صحيح البخاري : حدیث نمبر 822، باب: اس بارے میں کہ نمازی سجدہ میں اپنے دونوں بازوؤں کو (جانور کی طرح) زمین پر نہ بچھائے۔
صحيح البخاري
كتاب الأذان (صفة الصلوة)— کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
بَابُ لاَ يَفْتَرِشُ ذِرَاعَيْهِ فِي السُّجُودِ:— باب: اس بارے میں کہ نمازی سجدہ میں اپنے دونوں بازوؤں کو (جانور کی طرح) زمین پر نہ بچھائے۔
حدیث نمبر: 822
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ : سَمِعْتُ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " اعْتَدِلُوا فِي السُّجُودِ ، وَلَا يَبْسُطْ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْهِ انْبِسَاطَ الْكَلْبِ " .
مولانا داود راز
´ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ میں نے قتادہ سے سنا ، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے انہوں نے بیان کیا کہ` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سجدہ میں اعتدال کو ملحوظ رکھو اور اپنے بازو کتوں کی طرح نہ پھیلایا کرو ۔
حوالہ حدیث صحيح البخاري / كتاب الأذان (صفة الصلوة) / حدیث: 822
درجۂ حدیث محدثین: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

تشریح، فوائد و مسائل

✍️ مولانا داود راز
822. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’سجدے میں اعتدال کرو اور تم میں سے کوئی اپنی کلائیاں اس طرح نہ پھیلائے جس طرح کتا بچھاتا ہے۔‘‘[صحيح بخاري، حديث نمبر:822]
حدیث حاشیہ: کیونکہ اس طرح بازو بچھا دینا سستی اور کاہلی کی نشانی ہے۔
کتے کے ساتھ تشبیہ اوربھی مذمت ہے۔
اس کا پورا لحاظ رکھنا چاہیے۔
امام قسطلانی ؒ نے کہا کہ اگرکوئی ایسا کرے تو نماز مکروہ تنزیہی ہوگی۔
درج بالا اقتباس صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 822 سے ماخوذ ہے۔

✍️ الشیخ عبدالستار الحماد
822. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’سجدے میں اعتدال کرو اور تم میں سے کوئی اپنی کلائیاں اس طرح نہ پھیلائے جس طرح کتا بچھاتا ہے۔‘‘[صحيح بخاري، حديث نمبر:822]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں ہے کہ سجدہ کرتے وقت نمازی کے ہاتھ بھی سجدہ کرتے ہیں اور ان کے سجدے کی یہی صورت ہے کہ وہ آگے سے جھکے ہوئے اور پیچھے سے اٹھے ہوئے ہوں لیکن افتراش کی صورت میں سجدے کی حالت نہیں ہو گی، نیز رسول اللہ ﷺ نے نماز میں بری ہئیت اور حیوانات سے تشبیہ کو ناپسند کیا ہے اور کلائیاں زمین پر بچھانے سے کتے کی مشابہت ہوتی ہے، اس لیے آپ نے اس سے منع فرمایا ہے۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں حکم امتناعی کے ساتھ اس کی علامت بھی بیان کر دی ہے کہ گھٹیا اور ذلیل چیزوں سے مشابہت ترک کرنا ہو گی کیونکہ ایسا کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نمازی اپنی نماز میں خالص توجہ نہیں دیتا اور اس کی پروا نہیں کرتا۔
(فتح الباري: 390/2)
درج بالا اقتباس هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 822 سے ماخوذ ہے۔

✍️ حافظ زبیر علی زئی
سجدے میں کتے کی طرح زمین پر ہاتھ بچھانا
حدیث میں آیا ہے کہ سجدے میں کتے کی طرح زمین پر ہاتھ نہیں بچھانے چاہئیں۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 822]

اور کسی صحیح حدیث میں یہ بالکل نہیں آیا کہ عورتیں سجدوں میں زمین پر ہاتھ بچھائیں۔

ایک روایت میں آیا ہے کہ ’’جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملا لیا کرو کیونکہ عورت کا حکم سجدے میں مرد جیسا نہیں ہے۔ [مراسيل ابي داود: 8]

یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
مرسل کے بارے میں امام مسلم رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک مرسل روایات حجت نہیں ہیں۔ [مقدمه صحيح مسلم ص20 ملخصا]

طحاوی حنفی کے ایک کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ منقطع (مرسل) کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔ دیکھئے: [شرح معاني الآثار ج2 ص164، باب الرجل يسلم فى دارالحرب وعنده اكثر من اربع نسوة، طبع ايچ ايم سعيدد كمپني كراچي]

یاد رہے کہ امام ابوحنیفہ سے باسند صحیح یہ قول ثابت نہیں کہ مرسل حجت ہے۔

دیو بندی حضرات بذاتِ خود بہت سی مرسل روایات کے منکر ہیں۔ مثلاًً: طاؤس تابعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں سینے پر ہاتھ باندھتے تھے۔ [المراسيل لابي داود: 34]

اس کی سند طاؤس تک حسن لذاتہ ہے۔ سلیمان بن موسیٰ کو جمہور نے ثقہ کہا:۔

دیکھئے سرفراز خان صفدر کی خزائن السنن [ج2 ص89] اور باقی راویوں پر بھی جرح مردود ہے۔

ظہور احمد دیو بندی نے ضعیف (مرسل) روایت کی تائید میں دو مردود روایتیں پیش کی ہیں: اول: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت بحوالہ السنن الکبریٰ للبیہقی [223/2]

اس کا راوی ابومطیع الحکم بن عبداللہ البلخی سخت مجروح تھا اور اسی صفحے پر امام بیہقی نے اس پر جرح کر رکھی ہے۔ نیز دیکھئے: [لسان الميزان ج2 ص334۔ 336]

اس کے دوسرے راوی محمد بن القاسم البلخی کا (روایت میں) ذکر حلال نہیں۔ دیکھئے: [لسان الميزان 347/5]

تیسرا راوی عبید بن محمد السرخسی نامعلوم ہے۔
خلاصہ یہ کہ یہ سند موضوع ہے۔

دوم: سیدنا ابوسعید الخذری رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت بحوالہ السنن الکبریٰ [222/2]

اس کا راوی عطاء بن عجلان متروک ہے، بلکہ ابن معین اور فلاس وغیرہما نے اسے جھوٹا قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب 4594]

لہٰذا یہ سند بھی موضوع ہے اور خود امام بیہقی نے بھی اس پر جرح کر رکھی ہے۔

۔۔۔ اصل مضمون دیکھیں۔۔۔

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) ج2 ص77
درج بالا اقتباس فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، حدیث/صفحہ نمبر: 77 سے ماخوذ ہے۔

✍️ حافظ زبیر علی زئی
سجدے کا بیان

پھر آپ تکبیر (اللہ اکبر) کہہ کر (یا کہتے ہوئے) سجدے کے لئے جھکتے۔

دلیل: «ثم يقول الله أكبر حين يهوي ساجدًا .» [بخاري: 803، مسلم: 329]

آپ نے فرمایا: «إذاسجد أحدكم فلا يبرك كما يبرك البعير وليضع يديه قبل ركبتيه .» [ابوداود: 840]

’’جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے (بلکہ) اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں سے پہلے (زمین پر) رکھے اور آپ کا عمل بھی اسی کے مطابق تھا۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے گھٹنوں سے پہلے اپنے دونوں ہاتھ (زمین پر) رکھتے تھے اور فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے۔

جس روایت میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جاتے وقت پہلے گھٹنے اور پھر ہاتھ رکھتے تھے۔ [ابوداود: 838]
شریک بن عبداللہ القاضی کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے اس کے تمام شواہد بھی ضعیف ہیں۔

* سجدہ سات اعضاء یعنی دونوں گھٹنوں دونوں ہاتھوں اور چہرے کے اعتماد سے کرنا چاہئے۔

دلیل: آپ نے فرمایا: «أمرت أن أسجد على سبعة أعظم على الجبهة وأشار بيده على أنفه، واليدين والركبتين وأطراف القدمين .» [صحيح بخاري: 812، صحيح مسلم: 490]

’’مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے (ان سب کی طرف) اشارہ کیا کہ پیشانی، ناک، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں قدموں کے پنجے۔

* آپ فرماتے تھے: «إذاسجد العبد سجد معه سبعة أطراف: وجهه وكفاه وركبتاه وقدماه .» [صحيح مسلم: 491]

’’جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو سات اطراف (اعضاء) اس کے ساتھ سجدہ کرتے ہیں چہرہ، ہتھیلیاں، دو گھٹنے اور دو پاؤں۔

معلوم ہوا کہ سجدہ میں ناک پیشانی، دونوں ہتھیلیوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں کا زمین پر لگانا ضروری (فرض) ہے۔

ایک روایت میں آپ کے الفاظ یہ ہیں: «لا صلوة لمن لم يضع أنفه على الأرض .» [دارقطني: 1/378، رقم: 1303]

’’جو شخص (نماز میں) اپنی ناک، زمین پر نہ رکھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔

* آپ سجدے میں ناک اور پیشانی زمین پر (خوب) جما کر رکھتے، اپنے بازؤں کو اپنے پہلوؤں (بغلوں سے دور کرتے اور دونوں ہتھیلیاں کندھوں کے برابر زمین) پر رکھتے تھے «ثم سجد فأمكن أنفه وجبهته ونحي يديه عن جنبيه .» [ابوداود: 734]

وائل بن حجر فرماتے ہیں کہ: «فلماسجد وضع رأسه بذلك المنزل من بين يديه .» [ابوداود: 726]

’’آپ نے جب سجدہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان اپنے سر کو رکھا۔

* سجدے میں آپ اپنے دونوں بازؤں کو اپنی بغلوں سے ہٹا کر رکھتے تھے۔

دلیل: «ثم يهوي إلى الارض فيجافي يديه عن جنبيه .» [ابوداود: 730]

* آپ سجدے میں اپنے ہاتھ (زمین پر) رکھتے نہ تو انہیں بچھا دیتے اور نہ (بہت) سمیٹ لیتے اپنے پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ رخ رکھتے۔

دلیل: «فإذاسجد وضع يديه غير مفترش ولا قابضهما واستقبل باطراف أصابع رجليه القبلة» [صحيح بخاري: 828]

* سجدہ میں آپ کے بغلوں کی سفیدی نظر آ جاتی تھی۔

دلیل: «عن عبدالله بن مالك أن النبى كان إذا صلى فرج بين يديه حتي يبدو بياض إبطيه .» [صحيح بخاري: 390، صحيح مسلم495]

* سجدہ کرتے ہوئے بازؤں کو زمین پربچھانا نہیں چاہئے۔

دلیل: آپ فرماتے تھے کہ: «اعتدلوا فى السجود، ولا ينبسط أحدكم ذراعيه انبساط الكلب .» [صحيح بخاري: 822، صحيح مسلم: 493]

’’سجدے میں اعتدال کرو، کتے کی طرح بازو نہ بچھا دو۔

اس حکم میں مرد اور عورتیں سب شامل ہیں۔ لہٰذا عورتوں کو بھی چاہئے کہ سجدے میں اپنے بازو نہ پھیلائیں۔

* آپ جب سجدہ کرتے تو اگر بکری کا بچہ آپ کے بازؤں کے درمیان سے گزرنا چاہتا تو گزر سکتا تھا۔

دلیل: «عن ميمونه قالت: كان النبى إذاسجد لو شاء ت بهمة أن تمر بين يديه لمرت .» [صحيح مسلم: 496]

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے سینے اور پیٹ کو زمین سے بلند رکھتے تھے «صلوا كما رأيتموني أصلي» کے عام حکم کے تحت عورتوں کے لیے بھی یہی حکم ہے۔
درج بالا اقتباس ماہنامہ الحدیث حضرو، حدیث/صفحہ نمبر: 999 سے ماخوذ ہے۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل