صحيح البخاري
كتاب الأذان— کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
بَابُ اثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ:— باب: دو یا زیادہ آدمی ہوں تو جماعت ہو سکتی ہے۔
حدیث نمبر: 658
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَأَذِّنَا وَأَقِيمَا ، ثُمَّ لِيَؤُمَّكُمَا أَكْبَرُكُمَا " .
مولانا داود راز
´ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے ، انہوں نے مالک بن حویرث سے ، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ` آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب نماز کا وقت آ جائے تو تم دونوں اذان دو اور اقامت کہو ، پھر جو تم میں بڑا ہے وہ امام بنے ۔
حوالہ حدیث صحيح البخاري / كتاب الأذان / حدیث: 658
درجۂ حدیث محدثین: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
اس موضوع سے متعلق مزید احادیث و آثار کے حوالے ملاحظہ کریں : صحيح البخاري: 628 | صحيح البخاري: 630 | صحيح البخاري: 631 | صحيح البخاري: 658 | صحيح البخاري: 685 | صحيح البخاري: 819 | صحيح البخاري: 2848 | صحيح البخاري: 6008 | صحيح البخاري: 7246 | صحيح مسلم: 1535 | صحيح مسلم: 1538 | سنن ترمذي: 205 | سنن ابي داود: 589 | سنن نسائي: 635 | سنن نسائي: 636 | سنن نسائي: 670 | سنن نسائي: 782 | سنن ابن ماجه: 979 | بلوغ المرام: 155 | بلوغ المرام: 259
تشریح، فوائد و مسائل
✍️ مولانا داود راز
658. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی اذان دے اور تکبیر کہے پھر تم میں سے بڑی عمر والا امامت کرائے۔‘‘[صحيح بخاري، حديث نمبر:658]
 حدیث حاشیہ:  اس سے پہلے بھی یہ حدیث گزر چکی ہے کہ دوشخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو سفر کا ارادہ رکھتے تھے۔
انھیں دواصحاب کو آپ نے یہ ہدایت فرمائی تھی۔
اس سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ اگرصرف دو آدمی ہوں تو بھی نماز کے لیے جماعت کرنی چاہئیے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: المُرَاد بقوله أذنا أَي من أحب مِنْكُمَا أَن يُؤذن فليؤذن وَذَلِكَ لِاسْتِوَائِهِمَا فِي الْفضل وَلَا يعْتَبر فِي الْأَذَان السن بِخِلَاف الْإِمَامَة۔
(فتح الباری)
حافظ ابن حجر لفظ آذنا کی تفسیر کرتے ہیں کہ تم میں سے جو چاہے اذان دے یہ اس لیے کہ وہ دونوں فضیلت میں برابر تھے اور اذان میں عمر کا اعتبار نہیں۔
بخلاف امامت کے کہ اس میں بڑی عمر والے کا لحاظ رکھا گیا ہے۔
انھیں دواصحاب کو آپ نے یہ ہدایت فرمائی تھی۔
اس سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ اگرصرف دو آدمی ہوں تو بھی نماز کے لیے جماعت کرنی چاہئیے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: المُرَاد بقوله أذنا أَي من أحب مِنْكُمَا أَن يُؤذن فليؤذن وَذَلِكَ لِاسْتِوَائِهِمَا فِي الْفضل وَلَا يعْتَبر فِي الْأَذَان السن بِخِلَاف الْإِمَامَة۔
(فتح الباری)
حافظ ابن حجر لفظ آذنا کی تفسیر کرتے ہیں کہ تم میں سے جو چاہے اذان دے یہ اس لیے کہ وہ دونوں فضیلت میں برابر تھے اور اذان میں عمر کا اعتبار نہیں۔
بخلاف امامت کے کہ اس میں بڑی عمر والے کا لحاظ رکھا گیا ہے۔
درج بالا اقتباس صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 658 سے ماخوذ ہے۔
✍️ الشیخ عبدالستار الحماد
658. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی اذان دے اور تکبیر کہے پھر تم میں سے بڑی عمر والا امامت کرائے۔‘‘[صحيح بخاري، حديث نمبر:658]
 حدیث حاشیہ:  
(1)
مذکورہ عنوان حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی ایک حدیث ہے جسے امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں بیان کیا ہے۔
(سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث: 972)
امام بخاری ؒ کا یہ اصول ہے کہ اگر کوئی حدیث باعتبار لفظ ان کی شرط کے مطابق نہ ہو لیکن باعتبار معنی وہ صحیح ہو تو دیگر روایات سے اس کی تائید کرتے ہیں۔
آپ نے اسی اصول کے پیش نظر سنن ابن ماجہ کی حدیث کو عنوان قرار دیا ہے اور اپنی پیش کردہ روایت سے اس کے مضمون کو ثابت کیا ہے کہ جماعت کا اطلاق اگرچہ کم از کم تین پر ہوتا ہے مگر نماز میں دو پر بھی جماعت کا اطلاق ہوسکتا ہے، یعنی اگر دو آدمی باجماعت نماز ادا کریں تو بھی انھیں پوری جماعت کا ثواب ملے گا۔
(2)
امام بخاری کےاستدلال پر اعتراض کیا گیا ہے کہ حضرت مالک بن حویرث ؓ کے ہمراہ تو ان کے دیگر ساتھی بھی تھے۔
روایت میں صرف دو کا ذکر تصرف رواۃ معلوم ہوتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کا جواب دیا ہے کہ یہ دو مختلف واقعات ہیں: ایک دفعہ وہ اپنی جماعت کے ساتھ آئے تھے اور دوسری دفعہ وہ اپنے ساتھی کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔
یہ بھی واضح رہے کہ جماعت کم از کم امام اور ماموم(مقتدی)
پر مشتمل ہوتی ہے، خواہ ماموم آدمی یا بچہ یا عورت ہو۔
(فتح الباري: 185/2) (3)
علم کے اعتبار سے وہ دونوں برابر تھے، اس لیے اذان اور تکبیر کے متعلق بلا تفریق کسی ایک کو یہ فریضہ سرانجام دینے کا حکم دیا لیکن امامت میں بڑی عمر والے کا لحاظ رکھا گیا ہے کیونکہ اگر نمازی علم وفضل میں برابر ہوں تو جماعت کے لیے بڑی عمر والے کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
(1)
مذکورہ عنوان حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی ایک حدیث ہے جسے امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں بیان کیا ہے۔
(سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث: 972)
امام بخاری ؒ کا یہ اصول ہے کہ اگر کوئی حدیث باعتبار لفظ ان کی شرط کے مطابق نہ ہو لیکن باعتبار معنی وہ صحیح ہو تو دیگر روایات سے اس کی تائید کرتے ہیں۔
آپ نے اسی اصول کے پیش نظر سنن ابن ماجہ کی حدیث کو عنوان قرار دیا ہے اور اپنی پیش کردہ روایت سے اس کے مضمون کو ثابت کیا ہے کہ جماعت کا اطلاق اگرچہ کم از کم تین پر ہوتا ہے مگر نماز میں دو پر بھی جماعت کا اطلاق ہوسکتا ہے، یعنی اگر دو آدمی باجماعت نماز ادا کریں تو بھی انھیں پوری جماعت کا ثواب ملے گا۔
(2)
امام بخاری کےاستدلال پر اعتراض کیا گیا ہے کہ حضرت مالک بن حویرث ؓ کے ہمراہ تو ان کے دیگر ساتھی بھی تھے۔
روایت میں صرف دو کا ذکر تصرف رواۃ معلوم ہوتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کا جواب دیا ہے کہ یہ دو مختلف واقعات ہیں: ایک دفعہ وہ اپنی جماعت کے ساتھ آئے تھے اور دوسری دفعہ وہ اپنے ساتھی کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔
یہ بھی واضح رہے کہ جماعت کم از کم امام اور ماموم(مقتدی)
پر مشتمل ہوتی ہے، خواہ ماموم آدمی یا بچہ یا عورت ہو۔
(فتح الباري: 185/2) (3)
علم کے اعتبار سے وہ دونوں برابر تھے، اس لیے اذان اور تکبیر کے متعلق بلا تفریق کسی ایک کو یہ فریضہ سرانجام دینے کا حکم دیا لیکن امامت میں بڑی عمر والے کا لحاظ رکھا گیا ہے کیونکہ اگر نمازی علم وفضل میں برابر ہوں تو جماعت کے لیے بڑی عمر والے کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
درج بالا اقتباس هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 658 سے ماخوذ ہے۔
