سنن نسائي
كتاب الطلاق— کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
بَابُ : خِيَارِ الأَمَةِ تُعْتَقُ وَزَوْجُهَا حُرٌّ— باب: آزاد شخص کی غلام بیوی آزاد ہو تو اسے اختیار کا حق حاصل ہو گا۔
حدیث نمبر: 3479
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : اشْتَرَيْتُ بَرِيرَةَ ، فَاشْتَرَطَ أَهْلُهَا وَلَاءَهَا ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : " أَعْتِقِيهَا ، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْطَى الْوَرِقَ " ، قَالَتْ : فَأَعْتَقْتُهَا ، فَدَعَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَيَّرَهَا مِنْ زَوْجِهَا ، قَالَتْ : لَوْ أَعْطَانِي كَذَا وَكَذَا مَا أَقَمْتُ عِنْدَهُ ، فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا ، وَكَانَ زَوْجُهَا حُرًّا .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ` میں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدا تو اس کے ( بیچنے والے ) مالکان نے اس کی ولاء ( وراثت ) کی شرط لگائی ( کہ اس کے مرنے کا ترکہ ہم پائیں گے ) ، میں نے اس بات کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ، تو آپ نے فرمایا : ” تم اسے آزاد کر دو کیونکہ ولاء ( میراث ) اس شخص کا حق ہوتا ہے جو پیسہ خرچ کرے ( یعنی لونڈی یا غلام خرید کر آزاد کرے ) ، چنانچہ میں نے اسے آزاد کر دیا پھر ( میرے آزاد کر دینے کے بعد ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور اسے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے یا علیحدگی اختیار کر لینے کا اختیار دیا ۔ اس نے کہا : اگر وہ مجھے اتنا اتنا دیں تب بھی میں ان کے پاس نہیں رہوں گی ، اس نے اپنے حق خود اختیاری کا استعمال کیا ( اور علیحدگی ہو گئی ) ، اس کا شوہر آزاد شخص تھا ۱؎ ۔
وضاحت:
۱؎: عائشہ رضی الله عنہا سے ایک دوسری حدیث رقم (۳۴۸۱) میں بریرہ رضی الله عنہا کے شوہر سے متعلق آیا ہے «وکان عبدا»  یعنی وہ آزاد نہیں بلکہ غلام تھے، اسی طرح ابن عباس کی حدیث میں بھی ہے کہ وہ غلام تھے۔ اس لیے اس سلسلہ میں مناسب اور معقول توجیہ یہ ہے کہ وہ غلام تھے پھر آزاد کر دئے گئے، جن کو ان کی آزادی کی اطلاع نہیں ملی انہوں نے اصل کی بنیاد پر انہیں عبد کہا، ممکن ہے عائشہ رضی الله عنہا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہو۔ صحیح روایات کی موجودگی کہ بریرہ رضی الله عنہا کے شوہر آزاد تھے، اس حدیث میں یہ ذکر کرنا کہ وہ آزاد تھے شاذ اور ضعیف ہے اس لیے کہ یہ ثقات کی روایت کے خلاف ہے۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب الطلاق / حدیث: 3479
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح دون قوله وكان زوجها حرا فإنه شاذ , شیخ زبیر علی زئی: متفق عليه
اس موضوع سے متعلق مزید احادیث و آثار کے حوالے ملاحظہ کریں : صحيح مسلم: 3776 | صحيح مسلم: 3777 | صحيح مسلم: 3779 | صحيح مسلم: 3781 | صحيح مسلم: 3782 | صحيح مسلم: 3783 | صحيح مسلم: 3786 | سنن نسائي: 2615 | سنن نسائي: 3477 | سنن نسائي: 3478 | سنن نسائي: 3479 | سنن نسائي: 3480 | سنن نسائي: 3481 | سنن نسائي: 3483 | سنن نسائي: 3484 | سنن نسائي: 4646 | سنن نسائي: 4647 | سنن نسائي: 4659 | سنن نسائي: 4660 | سنن ترمذي: 1256 | سنن ترمذي: 2124 | سنن ترمذي: 2125 | صحيح البخاري: 0 | صحيح البخاري: 1493 | صحيح البخاري: 2155 | صحيح البخاري: 2156 | صحيح البخاري: 2168 | صحيح البخاري: 2536 | صحيح البخاري: 2561 | صحيح البخاري: 2565 | صحيح البخاري: 2578 | صحيح البخاري: 2717 | صحيح البخاري: 2726 | صحيح البخاري: 5097 | صحيح البخاري: 5279 | صحيح البخاري: 5284 | صحيح البخاري: 5430 | صحيح البخاري: 6717 | صحيح البخاري: 6751 | صحيح البخاري: 6754 | صحيح البخاري: 6758 | صحيح البخاري: 6760 | سنن ابن ماجه: 2076 | سنن ابي داود: 2916 | سنن ابي داود: 3929 | موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 288 | بلوغ المرام: 657 | بلوغ المرام: 858 | بلوغ المرام: 1227
تشریح، فوائد و مسائل
✍️ حافظ محمد امین
 ´آزاد شخص کی غلام بیوی آزاد ہو تو اسے اختیار کا حق حاصل ہو گا۔` 
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدا تو اس کے (بیچنے والے) مالکان نے اس کی ولاء (وراثت) کی شرط لگائی (کہ اس کے مرنے کا ترکہ ہم پائیں گے)، میں نے اس بات کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: ” تم اسے آزاد کر دو کیونکہ ولاء (میراث) اس شخص کا حق ہوتا ہے جو پیسہ خرچ کرے (یعنی لونڈی یا غلام خرید کر آزاد کرے)، چنانچہ میں نے اسے آزاد کر دیا پھر (میرے آزاد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3479]
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدا تو اس کے (بیچنے والے) مالکان نے اس کی ولاء (وراثت) کی شرط لگائی (کہ اس کے مرنے کا ترکہ ہم پائیں گے)، میں نے اس بات کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: ” تم اسے آزاد کر دو کیونکہ ولاء (میراث) اس شخص کا حق ہوتا ہے جو پیسہ خرچ کرے (یعنی لونڈی یا غلام خرید کر آزاد کرے)، چنانچہ میں نے اسے آزاد کر دیا پھر (میرے آزاد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3479]
اردو حاشہ: (1) ”جو خریدتا ہے“ یعنی خریدنے کے بعد اسے آزاد بھی کرتا ہے ورنہ صرف خریدنے سے حق ولا نہیں ملتا۔ 
(2) ”اس کا خاوند آزاد تھا“ یہ حضرت عائشہؓ کے الفاظ نہیں بلکہ حضرت اسود کے ہیں جو کہ تابعی ہیں اور وہ موقع پر موجود نہیں تھے جب کہ حضرت عائشہؓ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کے غلام ہونے کی صراحت آتی ہے۔ یہ دونوں موقع کے گواہ ہیں۔ ظاپر ہے ان کی گواہی معتبر ہے۔ حضرت اسود کو غلطی لگی ہے۔ احناف کہہ دیتے ہیں کہ پہلے وہ غلام تھا‘ پھر بریرہ کی آزادی سے پہلے وہ آزاد ہو گیا تھا لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ حضرت عائشہ وحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بریرہ اور اس کی آزادی کے وقت کی بات کر رہے ہیں۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس واقعے کے بعد وہ بھی آزاد ہوگیا تھا۔ اس میں کوئی اشکال نہیں۔ واللہ أعلم۔
(2) ”اس کا خاوند آزاد تھا“ یہ حضرت عائشہؓ کے الفاظ نہیں بلکہ حضرت اسود کے ہیں جو کہ تابعی ہیں اور وہ موقع پر موجود نہیں تھے جب کہ حضرت عائشہؓ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کے غلام ہونے کی صراحت آتی ہے۔ یہ دونوں موقع کے گواہ ہیں۔ ظاپر ہے ان کی گواہی معتبر ہے۔ حضرت اسود کو غلطی لگی ہے۔ احناف کہہ دیتے ہیں کہ پہلے وہ غلام تھا‘ پھر بریرہ کی آزادی سے پہلے وہ آزاد ہو گیا تھا لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ حضرت عائشہ وحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بریرہ اور اس کی آزادی کے وقت کی بات کر رہے ہیں۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس واقعے کے بعد وہ بھی آزاد ہوگیا تھا۔ اس میں کوئی اشکال نہیں۔ واللہ أعلم۔
درج بالا اقتباس سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3479 سے ماخوذ ہے۔
