغدادی نے نقل کیا ہے۔
تابعین میں سے سعید بن جبیر، عکرمہ، ابوقلابہ، زہری، علی بن حسن ان کے لڑکے محمد، سعید بن مسیب، عطاء، طاؤس، مجاہد، سالم، محمد بن کعب قرظی، عبید، ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم، ابووائل ابن سیرین، محمد بن منکدر، علی بن عبداللہ بن عباس ان کے صاحبزادے محمد نافع ابن عمر کے مولیٰ زید بن اسلم، عمر بن عبدالعزیز، ارزق بن قیس، حبیب بن ابی ثابت، ابوشعثا، مکحول، عبداللہ بن معقل بن مقرن اور بروایت بیہقی، عبداللہ بن صفوان، محمد بن حنفیہ اور بروایت ابن عبدالبر عمرو بن دینار رحمہم اللہ سب کے سب ان نمازوں میں جن میں قرأت اونچی آواز سے پڑھی جاتی ہے «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» بھی بلند آواز سے پڑھتے تھے۔
ایک دلیل تو اس کی یہ ہے کہ جب یہ آیت سورۃ فاتحہ میں سے ہے تو پھر پوری سورت کی طرح یہ بھی اونچی آواز سے ہی پڑھنی چاہیئے۔ علاوہ ازیں سنن نسائی، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان، مستدرک حاکم میں مروی ہے کہ {سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی اور قرأت میں اونچی آواز سے «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» بھی پڑھی اور فارغ ہونے کے بعد فرمایا میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں مشابہ ہوں} ۱؎۔ [سنن نسائی:906،تخریج دارالدعوہ:صحیح] اس حدیث کو دارقطنی، خطیب اور بیہقی وغیرہ نے صحیح کہا ہے ۲؎۔
ابوداؤد اور ترمذی میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» سے شروع کیا کرتے تھے} ۳؎۔ [سنن ترمذي:245،قال الشيخ الألباني:ضعيف الإسناد] امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث ایسی زیادہ صحیح نہیں۔
مستدرک حاکم میں انہی سے روایت ہے کہ {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» کو اونچی آواز سے پڑھتے تھے} ۴؎۔ [مستدرک حاکم:208/1:ضعیف جدا] امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
ابوداؤد اور ترمذی میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» سے شروع کیا کرتے تھے} ۳؎۔ [سنن ترمذي:245،قال الشيخ الألباني:ضعيف الإسناد] امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث ایسی زیادہ صحیح نہیں۔
مستدرک حاکم میں انہی سے روایت ہے کہ {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» کو اونچی آواز سے پڑھتے تھے} ۴؎۔ [مستدرک حاکم:208/1:ضعیف جدا] امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز قرات ٭٭
صحیح بخاری میں ہے کہ {انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کس طرح تھی۔ فرمایا کہ ہر کھڑے لفظ کو آپ لمبا کر کے پڑھتے تھے پھر «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پڑھ کر سنائی «بِسْمِ اللَّـهِ» پر مد کیا «الرَّحْمَـٰنِ» پر مد کیا «الرَّحِيمِ» پر مد کیا} ۱؎۔ [صحیح بخاری:5046]
مسند احمد، سنن ابوداؤد، صحیح ابن خزیمہ اور مستدرک حاکم میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہر آیت پر رکتے تھے اور آپ کی قرأت الگ الگ ہوتی تھی جیسے «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پھر ٹھہر کر «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» پھر ٹھہر کر «لرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پھر ٹھہر کر «مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ» } ۲؎۔ [سنن ترمذي:2927،قال الشيخ الألباني:صحيح] دارقطنی اسے صحیح بتاتے ہیں ۳؎۔
امام شافعی، امام حاکم نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ {معاویہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں نماز پڑھائی اور «بِسْمِ اللَّـهِ» نہ پڑھی تو جو مہاجر اصحاب رضی اللہ عنہم وہاں موجود تھے انہوں نے ٹوکا۔ چنانچہ پھر وہ جب نماز پڑھانے کو کھڑے ہوئے تو «بِسْمِ اللَّـهِ» پڑھی} ۴؎۔ [مسند شافعی:80/1:حسن]
غالباً اتنی ہی احادیث و آثار اس مذہب کی حجت کے لیے کافی ہیں۔ باقی رہے اس کے خلاف آثار، روایات، ان کی سندیں، ان کی تعلیل، ان کا ضعف اور ان کی تقاریر وغیرہ ان کا دوسرے مقام پر ذکر اور ہے۔
دوسرا مذہب یہ ہے کہ نماز میں «بِسْمِ اللَّـهِ» کو زور سے نہ پڑھنا چاہیئے۔ خلفاء اربعہ اور عبداللہ بن معقل رضی اللہ عنہم، تابعین اور بعد والوں کی جماعتوں سے یہ ثابت ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام ثوری، امام احمد بن حنبل کا بھی یہی مذہب ہے۔
مسند احمد، سنن ابوداؤد، صحیح ابن خزیمہ اور مستدرک حاکم میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہر آیت پر رکتے تھے اور آپ کی قرأت الگ الگ ہوتی تھی جیسے «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پھر ٹھہر کر «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» پھر ٹھہر کر «لرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پھر ٹھہر کر «مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ» } ۲؎۔ [سنن ترمذي:2927،قال الشيخ الألباني:صحيح] دارقطنی اسے صحیح بتاتے ہیں ۳؎۔
امام شافعی، امام حاکم نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ {معاویہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں نماز پڑھائی اور «بِسْمِ اللَّـهِ» نہ پڑھی تو جو مہاجر اصحاب رضی اللہ عنہم وہاں موجود تھے انہوں نے ٹوکا۔ چنانچہ پھر وہ جب نماز پڑھانے کو کھڑے ہوئے تو «بِسْمِ اللَّـهِ» پڑھی} ۴؎۔ [مسند شافعی:80/1:حسن]
غالباً اتنی ہی احادیث و آثار اس مذہب کی حجت کے لیے کافی ہیں۔ باقی رہے اس کے خلاف آثار، روایات، ان کی سندیں، ان کی تعلیل، ان کا ضعف اور ان کی تقاریر وغیرہ ان کا دوسرے مقام پر ذکر اور ہے۔
دوسرا مذہب یہ ہے کہ نماز میں «بِسْمِ اللَّـهِ» کو زور سے نہ پڑھنا چاہیئے۔ خلفاء اربعہ اور عبداللہ بن معقل رضی اللہ عنہم، تابعین اور بعد والوں کی جماعتوں سے یہ ثابت ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام ثوری، امام احمد بن حنبل کا بھی یہی مذہب ہے۔
امام مالک کا مذہب ہے کہ سرے سے «بِسْمِ اللَّـهِ» پڑھے ہی نہیں نہ تو آہستہ نہ بلند ۱؎۔ ان کی دلیل ایک تو صحیح مسلم والی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو تکبیر سے اور قرأت کو «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» سے ہی شروع کیا کرتے تھے} ۲؎۔ [صحیح مسلم:498]
صحیحین میں ہے انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں {میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی یہ سب «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» سے ہی شروع کرتے تھے} ۳؎۔ [صحیح بخاری:743]
صحیح مسلم میں ہے کہ { «بِسْمِ اللَّـهِ» نہیں پڑھتے تھے نہ تو قرأت کے شروع میں نہ اس قرأت کے آخر میں} ۴؎۔ [صحیح مسلم:399]
سنن میں عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے ۵؎۔ [سنن ترمذي:244،قال الشيخ الألباني: ضعيف] یہ ہے دلیل ان ائمہ کے «بِسْمِ اللَّـهِ» آہستہ پڑھنے کی۔
یہ خیال رہے کہ یہ کوئی بڑا اختلاف نہیں ہر ایک فریق دوسرے کی نماز کی صحت کا قائل ہے۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه» ( «بِسْمِ اللَّـهِ» کا مطلق نہ پڑھنا تو ٹھیک نہیں۔ بلند و پست پڑھنے کی احادیث میں اس طرح تطبیق ہو سکتی ہے کہ دونوں جائز ہیں۔ گو پست پڑھنے کی احادیث قدرے زور دار ہیں «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ مترجم)
صحیحین میں ہے انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں {میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی یہ سب «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» سے ہی شروع کرتے تھے} ۳؎۔ [صحیح بخاری:743]
صحیح مسلم میں ہے کہ { «بِسْمِ اللَّـهِ» نہیں پڑھتے تھے نہ تو قرأت کے شروع میں نہ اس قرأت کے آخر میں} ۴؎۔ [صحیح مسلم:399]
سنن میں عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے ۵؎۔ [سنن ترمذي:244،قال الشيخ الألباني: ضعيف] یہ ہے دلیل ان ائمہ کے «بِسْمِ اللَّـهِ» آہستہ پڑھنے کی۔
یہ خیال رہے کہ یہ کوئی بڑا اختلاف نہیں ہر ایک فریق دوسرے کی نماز کی صحت کا قائل ہے۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه» ( «بِسْمِ اللَّـهِ» کا مطلق نہ پڑھنا تو ٹھیک نہیں۔ بلند و پست پڑھنے کی احادیث میں اس طرح تطبیق ہو سکتی ہے کہ دونوں جائز ہیں۔ گو پست پڑھنے کی احادیث قدرے زور دار ہیں «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ مترجم)
فصل بسم اللہ کی فضیلت کا بیان ٭٭
تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے کہ {عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے «بِسْمِ اللَّـهِ» کی نسبت سوال کیا آپ نے فرمایا: ”یہ اللہ تعالیٰ کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بڑے ناموں اور اس میں اس قدر نزدیکی ہے جیسے آنکھ کی سیاہی اور سفیدی میں“} ۱؎۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:21/1:موضوع باطل]
ابن مردویہ میں بھی اسی طرح کی روایت ہے۔ اور یہ روایت بھی ابن مردویہ میں ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عیسیٰ علیہ السلام کو ان کی والدہ نے معلم کے پاس بٹھایا تو اس نے کہا لکھئے «بِسْمِ اللَّـهِ» عیسیٰ علیہ السلام نے کہا «بِسْمِ اللَّـهِ» کیا ہے؟ استاد نے جواب دیا میں نہیں جانتا۔ آپ نے فرمایا: «ب» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «بہا» یعنی بلندی ہے اور «س» سے مراد اس کی «سنا» یعنی نور اور روشنی ہے اور «م» سے مراد اس کی مملکت یعنی بادشاہی ہے اور «الله» کہتے ہیں معبودوں کے معبود اور اور «رحمن» کہتے ہیں دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والے کو «رحیم» کہتے ہیں۔ آخرت میں کرم و رحم کرنے والے کو“} ۲؎۔ [الکامل لابن عدی:303/1:موضوع باطل]
ابن جریر میں بھی یہی روایت ہے ۳؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:140:موضوع باطل] لیکن سند کی رو سے یہ بے حد غریب ہے، ممکن ہے کسی صحابی وغیرہ سے مروی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کی روایتوں میں سے ہو۔ مرفوع حدیث نہ ہو «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
ابن مردویہ میں بھی اسی طرح کی روایت ہے۔ اور یہ روایت بھی ابن مردویہ میں ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عیسیٰ علیہ السلام کو ان کی والدہ نے معلم کے پاس بٹھایا تو اس نے کہا لکھئے «بِسْمِ اللَّـهِ» عیسیٰ علیہ السلام نے کہا «بِسْمِ اللَّـهِ» کیا ہے؟ استاد نے جواب دیا میں نہیں جانتا۔ آپ نے فرمایا: «ب» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «بہا» یعنی بلندی ہے اور «س» سے مراد اس کی «سنا» یعنی نور اور روشنی ہے اور «م» سے مراد اس کی مملکت یعنی بادشاہی ہے اور «الله» کہتے ہیں معبودوں کے معبود اور اور «رحمن» کہتے ہیں دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والے کو «رحیم» کہتے ہیں۔ آخرت میں کرم و رحم کرنے والے کو“} ۲؎۔ [الکامل لابن عدی:303/1:موضوع باطل]
ابن جریر میں بھی یہی روایت ہے ۳؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:140:موضوع باطل] لیکن سند کی رو سے یہ بے حد غریب ہے، ممکن ہے کسی صحابی وغیرہ سے مروی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کی روایتوں میں سے ہو۔ مرفوع حدیث نہ ہو «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
ابن مردویہ میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر ایک ایسی آیت اتری ہے جو کسی اور نبی پر سوائے سلیمان علیہ السلام کے نہیں اتری۔ وہ آیت «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» ہے۔
جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب یہ آیت «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» اتری بادل مشرق کی طرف چھٹ گئے۔ ہوائیں ساکن ہو گئیں۔ سمندر ٹھہر گیا جانوروں نے کان لگا لیے۔ شیاطین پر آسمان سے شعلے گرے اور پروردگار عالم نے اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر فرمایا کہ جس چیز پر میرا یہ نام لیا جائے گا اس میں ضرور برکت ہو گی۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جہنم کے انیس داروغوں سے جو بچنا چاہے وہ «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پڑھے، اس کے بھی انیس حروف ہیں، ہر حرف ہر فرشتے سے بچاؤ بن جائے گا۔ اسے ابن عطیہ نے بیان کیا ہے۔
اس کی تائید ایک اور حدیث سے بھی کی ہے جس میں {آپ نے فرمایا:”میں نے تیس سے اوپر فرشتوں کو دیکھا کہ وہ جلدی کر رہے تھے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا تھا جب ایک شخص نے «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ» پڑھا تھا“} ۱؎۔ [صحیح بخاری:799] اس میں بھی تیس سے اوپر حروف ہیں اتنے ہی فرشتے اترے اسی طرح «بِسْمِ اللَّـهِ» میں بھی انیس حروف ہیں اور وہاں فرشتوں کی تعداد بھی انیس ہے وغیرہ وغیرہ۔
جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب یہ آیت «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» اتری بادل مشرق کی طرف چھٹ گئے۔ ہوائیں ساکن ہو گئیں۔ سمندر ٹھہر گیا جانوروں نے کان لگا لیے۔ شیاطین پر آسمان سے شعلے گرے اور پروردگار عالم نے اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر فرمایا کہ جس چیز پر میرا یہ نام لیا جائے گا اس میں ضرور برکت ہو گی۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جہنم کے انیس داروغوں سے جو بچنا چاہے وہ «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پڑھے، اس کے بھی انیس حروف ہیں، ہر حرف ہر فرشتے سے بچاؤ بن جائے گا۔ اسے ابن عطیہ نے بیان کیا ہے۔
اس کی تائید ایک اور حدیث سے بھی کی ہے جس میں {آپ نے فرمایا:”میں نے تیس سے اوپر فرشتوں کو دیکھا کہ وہ جلدی کر رہے تھے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا تھا جب ایک شخص نے «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ» پڑھا تھا“} ۱؎۔ [صحیح بخاری:799] اس میں بھی تیس سے اوپر حروف ہیں اتنے ہی فرشتے اترے اسی طرح «بِسْمِ اللَّـهِ» میں بھی انیس حروف ہیں اور وہاں فرشتوں کی تعداد بھی انیس ہے وغیرہ وغیرہ۔
مسند احمد میں ہے {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جو صحابی سوار تھے، ان کا بیان ہے کہ آپ کی اونٹنی ذرا پھسلی تو میں نے کہا شیطان کا ستیاناس ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ نہ کہو اس سے شیطان پھولتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ گویا اس نے اپنی قوت سے گرایا۔ ہاں «بِسْمِ اللَّـهِ» کہنے سے وہ مکھی کی طرح ذلیل و پست ہو جاتا ہے“} ۱؎۔ [سنن ابوداود:4982،قال الشيخ الألباني:صحيح]
نسائی نے اپنی کتاب «عمل الیوم واللیلہ» میں اور ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں بھی اسے نقل کیا ہے اور صحابی کا نام اسامہ بن عمیر بتایا ہے اس میں یہ لکھا ہے کہ { «بِسْمِ اللَّـهِ» کہہ کر «بِسْمِ اللَّـهِ» کی برکت سے شیطان ذلیل ہو گا} ۲؎۔ [النسائي في عمل اليوم والليه:559:صحيح بالشواهد]
اسی لیے ہر کام اور ہر بات کے شروع میں «بِسْمِ اللَّـهِ» کہہ لینا مستحب ہے۔
خطبہ کے شروع میں بھی «بِسْمِ اللَّـهِ» کہنی چاہیئے۔ حدیث میں ہے کہ {جس کام کو «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» سے شروع نہ کیا جائے وہ بے برکتا ہوتا ہے} ۳؎۔ [سنن ابن ماجه:1894،قال الشيخ الألباني:ضعيف]
نسائی نے اپنی کتاب «عمل الیوم واللیلہ» میں اور ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں بھی اسے نقل کیا ہے اور صحابی کا نام اسامہ بن عمیر بتایا ہے اس میں یہ لکھا ہے کہ { «بِسْمِ اللَّـهِ» کہہ کر «بِسْمِ اللَّـهِ» کی برکت سے شیطان ذلیل ہو گا} ۲؎۔ [النسائي في عمل اليوم والليه:559:صحيح بالشواهد]
اسی لیے ہر کام اور ہر بات کے شروع میں «بِسْمِ اللَّـهِ» کہہ لینا مستحب ہے۔
خطبہ کے شروع میں بھی «بِسْمِ اللَّـهِ» کہنی چاہیئے۔ حدیث میں ہے کہ {جس کام کو «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» سے شروع نہ کیا جائے وہ بے برکتا ہوتا ہے} ۳؎۔ [سنن ابن ماجه:1894،قال الشيخ الألباني:ضعيف]
بیت الخلاء (پاخانہ) میں جانے کے وقت «بِسْمِ اللَّـهِ» پڑھ لے ۱؎۔ [سنن ترمذي:606،قال الشيخ الألباني: صحيح] حدیث میں یہ بھی ہے کہ وضو کے وقت بھی پڑھ لے۔
مسند احمد اور سنن میں ابوہریرہ، سعید بن زید اور ابوسعید رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص وضو میں اللہ کا نام نہ لے اس کا وضو نہیں ہوتا“} ۲؎۔ [سنن ابن ماجہ:399،قال الشيخ الألباني:حسن] یہ حدیث حسن ہے بعض علماء تو وضو کے وقت آغاز میں «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پڑھنا واجب بتاتے ہیں۔ بعض مطلق وجوب کے قائل ہیں۔
مسند احمد اور سنن میں ابوہریرہ، سعید بن زید اور ابوسعید رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص وضو میں اللہ کا نام نہ لے اس کا وضو نہیں ہوتا“} ۲؎۔ [سنن ابن ماجہ:399،قال الشيخ الألباني:حسن] یہ حدیث حسن ہے بعض علماء تو وضو کے وقت آغاز میں «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پڑھنا واجب بتاتے ہیں۔ بعض مطلق وجوب کے قائل ہیں۔
جانور کو ذبح کرتے وقت بھی اس کا پڑھنا مستحب ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور ایک جماعت کا یہی خیال ہے۔ بعض نے یاد آنے کے وقت اور بعض نے مطلقاً اسے واجب کہا ہے اس کا تفصیلی بیان عنقریب آئے گا «ان شاءاللہ تعالیٰ» ۔
امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اس آیت کی فضیلت میں بہت سی احادیث نقل کی ہیں۔ ایک میں ہے کہ ”جب تو اپنی بیوی کے پاس جائے اور «بِسْمِ اللَّـهِ» پڑھ لے اور اللہ کوئی اولاد بخشے تو اس کے اپنے اور اس کی اولاد کے سانسوں کی گنتی کے برابر تیرے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی جائیں گی۔“ لیکن یہ روایت بالکل بے اصل ہے، میں نے تو یہ کہیں کسی معتبر کتاب میں نہیں پائی۔ کھاتے وقت بھی «بِسْمِ اللَّـهِ» پڑھنی مستحب ہے۔
صحیح مسلم (و بخاری) میں ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”(جو آپ کی پرورش میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے اگلے خاوند سے تھے) کہ «بِسْمِ اللَّـهِ» کہو اور اپنے داہنے ہاتھ سے کھایا کرو اور اپنے سامنے سے نوالہ اٹھایا کرو“} ۱؎۔ [صحیح بخاری:5376] بعض علماء اس وقت بھی «بِسْمِ اللَّـهِ» کا کہنا واجب بتلاتے ہیں۔
امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اس آیت کی فضیلت میں بہت سی احادیث نقل کی ہیں۔ ایک میں ہے کہ ”جب تو اپنی بیوی کے پاس جائے اور «بِسْمِ اللَّـهِ» پڑھ لے اور اللہ کوئی اولاد بخشے تو اس کے اپنے اور اس کی اولاد کے سانسوں کی گنتی کے برابر تیرے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی جائیں گی۔“ لیکن یہ روایت بالکل بے اصل ہے، میں نے تو یہ کہیں کسی معتبر کتاب میں نہیں پائی۔ کھاتے وقت بھی «بِسْمِ اللَّـهِ» پڑھنی مستحب ہے۔
صحیح مسلم (و بخاری) میں ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”(جو آپ کی پرورش میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے اگلے خاوند سے تھے) کہ «بِسْمِ اللَّـهِ» کہو اور اپنے داہنے ہاتھ سے کھایا کرو اور اپنے سامنے سے نوالہ اٹھایا کرو“} ۱؎۔ [صحیح بخاری:5376] بعض علماء اس وقت بھی «بِسْمِ اللَّـهِ» کا کہنا واجب بتلاتے ہیں۔
بیوی سے ملنے (جماع) کے وقت بھی «بِسْمِ اللَّـهِ» پڑھنی چاہیئے۔ صحیحین میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے ملنے کا ارادہ کرے تو یہ پڑھے «بِاسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا» یعنی اے اللہ ہمیں اور جو ہمیں تو دے اسے شیطان سے بچا۔“ فرماتے ہیں کہ اگر اس جماع سے حمل ٹھہر جائے تو اس بچہ کو شیطان کبھی نقصان نہ پہنچا سکے گا} ۱؎۔ [صحیح بخاری:141]
یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ «بِسْمِ اللَّـهِ» کی «ب» کا تعلق کس سے ہے نحویوں کے اس میں دو قول ہیں اور دونوں ہی تقریباً ہم خیال ہیں۔ بعض اسم کہتے ہیں اور بعض فعل، ہر ایک کی دلیل قرآن سے ملتی ہے جو لوگ اسم کے ساتھ متعلق بتاتے ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ «بِسْمِ اللَّـهِ اِبْتِدَائِي» یعنی اللہ کے نام سے میری ابتداء ہے۔
قرآن میں ہے «وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللَّـهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَحِيمٌ» ۲؎ [11-هود:41] اس میں اسم یعنی مصدر ظاہر کر دیا گیا ہے اور جو لوگ فعل مقدر بتاتے ہیں چاہے وہ امر ہو یا خبر۔ جیسے کہ «أَبْدَأُ بِسْمِ اللَّـهِ» اور «ابتدات بِسْمِ اللَّـهِ» ان کی دلیل آیت «قْرَأْ بِاسْمِ» ۳؎ الخ ہے۔
دراصل دونوں ہی صحیح ہیں، اس لیے کہ فعل کے لیے بھی مصدر کا ہونا ضروری ہے تو اختیار ہے کہ فعل کو مقدر مانا جائے اور اس کے مصدر کو مطابق اس فعل کے جس کا نام پہلے لیا گیا ہے۔ کھڑا ہونا ہو، بیٹھنا ہو، کھانا ہو، پینا ہو، قرآن کا پڑھنا ہو، وضو اور نماز وغیرہ ہو، ان سب کے شروع میں برکت حاصل کرنے کے لیے امداد چاہنے کے لیے اور قبولیت کے لیے اللہ تعالیٰ کا نام لینا مشروع ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ «بِسْمِ اللَّـهِ» کی «ب» کا تعلق کس سے ہے نحویوں کے اس میں دو قول ہیں اور دونوں ہی تقریباً ہم خیال ہیں۔ بعض اسم کہتے ہیں اور بعض فعل، ہر ایک کی دلیل قرآن سے ملتی ہے جو لوگ اسم کے ساتھ متعلق بتاتے ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ «بِسْمِ اللَّـهِ اِبْتِدَائِي» یعنی اللہ کے نام سے میری ابتداء ہے۔
قرآن میں ہے «وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللَّـهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَحِيمٌ» ۲؎ [11-هود:41] اس میں اسم یعنی مصدر ظاہر کر دیا گیا ہے اور جو لوگ فعل مقدر بتاتے ہیں چاہے وہ امر ہو یا خبر۔ جیسے کہ «أَبْدَأُ بِسْمِ اللَّـهِ» اور «ابتدات بِسْمِ اللَّـهِ» ان کی دلیل آیت «قْرَأْ بِاسْمِ» ۳؎ الخ ہے۔
دراصل دونوں ہی صحیح ہیں، اس لیے کہ فعل کے لیے بھی مصدر کا ہونا ضروری ہے تو اختیار ہے کہ فعل کو مقدر مانا جائے اور اس کے مصدر کو مطابق اس فعل کے جس کا نام پہلے لیا گیا ہے۔ کھڑا ہونا ہو، بیٹھنا ہو، کھانا ہو، پینا ہو، قرآن کا پڑھنا ہو، وضو اور نماز وغیرہ ہو، ان سب کے شروع میں برکت حاصل کرنے کے لیے امداد چاہنے کے لیے اور قبولیت کے لیے اللہ تعالیٰ کا نام لینا مشروع ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں روایت ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ {جب سب سے پہلے جبرائیل علیہ السلام، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی لے کر آئے تو فرمایا: اے محمد! کہئے «أَسْتَعِيذ بِاَللَّهِ السَّمِيع الْعَلِيم مِنْ الشَّيْطَان الرَّجِيم» پھر کہا کہئے «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» مقصود یہ تھا کہ اٹھنا، بیٹھنا، پڑھنا سب اللہ کے نام سے شروع ہو} ۱؎۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:137:ضعیف منقطع]
بے معنی بحث ٭٭
اسم یعنی نام ہی «مُسَمَّى» یعنی نام والا ہے یا کچھ اور اس میں اہل علم کے تین قول ہیں ایک تو یہ کہ اسم ہی «مُسَمَّى» ہے۔ ابوعبیدہ کا اور سیبویہ کا بھی یہی قول ہے۔ باقلانی اور ابن فورک کی رائے بھی یہی ہے۔ ابن خطیب رازی اپنی تفسیر کے مقدمات میں لکھتے ہیں۔ حشویہ اور کرامیہ اور اشعریہ تو کہتے ہیں اسم نفس «مُسَمَّى» ہے اور نفس «تَّسْمِيَة» کا «غَيْر» ہے اور معتزلہ کہتے ہیں کہ اسم «مُسَمَّى» کا «غَيْر» ہے اور نفس «تَّسْمِيَة» ہے۔ ہمارے نزدیک اسم «مُسَمَّى» کا بھی «غَيْر» ہے اور «تَّسْمِيَة» ہ کا بھی۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر اسم سے مراد لفظ ہے جو آوازوں کے ٹکڑوں اور حروف کا مجموعہ ہے تو بالبداہت ثابت ہے کہ یہ «مُسَمَّى» کا «غَيْر» ہے اور اگر اسم سے مراد ذات «مُسَمَّى» ہے تو یہ وضاحت کو ظاہر کرتا ہے جو محض بیکار ہے۔ ثابت ہوا کہ اس بیکار بحث میں پڑنا ہی فضول ہے۔ اس کے بعد جو لوگ اسم اور «مُسَمَّى» کے فرق پر اپنے دلائل لائے ہیں، ان کا کہنا ہے محض اسم ہوتا ہے «مُسَمَّى» ہوتا ہی نہیں۔ جیسے «مَعْدُوم» کا لفظ۔ کبھی ایک «مُسَمَّى» کے کئی اسم ہوتے ہیں جیسے مترادف کبھی اسم ایک ہوتا ہے اور «مُسَمَّى» کئی ہوتے ہیں جیسے مشترک۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسم اور چیز ہے اور «مُسَمَّى» اور چیز ہے یعنی نام الگ ہے۔ اور نام والا الگ ہے۔ اور دلیل سنئیے کہتے ہیں اسم تو لفظ ہے دوسرا عرض ہے۔ «مُسَمَّى» کبھی ممکن یا واجب ذات ہوتی ہے۔ اور سنئیے اگر اسم ہی کو «مُسَمَّى» مانا جائے تو چاہیئے کہ آگ کا نام لیتے ہی حرارت محسوس ہو اور برف کا نام لیتے ہی ٹھنڈک۔ جبکہ کوئی عقلمند اس کی تصدیق نہیں کرتا۔
اور دلیل سنئیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا» کہ ’اللہ کے بہت سے بہترین نام ہیں، تم ان ناموں سے اسے پکارو‘ ۱؎۔ [7-الأعراف:180] حدیث شریف ہے کہ ’اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں‘ ۲؎ [صحیح مسلم:2677] تو خیال کیجئے کہ نام کس قدر بکثرت ہیں حالانکہ «مُسَمَّى» ایک ہی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ «وحدہ لاشریک لہ» ہے اسی طرح «اسماء» کو اللہ کی طرف اس آیت میں مضاف کرنا۔
اور جگہ فرمانا: «فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ» ۳؎ [56-الواقعة:74] وغیرہ یہ اضافت بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے کہ اسم اور ہو اور «مُسَمَّى» اور کیونکہ اضافت کا مقتضا مغائرت کا ہے۔ اسی طرح یہ «وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا» یعنی ’اللہ تعالیٰ کو اس کے ناموں کے ساتھ پکارو‘ ۴؎ [7-الأعراف:180] یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ نام اور ہے نام والا اور۔
اب ان کے دلائل بھی سنئیے جو اسم اور «مُسَمَّى» کو ایک ہی بتاتے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: «تَبَارَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ» ’جلال و اکرام والے تیرے رب کا بابرکت نام ہے‘ ۵؎ [55-الرحمن:78] تو نام برکتوں والا فرمایا حالانکہ خود اللہ تعالیٰ برکتوں والا ہے۔
اس کا آسان جواب یہ ہے کہ اس مقدس ذات کی وجہ سے اس کا نام بھی عظمتوں والا ہے۔
ان کی دوسری دلیل یہ ہے کہ جب کوئی شخص کہے کہ زینب پر طلاق ہے تو طلاق اس کی بیوی جس کا نام زینب ہے ہو جاتی ہے۔ اگر نام اور نام والے میں فرق ہوتا تو نام پر طلاق پڑتی، نام والے پر کیسے پڑتی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد یہی ہوتی ہے کہ اس ذات پر طلاق ہے جس کا نام زینت ہے۔ تسمیہ کا اسم سے الگ ہونا اس دلیل کی بنا پر ہے کہ تسمیہ کہتے ہیں کسی کا نام مقرر کرنے کو اور ظاہر ہے یہ اور چیز ہے اور نام والا اور چیز ہے۔ رازی کا قول یہی ہے کہ یہ سب کچھ تو لفظ «باسم» کے متعلق تھا۔
اب لفظ «الله» کے متعلق سنئے۔ اللہ خاص نام ہے رب تبارک و تعالیٰ کا۔ کہا جاتا ہے کہ اسم اعظم یہی ہے اس لیے کہ تمام عمدہ صفتوں کے ساتھ ہی موصوف ہوتا ہے۔
جیسے کہ قرآن پاک میں ہے «هُوَ اللَّـهُ الَّذِي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَـٰنُ الرَّحِيمُ * هُوَ اللَّـهُ الَّذِي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ * هُوَ اللَّـهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ» ۶؎ [59-الحشر:22-23-24] یعنی ’وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو ظاہر و باطن کا جاننے والا ہے، جو رحم کرنے والا مہربان ہے، وہی اللہ جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، جو بادشاہ ہے پاک ہے، سلامتی والا ہے، امن دینے والا ہے، محافظ ہے، غلبہ والا ہے، زبردست ہے، بڑائی والا ہے، وہ ہر شرک سے اور شرک کی چیز سے پاک ہے۔ وہی اللہ پیدا کرنے والا، مادہ کو بنانے والا، صورت بخشنے والا ہے۔ اس کے لیے بہترین پاکیزہ نام ہیں، آسمان و زمین کی تمام چیزیں اس کی تسبیح بیان کرتی ہیں۔ وہ عزتوں اور حکمتوں والا ہے‘۔ ان آیتوں میں تمام نام صفاتی ہیں، اور لفظ اللہ ہی کی صفت ہیں یعنی اصلی نام «الله» ہے۔ دوسری جگہ فرمایا کہ اللہ ہی کے لیے ہیں پاکیزہ اور عمدہ عمدہ نام۔
اور دلیل سنئیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا» کہ ’اللہ کے بہت سے بہترین نام ہیں، تم ان ناموں سے اسے پکارو‘ ۱؎۔ [7-الأعراف:180] حدیث شریف ہے کہ ’اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں‘ ۲؎ [صحیح مسلم:2677] تو خیال کیجئے کہ نام کس قدر بکثرت ہیں حالانکہ «مُسَمَّى» ایک ہی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ «وحدہ لاشریک لہ» ہے اسی طرح «اسماء» کو اللہ کی طرف اس آیت میں مضاف کرنا۔
اور جگہ فرمانا: «فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ» ۳؎ [56-الواقعة:74] وغیرہ یہ اضافت بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے کہ اسم اور ہو اور «مُسَمَّى» اور کیونکہ اضافت کا مقتضا مغائرت کا ہے۔ اسی طرح یہ «وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا» یعنی ’اللہ تعالیٰ کو اس کے ناموں کے ساتھ پکارو‘ ۴؎ [7-الأعراف:180] یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ نام اور ہے نام والا اور۔
اب ان کے دلائل بھی سنئیے جو اسم اور «مُسَمَّى» کو ایک ہی بتاتے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: «تَبَارَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ» ’جلال و اکرام والے تیرے رب کا بابرکت نام ہے‘ ۵؎ [55-الرحمن:78] تو نام برکتوں والا فرمایا حالانکہ خود اللہ تعالیٰ برکتوں والا ہے۔
اس کا آسان جواب یہ ہے کہ اس مقدس ذات کی وجہ سے اس کا نام بھی عظمتوں والا ہے۔
ان کی دوسری دلیل یہ ہے کہ جب کوئی شخص کہے کہ زینب پر طلاق ہے تو طلاق اس کی بیوی جس کا نام زینب ہے ہو جاتی ہے۔ اگر نام اور نام والے میں فرق ہوتا تو نام پر طلاق پڑتی، نام والے پر کیسے پڑتی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد یہی ہوتی ہے کہ اس ذات پر طلاق ہے جس کا نام زینت ہے۔ تسمیہ کا اسم سے الگ ہونا اس دلیل کی بنا پر ہے کہ تسمیہ کہتے ہیں کسی کا نام مقرر کرنے کو اور ظاہر ہے یہ اور چیز ہے اور نام والا اور چیز ہے۔ رازی کا قول یہی ہے کہ یہ سب کچھ تو لفظ «باسم» کے متعلق تھا۔
اب لفظ «الله» کے متعلق سنئے۔ اللہ خاص نام ہے رب تبارک و تعالیٰ کا۔ کہا جاتا ہے کہ اسم اعظم یہی ہے اس لیے کہ تمام عمدہ صفتوں کے ساتھ ہی موصوف ہوتا ہے۔
جیسے کہ قرآن پاک میں ہے «هُوَ اللَّـهُ الَّذِي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَـٰنُ الرَّحِيمُ * هُوَ اللَّـهُ الَّذِي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ * هُوَ اللَّـهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ» ۶؎ [59-الحشر:22-23-24] یعنی ’وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو ظاہر و باطن کا جاننے والا ہے، جو رحم کرنے والا مہربان ہے، وہی اللہ جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، جو بادشاہ ہے پاک ہے، سلامتی والا ہے، امن دینے والا ہے، محافظ ہے، غلبہ والا ہے، زبردست ہے، بڑائی والا ہے، وہ ہر شرک سے اور شرک کی چیز سے پاک ہے۔ وہی اللہ پیدا کرنے والا، مادہ کو بنانے والا، صورت بخشنے والا ہے۔ اس کے لیے بہترین پاکیزہ نام ہیں، آسمان و زمین کی تمام چیزیں اس کی تسبیح بیان کرتی ہیں۔ وہ عزتوں اور حکمتوں والا ہے‘۔ ان آیتوں میں تمام نام صفاتی ہیں، اور لفظ اللہ ہی کی صفت ہیں یعنی اصلی نام «الله» ہے۔ دوسری جگہ فرمایا کہ اللہ ہی کے لیے ہیں پاکیزہ اور عمدہ عمدہ نام۔
اللہ تعالٰی نے اپنے تمام (صفاتی) نام خود تجویز فرمائے ہیں ٭٭
پس تم اس کو ان ہی ناموں سے پکارو۔ اور فرماتا ہے «ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ» الخ یعنی ’اللہ کو پکارو۔ یا رحمن کو پکارو، جس نام سے پکارو، اسی کے پیارے پیارے اور اچھے اچھے نام ہیں‘ ۱؎ [17-الإسراء:110]
بخاری و مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں۔ ایک کم ایک سو جو انہیں یاد کر لے جنتی ہے} ۲؎۔ [صحیح بخاری:7392]
ترمذی اور ابن ماجہ کی روایت میں ان ناموں کی تفصیل بھی آئی ہے ۳؎۔ [سنن ترمذي:3507،قال الشيخ الألباني:صحيح، ضعيف بسرد الأسماء] اور دونوں کی روایتوں میں الفاظ کی کچھ تبدیلی کچھ کمی زیادتی بھی ہے۔
رازی نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پانچ ہزار نام ہیں۔ ایک ہزار تو قرآن شریف اور صحیح حدیث میں ہیں اور ایک ہزار توراۃ میں اور ایک ہزار انجیل میں اور ایک ہزار زبور میں اور ایک ہزار لوح محفوظ میں۔
بخاری و مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں۔ ایک کم ایک سو جو انہیں یاد کر لے جنتی ہے} ۲؎۔ [صحیح بخاری:7392]
ترمذی اور ابن ماجہ کی روایت میں ان ناموں کی تفصیل بھی آئی ہے ۳؎۔ [سنن ترمذي:3507،قال الشيخ الألباني:صحيح، ضعيف بسرد الأسماء] اور دونوں کی روایتوں میں الفاظ کی کچھ تبدیلی کچھ کمی زیادتی بھی ہے۔
رازی نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پانچ ہزار نام ہیں۔ ایک ہزار تو قرآن شریف اور صحیح حدیث میں ہیں اور ایک ہزار توراۃ میں اور ایک ہزار انجیل میں اور ایک ہزار زبور میں اور ایک ہزار لوح محفوظ میں۔
اللہ کے مترادف المعنی کوئی نام نہیں ٭٭
«الله» ہی وہ نام ہے جو سوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کے کسی اور کا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک عرب کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کا اشتقاق کیا ہے اس کا باب کیا ہے بلکہ ایک بہت بڑی نحویوں کی جماعت کا خیال ہے کہ یہ اسم جامد ہے اور اس کا کوئی اشتقاق ہے ہی نہیں۔ قرطبی رحمہ اللہ نے علماء کرام کی ایک بڑی جماعت کا یہی مذہب نقل کیا ہے جن میں امام شافعی رحمہ اللہ، امام خطابی رحمہ اللہ، امام الحرمین امام غزالی رحمہ اللہ بھی شامل ہیں۔ خلیل اور سیبویہ سے روایت ہے کہ «الف لام» اس میں لازم ہے۔ امام خطابی رحمہ اللہ نے اس کی ایک دلیل یہ دی ہے کہ «یااللہ» تو کہہ سکتے ہیں مگر «یاالرَّحْمَـٰنِ» کہتے کسی کو نہیں سنا اگر لفظ «الله» میں «الف لام» اصل کلمہ کا نہ ہوتا تو اس پر ندا کا لفظ «یا» داخل نہ ہو سکتا کیونکہ قواعد عربی کے لحاظ سے حرف ندا کا لفظ لام والے اسم پر داخل ہونا جائز نہیں۔
بعض لوگوں کا یہ قول بھی ہے کہ یہ مشتق ہے اور اس پر روبہ بن عجاج کا ایک شعر دلیل لاتے ہیں جس میں «مَصْدَرِ التَّأَلُّه» ، کا بیان ہے جس کا ماضی مضارع «أَلِه» «يَأْلَهُ» ، «إِلَاهَةً» اور «تَأَلُّهًا» ہے جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ «وَيَذَرَكَ وَإِلَاهَتَكَ» پڑھتے تھے، مراد اس سے عبادت ہے۔ یعنی اس کی عبادت کی جاتی ہے اور وہ کسی کی عبادت نہیں کرتا۔
مجاہد وغیرہ کہتے ہیں۔ بعض نے اس پر اس آیت سے دلیل پکڑی ہے کہ آیت «وَهُوَ اللَّـهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ» ۱؎ [6-الأنعام:3] الخ یعنی ’وہی اللہ ہے آسمانوں میں اور زمین میں‘۔
اور آیت میں ہے «وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَـٰهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلَـٰهٌ» ۲؎ [43-الزخرف:84] الخ یعنی ’وہی ہے جو آسمان میں معبود ہے اور زمین میں معبود ہے‘۔
سیبویہ خلیل سے نقل کرتے ہیں کہ اصل میں یہ «إِلَاهٌ» تھا جیسے «فِعَالٍ» پھر ہمزہ کے بدلے «الف و لام» لایا گیا جیسے «النَّاسِ» کہ اس کی اصل «أُنَاسٌ» ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اس لفظ کی اصل «إِلَاهٌ» ہے «الف لام» حرف تعظیم کے طور پر لایا گیا ہے۔ سیبویہ کا بھی پسندیدہ قول یہی ہے۔
عرب شاعروں کے شعروں میں بھی یہ لفظ ملتا ہے۔ کسائی اور فرا کہتے ہیں کہ اس کی اصل «الْإِلَهُ» تھی ہمزہ کو حذف کیا اور پہلے «لام» کو دوسرے میں ادغام کیا جیسے کہ آیت «لَـٰكِنَّا هُوَ اللَّـهُ رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِرَبِّي أَحَدًا» ۳؎ [18-الكهف:38] میں «لَكِنَّ أَنَا» کا «لَكِنَّا» ہوا ہے۔
چنانچہ حسن کی قرأت میں «لَكِنَّ أَنَا» ہی ہے اور اس کا اشتقاق «وَلِهَ» سے ہے اور اس کے معنی «تَحَيَّرَ» ہیں «وَلَهُ» عقل کے چلے جانے کو کہتے ہیں۔ عربی میں «رَجُلٌ وَالِهٌ» اور «امْرَأَةٌ وَلْهَى» اور «مَاءٌ مُولَهٌ» اس وقت کہتے ہیں جب وہ جنگل میں بھیج دیا جائے۔
چونکہ ذات باری تعالیٰ میں اور اس کی صفتوں کی تحقیق میں عقل حیران و پریشان ہو جاتی ہے اس لیے اس پاک ذات کو اللہ کہا جاتا ہے۔ اس بنا پر اصل میں یہ لفظ «وَلَّاهُ» تھا۔ «واؤ» کو «ہمزہ» سے بدل دیا گیا جیسے کہ «وِشَاحٌ» اور «وَوِسَادَةٍ» میں «أَشَاحُ» اور «أَسَادَةٌ» کہتے ہیں۔
رازی کہتے ہیں کہ یہ لفظ «أَلِهْتُ إِلَى فُلَانٍ» سے مشتق ہے جو کہ معنی میں «سَكَنْتُ» کے ہے۔ یعنی میں نے فلاں سے سکون اور راحت حاصل کی۔ چونکہ عقل کا سکون صرف ذات باری تعالیٰ کے ذکر سے ہے اور روح کی حقیقی خوشی اسی کی معرفت میں ہے اس لیے کہ علی الاطلاق کامل وہی ہے، اس کے سوا اور کوئی نہیں اسی وجہ سے اللہ کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے: «اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ» ۴؎ [13-الرعد:18] یعنی ’ایمانداروں کے دل صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہی اطمینان حاصل کرتے ہیں‘۔
مجاہد وغیرہ کہتے ہیں۔ بعض نے اس پر اس آیت سے دلیل پکڑی ہے کہ آیت «وَهُوَ اللَّـهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ» ۱؎ [6-الأنعام:3] الخ یعنی ’وہی اللہ ہے آسمانوں میں اور زمین میں‘۔
اور آیت میں ہے «وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَـٰهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلَـٰهٌ» ۲؎ [43-الزخرف:84] الخ یعنی ’وہی ہے جو آسمان میں معبود ہے اور زمین میں معبود ہے‘۔
سیبویہ خلیل سے نقل کرتے ہیں کہ اصل میں یہ «إِلَاهٌ» تھا جیسے «فِعَالٍ» پھر ہمزہ کے بدلے «الف و لام» لایا گیا جیسے «النَّاسِ» کہ اس کی اصل «أُنَاسٌ» ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اس لفظ کی اصل «إِلَاهٌ» ہے «الف لام» حرف تعظیم کے طور پر لایا گیا ہے۔ سیبویہ کا بھی پسندیدہ قول یہی ہے۔
عرب شاعروں کے شعروں میں بھی یہ لفظ ملتا ہے۔ کسائی اور فرا کہتے ہیں کہ اس کی اصل «الْإِلَهُ» تھی ہمزہ کو حذف کیا اور پہلے «لام» کو دوسرے میں ادغام کیا جیسے کہ آیت «لَـٰكِنَّا هُوَ اللَّـهُ رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِرَبِّي أَحَدًا» ۳؎ [18-الكهف:38] میں «لَكِنَّ أَنَا» کا «لَكِنَّا» ہوا ہے۔
چنانچہ حسن کی قرأت میں «لَكِنَّ أَنَا» ہی ہے اور اس کا اشتقاق «وَلِهَ» سے ہے اور اس کے معنی «تَحَيَّرَ» ہیں «وَلَهُ» عقل کے چلے جانے کو کہتے ہیں۔ عربی میں «رَجُلٌ وَالِهٌ» اور «امْرَأَةٌ وَلْهَى» اور «مَاءٌ مُولَهٌ» اس وقت کہتے ہیں جب وہ جنگل میں بھیج دیا جائے۔
چونکہ ذات باری تعالیٰ میں اور اس کی صفتوں کی تحقیق میں عقل حیران و پریشان ہو جاتی ہے اس لیے اس پاک ذات کو اللہ کہا جاتا ہے۔ اس بنا پر اصل میں یہ لفظ «وَلَّاهُ» تھا۔ «واؤ» کو «ہمزہ» سے بدل دیا گیا جیسے کہ «وِشَاحٌ» اور «وَوِسَادَةٍ» میں «أَشَاحُ» اور «أَسَادَةٌ» کہتے ہیں۔
رازی کہتے ہیں کہ یہ لفظ «أَلِهْتُ إِلَى فُلَانٍ» سے مشتق ہے جو کہ معنی میں «سَكَنْتُ» کے ہے۔ یعنی میں نے فلاں سے سکون اور راحت حاصل کی۔ چونکہ عقل کا سکون صرف ذات باری تعالیٰ کے ذکر سے ہے اور روح کی حقیقی خوشی اسی کی معرفت میں ہے اس لیے کہ علی الاطلاق کامل وہی ہے، اس کے سوا اور کوئی نہیں اسی وجہ سے اللہ کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے: «اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ» ۴؎ [13-الرعد:18] یعنی ’ایمانداروں کے دل صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہی اطمینان حاصل کرتے ہیں‘۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ «لَاهَ يَلُوهُ» سے ماخوذ ہے جس کے معنی چھپ جانے اور حجاب کرنے کے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ «أَلِهَ الْفَصِيلُ» سے ہے چونکہ بندے اسی کی طرف تضرع اور زاری سے جھکتے ہیں اسی کے دامن رحمت کا پلہ ہر حال میں تھامتے ہیں، اس لیے اسے اللہ کہا گیا ایک قول یہ بھی ہے کہ عرب «أَلِهَ الرَّجُلُ يَأْلُهُ» اس وقت کہتے ہیں جب کسی اچانک امر سے کوئی گھبرا اٹھے اور دوسرا اسے پناہ دے اور بچا لے چونکہ تمام مخلوق کو ہر مصیبت سے نجات دینے والا اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے، اس لیے اس کو اللہ کہتے ہیں۔
جیسے کہ قرآن کریم میں ہے: «وَّهُوَ يُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ» ۱؎ [23-المؤمنون:89] الخ یعنی ’وہی بچاتا ہے اور اس کے مقابل میں کوئی نہیں بچایا جاتا‘۔ «وَهُوَ الْمُنْعِمُ» حقیقی «الْمُنْعِمُ» وہی ہے،
فرماتا ہے «وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ» ۲؎ [16-النحل:53] الخ یعنی ’تمہارے پاس جنتی نعمتیں ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہیں‘، وہی «مُطْعِمُ» ہے،
فرمایا ہے «وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ» ۳؎ [6-الأنعام:14] الخ یعنی ’وہ کھلاتا ہے اور اسے کوئی نہیں کھلاتا‘۔ وہی «موجد» ہے فرماتا ہے «قُلْ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّـهِ» ۴؎ [4-النساء:78] الخ یعنی ’ہر چیز کا وجود اللہ کی طرف سے ہے‘۔
رازی کا مختار مذہب یہی ہے کہ لفظ اللہ مشتق نہیں ہے۔ خلیل، سیبویہ اکثر اصولیوں اور فقہاء کا یہی قول ہے، اس کی بہت سی دلیلیں بھی ہیں اگر یہ مشتق ہوتا تو اس کے معنی میں بہت سے افراد کی شرکت ہوتی حالانکہ ایسا نہیں۔
جیسے کہ قرآن کریم میں ہے: «وَّهُوَ يُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ» ۱؎ [23-المؤمنون:89] الخ یعنی ’وہی بچاتا ہے اور اس کے مقابل میں کوئی نہیں بچایا جاتا‘۔ «وَهُوَ الْمُنْعِمُ» حقیقی «الْمُنْعِمُ» وہی ہے،
فرماتا ہے «وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ» ۲؎ [16-النحل:53] الخ یعنی ’تمہارے پاس جنتی نعمتیں ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہیں‘، وہی «مُطْعِمُ» ہے،
فرمایا ہے «وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ» ۳؎ [6-الأنعام:14] الخ یعنی ’وہ کھلاتا ہے اور اسے کوئی نہیں کھلاتا‘۔ وہی «موجد» ہے فرماتا ہے «قُلْ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّـهِ» ۴؎ [4-النساء:78] الخ یعنی ’ہر چیز کا وجود اللہ کی طرف سے ہے‘۔
رازی کا مختار مذہب یہی ہے کہ لفظ اللہ مشتق نہیں ہے۔ خلیل، سیبویہ اکثر اصولیوں اور فقہاء کا یہی قول ہے، اس کی بہت سی دلیلیں بھی ہیں اگر یہ مشتق ہوتا تو اس کے معنی میں بہت سے افراد کی شرکت ہوتی حالانکہ ایسا نہیں۔
پھر اس لفظ کو موصوف بنایا جاتا ہے اور بہت سی اس کی صفتیں آتی ہیں جیسے «اللَّهُ» ، «الرَّحْمَنُ» ، «الرَّحِيمُ» ، «الْمَلِكُ» ، «الْقُدُّوسُ» وغیرہ تو معلوم ہوا کہ یہ مشتق نہیں۔ قرآن میں ایک جگہ «الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ اللہ» ۱؎ [14-إبراهيم:1-2] الخ جو آتا ہے وہاں یہ «عَطْفِ» بیان ہے۔ ایک دلیل ہے اس کے مشتق نہ ہونے کی یہ بھی ہے «هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا» ۲؎ [19-مريم:65] الخ یعنی ’کیا اس کا ہم نام بھی کوئی جانتے ہو؟‘ لیکن یہ غور طلب ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ لفظ عبرانی ہے لیکن رازی رحمہ اللہ نے اس قول کو ضعیف کہا ہے اور فی الواقع ضعیف ہے بھی۔ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مخلوق کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو معرفت الٰہی کے کنارے پر پہنچ گئے دوسرے وہ جو اس سے محروم ہیں جو حیرت کے اندھیروں میں اور جہالت کی پرخار وادیوں میں پڑے ہیں وہ تو عقل کو رو بیٹھے اور روحانی کمالات کو کھو بیٹھے ہیں لیکن جو ساحل معرفت پر پہنچ چکے ہیں جو نورانیت کے وسیع باغوں میں جا ٹھہرے جو کبریائی اور جلال کی وسعت کا اندازہ کر چکے ہیں وہ بھی یہاں تک پہنچ کر حیران و ششدر رہ گئے ہیں۔
بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ لفظ عبرانی ہے لیکن رازی رحمہ اللہ نے اس قول کو ضعیف کہا ہے اور فی الواقع ضعیف ہے بھی۔ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مخلوق کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو معرفت الٰہی کے کنارے پر پہنچ گئے دوسرے وہ جو اس سے محروم ہیں جو حیرت کے اندھیروں میں اور جہالت کی پرخار وادیوں میں پڑے ہیں وہ تو عقل کو رو بیٹھے اور روحانی کمالات کو کھو بیٹھے ہیں لیکن جو ساحل معرفت پر پہنچ چکے ہیں جو نورانیت کے وسیع باغوں میں جا ٹھہرے جو کبریائی اور جلال کی وسعت کا اندازہ کر چکے ہیں وہ بھی یہاں تک پہنچ کر حیران و ششدر رہ گئے ہیں۔
غرض ساری مخلوق اس کی پوری معرفت سے عاجز اور سرگشتہ و حیران ہے۔ ان معانی کی بنا پر اس پاک ذات کا نام اللہ ہے۔ ساری مخلوق اس کی محتاج، اس کے سامنے جھکنے والی اور اس کی تلاش کرنے والی ہے۔ اس حقیقت کی وجہ سے اسے اللہ کہتے ہیں۔ جیسا کہ خلیل کا قول ہے عرب کے محاورے میں ہر اونچی اور بلند چیز کو «لَاهً» کہتے ہیں۔ سورج جب طلوع ہوتا ہے تب بھی وہ کہتے ہیں «الشَّمْسُ لَاهَتْ» چونکہ پروردگار عالم بھی سب سے بلند و بالا ہے اس کو بھی اللہ کہتے ہیں۔ اور «الْإِلَهُ» کے معنی عبادت کرنے اور «تَأَلَّهَ» کے معنی حکم برداری اور قربانی کرنے کے ہیں اور رب عالم کی عبادت کی جاتی ہے اور اس کے نام پر قربانیاں کی جاتی ہیں اس لیے اسے اللہ کہتے ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرأت میں ہے «وَيَذَرك وَإِلَاهَتك» اس کی اصل «الْإِلَه» ہے پس صرف کلمہ کی جگہ جو ہمزہ ہے وہ حذف کیا گیا۔ پھر نفس کلمہ کا «لام» زائد «لام» سے جو تعریف کے لیے لایا گیا ہے مل گیا اور پھر ایک کو دوسرے میں مدغم کر دیا تو ایک لازم مشدد رہ گیا اور تعظیماً اللہ کہا گیا۔ یہ تو تفسیر لفظ «الله» کی تھی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرأت میں ہے «وَيَذَرك وَإِلَاهَتك» اس کی اصل «الْإِلَه» ہے پس صرف کلمہ کی جگہ جو ہمزہ ہے وہ حذف کیا گیا۔ پھر نفس کلمہ کا «لام» زائد «لام» سے جو تعریف کے لیے لایا گیا ہے مل گیا اور پھر ایک کو دوسرے میں مدغم کر دیا تو ایک لازم مشدد رہ گیا اور تعظیماً اللہ کہا گیا۔ یہ تو تفسیر لفظ «الله» کی تھی۔
اَلرَّحمن اور الرحیم کے معنی ٭٭
«الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ» کا بیان آئے گا یہ دونوں نام رحمت سے مشتق ہیں۔ دونوں میں مبالغہ ہے «الرَّحْمَٰنِ» میں «الرَّحِيمِ» سے زیادہ مبالغہ ہے۔ علامہ ابن جریر رحمہ اللہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے وہ بھی ان معنوں سے متفق ہیں گویا اس پر اتفاق ہے۔
بعض سلف کی تفسیروں سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے ان معنوں پر مبنی عیسیٰ علیہ السلام کا قول بھی پہلے گزر چکا ہے کہ «الرَّحْمَٰنِ» سے مراد دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والا اور «الرَّحِيمِ» سے مراد آخرت میں رحم کرنے والا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ «رحمٰن» مشتق نہیں ہے اگر یہ اس طرح ہوتا تو مرحوم کے ساتھ ملتا۔ حالانکہ قرآن میں «بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا» ۱؎ [33-الأحزاب:43] الخ آیا ہے۔
مبرد کہتے ہیں «رحمٰن» عبرانی نام ہے عربی نہیں۔ ابواسحاق زجاج معانی القرآن میں کہتے ہیں کہ احمد بن یحییٰ کا قول ہے کہ «رحیم» عربی لفظ ہے اور «رحمٰن» عبرانی ہے دونوں کو جمع کر دیا گیا ہے۔ لیکن ابواسحٰق فرماتے ہیں ”اس قول کو دل نہیں مانتا۔“
قرطبی فرماتے ہیں اس لفظ کے مشتق ہونے کی یہ دلیل ہے کہ ترمذی کی صحیح حدیث ہے {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں رحمٰن ہوں میں نے رحم کو پیدا کیا اور اپنے نام میں سے ہی اس کا نام مشتق کیا۔ اس کے ملانے والے کو میں ملاؤں گا اور اس کے توڑنے والے کو کاٹ دوں گا} ۲؎ [سنن ترمذي:1908،قال الشيخ الألباني:صحيح] اس صریح حدیث کے ہوتے ہوئے مخالفت اور انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
بعض سلف کی تفسیروں سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے ان معنوں پر مبنی عیسیٰ علیہ السلام کا قول بھی پہلے گزر چکا ہے کہ «الرَّحْمَٰنِ» سے مراد دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والا اور «الرَّحِيمِ» سے مراد آخرت میں رحم کرنے والا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ «رحمٰن» مشتق نہیں ہے اگر یہ اس طرح ہوتا تو مرحوم کے ساتھ ملتا۔ حالانکہ قرآن میں «بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا» ۱؎ [33-الأحزاب:43] الخ آیا ہے۔
مبرد کہتے ہیں «رحمٰن» عبرانی نام ہے عربی نہیں۔ ابواسحاق زجاج معانی القرآن میں کہتے ہیں کہ احمد بن یحییٰ کا قول ہے کہ «رحیم» عربی لفظ ہے اور «رحمٰن» عبرانی ہے دونوں کو جمع کر دیا گیا ہے۔ لیکن ابواسحٰق فرماتے ہیں ”اس قول کو دل نہیں مانتا۔“
قرطبی فرماتے ہیں اس لفظ کے مشتق ہونے کی یہ دلیل ہے کہ ترمذی کی صحیح حدیث ہے {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں رحمٰن ہوں میں نے رحم کو پیدا کیا اور اپنے نام میں سے ہی اس کا نام مشتق کیا۔ اس کے ملانے والے کو میں ملاؤں گا اور اس کے توڑنے والے کو کاٹ دوں گا} ۲؎ [سنن ترمذي:1908،قال الشيخ الألباني:صحيح] اس صریح حدیث کے ہوتے ہوئے مخالفت اور انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
رہا کفار عرب کا اس نام سے انکار کرنا یہ محض ان کی جہالت کا ایک کرشمہ تھا۔ قرطبی کہتے ہیں کہ ” «رحمٰن» اور «رحیم» کے ایک ہی معنی ہیں اور جیسے «نَدْمَانَ» اور «نَدِيمٍ» “ ابوعبید کا بھی یہی خیال ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ «فَعْلَانَ فَعِيلٍ» کی طرح نہیں۔ «فَعْلَانَ» میں مبالغہ ضروری ہوتا ہے جیسے «غَضْبَانُ» اسی شخص کو کہہ سکتے ہیں۔ جو بہت ہی غصہ والا ہو اور «فَعِيلٌ» صرف فاعل اور صرف مفعول کے لیے بھی آتا ہے۔ جو مبالغہ سے خالی ہوتا ہے۔ ابوعلی فارسی کہتے ہیں کہ ” «رحمٰن» عام اسم ہے جو ہر قسم کی رحمتوں کو شامل ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے۔ «رحیم» باعتبار مومنوں کے ہے فرمایا ہے «وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًا» ۱؎ [33-الأحزاب:43] ’مومنون کے ساتھ رحیم ہے‘۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ”یہ دونوں رحمت و رحم والے ہیں، ایک میں دوسرے سے زیادہ رحمت و رحم ہے۔“ ۱؎ [تفسیر قرطبی:105/1] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس روایت میں لفظ «ارق» ہے اس کے معنی خطابی وغیرہ «أَرَقُّ» کرتے ہیں جیسے کہ حدیث میں ہے کہ {اللہ تعالیٰ «رفق» یعنی شفیق اور مہربانی والا ہے وہ ہر کام میں نرمی اور آسانی کو پسند کرتا ہے وہ دوسروں پر نرمی اور آسانی کرنے والے پر وہ نعمتیں مرحمت فرماتا ہے جو سختی کرنے والے پر عطا نہیں فرماتا} ۲؎۔ [صحیح مسلم:2593]
ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” «رحمٰن» اسے کہتے ہیں کہ جب اس سے جو مانگا جائے عطا فرمائے اور «رحیم» وہ ہے کہ جب اس سے نہ مانگا جائے وہ غضبناک ہو۔“ ترمذی کی حدیث میں ہے {جو شخص اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوتا ہے} ۳؎۔ [سنن ترمذي:3373،قال الشيخ الألباني:حسن]
بعض شاعروں کا قول ہے: «اللَّهُ يَغْضَبُ إِنْ تَرَكْت سُؤَالَهُ ... وَبُنَيُّ آدَمَ حِينَ يُسْأَلُ يَغْضَبُ» یعنی اللہ تعالیٰ سے نہ مانگو تو وہ ناراض ہوتا ہے اور بنی آدم سے مانگو تو وہ بگڑتے ہیں۔
ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” «رحمٰن» اسے کہتے ہیں کہ جب اس سے جو مانگا جائے عطا فرمائے اور «رحیم» وہ ہے کہ جب اس سے نہ مانگا جائے وہ غضبناک ہو۔“ ترمذی کی حدیث میں ہے {جو شخص اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوتا ہے} ۳؎۔ [سنن ترمذي:3373،قال الشيخ الألباني:حسن]
بعض شاعروں کا قول ہے: «اللَّهُ يَغْضَبُ إِنْ تَرَكْت سُؤَالَهُ ... وَبُنَيُّ آدَمَ حِينَ يُسْأَلُ يَغْضَبُ» یعنی اللہ تعالیٰ سے نہ مانگو تو وہ ناراض ہوتا ہے اور بنی آدم سے مانگو تو وہ بگڑتے ہیں۔
عزرمی فرماتے ہیں کہ «رحمٰن» کے معنی تمام مخلوق پر رحم کرنے والا اور «رحیم» کے معنی مومنوں پر رحم کرنے والا ہے ۱؎۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:127/1] دیکھئیے قرآن کریم کی دو آیتوں «ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ» ۲؎ [25-الفرقان:59] اور «الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ» ۳؎ [20-طه:5] میں «اسْتَوَىٰ» کے ساتھ «رحمٰن» کا لفظ ذکر کیا تاکہ تمام مخلوق کو یہ لفظ اپنے عام رحم و کرم کے معنی سے شامل ہو سکے اور مومنوں کے ذکر کے ساتھ لفظ «رحیم» فرمایا: «وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًا» ۴؎ [33-الأحزاب:43] الخ پس معلوم ہوا کہ «رحمٰن» میں مبالغہ بہ نسبت «رحیم» کے بہت زیادہ ہے۔ لیکن حدیث کی ایک دعا میں «رَحْمَنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَرَحِيمَهُمَاا» ۵؎ [سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:5287،موضوع] بھی آیا ہے۔
«رحمٰن» یہ نام بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے، اس کے سوا کسی دوسرے کا نام نہیں۔ جیسے کہ فرمان ہے کہ «الله» کو پکارو یا «رحمٰن» کو جس نام سے چاہو اسے پکارو اس کے بہت اچھے اچھے نام ہیں۔ ایک اور آیت میں ہے: «وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمَـٰنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ» ۶؎ [43-الزخرف:45] یعنی ’ان سے پوچھ لو کہ تجھ سے پہلے ہم نے جو رسول بھیجے تھے کیا انہوں نے «رحمٰن» کے سوا کسی کو معبود کہا تھا کہ ان کی عبادت کی جائے‘۔
جب مسیلمہ، کذاب نے بڑھ چڑھ کر دعوے شروع کئے اور اپنا نام «رحمٰن العیامہ» رکھا تو پروردگار نے اسے بے انتہا رسوا اور برباد کیا، وہ جھوٹ اور کذب کی علامت مشہور ہو گیا۔ آج اسے مسیلمہ کذاب کہا جاتا ہے اور ہر جھوٹے دعویدار کو اس کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے۔ ہر دیہاتی اور شہری ہر کچے پکے گھر والا اسے بخوبی جانتا ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ «رحیم» میں «رحمٰن» سے زیادہ مبالغہ ہے اس لیے کہ اس لفظ کے ساتھ اگلے لفظ کی تاکید کی گئی ہے اور تاکید بہ نسبت اس کے کہ جس کی تاکید جائے زیادہ قوی ہوتی ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں تاکید ہے ہی نہیں بلکہ یہ تو صفت ہے اور صفت میں یہ قاعدہ نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا جس نام میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں، سب سے پہلے اس کی صفت «رحمٰن» بیان کی گئی اور یہ نام رکھنا بھی دوسروں کو ممنوع ہے جیسے فرما دیا کہ «الله» کو یا «رحمٰن» کو پکارو جس نام سے چاہو پکارو اس کے لیے اسماء حسنیٰ بہت سارے ہیں۔ مسیلمہ نے بدترین جرأت کی لیکن برباد ہوا اور اس کے گمراہ ساتھیوں کے سوا اس کی کسی قدر کسی کے دل میں نہ آئی۔
«رحیم» کے وصف کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے دوسروں کو بھی موصوف کیا ہے، فرماتا ہے: «لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ» ۷؎ [9-التوبة:128] اس آیت میں اپنے نبی کو رحیم کہا، اسی طرح اپنے بعض ایسے ناموں سے دوسروں کو بھی اس نے یاد کیا ہے۔
جیسے آیت «إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا» ۸؎ [76-الإنسان:2] میں انسان کو «سمیع» اور «بصیر» کہا ہے۔
حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعض نام تو ایسے ہیں کہ دوسروں پر بھی ہم معنی ہونے کا اطلاق ہو سکتا ہے اور بعض ایسے ہیں کہ نہیں ہو سکتا جیسے «الله» اور «رحمٰن» ، «خالق» اور «رزاق» وغیرہ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنا پہلا نام اللہ پھر اس کی صفت «رحمٰن» سے کی۔ اس لیے کہ «رحیم» کی نسبت یہ زیادہ خاص ہے اور زیادہ مشہور ہے۔
قاعدہ ہے کہ اول سب سے زیادہ بزرگ نام لیا جاتا ہے، اس لیے سب سے پہلے سب سے زیادہ خاص نام لیا گیا پھر اس سے کم، پھر اس سے کم، اگر کہا جائے کہ جب «رحمٰن» میں «رحیم» سے زیادہ مبالغہ موجود ہے پھر اسی پر اکتفا کیوں نہ کیا گیا؟
تو اس کے جواب میں عطا خراسانی کا یہ قول پیش کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ کافروں نے «رحمٰن» کا نام بھی غیروں کا رکھ لیا تھا اس لیے «رحیم» کا لفظ بھی ساتھ لگایا گیا تاکہ کسی قسم کا وہم ہی نہ رہے۔
«رحمٰن» یہ نام بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے، اس کے سوا کسی دوسرے کا نام نہیں۔ جیسے کہ فرمان ہے کہ «الله» کو پکارو یا «رحمٰن» کو جس نام سے چاہو اسے پکارو اس کے بہت اچھے اچھے نام ہیں۔ ایک اور آیت میں ہے: «وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمَـٰنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ» ۶؎ [43-الزخرف:45] یعنی ’ان سے پوچھ لو کہ تجھ سے پہلے ہم نے جو رسول بھیجے تھے کیا انہوں نے «رحمٰن» کے سوا کسی کو معبود کہا تھا کہ ان کی عبادت کی جائے‘۔
جب مسیلمہ، کذاب نے بڑھ چڑھ کر دعوے شروع کئے اور اپنا نام «رحمٰن العیامہ» رکھا تو پروردگار نے اسے بے انتہا رسوا اور برباد کیا، وہ جھوٹ اور کذب کی علامت مشہور ہو گیا۔ آج اسے مسیلمہ کذاب کہا جاتا ہے اور ہر جھوٹے دعویدار کو اس کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے۔ ہر دیہاتی اور شہری ہر کچے پکے گھر والا اسے بخوبی جانتا ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ «رحیم» میں «رحمٰن» سے زیادہ مبالغہ ہے اس لیے کہ اس لفظ کے ساتھ اگلے لفظ کی تاکید کی گئی ہے اور تاکید بہ نسبت اس کے کہ جس کی تاکید جائے زیادہ قوی ہوتی ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں تاکید ہے ہی نہیں بلکہ یہ تو صفت ہے اور صفت میں یہ قاعدہ نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا جس نام میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں، سب سے پہلے اس کی صفت «رحمٰن» بیان کی گئی اور یہ نام رکھنا بھی دوسروں کو ممنوع ہے جیسے فرما دیا کہ «الله» کو یا «رحمٰن» کو پکارو جس نام سے چاہو پکارو اس کے لیے اسماء حسنیٰ بہت سارے ہیں۔ مسیلمہ نے بدترین جرأت کی لیکن برباد ہوا اور اس کے گمراہ ساتھیوں کے سوا اس کی کسی قدر کسی کے دل میں نہ آئی۔
«رحیم» کے وصف کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے دوسروں کو بھی موصوف کیا ہے، فرماتا ہے: «لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ» ۷؎ [9-التوبة:128] اس آیت میں اپنے نبی کو رحیم کہا، اسی طرح اپنے بعض ایسے ناموں سے دوسروں کو بھی اس نے یاد کیا ہے۔
جیسے آیت «إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا» ۸؎ [76-الإنسان:2] میں انسان کو «سمیع» اور «بصیر» کہا ہے۔
حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعض نام تو ایسے ہیں کہ دوسروں پر بھی ہم معنی ہونے کا اطلاق ہو سکتا ہے اور بعض ایسے ہیں کہ نہیں ہو سکتا جیسے «الله» اور «رحمٰن» ، «خالق» اور «رزاق» وغیرہ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنا پہلا نام اللہ پھر اس کی صفت «رحمٰن» سے کی۔ اس لیے کہ «رحیم» کی نسبت یہ زیادہ خاص ہے اور زیادہ مشہور ہے۔
قاعدہ ہے کہ اول سب سے زیادہ بزرگ نام لیا جاتا ہے، اس لیے سب سے پہلے سب سے زیادہ خاص نام لیا گیا پھر اس سے کم، پھر اس سے کم، اگر کہا جائے کہ جب «رحمٰن» میں «رحیم» سے زیادہ مبالغہ موجود ہے پھر اسی پر اکتفا کیوں نہ کیا گیا؟
تو اس کے جواب میں عطا خراسانی کا یہ قول پیش کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ کافروں نے «رحمٰن» کا نام بھی غیروں کا رکھ لیا تھا اس لیے «رحیم» کا لفظ بھی ساتھ لگایا گیا تاکہ کسی قسم کا وہم ہی نہ رہے۔
«رحمٰن و رحیم» صرف اللہ تعالیٰ ہی کا نام ہے۔ ابن جریر نے تاہم اس قول کی تصدیق کی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے کے عرب «رحمٰن» سے واقف ہی نہ تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی آیت «قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ» ۱؎ [17-الإسراء:110] نازل فرما کر ان کی تردید کی۔
حدیبیہ والے سال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ «بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ» لکھو تو کفار نے کہا تھا کہ ہم «رحمٰن» اور «رحیم» کو نہیں جانتے ۲؎۔ [صحیح بخاری:حدیث2731] بخاری میں یہ روایت موجود ہے۔
بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہم «رحمٰن یمامہ» کو جانتے ہیں کسی اور «رحمٰن» کو نہیں جانتے۔
اسی طرح قرآن پاک میں ہے «وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَـٰنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَـٰنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُورًا» ۳؎ [25-الفرقان:60] یعنی ’جب ان سے کہا جاتا ہے کہ «رحمٰن» کے سامنے سجدہ کرو تو وہ حیران زدہ ہو کر جواب دیتے ہیں کہ «رحمٰن» کون ہے؟ جسے ہم تیرے قول کی وجہ سے سجدہ کریں‘۔
درحقیقت یہ بدکار لوگ صرف عناد، تکبر، سرکشی اور دشمنی کی بنا پر «رحمٰن» سے انکار کرتے تھے نہ کہ وہ اس نام سے ناآشنا تھے۔ اس لیے کہ جاہلیت کے زمانے کے پرانے اشعار میں بھی اللہ تعالیٰ کا نام «رحمٰن» موجود ہے جو انہی کے شاعروں کے شعر ہیں۔ سلامہ اور دوسرے شعراء کے اشعار میں ملاحظہ ہو۔
تفسیر ابن جریر میں ہے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ «رحمٰن» «فعلان» کے وزن پر رحمت سے ماخوذ ہے اور کلام عرب سے ہے۔ وہ اللہ رفیق اور رقیق ہے جس پر رحم کرنا چاہے اور جس سے غصے ہو اس سے بہت دور اور اس پر بہت سخت گیر بھی ہے اسی طرح اس کے تمام نام ہیں۔
حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں «رحمٰن» کا نام دوسروں کے لیے منع ہے۔ خود اللہ تعالیٰ کا نام ہے لوگ اس نام پر کوئی حق نہیں رکھتے۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا والی حدیث جس میں کہ {ہر آیت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرا کرتے تھے} ۴؎۔ [سنن ابوداود:4001،قال الشيخ الألباني:صحيح] پہلے گزر چکی ہے۔
اور ایک جماعت اسی طرح «بِسْمِ اللَّـهِ» کو آیت قرار دے کر آیت «الْحَمْدُ» کو الگ پڑھتی ہے اور بعض ملا کر پڑھتے ہیں۔ «میم» کو دو ساکن جمع ہو جانے کی وجہ سے زیر دیتے ہیں۔ جمہور کا بھی یہی قول ہے۔
کوفی کہتے ہیں کہ بعض عرب «میم» کے زیر سے پڑھتے ہیں، ہمزہ کی حرکت زبر «میم» کو دیتے ہیں۔ جیسے آیت «الم» * «اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ» ۵؎ [3-آل عمران:1-2]
ابن عطیہ کہتے ہیں کہ زبر کی قرأت کسی سے بھی میرے خیال میں مروی نہیں۔ آیت «بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ» کی تفسیر ختم ہوئی۔ اب آگے سنئیے۔
حدیبیہ والے سال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ «بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ» لکھو تو کفار نے کہا تھا کہ ہم «رحمٰن» اور «رحیم» کو نہیں جانتے ۲؎۔ [صحیح بخاری:حدیث2731] بخاری میں یہ روایت موجود ہے۔
بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہم «رحمٰن یمامہ» کو جانتے ہیں کسی اور «رحمٰن» کو نہیں جانتے۔
اسی طرح قرآن پاک میں ہے «وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَـٰنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَـٰنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُورًا» ۳؎ [25-الفرقان:60] یعنی ’جب ان سے کہا جاتا ہے کہ «رحمٰن» کے سامنے سجدہ کرو تو وہ حیران زدہ ہو کر جواب دیتے ہیں کہ «رحمٰن» کون ہے؟ جسے ہم تیرے قول کی وجہ سے سجدہ کریں‘۔
درحقیقت یہ بدکار لوگ صرف عناد، تکبر، سرکشی اور دشمنی کی بنا پر «رحمٰن» سے انکار کرتے تھے نہ کہ وہ اس نام سے ناآشنا تھے۔ اس لیے کہ جاہلیت کے زمانے کے پرانے اشعار میں بھی اللہ تعالیٰ کا نام «رحمٰن» موجود ہے جو انہی کے شاعروں کے شعر ہیں۔ سلامہ اور دوسرے شعراء کے اشعار میں ملاحظہ ہو۔
تفسیر ابن جریر میں ہے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ «رحمٰن» «فعلان» کے وزن پر رحمت سے ماخوذ ہے اور کلام عرب سے ہے۔ وہ اللہ رفیق اور رقیق ہے جس پر رحم کرنا چاہے اور جس سے غصے ہو اس سے بہت دور اور اس پر بہت سخت گیر بھی ہے اسی طرح اس کے تمام نام ہیں۔
حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں «رحمٰن» کا نام دوسروں کے لیے منع ہے۔ خود اللہ تعالیٰ کا نام ہے لوگ اس نام پر کوئی حق نہیں رکھتے۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا والی حدیث جس میں کہ {ہر آیت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرا کرتے تھے} ۴؎۔ [سنن ابوداود:4001،قال الشيخ الألباني:صحيح] پہلے گزر چکی ہے۔
اور ایک جماعت اسی طرح «بِسْمِ اللَّـهِ» کو آیت قرار دے کر آیت «الْحَمْدُ» کو الگ پڑھتی ہے اور بعض ملا کر پڑھتے ہیں۔ «میم» کو دو ساکن جمع ہو جانے کی وجہ سے زیر دیتے ہیں۔ جمہور کا بھی یہی قول ہے۔
کوفی کہتے ہیں کہ بعض عرب «میم» کے زیر سے پڑھتے ہیں، ہمزہ کی حرکت زبر «میم» کو دیتے ہیں۔ جیسے آیت «الم» * «اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ» ۵؎ [3-آل عمران:1-2]
ابن عطیہ کہتے ہیں کہ زبر کی قرأت کسی سے بھی میرے خیال میں مروی نہیں۔ آیت «بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ» کی تفسیر ختم ہوئی۔ اب آگے سنئیے۔