صحيح البخاري : حدیث نمبر 5097، باب: آزاد عورت کا غلام مرد کے نکاح میں ہونا جائز ہے۔
صحيح البخاري
كتاب النكاح— کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
بَابُ الْحُرَّةِ تَحْتَ الْعَبْدِ:— باب: آزاد عورت کا غلام مرد کے نکاح میں ہونا جائز ہے۔
حدیث نمبر: 5097
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ : كَانَ فِي بَرِيرَةَ ثَلَاثُ سُنَنٍ عَتَقَتْ فَخُيِّرَتْ ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ " ، وَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبُرْمَةٌ عَلَى النَّارِ فَقُرِّبَ إِلَيْهِ خُبْزٌ وَأُدْمٌ مِنْ أُدْمِ الْبَيْتِ ، فَقَالَ : " لَمْ أَرَ الْبُرْمَةَ ؟ " فَقِيلَ : لَحْمٌ تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ وَأَنْتَ لَا تَأْكُلُ الصَّدَقَةَ ، قَالَ : " هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ " .
مولانا داود راز
´ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی انہیں ربیعہ بن ابوعبدالرحمٰن نے انہیں قاسم بن محمد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ` بریرہ کے ساتھ تین سنت قائم ہوتی ہیں ، انہیں آزاد کیا اور پھر اختیار دیا گیا ( کہ اگر چاہیں تو اپنے شوہر سابقہ سے اپنا نکاح فسخ کر سکتی ہیں ) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( بریرہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ) فرمایا کہ ولاء آزاد کرانے والے کے ساتھ قائم ہوئی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوئے تو ایک ہانڈی ( گوشت کی ) چولہے پر تھی ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے روٹی اور گھر کا سالن لایا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ( چولہے پر ) ہانڈی ( گوشت کی ) بھی تو میں نے دیکھی تھی ۔ عرض کیا گیا کہ وہ ہانڈی اس گوشت کی تھی جو بریرہ کو صدقہ میں ملا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ نہیں کھاتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اس کے لیے صدقہ ہے اور اب ہمارے لیے ان کی طرف سے تحفہ ہے ۔ ہم اسے کھا سکتے ہیں ۔
حوالہ حدیث صحيح البخاري / كتاب النكاح / حدیث: 5097
درجۂ حدیث محدثین: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
اس موضوع سے متعلق مزید احادیث و آثار کے حوالے ملاحظہ کریں : صحيح مسلم: 3776 | صحيح مسلم: 3777 | صحيح مسلم: 3779 | صحيح مسلم: 3781 | صحيح مسلم: 3782 | صحيح مسلم: 3783 | صحيح مسلم: 3786 | سنن نسائي: 2615 | سنن نسائي: 3477 | سنن نسائي: 3478 | سنن نسائي: 3479 | سنن نسائي: 3480 | سنن نسائي: 3481 | سنن نسائي: 3483 | سنن نسائي: 3484 | سنن نسائي: 4646 | سنن نسائي: 4647 | سنن نسائي: 4659 | سنن نسائي: 4660 | سنن ترمذي: 1256 | سنن ترمذي: 2124 | سنن ترمذي: 2125 | صحيح البخاري: 0 | صحيح البخاري: 1493 | صحيح البخاري: 2155 | صحيح البخاري: 2156 | صحيح البخاري: 2168 | صحيح البخاري: 2536 | صحيح البخاري: 2561 | صحيح البخاري: 2565 | صحيح البخاري: 2578 | صحيح البخاري: 2717 | صحيح البخاري: 2726 | صحيح البخاري: 5097 | صحيح البخاري: 5279 | صحيح البخاري: 5284 | صحيح البخاري: 5430 | صحيح البخاري: 6717 | صحيح البخاري: 6751 | صحيح البخاري: 6754 | صحيح البخاري: 6758 | صحيح البخاري: 6760 | سنن ابن ماجه: 2076 | سنن ابي داود: 2916 | سنن ابي داود: 3929 | موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 288 | بلوغ المرام: 657 | بلوغ المرام: 858 | بلوغ المرام: 1227

تشریح، فوائد و مسائل

✍️ محمد حسین میمن
´آزاد عورت کا غلام مرد کے نکاح میں ہونا جائز ہے`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ فِي بَرِيرَةَ ثَلَاثُ سُنَنٍ عَتَقَتْ فَخُيِّرَتْ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ"، وَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبُرْمَةٌ عَلَى النَّارِ فَقُرِّبَ إِلَيْهِ خُبْزٌ وَأُدْمٌ مِنْ أُدْمِ الْبَيْتِ، فَقَالَ:" لَمْ أَرَ الْبُرْمَةَ؟" فَقِيلَ: لَحْمٌ تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ وَأَنْتَ لَا تَأْكُلُ الصَّدَقَةَ، قَالَ:" هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ بریرہ کے ساتھ تین سنت قائم ہوتی ہیں، انہیں آزاد کیا اور پھر اختیار دیا گیا (کہ اگر چاہیں تو اپنے شوہر سابقہ سے اپنا نکاح فسخ کر سکتی ہیں) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بریرہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں) فرمایا کہ ولاء آزاد کرانے والے کے ساتھ قائم ہوئی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوئے تو ایک ہانڈی (گوشت کی) چولہے پر تھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے روٹی اور گھر کا سالن لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (چولہے پر) ہانڈی (گوشت کی) بھی تو میں نے دیکھی تھی۔ عرض کیا گیا کہ وہ ہانڈی اس گوشت کی تھی جو بریرہ کو صدقہ میں ملا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ نہیں کھاتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اس کے لیے صدقہ ہے اور اب ہمارے لیے ان کی طرف سے تحفہ ہے۔ ہم اسے کھا سکتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ: 5097]

صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5097 کا باب: «بَابُ الْحُرَّةِ تَحْتَ الْعَبْدِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمتہ الباب کے ذریعے امام بخاری رحمہ اللہ نے آزاد عورت کا نکاح غلام مرد سے جائز ہونا قرار دیا ہے اور اس مسئلے پر اشارہ بھی فرمایا ہے، لیکن تحت الباب جو حدیث ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پیش فرمائی ہے اس میں غلام خاوند کا کوئی ذکر نہیں ہے، لہٰذا بظاہر باب اور حدیث میں مناسبت نہیں دکھائی دیتی۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «قلت: رضي الله عنك! ليس فى حديث بريرة هذا ما يدل أن زوجها كان عبداً.»
حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کی جو حدیث نقل فرمائی ہے اس میں یہ واضح نہیں ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے خاوند (سیدنا مغیث) غلام تھے۔
مزید فرماتے ہیں کہ: «وقد خرج حديثها أتم من هذا، وفيه التصريح بأنه عبد.» [المتوري: ص 290]
یقیناً امام بخاری رحمہ اللہ نے (دوسری حدیث) نکالی ہے، جو اس سے مکمل ہے، جس میں صراحت کے ساتھ واضح ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے خاوند مغیث رضی اللہ عنہ غلام تھے۔
دراصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا بریرہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کرتے وقت سیدنا مغیث رضی اللہ عنہ آزاد تھے یا غلام؟ بعض روایات سے ان کا آزاد ہونا ثابت ہوتا ہے اور بعض روایات کے مطابق ان کا غلام ہونا۔
ترجمۃ الباب کے ذریعے امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ غلام تھے۔
چنانچہ زکریا کاندھلوی لکھتے ہیں: «وميل المصنف الي مسلك الجمهور وقد ترجم فيما سياتي باب خيار الأمة تحت العبد» [الابواب و التراجم لصحیح البخاری: 482/5]
امام بخاری رحمہ اللہ کا میلان جمہور کے مسلک کی طرف ہے، (کہ سیدنا مغیث رضی اللہ عنہ بریرہ رضی اللہ عنہا کی آزادی کے وقت غلام تھے) اور یقیناً امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمتہ الباب قائم فرمایا اس بارے میں میں کہ: «باب خيار الأمة تحت العبد»
علامہ بدر الدین بن جماعۃ رحمہ اللہ ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں: «ليس فى الروايه التى ذكرها ان مغيثاً كان عبداً لكنه صح ذالك من طريق أخريٰ اانه كان عبداً وقد خيرها النبى صلى الله عليه وسلم فدل على جواز الحرة تحت العبد.» [مناسبات تراجم البخاري: ص 98]
اس روایت میں تصریح موجود نہیں ہے کہ سیدنا مغیث رضی اللہ عنہ غلام تھے، (تو پھر باب اور حدیث میں مناسبت کس طرح؟) لیکن صحیح یہ ہے کہ جو دوسرے طریق سے ثابت ہے کہ وہ غلام تھے، یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو اختیار دیا تھا، (کہ وہ مغیث سے نکاح قائم رکھیں، یا پھر ختم کر دیں) پس یہ جواز ہے کہ آزاد کے نکاح میں غلام شوہر رہ سکتا ہے، لہٰذا یہی سے ترجمہ ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
درج بالا اقتباس عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 86 سے ماخوذ ہے۔

✍️ الشیخ عبدالستار الحماد
5097. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: کہ سیدہ بریرہ‬ ؓ ک‬ے ساتھ تین سنتیں قائم ہوئی ہیں: انہیں آزاد کیا یا اور اختیار دیا گیا، نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ولاء کا تعلق آزاد کرنے والے کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ گھر میں تشریف لائے تو ایک ہانڈی چولہے پر تھی۔ آپ کے لیے روٹی اور گھر کا سالن پیش کیا گیا۔ آپ نے فرمایا: کیا میں ہنڈیا نہیں دیکھی۔؟عرض کی گئی۔ وہ تو اس گوشت کی تھی جو سیدہ بریرۃ ؓ کو صدقے میں ملا تھا اور آپ صدقہ نہیں کھاتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ اس کے لیے صدقہ تھا اور (اب) ہمارے لیے (اس کی طرف سے) تحفہ ہے۔[صحيح بخاري، حديث نمبر:5097]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت بریرہ رضی اللہ عنہما کو جب آزادی ملی تو انھیں اختیار دیا گیا کہ اگر چاہیں تو اپنے شوہر سے اپنا نکاح فسخ کرسکتی ہیں اور اگر چاہیں تو اس کے ہاں رہ سکتی ہیں۔
یہ اختیار اس بنا پر دیا گیا کہ آزادی کے وقت ان کا شوہر غلام تھا جیسا کہ ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے۔
(صحيح البخاري، الطلاق، حديث: 5282)
جب حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو اختیار دیا گیا تو انھوں نے اپنے خاوند مغیث سے علیحدگی کو اختیار کیا، وہ گلی کوچوں میں ان کے پیچھے روتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفارش فرمائی: ’’تم اسے خاوند کی حیثیت سے قبول کرلو۔
‘‘ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اگر آپ کا حکم ہے تو سر آنکھوں پر، اگر سفارش ہے تو میں معذرت کرتی ہوں۔
آپ نے اس کا برا نہ منایا۔
(صحيح البخاري، الطلاق، حديث: 5283)
اگر آزاد عورت کا غلام کے نکاح میں رہنا ناجائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی سفارش کیوں فرماتے؟ (2)
اس سفارش سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے کہ آزاد عورت کا غلام کے نکاح میں رہنا جائز ہے۔
اس کی تفصیل ہم کتاب الطلاق میں بیان کریں گے۔
بإذن الله تعاليٰ
درج بالا اقتباس هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5097 سے ماخوذ ہے۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل