صحيح البخاري
كتاب المناقب— کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
بَابُ قِصَّةِ الْحَبَشِ:— باب: حبشہ کے لوگوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 3530
وَقَالَتْ عَائِشَةُ : رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتُرُنِي وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَى الْحَبَشَةِ وَهُمْ يَلْعَبُونَ فِي الْمَسْجِدِ فَزَجَرَهُمْ عُمَرُ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : دَعْهُمْ أَمْنًا بَنِي أَرْفِدَةَ يَعْنِي مِنَ الْأَمْنِ " .
مولانا داود راز
´اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ` میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو پردہ میں رکھے ہوئے ہیں اور میں حبشیوں کو دیکھ رہی تھی جو نیزوں کا کھیل مسجد میں کر رہے تھے ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹا ۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” انہیں چھوڑ دو ، بنی ارفدہ تم بےفکر ہو کر کھیلو ۔“
حوالہ حدیث صحيح البخاري / كتاب المناقب / حدیث: 3530
درجۂ حدیث محدثین: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
اس موضوع سے متعلق مزید احادیث و آثار کے حوالے ملاحظہ کریں : صحيح البخاري: 0 | صحيح البخاري: 455 | صحيح البخاري: 3530 | صحيح البخاري: 5190 | صحيح البخاري: 5236 | صحيح مسلم: 2064 | صحيح مسلم: 2066 | صحيح مسلم: 2068 | سنن نسائي: 1595 | سنن نسائي: 1596
تشریح، فوائد و مسائل
✍️ مولانا داود راز
3530. حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی کا بیان ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا، آپ مجھے پردے میں رکھے ہوئے تھے اور میں حبشی جوانوں کو دیکھ رہی تھی جو مسجد میں نیزوں کا کھیل کررہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں ڈانٹا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’انھیں کچھ نہ کہو۔ اے بنو ارفدہ!تم بے فکر ہو کر اپنا کھیل جاری رکھو۔‘‘[صحيح بخاري، حديث نمبر:3530]
 حدیث حاشیہ:  یہ حدیث اس باب میں موصولاً مذکور ہے، ارفدہ حبشیوں کے جداعلی کانام تھا کہتے ہیں حبشی حبش بن کوش بن حام بن نوح کی اولاد میں سے ہیں۔
ایک زمانہ میں یہ سارے عرب پر غالب ہوگئے تھے اور ان کے بادشاہ ابرہہ نے کعبہ کو گرادینا چاہاتھا۔
یہاں یہ کھیل حبشیوں کا جنگی تعلیم اور مشق کے طورپر تھا۔
اس سے رقص کی اباحت پردلیل صحیح نہیں جو لہو ولعب کے طورپر ہو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بنو ا ارفدہ کہہ کر پکارا یہی مقصود باب ہے۔
ایک زمانہ میں یہ سارے عرب پر غالب ہوگئے تھے اور ان کے بادشاہ ابرہہ نے کعبہ کو گرادینا چاہاتھا۔
یہاں یہ کھیل حبشیوں کا جنگی تعلیم اور مشق کے طورپر تھا۔
اس سے رقص کی اباحت پردلیل صحیح نہیں جو لہو ولعب کے طورپر ہو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بنو ا ارفدہ کہہ کر پکارا یہی مقصود باب ہے۔
درج بالا اقتباس صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3530 سے ماخوذ ہے۔
✍️ الشیخ عبدالستار الحماد
3530. حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی کا بیان ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا، آپ مجھے پردے میں رکھے ہوئے تھے اور میں حبشی جوانوں کو دیکھ رہی تھی جو مسجد میں نیزوں کا کھیل کررہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں ڈانٹا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’انھیں کچھ نہ کہو۔ اے بنو ارفدہ!تم بے فکر ہو کر اپنا کھیل جاری رکھو۔‘‘[صحيح بخاري، حديث نمبر:3530]
 حدیث حاشیہ:  
1۔
ارفدہ،اہل حبشہ کے جد اعلیٰ کا نام ہے۔
مسجد میں حبشیوں کا یہ کھیل جنگی تعلیم اور مشق کے طور پر تھا۔
صوفیاء نے اس حدیث سے رقص وسماع کا جواز ثابت کیا ہے لیکن جمہور علماء نے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا کیونکہ حبشی لوگ تو جنگی تربیت حاصل کرنے کے لیے چھوٹے نیزوں سے مشق کررہے تھے۔
کہاں جنگی مشق اور کہاں رقص وسرور کے ساتھ گانا بجانا! رقص لہو ہے اور مشق مطلوب ہے۔
2۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل حبشہ کو ان کے جد اعلیٰ کی طرف منسوب کیا۔
معلوم ہواکہ نسب میں ایساکرنا جائز ہے۔
امام بخاری ؒ کا یہی مقصود ہے۔
واللہ أعلم۔
1۔
ارفدہ،اہل حبشہ کے جد اعلیٰ کا نام ہے۔
مسجد میں حبشیوں کا یہ کھیل جنگی تعلیم اور مشق کے طور پر تھا۔
صوفیاء نے اس حدیث سے رقص وسماع کا جواز ثابت کیا ہے لیکن جمہور علماء نے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا کیونکہ حبشی لوگ تو جنگی تربیت حاصل کرنے کے لیے چھوٹے نیزوں سے مشق کررہے تھے۔
کہاں جنگی مشق اور کہاں رقص وسرور کے ساتھ گانا بجانا! رقص لہو ہے اور مشق مطلوب ہے۔
2۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل حبشہ کو ان کے جد اعلیٰ کی طرف منسوب کیا۔
معلوم ہواکہ نسب میں ایساکرنا جائز ہے۔
امام بخاری ؒ کا یہی مقصود ہے۔
واللہ أعلم۔
درج بالا اقتباس هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3530 سے ماخوذ ہے۔
