صحيح البخاري
كتاب الأذان (صفة الصلوة)— کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
بَابُ سُنَّةِ الْجُلُوسِ فِي التَّشَهُّدِ:— باب: تشہد میں بیٹھنے کا مسنون طریقہ۔
حدیث نمبر: 828
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ ، وَحَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، وَيَزِيدَ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ ، " أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا مَعَ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَذَكَرْنَا صَلَاةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ : أَنَا كُنْتُ أَحْفَظَكُمْ لِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَيْتُهُ إِذَا كَبَّرَ جَعَلَ يَدَيْهِ حِذَاءَ مَنْكِبَيْهِ ، وَإِذَا رَكَعَ أَمْكَنَ يَدَيْهِ مِنْ رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ هَصَرَ ظَهْرَهُ ، فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ اسْتَوَى حَتَّى يَعُودَ كُلُّ فَقَارٍ مَكَانَهُ ، فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلَا قَابِضِهِمَا وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِ رِجْلَيْهِ الْقِبْلَةَ ، فَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ جَلَسَ عَلَى رِجْلِهِ الْيُسْرَى وَنَصَبَ الْيُمْنَى ، وَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ قَدَّمَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَنَصَبَ الْأُخْرَى وَقَعَدَ عَلَى مَقْعَدَتِهِ " ، وَسَمِعَ اللَّيْثُ يَزِيدَ بْنَ أَبِي حَبِيبٍ ، وَيَزِيدُ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَلْحَلَةَ ، وَابْنُ حَلْحَلَةَ مِنِ ابْنِ عَطَاءٍ ، قَالَ أَبُو صَالِحٍ : عَنْ اللَّيْثِ كُلُّ فَقَارٍ ، وَقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ : عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ ، قَالَ : حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرٍو حَدَّثَهُ كُلُّ فَقَارٍ .
مولانا داود راز
´ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا ، انہوں نے خالد سے بیان کیا ، ان سے سعید نے بیان کیا ، ان سے محمد بن عمرو بن حلحلہ نے بیان کیا ، ان سے محمد بن عمرو بن عطاء نے بیان کیا ( دوسری سند ) اور کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا ، اور ان سے یزید بن ابی حبیب اور یزید بن محمد نے بیان کیا ، ان سے محمد بن عمرو بن حلحلہ نے بیان کیا ، ان سے محمد بن عمرو بن عطاء نے بیان کیا کہ` وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا ذکر ہونے لگا تو ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تم سب سے زیادہ یاد ہے میں نے آپ کو دیکھا کہ جب آپ تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک لے جاتے ، جب آپ رکوع کرتے تو گھٹنوں کو اپنے ہاتھوں سے پوری طرح پکڑ لیتے اور پیٹھ کو جھکا دیتے ۔ پھر جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس طرح سیدھے کھڑے ہو جاتے کہ تمام جوڑ سیدھے ہو جاتے ۔ جب آپ سجدہ کرتے تو آپ اپنے ہاتھوں کو ( زمین پر ) اس طرح رکھتے کہ نہ بالکل پھیلے ہوئے ہوتے اور نہ سمٹے ہوئے ۔ پاؤں کی انگلیوں کے منہ قبلہ کی طرف رکھتے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کے بعد بیٹھتے تو بائیں پاؤں پر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور جب آخری رکعت میں بیٹھتے بائیں پاؤں کو آگے کر لیتے اور دائیں کو کھڑا کر دیتے پھر مقعد پر بیٹھتے ۔ لیث نے یزید بن ابی حبیب سے اور یزید بن محمد بن حلحلہ سے سنا اور محمد بن حلحلہ نے ابن عطاء سے ، اور ابوصالح نے لیث سے «كل فقار مكانه» نقل کیا ہے اور ابن مبارک نے یحییٰ بن ایوب سے بیان کیا انہوں نے کہا کہ مجھ سے یزید بن ابی حبیب نے بیان کیا کہ محمد بن عمرو بن حلحلہ نے ان سے حدیث میں «كل فقار» بیان کیا ۔
حوالہ حدیث صحيح البخاري / كتاب الأذان (صفة الصلوة) / حدیث: 828
درجۂ حدیث محدثین: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
اس موضوع سے متعلق مزید احادیث و آثار کے حوالے ملاحظہ کریں : صحيح البخاري: 828 | سنن ترمذي: 260 | سنن ترمذي: 304 | سنن نسائي: 1040 | سنن نسائي: 1182 | سنن ابن ماجه: 803 | سنن ابن ماجه: 862 | سنن ابن ماجه: 863 | سنن ابن ماجه: 1061 | سنن ابي داود: 730 | سنن ابي داود: 731 | سنن ابي داود: 732 | سنن ابي داود: 733 | سنن ابي داود: 734 | سنن ابي داود: 735 | سنن ابي داود: 736 | بلوغ المرام: 211
تشریح، فوائد و مسائل
✍️ سید بدیع الدین شاہ راشدی
´نماز میں تورک ` 
”۔۔۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کے بعد بیٹھتے تو بائیں پاؤں پر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور جب آخری رکعت میں بیٹھتے بائیں پاؤں کو آگے کر لیتے اور دائیں کو کھڑا کر دیتے پھر مقعد پر بیٹھتے۔۔۔“ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 828]
”۔۔۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کے بعد بیٹھتے تو بائیں پاؤں پر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور جب آخری رکعت میں بیٹھتے بائیں پاؤں کو آگے کر لیتے اور دائیں کو کھڑا کر دیتے پھر مقعد پر بیٹھتے۔۔۔“ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 828]
 فوائد و مسائل:  
اتنا واضح رہے کہ جو احادیث حضرات حنفیہ ترک التورک کے متعلق پیش کرتے ہیں وہ سب کی سب مبہم ہیں اور مفصل نہیں ہیں اور یہ حدیث بالکل مفصل ہے۔ اس لئے قابل عمل بھی یہی رہی۔
 
چنانچہ مولانا عبدالحیی لکھنوی تعلیق الممجد میں مفصل اور مبہم دونوں دلیلیں لانے کے بعد بطور فیصلہ اور محاکمہ یوں فرماتے ہیں: «والانصاف انه لا يوجد حديث يدل صريحاً على استنان الجلوس على الرجل اليسرى فى القعدة الأخيرة» [تعليق الممجد:113]
”انصاف کی بات یہ ہے کہ کوئی حدیث شریف ایسی نہیں پائی جاتی جس سے صراحتہ آخری قعدہ میں بائیں پاؤں پر بیٹھنا (جیسے حنفیہ کہتے ہیں) ثابت ہو اور ابوسعید والی حدیث شریف (جو کہ اوپر ذکر ہوئی) بلکل مفصل ہے تو مبہم کو مفصل پر محمول کیا جائے۔ یعنی ابوحمید والی حدیث پر عمل کیا جائے۔“
اتنا واضح رہے کہ جو احادیث حضرات حنفیہ ترک التورک کے متعلق پیش کرتے ہیں وہ سب کی سب مبہم ہیں اور مفصل نہیں ہیں اور یہ حدیث بالکل مفصل ہے۔ اس لئے قابل عمل بھی یہی رہی۔
چنانچہ مولانا عبدالحیی لکھنوی تعلیق الممجد میں مفصل اور مبہم دونوں دلیلیں لانے کے بعد بطور فیصلہ اور محاکمہ یوں فرماتے ہیں: «والانصاف انه لا يوجد حديث يدل صريحاً على استنان الجلوس على الرجل اليسرى فى القعدة الأخيرة» [تعليق الممجد:113]
”انصاف کی بات یہ ہے کہ کوئی حدیث شریف ایسی نہیں پائی جاتی جس سے صراحتہ آخری قعدہ میں بائیں پاؤں پر بیٹھنا (جیسے حنفیہ کہتے ہیں) ثابت ہو اور ابوسعید والی حدیث شریف (جو کہ اوپر ذکر ہوئی) بلکل مفصل ہے تو مبہم کو مفصل پر محمول کیا جائے۔ یعنی ابوحمید والی حدیث پر عمل کیا جائے۔“
درج بالا اقتباس اہلحدیث کے امتیازی مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 41 سے ماخوذ ہے۔
✍️ مفتی کفایت اللہ
´رکوع والے رفع الیدین کے ترک پر استدلال` 
”جب آپ تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک لے جاتے، جب آپ رکوع کرتے تو گھٹنوں کو اپنے ہاتھوں سے پوری طرح پکڑ لیتے اور پیٹھ کو جھکا دیتے۔ پھر جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس طرح سیدھے کھڑے ہو جاتے کہ تمام جوڑ سیدھے ہو جاتے۔“ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 828]
”جب آپ تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک لے جاتے، جب آپ رکوع کرتے تو گھٹنوں کو اپنے ہاتھوں سے پوری طرح پکڑ لیتے اور پیٹھ کو جھکا دیتے۔ پھر جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس طرح سیدھے کھڑے ہو جاتے کہ تمام جوڑ سیدھے ہو جاتے۔“ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 828]
 فوائد و مسائل:  
تارکین رفع الیدین صحیح بخاری سے نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں رکوع والے رفع الیدین کے ترک کی دلیل ہے: «...فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ: أَنَا كُنْتُ أَحْفَظَكُمْ لِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (١) رَأَيْتُهُ إِذَا كَبَّرَ جَعَلَ يَدَيْهِ حِذَاءَ مَنْكِبَيْهِ، (٢)وَإِذَا رَكَعَ أَمْكَنَ يَدَيْهِ مِنْ رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ هَصَرَ ظَهْرَهُ، (٣)فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ اسْتَوَى حَتَّى يَعُودَ كُلُّ فَقَارٍ مَكَانَهُ، فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلاَ قَابِضِهِمَا، وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِ رِجْلَيْهِ القِبْلَةَ، فَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ جَلَسَ عَلَى رِجْلِهِ اليُسْرَى، وَنَصَبَ اليُمْنَى، (٤)وَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَةِ الآخِرَةِ قَدَّمَ رِجْلَهُ اليُسْرَى، وَنَصَبَ الأُخْرَى وَقَعَدَ عَلَى مَقْعَدَتِهِ» [صحيح البخاري:1 /165 رقم828]
”ابوحمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بولے کہ مجھے تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز یاد ہے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ (١) جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر (تحریمہ) پڑھی ، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں شانوں کی مقابل تک اٹھائے ، (٢) اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جما لئے، اپنی پیٹھ کو جھکا دیا، (٣) جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر (رکوع سے) اٹھایا تو اس حد تک سیدھے ہو گئے کہ ہر ایک عضو (کا جوڑا) اپنے اپنے مقام پر پہنچ گیا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ کیا تو دونوں ہاتھ اپنے زمین پر رکھ دیئے، نہ ان کو بچھائے ہوئے تھے، اور نہ سمیٹے ہوئے تھے، اور پیر کی انگلیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ کر لی تھیں، پھر جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں میں بیٹھے تو اپنے بائیں پیر پر بیٹھے، اور داہنے پیر کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑا کر لیا، (٤) جب آخری رکعت میں بیٹھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بائیں پیر کو آگے کر دیا، اور دوسرے پیر کو کھڑا کر لیا، اور اپنی نشست گاہ کے بل بیٹھ گئے۔“ اس حدیث سے بھی رکوع والے رفع الیدین کے ترک پر استدلال درست نہیں ہے، کیونکہ اس حدیث میں نماز کے تمام طریقوں کا ذکرنہیں ہے تو کیا نماز کی جن جن چیزوں کا ذکر اس حدیث میں نہیں ہے انہیں متروک مان لیاجائے؟
صرف ایک چیز کی وضاحت کرتا ہوں بخاری کی اس حدیث میں جس طرح صرف تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کا ذکر ہے ٹھیک اسی طرح سے اس حدیث میں صرف تکبیرتحریمہ والی تکبیرہی کا ذکر بھی ہے۔
میں نے حدیث کے متن کے اندر چار مقامات پر بالترتیب نمبر ڈالے ہیں ان چاروں میں سے صرف پہلے مقام تکبیر کا ذکر ہے اوربقیہ مقامات پر جس طرح رفع الیدین کا ذکر نہیں ہے اسی طرح تکبیر کا یا اس کے قائم مقام تسمیع کا بھی ذکر نہیں ہے۔
تو کیا یہ کہہ دیا جائے کہ بقیہ رفع الیدین کے ساتھ بقیہ تکبیرات بھی متروک ہو گئی ہیں؟
یاد رہے کہ بخاری کی یہی حدیث ابوداؤد میں موجود ہے اور اس میں دیگر رفع الیدین کا بھی ذکر ہے اور دیگر تکبیرات کا بھی ذکر ہے ملاحظہ ہو: «...قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: فَلِمَ؟ فَوَاللَّهِ مَا كُنْتَ بِأَكْثَرِنَا لَهُ تَبَعًا وَلَا أَقْدَمِنَا لَهُ صُحْبَةً، قَالَ: بَلَى، قَالُوا: فَاعْرِضْ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (١) إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حَتَّى يَقِرَّ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلًا، (٢) ثُمَّ يَقْرَأُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يَرْكَعُ وَيَضَعُ رَاحَتَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ يَعْتَدِلُ فَلَا يَصُبُّ رَأْسَهُ وَلَا يُقْنِعُ، (٣) ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، فَيَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ مُعْتَدِلًا، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ يَهْوِي إِلَى الْأَرْضِ فَيُجَافِي يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا، وَيَفْتَحُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ إِذَا سَجَدَ، وَيَسْجُدُ ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، وَيَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ إِلَى مَوْضِعِهِ، ثُمَّ يَصْنَعُ فِي الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، (٤) ثُمَّ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ كَمَا كَبَّرَ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ، ثُمَّ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي بَقِيَّةِ صَلَاتِهِ حَتَّى إِذَا كَانَتِ السَّجْدَةُ الَّتِي فِيهَا التَّسْلِيمُ أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَقَعَدَ مُتَوَرِّكًا عَلَى شِقِّهِ الْأَيْسَرِ "، قَالُوا: صَدَقْتَ هَكَذَا كَانَ يُصَلِّي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،» [سنن أبى داود:1 /194 رقم 730 واسناده صحيح]
”ابوحمید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق میں تم میں سے سب سے زیادہ واقفیت رکھتا ہوں صحابہ نے کہا وہ کیسے؟ واللہ تم ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہیں کرتے تھے اور نہ ہی تم ہم سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں آئے تھے ابوحمید نے کہا ہاں یہ درست ہے صحابہ نے کہا اچھا تو پھر بیان کرو ابوحمید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (١) جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اعتدال کے ساتھ اپنے مقام پر آجاتی اس کے بعد قرات شروع فرماتے (٢) پھر (رکوع) کی تکبیر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور رکوع کرتے اور رکوع میں دونوں ہتھیلیاں گھٹنوں پر رکھتے اور پشت سیدھی رکھتے سر کو نہ زیادہ جھکاتے اور نہ اونچا رکھتے۔ (٣) پھر سر اٹھاتے اور «سَمِعَ الله لِمَن حَمِدَه» کہتے۔ پھر سیدھے کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے ہوئے زمین کی طرف جھکتے (سجدہ کرتے) اور (سجدہ میں) دونوں ہاتھوں کو پہلوؤں سے جدا رکھتے پھر (سجدہ سے) سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھتے اور سجدہ کے وقت پاؤں کی انگلیوں کو کھلا رکھتے پھر (دوسرا) سجدہ کرتے اور اللہ اکبر کہہ کر پھر سجدہ سے سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر اتنی دیر تک بیٹھتے کہ ہر ہڈی اپنے مقام پر آجاتی (پھر کھڑے ہوتے) اور دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے (٤) پھر جب دو رکعتوں سے فارغ ہو کر کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اور مونڈھوں تک دونوں ہاتھ اٹھاتے جس طرح کہ نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھائے تھے اور تکبیر کہی تھی پھر باقی نماز میں بھی ایسا ہی کرتے یہاں تک کہ جب آخری سجدہ سے فارغ ہوتے یعنی جس کے بعد سلام ہوتا ہے تو بایاں پاؤں نکالتے اور بائیں کولھے پر بیٹھتے (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے کہا تم نے سچ کہا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔“
اس حدیث میں بھی ہم نے متن کے اندر چار مقامات پر بالترتیب نمبر ڈالے ہیں ان چاروں میں پہلے مقام کی طرح رفع الیدین کا بھی ذکر ہے اور تکبیر یا تسمیع کا بھی ذکرہے، تکبیر کے ذکر والے الفاظ کو ہم نے لال رنگ سے ملون و مخطوط کیا ہے اوررفع الیدین کے ذکر والے الفاظ کو نیلے رنگ سے ملون کیا ہے۔
 
معلوم ہوا کہ اس صحیح حدیث میں بھی تکبیر تحریمہ کے علاوہ والے رفع الیدین کے ترک کی دلیل نہیں ہے، اور اگر اس جیسی احادیث میں واقعی ترک کی دلیل ہے تو لیجئے ہم اسی جیسی ایک ایسی صحیح حدیث پیش کرتے ہیں جس میں تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کے ترک کی دلیل بھی موجود ہے ملاحظہ ہو: صحیح بخاری میں ہے: «... أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، " كَانَ يُكَبِّرُ فِي كُلِّ صَلاَةٍ مِنَ المَكْتُوبَةِ، وَغَيْرِهَا فِي رَمَضَانَ وَغَيْرِهِ، فَيُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ، ثُمَّ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ يَقُولُ: رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ قَبْلَ أَنْ يَسْجُدَ، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ حِينَ يَهْوِي سَاجِدًا، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَسْجُدُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ مِنَ الجُلُوسِ فِي الِاثْنَتَيْنِ، وَيَفْعَلُ ذَلِكَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ حَتَّى يَفْرُغَ مِنَ الصَّلاَةِ "، ثُمَّ يَقُولُ حِينَ يَنْصَرِفُ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنِّي لَأَقْرَبُكُمْ شَبَهًا بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ كَانَتْ هَذِهِ لَصَلاَتَهُ حَتَّى فَارَقَ الدُّنْيَا » [صحيح البخاري:1 /159رقم803]
”ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر نماز میں تکبیر کہتے تھے فرض ہو یا کوئی اور رمضان میں (بھی) اور غیر رمضان میں (بھی)، پس جب کھڑے ہوتے تھے تکبیر کہتے ، پھر جب رکوع کرتے تھے تکبیر کہتے، پھر سجدہ کرنے سے پہلے «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہتے اس کے بعد «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کہتے، اس کے بعد جب سجدہ کرنے کے لئے جھکتے، اللہ اکبر کہتے، پھر جب سجدوں سے اپنا سر اٹھاتے، تکبیر کہتے۔ پھر جب (دوسرا) سجدہ کرتے تکبیر کہتے، پھر جب سجدوں سے اپنا سر اٹھاتے، تکبیر کہتے، پھر جب دو رکعتوں میں بیٹھ کر اٹھتے، تکبیر کہتے، (خلاصہ یہ کہ) اپنی ہر رکعت میں اسی طرح کر کے نماز سے فارغ ہو جاتے، اس کے بعد جب نماز ختم کر چکتے تو کہتے کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بلاشبہ میں تم سب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے زیادہ مشابہت رکھتا ہوں، بلا شبہ آپ کی نماز اس وقت تک بالکل ایسی ہی تھی جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو چھوڑا۔ “ غور فرمائیں اس صحیح حدیث میں تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کا بھی ذکرنہیں ہے تو کیا آپ کے اصول کے مطابق تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کے ترک پر صحیح حدیث ہے یا نہیں؟
لطف تو یہ ہے کہ آپ کے اصول کے مطابق تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کے ترک پر دلالت کرنے والی اس حدیث میں یہ صراحت بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل تاحیات تھا اس حدیث کے اخیر میں دیکھیں آپ کو یہ الفاظ نظر آئیں گے: «إِنْ كَانَتْ هَذِهِ لَصَلاَتَهُ حَتَّى فَارَقَ الدُّنْيَا»
کیا خیال ہے تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کے ترک پر آپ کے اصول کے مطابق یہ کیسی زبردست دلیل ہے جس میں تاحیات اور آخری وقت کی بھی صراحت ہے۔
سنن ابواؤد کے جس راوی پر معترض نے جروح نقل کئے ہیں وہ معمولی جروح ہیں ان سے راوی ضعیف ثابت نہیں ہوتا جبکہ دیگر بہت سارے محدثین نے اس کی توثیق بھی کی ہے اس بابت تفصیل کسی اوروقت پیش کر دی جائے گی۔
تارکین رفع الیدین صحیح بخاری سے نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں رکوع والے رفع الیدین کے ترک کی دلیل ہے: «...فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ: أَنَا كُنْتُ أَحْفَظَكُمْ لِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (١) رَأَيْتُهُ إِذَا كَبَّرَ جَعَلَ يَدَيْهِ حِذَاءَ مَنْكِبَيْهِ، (٢)وَإِذَا رَكَعَ أَمْكَنَ يَدَيْهِ مِنْ رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ هَصَرَ ظَهْرَهُ، (٣)فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ اسْتَوَى حَتَّى يَعُودَ كُلُّ فَقَارٍ مَكَانَهُ، فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلاَ قَابِضِهِمَا، وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِ رِجْلَيْهِ القِبْلَةَ، فَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ جَلَسَ عَلَى رِجْلِهِ اليُسْرَى، وَنَصَبَ اليُمْنَى، (٤)وَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَةِ الآخِرَةِ قَدَّمَ رِجْلَهُ اليُسْرَى، وَنَصَبَ الأُخْرَى وَقَعَدَ عَلَى مَقْعَدَتِهِ» [صحيح البخاري:1 /165 رقم828]
”ابوحمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بولے کہ مجھے تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز یاد ہے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ (١) جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر (تحریمہ) پڑھی ، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں شانوں کی مقابل تک اٹھائے ، (٢) اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جما لئے، اپنی پیٹھ کو جھکا دیا، (٣) جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر (رکوع سے) اٹھایا تو اس حد تک سیدھے ہو گئے کہ ہر ایک عضو (کا جوڑا) اپنے اپنے مقام پر پہنچ گیا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ کیا تو دونوں ہاتھ اپنے زمین پر رکھ دیئے، نہ ان کو بچھائے ہوئے تھے، اور نہ سمیٹے ہوئے تھے، اور پیر کی انگلیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ کر لی تھیں، پھر جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں میں بیٹھے تو اپنے بائیں پیر پر بیٹھے، اور داہنے پیر کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑا کر لیا، (٤) جب آخری رکعت میں بیٹھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بائیں پیر کو آگے کر دیا، اور دوسرے پیر کو کھڑا کر لیا، اور اپنی نشست گاہ کے بل بیٹھ گئے۔“ اس حدیث سے بھی رکوع والے رفع الیدین کے ترک پر استدلال درست نہیں ہے، کیونکہ اس حدیث میں نماز کے تمام طریقوں کا ذکرنہیں ہے تو کیا نماز کی جن جن چیزوں کا ذکر اس حدیث میں نہیں ہے انہیں متروک مان لیاجائے؟
صرف ایک چیز کی وضاحت کرتا ہوں بخاری کی اس حدیث میں جس طرح صرف تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کا ذکر ہے ٹھیک اسی طرح سے اس حدیث میں صرف تکبیرتحریمہ والی تکبیرہی کا ذکر بھی ہے۔
میں نے حدیث کے متن کے اندر چار مقامات پر بالترتیب نمبر ڈالے ہیں ان چاروں میں سے صرف پہلے مقام تکبیر کا ذکر ہے اوربقیہ مقامات پر جس طرح رفع الیدین کا ذکر نہیں ہے اسی طرح تکبیر کا یا اس کے قائم مقام تسمیع کا بھی ذکر نہیں ہے۔
تو کیا یہ کہہ دیا جائے کہ بقیہ رفع الیدین کے ساتھ بقیہ تکبیرات بھی متروک ہو گئی ہیں؟
یاد رہے کہ بخاری کی یہی حدیث ابوداؤد میں موجود ہے اور اس میں دیگر رفع الیدین کا بھی ذکر ہے اور دیگر تکبیرات کا بھی ذکر ہے ملاحظہ ہو: «...قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: فَلِمَ؟ فَوَاللَّهِ مَا كُنْتَ بِأَكْثَرِنَا لَهُ تَبَعًا وَلَا أَقْدَمِنَا لَهُ صُحْبَةً، قَالَ: بَلَى، قَالُوا: فَاعْرِضْ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (١) إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حَتَّى يَقِرَّ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلًا، (٢) ثُمَّ يَقْرَأُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يَرْكَعُ وَيَضَعُ رَاحَتَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ يَعْتَدِلُ فَلَا يَصُبُّ رَأْسَهُ وَلَا يُقْنِعُ، (٣) ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، فَيَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ مُعْتَدِلًا، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ يَهْوِي إِلَى الْأَرْضِ فَيُجَافِي يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا، وَيَفْتَحُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ إِذَا سَجَدَ، وَيَسْجُدُ ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، وَيَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ إِلَى مَوْضِعِهِ، ثُمَّ يَصْنَعُ فِي الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، (٤) ثُمَّ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ كَمَا كَبَّرَ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ، ثُمَّ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي بَقِيَّةِ صَلَاتِهِ حَتَّى إِذَا كَانَتِ السَّجْدَةُ الَّتِي فِيهَا التَّسْلِيمُ أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَقَعَدَ مُتَوَرِّكًا عَلَى شِقِّهِ الْأَيْسَرِ "، قَالُوا: صَدَقْتَ هَكَذَا كَانَ يُصَلِّي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،» [سنن أبى داود:1 /194 رقم 730 واسناده صحيح]
”ابوحمید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق میں تم میں سے سب سے زیادہ واقفیت رکھتا ہوں صحابہ نے کہا وہ کیسے؟ واللہ تم ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہیں کرتے تھے اور نہ ہی تم ہم سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں آئے تھے ابوحمید نے کہا ہاں یہ درست ہے صحابہ نے کہا اچھا تو پھر بیان کرو ابوحمید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (١) جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اعتدال کے ساتھ اپنے مقام پر آجاتی اس کے بعد قرات شروع فرماتے (٢) پھر (رکوع) کی تکبیر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور رکوع کرتے اور رکوع میں دونوں ہتھیلیاں گھٹنوں پر رکھتے اور پشت سیدھی رکھتے سر کو نہ زیادہ جھکاتے اور نہ اونچا رکھتے۔ (٣) پھر سر اٹھاتے اور «سَمِعَ الله لِمَن حَمِدَه» کہتے۔ پھر سیدھے کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے ہوئے زمین کی طرف جھکتے (سجدہ کرتے) اور (سجدہ میں) دونوں ہاتھوں کو پہلوؤں سے جدا رکھتے پھر (سجدہ سے) سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھتے اور سجدہ کے وقت پاؤں کی انگلیوں کو کھلا رکھتے پھر (دوسرا) سجدہ کرتے اور اللہ اکبر کہہ کر پھر سجدہ سے سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر اتنی دیر تک بیٹھتے کہ ہر ہڈی اپنے مقام پر آجاتی (پھر کھڑے ہوتے) اور دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے (٤) پھر جب دو رکعتوں سے فارغ ہو کر کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اور مونڈھوں تک دونوں ہاتھ اٹھاتے جس طرح کہ نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھائے تھے اور تکبیر کہی تھی پھر باقی نماز میں بھی ایسا ہی کرتے یہاں تک کہ جب آخری سجدہ سے فارغ ہوتے یعنی جس کے بعد سلام ہوتا ہے تو بایاں پاؤں نکالتے اور بائیں کولھے پر بیٹھتے (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے کہا تم نے سچ کہا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔“
اس حدیث میں بھی ہم نے متن کے اندر چار مقامات پر بالترتیب نمبر ڈالے ہیں ان چاروں میں پہلے مقام کی طرح رفع الیدین کا بھی ذکر ہے اور تکبیر یا تسمیع کا بھی ذکرہے، تکبیر کے ذکر والے الفاظ کو ہم نے لال رنگ سے ملون و مخطوط کیا ہے اوررفع الیدین کے ذکر والے الفاظ کو نیلے رنگ سے ملون کیا ہے۔
معلوم ہوا کہ اس صحیح حدیث میں بھی تکبیر تحریمہ کے علاوہ والے رفع الیدین کے ترک کی دلیل نہیں ہے، اور اگر اس جیسی احادیث میں واقعی ترک کی دلیل ہے تو لیجئے ہم اسی جیسی ایک ایسی صحیح حدیث پیش کرتے ہیں جس میں تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کے ترک کی دلیل بھی موجود ہے ملاحظہ ہو: صحیح بخاری میں ہے: «... أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، " كَانَ يُكَبِّرُ فِي كُلِّ صَلاَةٍ مِنَ المَكْتُوبَةِ، وَغَيْرِهَا فِي رَمَضَانَ وَغَيْرِهِ، فَيُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ، ثُمَّ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ يَقُولُ: رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ قَبْلَ أَنْ يَسْجُدَ، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ حِينَ يَهْوِي سَاجِدًا، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَسْجُدُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ مِنَ الجُلُوسِ فِي الِاثْنَتَيْنِ، وَيَفْعَلُ ذَلِكَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ حَتَّى يَفْرُغَ مِنَ الصَّلاَةِ "، ثُمَّ يَقُولُ حِينَ يَنْصَرِفُ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنِّي لَأَقْرَبُكُمْ شَبَهًا بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ كَانَتْ هَذِهِ لَصَلاَتَهُ حَتَّى فَارَقَ الدُّنْيَا » [صحيح البخاري:1 /159رقم803]
”ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر نماز میں تکبیر کہتے تھے فرض ہو یا کوئی اور رمضان میں (بھی) اور غیر رمضان میں (بھی)، پس جب کھڑے ہوتے تھے تکبیر کہتے ، پھر جب رکوع کرتے تھے تکبیر کہتے، پھر سجدہ کرنے سے پہلے «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہتے اس کے بعد «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کہتے، اس کے بعد جب سجدہ کرنے کے لئے جھکتے، اللہ اکبر کہتے، پھر جب سجدوں سے اپنا سر اٹھاتے، تکبیر کہتے۔ پھر جب (دوسرا) سجدہ کرتے تکبیر کہتے، پھر جب سجدوں سے اپنا سر اٹھاتے، تکبیر کہتے، پھر جب دو رکعتوں میں بیٹھ کر اٹھتے، تکبیر کہتے، (خلاصہ یہ کہ) اپنی ہر رکعت میں اسی طرح کر کے نماز سے فارغ ہو جاتے، اس کے بعد جب نماز ختم کر چکتے تو کہتے کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بلاشبہ میں تم سب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے زیادہ مشابہت رکھتا ہوں، بلا شبہ آپ کی نماز اس وقت تک بالکل ایسی ہی تھی جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو چھوڑا۔ “ غور فرمائیں اس صحیح حدیث میں تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کا بھی ذکرنہیں ہے تو کیا آپ کے اصول کے مطابق تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کے ترک پر صحیح حدیث ہے یا نہیں؟
لطف تو یہ ہے کہ آپ کے اصول کے مطابق تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کے ترک پر دلالت کرنے والی اس حدیث میں یہ صراحت بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل تاحیات تھا اس حدیث کے اخیر میں دیکھیں آپ کو یہ الفاظ نظر آئیں گے: «إِنْ كَانَتْ هَذِهِ لَصَلاَتَهُ حَتَّى فَارَقَ الدُّنْيَا»
کیا خیال ہے تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کے ترک پر آپ کے اصول کے مطابق یہ کیسی زبردست دلیل ہے جس میں تاحیات اور آخری وقت کی بھی صراحت ہے۔
سنن ابواؤد کے جس راوی پر معترض نے جروح نقل کئے ہیں وہ معمولی جروح ہیں ان سے راوی ضعیف ثابت نہیں ہوتا جبکہ دیگر بہت سارے محدثین نے اس کی توثیق بھی کی ہے اس بابت تفصیل کسی اوروقت پیش کر دی جائے گی۔
درج بالا اقتباس محدث فورم، حدیث/صفحہ نمبر: 27334 سے ماخوذ ہے۔
✍️ مولانا داود راز
828. حضرت محمد بن عمرو بن عطاء سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے چند اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس دوران میں نبی ﷺ کی نماز کا ذکر ہونے لگا تو حضرت ابوحمید ساعدی ؓ نے فرمایا: مجھے رسول اللہ ﷺ کی نماز تم سب سے زیادہ یاد ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے تکبیر تحریمہ کہی تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر لے گئے۔ اور جب آپ نے رکوع کیا تو دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جما لیے، پھر اپنی کمر کو خمیدہ کیا۔ اور جب آپ نے سر اٹھایا تو ایسے سیدھے کھڑے ہوئے کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر آ گئی۔ اور جب آپ نے سجدہ کیا تو نہ آپ دونوں ہاتھوں کو بچھائے ہوئے تھے اور نہ ہی سمیٹے ہوئے تھے اور پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ تھیں۔ اور جب دو رکعتوں میں بیٹھتے تو بایاں پاؤں بچھا کر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے۔ اور جب آخری رکعت میں بیٹھتے تو بایاں پاؤں آگے کرتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے، پھر اپنی نشست گاہ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:828]
 حدیث حاشیہ:  صحیح ابن خزیمہ میں دس بیٹھنے والے اصحاب کرام ؓ میں سہل بن سعد اور ابوحمید ساعدی اور محمد بن مسلمہ اور ابو ہریرہ اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہم کے نام بتلائے گئے ہیں باقی کے نام معلوم نہیں ہو سکے یہ حدیث مختلف سندوں کے ساتھ کہیں مجمل اور کہیں مفصل مروی ہے اس میں دوسرے قعدے میں تو اس کا ذکر ہے یعنی سرین پر بیٹھنا دائیں پاؤں کو کھڑا کرنا اور بائیں کو آگے کر کے تلے سے دائیں طرف باہر نکالنا اور دونوں سرین زمین سے ملا کر بائیں ران پر بیٹھنا یہ تورک چار رکعت والی نماز میں اور نماز فجر کی آخری رکعت میں کرنا چاہیے۔
امام شافعی امام احمدبن حنبل کا یہی مسلک ہے آخر حدیث میں حضرت عبداللہ بن مبارک کی جو روایت ہے اسے فریابی اور جوزنی اور ابراہیم حربی نے وصل کیا ہے سنن نماز کے سلسلہ میں یہ حدیث ایک اصولی تفصیلی بیان کی حیثیت رکھتی ہے۔
امام شافعی امام احمدبن حنبل کا یہی مسلک ہے آخر حدیث میں حضرت عبداللہ بن مبارک کی جو روایت ہے اسے فریابی اور جوزنی اور ابراہیم حربی نے وصل کیا ہے سنن نماز کے سلسلہ میں یہ حدیث ایک اصولی تفصیلی بیان کی حیثیت رکھتی ہے۔
درج بالا اقتباس صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 828 سے ماخوذ ہے۔
✍️ الشیخ عبدالستار الحماد
828. حضرت محمد بن عمرو بن عطاء سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے چند اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس دوران میں نبی ﷺ کی نماز کا ذکر ہونے لگا تو حضرت ابوحمید ساعدی ؓ نے فرمایا: مجھے رسول اللہ ﷺ کی نماز تم سب سے زیادہ یاد ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے تکبیر تحریمہ کہی تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر لے گئے۔ اور جب آپ نے رکوع کیا تو دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جما لیے، پھر اپنی کمر کو خمیدہ کیا۔ اور جب آپ نے سر اٹھایا تو ایسے سیدھے کھڑے ہوئے کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر آ گئی۔ اور جب آپ نے سجدہ کیا تو نہ آپ دونوں ہاتھوں کو بچھائے ہوئے تھے اور نہ ہی سمیٹے ہوئے تھے اور پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ تھیں۔ اور جب دو رکعتوں میں بیٹھتے تو بایاں پاؤں بچھا کر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے۔ اور جب آخری رکعت میں بیٹھتے تو بایاں پاؤں آگے کرتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے، پھر اپنی نشست گاہ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:828]
 حدیث حاشیہ:  
(1)
یہ روایت مختلف طرق سے کہیں مجمل اور کہیں مفصل بیان ہوئی ہے۔
مذکورہ روایت کے مطابق پہلے تشہد میں افتراش اور دوسرے میں تورک کا ذکر ہے۔
اس کے تین طریقے احادیث میں بیان ہوئے ہیں: ٭ دایاں پاؤں کھڑا کر کے بائیں پاؤں کو دائیں ران کے نیچے سے آگے بڑھا دیا جائے پھر سرین پر بیٹھا جائے جیسا کہ حدیث بالا میں مذکور ہے۔
٭ حضرت ابو حمید ساعدی ؓ کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ چوتھی رکعت میں ہوتے تو بائیں سرین کے ساتھ زمین پر بیٹھ جاتے اور اپنے دونوں قدموں کو ایک جانب سے نکال لیتے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 731)
٭ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تو بائیں پاؤں کو ران اور پنڈلی کے درمیان میں کر لیتے اور دایاں پاؤں بچھا لیتے۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1307(579)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے تورک ثابت ہے اور آپ کبھی ایک طریقہ استعمال کرتے اور کبھی دوسرا، اور تورک اس تشہد میں ہوتا جس میں سلام پھیرا جاتا ہے۔
اس کی وجہ اور علت میں اختلاف ہے۔
امام احمد کے نزدیک اس کی علت "تفریق" ہے، یعنی پہلے اور دوسرے تشہد میں فرق کرنے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز فجر اور نماز جمعہ میں تورک نہیں ہے۔
امام شافعی ؒ کے نزدیک اس کی علت تخفیف ہے، یعنی تشہد اول چھوٹا ہوتا ہے اس میں تورک کی ضرورت نہیں اور تشہد ثانی طویل ہوتا ہے، اس لیے اس میں تخفیف ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ طویل قعود کے پیش نظر ہر نماز کے آخری تشہد میں تورک ہو گا۔
نماز فجر اور نماز جمعہ میں بھی تورک کیا جائے۔
بہرحال ہمیں اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کیونکہ روایات میں صراحت ہے کہ جس تشہد میں سلام پھیرنا ہوتا اس میں تورک کیا جاتا۔
ابن حبان کی روایت میں نماز کے خاتمے کے الفاظ ہیں۔
(2)
ایک روایت ہے کہ اس مجلس میں موجود تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت ابو حمید ساعدی ؓ کے بیان کی تصدیق کی اور بیک زبان فرمایا کہ واقعی رسول اللہ ﷺ اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 730)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس مجلس میں بیٹھنے والے دس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں حضرت سہل بن سعد، ابو اسید ساعدی، محمد بن مسلمہ، حضرت ابو ہریرہ اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہم نے نماز کا طریقہ عملی طور پر اور بعض روایات کے مطابق زبان سے بیان فرمایا ہے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 397/2) (3)
اس روایت کے آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ استنادی مباحث بھی ذکر کیے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے: ٭ اس حدیث کی سند میں تصریح سماع نہ تھی، امام بخاری نے دوسرے طریق بیان کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ سند کے تمام راویوں نے اپنے شیوخ سے اس حدیث کو سنا ہے۔
٭ حضرت عبداللہ بن مبارک کی روایت کو جعفر فریابی، علامہ جوزقی اور ابراہیم الحربی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 400/2)
واضح رہے کہ مذکورہ حدیث طریقۂ نماز کے متعلق ایک اصولی اور تفصیلی بیان کی حیثیت رکھتی ہے۔
بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ صحابئ جلیل نے اس حدیث کا آغاز طریقۂ وضو اور استقبال قبلہ کے ذکر سے کیا تھا۔
(1)
یہ روایت مختلف طرق سے کہیں مجمل اور کہیں مفصل بیان ہوئی ہے۔
مذکورہ روایت کے مطابق پہلے تشہد میں افتراش اور دوسرے میں تورک کا ذکر ہے۔
اس کے تین طریقے احادیث میں بیان ہوئے ہیں: ٭ دایاں پاؤں کھڑا کر کے بائیں پاؤں کو دائیں ران کے نیچے سے آگے بڑھا دیا جائے پھر سرین پر بیٹھا جائے جیسا کہ حدیث بالا میں مذکور ہے۔
٭ حضرت ابو حمید ساعدی ؓ کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ چوتھی رکعت میں ہوتے تو بائیں سرین کے ساتھ زمین پر بیٹھ جاتے اور اپنے دونوں قدموں کو ایک جانب سے نکال لیتے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 731)
٭ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تو بائیں پاؤں کو ران اور پنڈلی کے درمیان میں کر لیتے اور دایاں پاؤں بچھا لیتے۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1307(579)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے تورک ثابت ہے اور آپ کبھی ایک طریقہ استعمال کرتے اور کبھی دوسرا، اور تورک اس تشہد میں ہوتا جس میں سلام پھیرا جاتا ہے۔
اس کی وجہ اور علت میں اختلاف ہے۔
امام احمد کے نزدیک اس کی علت "تفریق" ہے، یعنی پہلے اور دوسرے تشہد میں فرق کرنے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز فجر اور نماز جمعہ میں تورک نہیں ہے۔
امام شافعی ؒ کے نزدیک اس کی علت تخفیف ہے، یعنی تشہد اول چھوٹا ہوتا ہے اس میں تورک کی ضرورت نہیں اور تشہد ثانی طویل ہوتا ہے، اس لیے اس میں تخفیف ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ طویل قعود کے پیش نظر ہر نماز کے آخری تشہد میں تورک ہو گا۔
نماز فجر اور نماز جمعہ میں بھی تورک کیا جائے۔
بہرحال ہمیں اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کیونکہ روایات میں صراحت ہے کہ جس تشہد میں سلام پھیرنا ہوتا اس میں تورک کیا جاتا۔
ابن حبان کی روایت میں نماز کے خاتمے کے الفاظ ہیں۔
(2)
ایک روایت ہے کہ اس مجلس میں موجود تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت ابو حمید ساعدی ؓ کے بیان کی تصدیق کی اور بیک زبان فرمایا کہ واقعی رسول اللہ ﷺ اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 730)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس مجلس میں بیٹھنے والے دس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں حضرت سہل بن سعد، ابو اسید ساعدی، محمد بن مسلمہ، حضرت ابو ہریرہ اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہم نے نماز کا طریقہ عملی طور پر اور بعض روایات کے مطابق زبان سے بیان فرمایا ہے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 397/2) (3)
اس روایت کے آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ استنادی مباحث بھی ذکر کیے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے: ٭ اس حدیث کی سند میں تصریح سماع نہ تھی، امام بخاری نے دوسرے طریق بیان کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ سند کے تمام راویوں نے اپنے شیوخ سے اس حدیث کو سنا ہے۔
٭ حضرت عبداللہ بن مبارک کی روایت کو جعفر فریابی، علامہ جوزقی اور ابراہیم الحربی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 400/2)
واضح رہے کہ مذکورہ حدیث طریقۂ نماز کے متعلق ایک اصولی اور تفصیلی بیان کی حیثیت رکھتی ہے۔
بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ صحابئ جلیل نے اس حدیث کا آغاز طریقۂ وضو اور استقبال قبلہ کے ذکر سے کیا تھا۔
درج بالا اقتباس هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 828 سے ماخوذ ہے۔
✍️ حافظ زبیر علی زئی
 تشہد اول میں تورک  
تشہد (اول میں یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا بایاں پاؤں بچھاتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے تھے۔ مثلاًً دیکھئے: [صحيح مسلم 1045]
اس کو قعدۂ اولیٰ کے ساتھ خاص کرنے کی دلیل وہ صحیح حدیث ہے، جس میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری رکعت کے تشہد میں تورک کرتے تھے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 828]
مرد ہو یا عورت سب کے لئے یہی طریقہ ہے کہ تشہد اول میں تورک نہ کریں اور آخری تشہد میں تورک کریں۔
 
کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ عورتیں پہلے تشہد میں تورک کریں گی۔ جامع المسانید للخوارزمی [400/1] اور مسند الحصکفی (!!) کی جس روایت میں آیا ہے: عورتیں چار زانو بیٹھا کرتی تھیں، پھر انہیں حکم دیا گیا کہ وہ سرین کے بل بیٹھیں۔ مثلاًً دیکھئے: [چهل حديث ص83]
 
اس روایت کی سند کئی وجہ سے موضوع ہے: اول: اس کا پہلا راوی ابومحمد عبداللہ بن محمد بن یعقو ب البخاری الحارثی کذاب ہے۔
 
دیکھئے: میزان الاعتدال [ج1 ص496] اور کتاب ال قرأت للبیہقی [ص178 ح388، دوسرانسخه ص154]
دوم: اس کے باقی راوی مثلاًً قبیصہ الطبری اور زر بن نجیح وغیرہما مجہول تھے۔
 
۔۔۔ اصل مضمون دیکھیں۔۔۔
 
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) ج2 ص77
تشہد (اول میں یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا بایاں پاؤں بچھاتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے تھے۔ مثلاًً دیکھئے: [صحيح مسلم 1045]
اس کو قعدۂ اولیٰ کے ساتھ خاص کرنے کی دلیل وہ صحیح حدیث ہے، جس میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری رکعت کے تشہد میں تورک کرتے تھے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 828]
مرد ہو یا عورت سب کے لئے یہی طریقہ ہے کہ تشہد اول میں تورک نہ کریں اور آخری تشہد میں تورک کریں۔
کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ عورتیں پہلے تشہد میں تورک کریں گی۔ جامع المسانید للخوارزمی [400/1] اور مسند الحصکفی (!!) کی جس روایت میں آیا ہے: عورتیں چار زانو بیٹھا کرتی تھیں، پھر انہیں حکم دیا گیا کہ وہ سرین کے بل بیٹھیں۔ مثلاًً دیکھئے: [چهل حديث ص83]
اس روایت کی سند کئی وجہ سے موضوع ہے: اول: اس کا پہلا راوی ابومحمد عبداللہ بن محمد بن یعقو ب البخاری الحارثی کذاب ہے۔
دیکھئے: میزان الاعتدال [ج1 ص496] اور کتاب ال قرأت للبیہقی [ص178 ح388، دوسرانسخه ص154]
دوم: اس کے باقی راوی مثلاًً قبیصہ الطبری اور زر بن نجیح وغیرہما مجہول تھے۔
۔۔۔ اصل مضمون دیکھیں۔۔۔
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) ج2 ص77
درج بالا اقتباس فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، حدیث/صفحہ نمبر: 77 سے ماخوذ ہے۔
