سنن نسائي : حدیث نمبر 2445، باب: زکاۃ روک لینے والے کا بیان۔
سنن نسائي
كتاب الزكاة— کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
بَابُ : مَانِعِ الزَّكَاةِ— باب: زکاۃ روک لینے والے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2445
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَهُ ، وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنَ الْعَرَبِ ، قَالَ عُمَرُ لِأَبِي بَكْرٍ : كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ ؟ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ ، حَتَّى يَقُولُوا : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، فَمَنْ قَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ ؟ " , فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عِقَالًا كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهِ ، قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ اللَّهَ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ` جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور آپ کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنائے گئے ، اور عربوں میں سے جنہیں کافر مرتد ہونا تھا کافر ہو گئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا : آپ لوگوں سے کیسے لڑیں گے ؟ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ یہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کر لیں ، تو جس نے لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کر لیا ، اس نے مجھ سے اپنے مال اور اپنی جان کو سوائے اسلام کے حق ۱؎ کے مجھے سے محفوظ کر لیا ۔ اور اس کا حساب اللہ کے سپرد ہے “ ۲؎ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں اس شخص سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرے گا ( یعنی نماز تو پڑھے اور زکاۃ دینے سے منع کرے ) کیونکہ زکاۃ مال کا حق ہے ، قسم اللہ کی ، اگر یہ اونٹ باندھنے کی رسی بھی جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کیا کرتے تھے مجھ سے روکیں گے ، تو میں ان سے ان کے روکنے پر لڑوں گا ، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! زیادہ دیر نہیں ہوئی مگر مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قتال کے سلسلے میں شرح صدر عطا کر دیا ہے ، اور میں نے جان لیا کہ یہ ( یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے ) حق ہے ۔
وضاحت:
۱؎: سوائے اسلام کے حق کے کا مطلب یہ ہے کہ اگر قبول اسلام کے بعد کسی نے ایسا جرم کیا جو قابل حد ہے تو وہ حد اس پر ضرور نافذ ہو گی، مثلاً چوری کی تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا، زنا کیا تو غیر شادی شدہ کو سو کوڑوں کی سزا یا رجم کی سزا، کسی کو ناحق قتل کیا تو قصاص میں قتل کی، سزا دی جائے گی۔ ۲؎: اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے کا مطلب ہے اگر وہ قبول اسلام میں مخلص نہیں ہوں گے بلکہ منافقانہ طور پر اسلام کا اظہار کریں گے، یا قابل جرم کام کا ارتکاب کریں گے لیکن اسلامی عدالت اور افسران مجاز کے علم میں نہیں آ سکا، تو ان کا حساب اللہ کے سپرد ہو گا یعنی آخرت میں اللہ تعالیٰ ان کا فیصلہ فرمائے گا۔

تشریح، فوائد و مسائل

✍️ حافظ محمد امین
´زکاۃ روک لینے والے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور آپ کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنائے گئے، اور عربوں میں سے جنہیں کافر مرتد ہونا تھا کافر ہو گئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ لوگوں سے کیسے لڑیں گے؟ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ یہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کر لیں، تو جس نے لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کر لیا، اس نے مجھ سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2445]
اردو حاشہ: (1) کفر کا ارتکاب کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کئی قسم کے فتنے اٹھے۔ کچھ لوگ اپنے آبائی دین کی طرف لوٹ گئے، کچھ لوگ نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کے پیچھے لگ گئے، کچھ لوگ زکاۃ کی فرضیت کے منکر ہوگئے اور کچھ لوگ حکومت کو زکاۃ دینے سے رک گئے۔ پہلے تین گروہ تو قطعاً کافر تھے۔ ان سے لڑنے میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اختلاف اس آخری گروہ کے بارے میں تھا کیونکہ وہ کافر نہ تھے۔ حکومت کے باغی تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان سے لڑنے کے حق میں تھے جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تردد تھا۔
(2) لا الٰہ الا اللہ پڑھ لیں۔ مراد پورا کلمہ شہادت ہے۔ اور یہ متفقہ بات ہے، ورنہ یہودی اور عیسائی کو بھی مسلمان کہنا پڑے گا۔
(3) الا یہ کہ اس پر کوئی حق بنتا ہو۔ یعنی اس نے کسی کے جان ومال کا نقصان کیا ہو تو اس کی سزا اسے بھگتنی ہوگی۔
(4) اندرونی حساب۔ کہ اس نے کلمہ خلوص قلب سے پڑھا ہے یا جان ومال بچانے کے لیے۔
(5) زکاۃ مال کا حق ہے۔ وہ نہ دیں تو ان سے زبردستی وصول کیا جائے گا، ورنہ حکومت کا نظام الٹ پلٹ ہو جائے گا اور بغاوت راہ پکڑے گی۔
(6) وہ رسی نہ دیں۔ زور کلام کے لیے مبالغے سے کام لیا گیا ہے اور کلام میں ایسا عموماً ہوتا ہے۔ ورنہ زکاۃ میں رسی دینا لازم نہیں، صرف جانور دینا لازم ہے۔
(7) منکرین زکاۃ سے بھی کافروں کی طرح قتال کرنے پر صحابہ کا اجماع ہے۔
(8) یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علم وفضل اور شجاعت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ آپ نے اس نازک ترین موقع پر کمال ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بہت بڑے فتنے کو آغاز ہی میں اس کے عبرت ناک انجام تک پہنچا دیا۔ اس وقت ابتداء ً عمر رضی اللہ عنہ بھی آپ سے اتفاق رائے نہ رکھتے تھے کیونکہ اپنے علمی رسوخ کی بنا پر جہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پہنچے ہوئے تھے وہاں ابھی عمر رضی اللہ عنہ نہ پہنچے تھے۔ یہ بات ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علمی تفوق کی دلیل ہے۔ اس اور اس جیسے دیگر واقعات کی بنا پر اہل حق کا اجماع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علمی تفوق کی دلیل ہے۔ اس اور اس جیسے دیگر واقعات کی بنا پر اہل حق کا اجماع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت کے افضل ترین آدمی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔
(9) صحابہ کرامؓ قیاس جلی کے قائل تھے۔
(10) بات کو موکد کرنے کے لیے قسم اٹھانا جائز ہے اگرچہ اس کا مطالبہ نہ کیا گیا ہو۔
درج بالا اقتباس سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2445 سے ماخوذ ہے۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل