صحيح البخاري : حدیث نمبر 628، باب: جو یہ کہے کہ سفر میں ایک ہی شخص اذان دے۔
صحيح البخاري
كتاب الأذان— کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
بَابُ مَنْ قَالَ لِيُؤَذِّنْ فِي السَّفَرِ مُؤَذِّنٌ وَاحِدٌ:— باب: جو یہ کہے کہ سفر میں ایک ہی شخص اذان دے۔
حدیث نمبر: 628
حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ ، أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ قَوْمِي ، فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ لَيْلَةً وَكَانَ رَحِيمًا رَفِيقًا ، فَلَمَّا رَأَى شَوْقَنَا إِلَى أَهَالِينَا ، قَالَ : " ارْجِعُوا فَكُونُوا فِيهِمْ وَعَلِّمُوهُمْ وَصَلُّوا ، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ " .
مولانا داود راز
´ہم سے معلی بن سعد اسد بصریٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے ابوایوب سے بیان کیا ، انہوں نے ابوقلابہ سے ، انہوں نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے ، کہا کہ` میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی قوم ( بنی لیث ) کے چند آدمیوں کے ساتھ حاضر ہوا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں بیس راتوں تک قیام کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے رحم دل اور ملنسار تھے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے اپنے گھر پہنچنے کا شوق محسوس کر لیا تو فرمایا کہ اب تم جا سکتے ہو ۔ وہاں جا کر اپنی قوم کو دین سکھاؤ اور ( سفر میں ) نماز پڑھتے رہنا ۔ جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے ایک شخص اذان دے اور جو تم میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرائے ۔

تشریح، فوائد و مسائل

✍️ محمد حسین میمن
´سفر میں ایک ہی شخص اذان دے`
«. . . عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ قَوْمِي، فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ لَيْلَةً وَكَانَ رَحِيمًا رَفِيقًا، فَلَمَّا رَأَى شَوْقَنَا إِلَى أَهَالِينَا، قَالَ:" ارْجِعُوا فَكُونُوا فِيهِمْ وَعَلِّمُوهُمْ وَصَلُّوا، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ . . .»
. . . مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے، کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی قوم (بنی لیث) کے چند آدمیوں کے ساتھ حاضر ہوا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں بیس راتوں تک قیام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے رحم دل اور ملنسار تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے اپنے گھر پہنچنے کا شوق محسوس کر لیا تو فرمایا کہ اب تم جا سکتے ہو۔ وہاں جا کر اپنی قوم کو دین سکھاؤ اور (سفر میں) نماز پڑھتے رہنا۔ جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے ایک شخص اذان دے اور جو تم میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرائے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ: 628]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں وضاحت فرمائی کہ سفر میں ایک اذان کہنی چاہئے اور دلیل میں حدیث پیش فرمائی کہ جب تم گھر کی طرف لوٹو ان کو اسلام کے احکام سکھاؤ نماز پڑھا کرو اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی اذان دے۔۔۔۔
تطبیق کی صورت یہ معلوم ہوتی ہے کہ سفر میں بھی اذان کہنی چاہئے کیوں کہ وہ لوگ ابھی بالفعل سفر میں تھے اور لازم ہوا اذان دینا بھی کیوں کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وجه مطابقة للترجمة مع ان ظاهره يخالفها لقوله، فكونوا فيهم و علموهم فاذا سيدنا فظاهره ان ذالك بعد وضوء لهم الى اهلهم و تعليمهم، لكن المصنف اشار الى الرواية الاتية فى الباب الذى بعد هذا فان فيها اذا انتما خرجتما فاذنا» [فتح الباري ج2، ص141]
ظاہر میں ترجمۃ الباب اس قول کے مخالف نظر آتا ہے کہ گھر والوں کو دین سکھاؤ اور جب نماز کا وقت آ جائے تو اذان کہو لیکن حقیقت میں (مخالفت نہیں ہے کیوں کہ) امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسری روایت کی طرف اشارہ فرمایا جو اس کے بعد والے باب میں مرقوم ہے کہ جب تم دونوں سفر کو نکلو تو اذان دیا کرو پھر اقامت کہا: کرو۔
لہٰذا یہ بات واضح ہوئی کہ باب میں جو سفر کا ذکر فرمایا ہے مصنف کا اشارہ دوسری حدیث کی طرف ہے جس میں واضح طور پر یہ حکم ہے کہ سفر میں بھی آپ کو اذان دینی چاہئے۔
◈ ابن الملقن اور ابن المنیر رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ: حدیث کا ظاہر یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا ان کے احوال کی وجہ سے کہ جب آپ اپنے گھر کو لوٹیں (تو اذان دیں نماز کے لئے) نہ کہ سفر میں۔۔۔۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کلام قاصر نہیں ہے اس پر بلکہ یہ عام ہے ان کے لئے کہ جب سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلے (سفر میں) یعنی مؤذن کے اذان کا حکم اس وقت سے ہی ہو گیا جب صحابہ نے سفر کا قصد فرمایا۔ لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔ ديكهئے: [التوضيح، ج6، ص378، المتواري، ص94]
فائدہ نمبر 1:
امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک کئی مؤذن رکھنے جائز ہیں لیکن مناسبت یہ ہے کہ سب ایک بار اذان نہ دیں بلکہ ایک بعد دوسرا اذان دے اور اگر مسجد بڑی ہو تو جائز ہے کہ ہر طرف میں ایک ایک مؤذن اذان دے خواہ ایک ہی وقت میں ہوں اسی طرح اگر شہر بڑا ہو اور اس کے کنارے دور دور ہوں تو ہر طرف ایک ایک مؤذن ایک وقت میں اگر اذان دے تو وہ بھی جائز ہے اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب علم اور فضیلت میں سب برابر ہوں تو بڑی عمر والا امام بنے اور اذان میں بڑے چھوٹے کا کچھ لحاظ نہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ امامت اذان سے افضل ہے۔ «والله اعلم بالصواب» [فيض الباري از علامه ابوالحسن سيالكوٹي ج3، ص736]
فائدہ نمبر 2:
مذکورہ بالا حدیث پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رخصت دی تو آپ نے ان کے گھر والوں کو بھی نماز کی تعلیم دینے کا حکم دیا اس میں نکتہ یہ ہے کہ اگر مرد اور عورت کی نماز میں فرق ہوتا تو لازماً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں فرق کے بارے میں آگاہی فرما دیتے مگر حدیث میں نماز کا طریقہ عام ہے۔ لہٰذا مرد اور عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں امام عالی مقام امام بخاری رحمہ اللہ اپنی معرکۃ الاراء کتاب تاریخ صغیر میں فرماتے ہیں! «كانت ام الدرداء تجلس فى صلاتها جلسة الرجل وكانت فقيهة .» [تاريخ الصغير ص96]
یعنی ام درداء جو فقیہ تھیں نماز میں مردوں کی طرح بیٹھا کرتی تھیں، ہماری معلومات کے مطابق عورتوں کی نماز کو تین جگہوں پر مردوں کی نماز سے مختلف کیا جاتا ہے۔
➊ رفع الیدین میں مرد کانوں تک اور عورت کاندھے تک ہاتھ اٹھائیں۔
➋ عورت سینے پر اور مرد ناف پر ہاتھ باندھے۔
➌ عورت سجدے میں پیٹ رانوں سے چمٹا لے جب کہ مرد اپنی رانیں پیٹ سے دور رکھیں۔
ان تینوں مسائل اور تخصیص کی احناف کے پاس کوئی صریح اور غیر مجروح روایت کے طور پر موجود نہیں ہے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: احناف کہتے ہیں کہ مرد ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور عورتیں کندھوں تک عورت اور مرد کی نماز میں فرق کا یہ حکم کسی حدیث میں وارد نہیں ہے۔ [فتح الباري، ج2، ص222]
◈ امام شوکانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: یہ رفع الیدین ایسی سنت ہے جو مرد اور عورت دونوں کے لیے یکساں ہے۔ اسی طرح مقدار رفع میں بھی فرق کرنے کی کوئی صریح دلیل منقول نہیں ہے جیسا کہ حنفیہ کا مذہب ہے کہ مرد ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور خواتین کندھوں تک۔ حنفیہ کے پاس اس طرق کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ [نيل الاوطار شرح منتقي الاخبار ج2، ص198]
لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان عالیشان پر بھی غور کیا جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: «صلوا كما رايتموني اصلي» [صحيح البخاري: 631]
نماز اسی طرح سے پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو
مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق کرنے والی روایت کا مختصر سا جائزہ: ➊ «عن ابن عمر مرفوعاً اذا جلست المراة فى الصلاة . . . . . . . .» [بيهقي 2/223]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت نماز میں بیٹھے تو دائیں ران بائیں ران پر رکھے اور جب سجدہ (کرے) تو اہنا پیٹ اپنی رانوں سے ملائے جو زیادہ ستر کی حالت ہے اللہ تعالیٰ اسے دیکھ کر فرماتے ہیں اے (فرشتو) گواہ ہو جاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا۔
↰ اس کی سند میں راوی محمد بن القاسم البلحی کا ذکر حالت معلوم نہیں ہے تفصیل کے لئے لسان المیزان لابن حجر رحمہ اللہ [ت 7997] اس روایت کا دوسرا راوی عبید بن محمد اسرفی ہے اس کے حالات نا معلوم ہیں۔
لہٰذا یہ روایت موضوع ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ [السنن الكبري، 2/ 222]
➋ دوسری پیش کی جانے والی تصویر کا حال: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں خواتین کس طرح پڑھا کرتی تھی (نماز) تو انہوں نے فرمایا: پہلے چار زانوں ہو کر بیٹھتی تھیں پھر انہیں حکم دیا گیا کہ خوب سمٹ کر نماز ادا کریں۔ [جامع المسانيد 1؍400]
جامع المسانید محمود الخوارزمی کی کتاب ہے اس کی سند میں کئی راویوں کے حالات نامعلوم ہیں۔ مثلاً: ➊ ابراھیم بن مہدی اس کو محدثین نے جھوٹا کہا ہے۔
➋ زر بن نجح البصری کے حالات نہیں ملے۔
➌ علی بن محمد البزار کے حالات نہیں مل سکے۔
➍ قاضی عمر بن الحسن بن علی الاشنانی مختلف فیہ راوی ہے۔
◈ امام دار قطنی فرماتے ہیں: «و كان يكذب» [التقريب: 257، ديكهئے سوالات الحاكم للدار قطني: 252]
اور وہ جھوٹ بولتا تھا
لہٰذا یہ روایت مردود ہے استدلال کے قابل نہیں ان روایات کے علاوہ اور بھی روایات ہیں مگر کوئی بھی کلام سے خالی نہیں۔
درج بالا اقتباس عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 178 سے ماخوذ ہے۔

✍️ مولانا داود راز
628. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں اپنی قوم کے چند آدمیوں کے ہمراہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہم نے آپ کے ہاں بیس راتیں قیام کیا۔ آپ انتہائی مہربان اور نرم دل تھے۔ جب آپ نے محسوس فرمایا کہ ہمارا اشتیاق اہل خانہ کی طرف ہے تو فرمایا: ’’اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔ اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہو۔ انہیں دین کی تعلیم دو اور نماز پڑھا کرو۔ اذان کا وقت آئے تو تم میں سے کوئی اذان دے، پھر تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کے فرائض سر انجام دے۔‘‘[صحيح بخاري، حديث نمبر:628]
حدیث حاشیہ: آداب سفرمیں سے ہے کہ امیر سفر کے ساتھ ساتھ امام ومؤذن کا بھی تقرر کر لیا جائے۔
تاکہ سفرمیں نماز باجماعت کا اہتمام کیا جاسکے۔
حدیث نبوی کا یہی منشا ہے اور یہی مقصد باب ہے۔
درج بالا اقتباس صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 628 سے ماخوذ ہے۔

✍️ الشیخ عبدالستار الحماد
628. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں اپنی قوم کے چند آدمیوں کے ہمراہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہم نے آپ کے ہاں بیس راتیں قیام کیا۔ آپ انتہائی مہربان اور نرم دل تھے۔ جب آپ نے محسوس فرمایا کہ ہمارا اشتیاق اہل خانہ کی طرف ہے تو فرمایا: ’’اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔ اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہو۔ انہیں دین کی تعلیم دو اور نماز پڑھا کرو۔ اذان کا وقت آئے تو تم میں سے کوئی اذان دے، پھر تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کے فرائض سر انجام دے۔‘‘[صحيح بخاري، حديث نمبر:628]
حدیث حاشیہ:
مصنف عبدالرزاق میں سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ وہ سفر میں صبح کی دو اذانیں کہا کرتے تھے۔
گویا ان کے نزدیک سفروحضر کی کوئی تفریق نہ تھی۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران سفر میں اذان میں تکرار نہیں ہونی چاہیے، لیکن حدیث کے ظاہری سیاق میں سفر وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں۔
امام بخاری ؒ نے گویا ایک دوسری روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں سفر کی وضاحت ہے۔
اس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دو آدمی آئے، سفر کا ارادہ کیے ہوئے تھے۔
آپ نے ان سے فرمایا: ’’جب تم سفر پر روانہ ہوجاؤ تو دوران سفر میں اذان دو، پھر تکبیر کہو، اس کے بعد تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کے فرائض سر انجام دے۔
‘‘(صحیح البخاری، الاذان، حدیث: 630)
لیکن اس دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران سفر میں دونوں حضرات کو اذان کہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ان الفاظ کی وضاحت فرمائی ہے کہ تم دونوں میں سے جو اذان دینا چاہے وہ اذان دے۔
(فتح الباري: 145/2-
146)
درج بالا اقتباس هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 628 سے ماخوذ ہے۔

✍️ الشیخ عبدالسلام بھٹوی
میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی قوم (بنی لیث) کے چند آدمیوں کے ساتھ حاضر ہوا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں بیس راتوں تک قیام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے رحم دل اور ملنسار تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے اپنے گھر پہنچنے کا شوق محسوس کر لیا تو فرمایا... [صحيح بخاري ح: 628]
فوائد:

➊ بعض لوگوں نے یہ بدعت ایجاد کر لی تھی کہ ایک سے زیادہ مؤذن کورس کی شکل میں اذان کہتے تھے، یعنی ہر کلمہ دو یا زیادہ مؤزن اکٹھے کہتے، تاکہ آواز زیادہ اونچی ہو اور دور تک جائے۔ بعض نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوا تھا کہ مسجد کے چاروں کونوں کے میناروں پر ایک ایک مؤذن کھڑا ہوتا، پہلے اذان کا ایک کلمہ ایک مؤذن کہتا، پھر وہی کلمہ دوسرا پھر تیسرا پھر چوتھا کہتا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ طریقے بدعت ہیں، ایک جگہ صرف ایک ہی مؤذن کو اذان کہنی چاہیے۔ واضح رہے کہ یہ طریقے اس وقت اختیار کیے گئے تھے جب لاؤڈ سپیکر ایجاد نہیں ہوا تھا، اب لاؤڈ سپیکر کی ایجاد نے مسئلہ ہی حل کر دیا ہے، زیادہ مؤذنوں کی ضرورت ہی نہیں رہی۔

➋ باب میں سفر کا ذکر ہے جب کہ یہاں حدیث میں سفر کا ذکر نہیں، در اصل امام صاحب اشارہ کر رہے ہیں کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ہی کی ایک روایت میں سفر کا ذکر بھی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: دو آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، وہ دونوں سفر کا ارادہ رکھتے تھے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا: «إِذَا أَنْتُمَا خَرَجْتُمَا، فَأَذْنَا، ثُمَّ أَقِيْمَاء ثُمَّ لِيَؤْمَكُمَا أَكْبَرُكُمَا» [بخاري: 630] جب تم دونوں نکلو تو اذان کہو، پھر اقامت کہو، پھر جو تم میں سے بڑا ہے وہ امامت کرائے۔ الغرض تمام حدیثوں کو جمع کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ سفر ہو یا حضر ایک جگہ ایک ہی مؤذن کو اذان کہنی چاہیے۔

➌ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی قوم بنولیث بن بکر بن عبد مناف بن کنانہ تھی۔ [ابن سعد 305/1] نے متعدد سندوں کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ بنولیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آئے جب آپ تبوک کی تیاری کر رہے تھے۔ [فتح الباري]

یہ سنہ 9 ہجری کی بات ہے جسے عام الوفود کہا جاتا ہے، کیونکہ سنہ 8 ہجری میں مکہ فتح ہونے کے بعد ہر جانب سے وفود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سارا عرب حلقہ بگوشِ اسلام بن گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سلطنت اور غلبے کے ہوتے ہوئے اسلام جس قدر پھیلتا ہے ضعف کی حالت میں اس قدر نہیں پھیلتا۔ ضعف کی حالت میں لوگوں کے پاس جایا جاتا ہے جب کہ غلبے کی صورت میں لوگ خود آتے ہیں، جیسا کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی آئے۔

➍ استاذ سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کے لیے ایک دو راتیں کافی نہیں ہوتیں، اسی لیے مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی آپ کے پاس بیسں راتیں ٹھہرے۔ ٹھیک ہے ایک دو راتیں بھی فائدے سے خالی نہیں، مگر حصولِ علم کے لیے طولِ زمان اپنی جگہ ضروری ہے۔

➎ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتِ رحمت و رفق کا ذکر ہے، ایمان والوں کے ساتھ آپ کا یہی معاملہ تھا، فرمایا: «بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ» [التوبة: 128] مومنوں پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔ البتہ کفار کے ساتھ یہ معاملہ نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ» [الفتح: 29] محمد اللہ کا رسول ہے اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں۔ اور فرمایا: «فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَةٌ أَذِلَةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَفِرِينَ» [المائدة: 54] تو الله عنقریب ایسے لوگ لائے گا کہ وہ ان سے محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے، مومنوں پر بہت نرم ہوں گے، کافروں پر بہت سخت۔ اس لیے ہمیں بھی مسلم و کافر کے ساتھ معاملے میں اس فرق کو ملحوظ رکھنا لازم ہے۔

➏ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کسی کی زبانِ حال سے کوئی بات سمجھ میں آ رہی ہو تو اسی کو کافی سمجھنا چاہیے، زبانِ قال کا انتظار نہیں کرنا چاہیے، جیسا کہ آپ نے ان نوجوانوں کا شوق دیکھ کر ہی انھیں واپسی کی اجازت دے دی، ان کی زبان سے درخواست کا انتظار نہیں کیا۔

➐ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آدمی کو بلا ضرورت گھر سے باہر نہیں رہنا چاہیے، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کو حکم دیا کہ وہ اپنی ضرورت پوری ہونے پر جلدی گھر واپس آ جاۓ۔ [ديكهے بخاري: 3001]

➑ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں بھائیوں کو فرمایا تھا: «وَصَلُّوْا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي» [بخاري: 631] اور اس طرح نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ زبان کے ساتھ ہر بات تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کی بجائے فعل کا حوالہ دے دینا بھی کافی ہوتا ہے۔ اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اکثر اوقات وضو کی تفصیلات زبان بیان کرنے کی بجائے اس طرح وضو کر کے بتا دیتے جس طرح انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا۔ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز پڑھ کر بتا دیتے۔ حدیث سے جان چھڑانے والوں کا عجیب حال ہے کہ اگر انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول سنایا جائے تو کہتے ہیں آپ کا عمل پیش کرو اور اگر آپ کا عمل بتایا جائے تو کہتے ہیں آپ کا حکم پیش کرو، حالانکہ اطاعت بھی ضروری ہے اور اتباع بھی۔ اطاعت حکم کی ہوتی ہے اور اتباع عمل کا، فرمایا: «فَاتَّبِعُونِي» [آل عمران: 31] تو میری پیروی کرو۔ اور فرمایا: «وَاَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ» [المائدة: 92] اور اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو۔

➒ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اصحاب کو حکم دیا کہ وہ گھر والوں کے ساتھ رہیں اور انھیں تعلیم دیں۔ دین کی تعلیم سبھی لوگوں کو دینی چاہیے، پھر گھر والوں کا تو زیادہ حق ہے کہ انھیں دین کی تعلیم دی جائے۔

«فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ» سے معلوم ہوا کہ اذان نماز کا وقت ہونے کے بعد کہنی چاہیے، اس سے پہلے نہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اذان کہنا فرض ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر و حضر میں اذان کہنے کا حکم دیا ہے اور یہ فرضِ کفایہ ہے، ایک آدمی کہہ دے تو سب کا فرض ادا ہو گیا، اگر کوئی بھی نہ کہے تو سب گناہ گار ہوں گے۔ اسی طرح جماعت بھی فرض ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے کو امامت کا حکم دیا اور ظاہر ہے کہ امامت جماعت ہی کی ہوتی ہے۔

⓫ اذان کہنے کے لیے علمی قابلیت یا عمر کی کوئی خاص حد مقرر نہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم دونوں میں سے کوئی ایک اذان کہہ دے۔ اس لیے بڑی عمر والوں کی موجودگی میں کم عمر اور زیادہ علم والوں کی موجودگی میں کم علم بھی اذان کہہ سکتا ہے۔ ہاں! امامت کے لیے قرآن و سنت کے علم میں برتری ضروری ہے۔ اگر علم میں سب برابر ہوں تو بڑی عمر والا جماعت کروائے گا۔ یہ دونوں بھائی چونکہ بیسں راتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہے تھے اس لیے علم میں اور صحابی ہونے میں دونوں برابر تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے بڑے کو امامت کا حکم دیا۔
درج بالا اقتباس فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 628 سے ماخوذ ہے۔

✍️ حافظ عمران ایوب لاہوری
«يُشْرَعُ لِأهْلِ كُلِّ بَلَدٍ أَنْ يَتَّخِذُوا مُؤذنا»
ہر شہر (آبادی) والوں کے لیے مؤذن مقرر کرنا مشروع ہے۔ ۲؎
۱؎۔ لغوی وضاحت: لفظ اذان کا معنی اطلاع دینا اور خبر دار کرنا ہے۔
باب «أذنَ يُؤَذِّنُ (تفعّل)» اذان دینا اور باب «آذَنَ يُؤذِنُ (افعال)» آگاہ کرنا کے معنی میں مستعمل ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے «وَأَذْنُ فِي النَّاسِ بِالْحَجَّ» [الحج: 27] «وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ» [التوبة: 2] [المنجد ص 34، القاموس المحيط ص 1058، الفقه الإسلامي وأدلته 691/1]
شرعی تعریف: مخصوص الفاظ میں اوقات نماز سے آگاہ کرنا۔
[شرح مسلم للنووى 311/2، نيل الأوطار 492/1، تحفة الأحوذى 589/1، اللباب 62/1، كشاف القناع 266/1]
مشروعیت:
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ «وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ ...» [المائدة: 58] اور جب تم نماز کے لیے اذان دیتے ہو.
➋ حدیث نبوی ہے کہ «فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم» جب نماز کا وقت ہو جائے تو تمہیں خبردار کرنے کے لیے تم میں سے کوئی شخص اذان دے۔ [بخاري 628، كتاب الاذان: باب من قال ليؤذن فى السفر مؤذن واحد، مسلم 674، أبو داود 589، ترمذى 205، نسائي 634، ابن ماجة 979]
اذان کی ابتدا: حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں ایسی تمام احادیث، کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اذان ہجرت سے پہلے مکہ میں ہی مشروع کر دی گئی تھی ذکر کرنے کے بعد فرمایا: «والحق أنه لا يصح شيئ من هذه الأحاديث» اور حق بات یہی ہے کہ ان احادیث میں سے کچھ بھی صحیح نہیں ہے۔ امام ابن منذرؒ نے بالجزم کہا ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم مکہ میں فرضیت نماز سے ہجرت مدینہ تک بغیر اذان کے ہی نماز پڑھتے تھے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلے میں صحابہ سے مشورہ کیا تو صحابہ نے ناقوس، بوق اور آگ وغیرہ جلانے کا مشورہ دیا لیکن حضرت عبد اللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہما نے اپنا خواب بیان کیا کہ جس میں اذان کا ذکر تھا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسی طرح کا خواب دیکھنے کا ذکر کیا تو آپ صل اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: «يا بلال قسم فناد بالصلاة» اے بلال! کھڑے ہو جاؤ اور نماز کے لیے اذان دو۔
[بخاري 604، كتاب الأذان: باب بدء الآذان، مسلم 377، ترمذي 190، نسائي 2/2، أحمد 148/2، أبو داود 499، صحيح أبو داود 469]
بعد ازاں عہد رسالت میں اسی پر مداومت و مواظبت رہی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
[فتح البارى 279/2، تحفة الأحوذى 589/1، نيل الأوطار 492/1، الروضة الندية 215/1]
۲؎۔ اذان کے حکم میں علماء نے اختلاف کیا ہے۔
(احمدؒ، مالکؒ) اذان دینا واجب ہے۔
(ابو حنیفہؒ، شافعیؒ) اذان دینا محض سنت و مستحب ہے۔
(نوویؒ) اذان دینا سنت ہے۔
[بداية المجتهد 103/1، المهذب 55/1، اللباب 62/1، بدائع الصنائع 146/1، الدر المختار 356/1، فتح القدير 167/1]
علاوہ ازیں بعض لوگوں نے اسے سنت مؤکدہ اور بعض نے فرض کفایہ قرار دیا ہے۔
(راجع) اذان دینا فرض ہے اور اس کے دلائل حسب ذیل ہیں: ➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو واپس اپنے علاقے کی طرف روانہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: «فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم» جب نماز کا وقت ہو جائے تو تمہیں اطلاع دینے کے لیے تم میں سے ایک شخص اذان دے۔
[بخاري 628، كتاب الاذان: من قال ليؤذن فى السفر مؤذن واحد، مسلم 674، أبو داود 589، ترمذي 205، ابن ماجه 979، دارمي 286/1، أحمد 53/5]
➋ حضرت عبد اللہ بن زید بن عبدربه رضی اللہ عنہ نے جب اپنا خواب بیان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلاشبہ یہ سچا خواب ہے «ثم أمر بالتأذين» پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان دینے کا حکم ارشاد فرمایا۔
[حسن: صحيح أبو داود 469، كتاب الصلاة: باب كيف الاذان، أحمد 43/4، أبو داود 499، ابن ماجة 706، عبدالرزاق 1787]
➌ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ مل کر کسی قوم سے غزوہ کے لیے جاتے تو صبح تک انتظار فرماتے «فإن سمع أذانا كف عنهم وإن لم يسمع أذانا أغار عليهم» اگر اذان سن لیتے تو ان پر حملے سے رک جاتے اور اگر نہ سنتے تو ان پر حملہ کر دیتے۔
[أحمد 132/3، بخاري 610، كتاب الاذان: باب ما يحقن بالاذان من الدماء، مسلم 382، ترمذي 1618]
➍ حدیث نبوی ہے کہ «امر بلال أن يشفع الآذان ...» حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا کہ وہ دوہری اذان دیں۔
[بخارى 605، كتاب الاذان: باب الاذان مثنى مثنى، مسلم 378، أبو داود 508، ترمذي 1013، ابن ماجة 730، أحمد 103/3، دارمي 270/1]
(ابن تیمیہؒ) اذان دینا فرض ہے۔ [مجموع الفتاوى 67/1 - 68]
(شوکانیؒ) اس کے وجوب میں کوئی تردد و شبہ نہیں اور اس کے دلائل روشن آفتاب کی طرح واضح ہیں۔ [السيل الحرار 197/1]
(صدیق حسن خانؒ) ظاہر وجوب ہی ہے۔ [الروضة الندية 215/1]
(البانیؒ) برحق بات یہی ہے کہ اذان دینا فرض کفایہ ہے۔ [تمام المنة ص/ 144]
درج بالا اقتباس فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 325 سے ماخوذ ہے۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل