صحيح البخاري
كتاب البيوع— کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
بَابُ الْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ مَعَ النِّسَاءِ:— باب: عورتوں سے خرید و فروخت کرنا۔
حدیث نمبر: 2156
حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ أَبِي عَبَّادٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، قَالَ : سَمِعْتُ نَافِعًا يُحَدِّثُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، سَاوَمَتْ بَرِيرَةَ ، فَخَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ ، فَلَمَّا جَاءَ ، قَالَتْ : إِنَّهُمْ أَبَوْا أَنْ يَبِيعُوهَا إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطُوا الْوَلَاءَ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ " ، قُلْتُ لِنَافِعٍ : حُرًّا كَانَ زَوْجُهَا أَوْ عَبْدًا ؟ فَقَالَ : مَا يُدْرِينِي .
مولانا داود راز
´ہم سے حسان بن ابی عباد نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے نافع سے سنا ، وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے تھے کہ` عائشہ رضی اللہ عنہا ، بریرہ رضی اللہ عنہا کی ( جو باندی تھیں ) قیمت لگا رہی تھیں ( تاکہ انہیں خرید کر آزاد کر دیں ) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے ( مسجد میں ) تشریف لے گئے ۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ( بریرہ رضی اللہ عنہا کے مالکوں نے تو ) اپنے لیے ولاء کی شرط کے بغیر انہیں بیچنے سے انکار کر دیا ہے ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولاء تو اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرے ۔ میں نے نافع سے پوچھا کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر آزاد تھے یا غلام ، تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں ۔
حوالہ حدیث صحيح البخاري / كتاب البيوع / حدیث: 2156
درجۂ حدیث محدثین: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
اس موضوع سے متعلق مزید احادیث و آثار کے حوالے ملاحظہ کریں : صحيح مسلم: 3776 | صحيح مسلم: 3777 | صحيح مسلم: 3779 | صحيح مسلم: 3781 | صحيح مسلم: 3782 | صحيح مسلم: 3783 | صحيح مسلم: 3786 | سنن نسائي: 2615 | سنن نسائي: 3477 | سنن نسائي: 3478 | سنن نسائي: 3479 | سنن نسائي: 3480 | سنن نسائي: 3481 | سنن نسائي: 3483 | سنن نسائي: 3484 | سنن نسائي: 4646 | سنن نسائي: 4647 | سنن نسائي: 4659 | سنن نسائي: 4660 | سنن ترمذي: 1256 | سنن ترمذي: 2124 | سنن ترمذي: 2125 | صحيح البخاري: 0 | صحيح البخاري: 1493 | صحيح البخاري: 2155 | صحيح البخاري: 2156 | صحيح البخاري: 2168 | صحيح البخاري: 2536 | صحيح البخاري: 2561 | صحيح البخاري: 2565 | صحيح البخاري: 2578 | صحيح البخاري: 2717 | صحيح البخاري: 2726 | صحيح البخاري: 5097 | صحيح البخاري: 5279 | صحيح البخاري: 5284 | صحيح البخاري: 5430 | صحيح البخاري: 6717 | صحيح البخاري: 6751 | صحيح البخاري: 6754 | صحيح البخاري: 6758 | صحيح البخاري: 6760 | سنن ابن ماجه: 2076 | سنن ابي داود: 2916 | سنن ابي داود: 3929 | موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 288 | بلوغ المرام: 657 | بلوغ المرام: 858 | بلوغ المرام: 1227
تشریح، فوائد و مسائل
✍️ مولانا داود راز
2156. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے حضرت بریرۃ ؓ کاسودا کیا۔ آپ ﷺ نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ جب واپس آئے تو ام المومنین ؓ نے کہا کہ وہ لوگ حضرت بریرہ ؓ کو فروخت کرنے سے انکاری ہیں مگر اس شرط پر کہ ولاء ان کی ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ولاء تو اس کا حق ہے جس نے اسے آزاد کیا ہو۔‘‘ (راوی حدیث ہمام کہتے ہیں کہ) میں نے (اپنے شیخ) حضرت نافع سے پوچھا: بریرہ ؓ کا شوہر آزاد تھا یا غلام؟انھوں نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں ہے۔[صحيح بخاري، حديث نمبر:2156]
 حدیث حاشیہ:  ان ہر دو احادیث میں حضرت بریرہ ؓ کی اپنے مالکوں سے مکاتبت کا ذکر ہے یعنی غلام یا لونڈی اپنی مالک سے طے کرلے کہ اتنی مدت میں وہ اس قدر روپیہ یا کوئی جنس وغیرہ ادا کرے گا۔
اور اس شرط کے پورا کرنے کے بعد وہ آزاد ہوجائے گا۔
تو اگر وہ شرط پوری کردی گئی اب وہ آزاد ہو گیا۔
بریرہ ؓ نے بھی اپنے مالکوں سے ایسی ہی صورت طے کی تھی۔
جس کا ذکر انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کیا۔
جس پر حضرت عائشہ ؓ نے یکمشت سارا روپیہ ادا کرنے کی پیش کش کی۔
اس شرط پر کہ بریرہ ؓ کی ولاءحضرت عائشہ ؓ ہی سے قائم ہو اور مالکوں کو اس بارے میں کوئی مطالبہ نہ رہے۔
ولاءکے معنی یہ کہ غلام آزاد ہونے کے بعد بھائی چارہ کا رشتہ اپنے سابقہ مالک سے قائم رکھے۔
خاندانی طور پر اسی کی طرف منسوب رہے۔
حتی کہ اس کے مرنے پر اس کے ترکہ کا حقدار بھی اس کا مالک ہی ہو۔
چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کی پیش کش کو انہوں نے سلسلہ ولاءکے ختم ہوجانے کے خطرہ سے منظور نہیں کیا۔
جس پر آنحضرت ﷺ نے یہ خطبہ ارشاد فرما کر اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی کہ یہ بھائی چارگی تو اس کے ساتھ قائم رہے گی۔
جو اسے خرید کر آزاد کرے نہ کہ سابق مالک کے ساتھ۔
چنانچہ حضرت عائشہ ؓ نے حضرت بریرہ ؓ کو خریدا اور آزاد کردیا، اور سلسلہ ولاءسابقہ مالک سے توڑ کر حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ قائم کر دیا گیا۔
اس حدیث سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں۔
جن کا استخراج امام الفقہاءو المحدثین حضرت امام بخاری ؒ نے اپنی جامع الصحیح میں جگہ جگہ کیا ہے۔
امام شوکانی اس سلسلہ میں مزید وضاحت یوں فرماتے ہیں: أن النبي صلی اللہ علیه وسلم قد کان أعلم الناس أن اشتراط الولاءباطل و اشتهر ذلك بحیث لا یخفی علی أهل بریرة فلما أرادوا أن یشرطوا ما تقدم لهم العلم ببطلانه أطلق الأمر مریدا به التهدید کقوله تعالیٰ (اعملوا ماشتئم)
فکأنه قال اشترطي لهم الولاءفسیعلمون أن ذلك لا ینفعهم و یؤید هذا ما قاله صلی اللہ علیه وسلم ذلك ما بال رجال یشترطون شروطا الخ (نیل)
یعنی نبی کریم ﷺ خوب جانتے تھے کہ ولاء کی شرط باطل ہے اور یہ اصول اس قدر مشتہرہو چکا تھا کہ اہل بریرہ سے بھی یہ مخفی نہ تھا۔
پھر جب انہوں نے اس شرط کے بطلان کو جاننے کے باوجود اس کی اشتراط پر اصرار کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تہدید کے طور پر مطلق امر فرما دیا کہ بریرہ کو خرید لیا جائے، جیسا کہ قرآن آیت اعملوا ما شئتم (فصلت: 40)
میں ہے کہ تم عمل کرو جو چاہو۔
یہ بطور تہدید فرمایا گیا ہے۔
گویا آپ نے فرمایا کہ ان کے ولاءکی شرط لگا لو وہ عنقریب جان لیں گے کہ اس شرط سے ان کو کچھ فائدہ حاصل نہ ہوگا اور اس مفہوم کی تائید آپ ﷺ کے اس ارشاد سے ہوتی ہے جو آپ ﷺ نے فرمایا۔
کہ لوگوں کا کیا حال ہے وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ سے ثابت نہیں ہیں۔
پس ایسی جملہ شروط باطل ہیں، خواہ ان کو لگا بھی لیا جائے مگراسلامی قانون کی رو سے ان کا کوئی مقام نہیں ہے۔
اور اس شرط کے پورا کرنے کے بعد وہ آزاد ہوجائے گا۔
تو اگر وہ شرط پوری کردی گئی اب وہ آزاد ہو گیا۔
بریرہ ؓ نے بھی اپنے مالکوں سے ایسی ہی صورت طے کی تھی۔
جس کا ذکر انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کیا۔
جس پر حضرت عائشہ ؓ نے یکمشت سارا روپیہ ادا کرنے کی پیش کش کی۔
اس شرط پر کہ بریرہ ؓ کی ولاءحضرت عائشہ ؓ ہی سے قائم ہو اور مالکوں کو اس بارے میں کوئی مطالبہ نہ رہے۔
ولاءکے معنی یہ کہ غلام آزاد ہونے کے بعد بھائی چارہ کا رشتہ اپنے سابقہ مالک سے قائم رکھے۔
خاندانی طور پر اسی کی طرف منسوب رہے۔
حتی کہ اس کے مرنے پر اس کے ترکہ کا حقدار بھی اس کا مالک ہی ہو۔
چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کی پیش کش کو انہوں نے سلسلہ ولاءکے ختم ہوجانے کے خطرہ سے منظور نہیں کیا۔
جس پر آنحضرت ﷺ نے یہ خطبہ ارشاد فرما کر اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی کہ یہ بھائی چارگی تو اس کے ساتھ قائم رہے گی۔
جو اسے خرید کر آزاد کرے نہ کہ سابق مالک کے ساتھ۔
چنانچہ حضرت عائشہ ؓ نے حضرت بریرہ ؓ کو خریدا اور آزاد کردیا، اور سلسلہ ولاءسابقہ مالک سے توڑ کر حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ قائم کر دیا گیا۔
اس حدیث سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں۔
جن کا استخراج امام الفقہاءو المحدثین حضرت امام بخاری ؒ نے اپنی جامع الصحیح میں جگہ جگہ کیا ہے۔
امام شوکانی اس سلسلہ میں مزید وضاحت یوں فرماتے ہیں: أن النبي صلی اللہ علیه وسلم قد کان أعلم الناس أن اشتراط الولاءباطل و اشتهر ذلك بحیث لا یخفی علی أهل بریرة فلما أرادوا أن یشرطوا ما تقدم لهم العلم ببطلانه أطلق الأمر مریدا به التهدید کقوله تعالیٰ (اعملوا ماشتئم)
فکأنه قال اشترطي لهم الولاءفسیعلمون أن ذلك لا ینفعهم و یؤید هذا ما قاله صلی اللہ علیه وسلم ذلك ما بال رجال یشترطون شروطا الخ (نیل)
یعنی نبی کریم ﷺ خوب جانتے تھے کہ ولاء کی شرط باطل ہے اور یہ اصول اس قدر مشتہرہو چکا تھا کہ اہل بریرہ سے بھی یہ مخفی نہ تھا۔
پھر جب انہوں نے اس شرط کے بطلان کو جاننے کے باوجود اس کی اشتراط پر اصرار کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تہدید کے طور پر مطلق امر فرما دیا کہ بریرہ کو خرید لیا جائے، جیسا کہ قرآن آیت اعملوا ما شئتم (فصلت: 40)
میں ہے کہ تم عمل کرو جو چاہو۔
یہ بطور تہدید فرمایا گیا ہے۔
گویا آپ نے فرمایا کہ ان کے ولاءکی شرط لگا لو وہ عنقریب جان لیں گے کہ اس شرط سے ان کو کچھ فائدہ حاصل نہ ہوگا اور اس مفہوم کی تائید آپ ﷺ کے اس ارشاد سے ہوتی ہے جو آپ ﷺ نے فرمایا۔
کہ لوگوں کا کیا حال ہے وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ سے ثابت نہیں ہیں۔
پس ایسی جملہ شروط باطل ہیں، خواہ ان کو لگا بھی لیا جائے مگراسلامی قانون کی رو سے ان کا کوئی مقام نہیں ہے۔
درج بالا اقتباس صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2156 سے ماخوذ ہے۔
✍️ الشیخ عبدالستار الحماد
2156. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے حضرت بریرۃ ؓ کاسودا کیا۔ آپ ﷺ نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ جب واپس آئے تو ام المومنین ؓ نے کہا کہ وہ لوگ حضرت بریرہ ؓ کو فروخت کرنے سے انکاری ہیں مگر اس شرط پر کہ ولاء ان کی ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ولاء تو اس کا حق ہے جس نے اسے آزاد کیا ہو۔‘‘ (راوی حدیث ہمام کہتے ہیں کہ) میں نے (اپنے شیخ) حضرت نافع سے پوچھا: بریرہ ؓ کا شوہر آزاد تھا یا غلام؟انھوں نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں ہے۔[صحيح بخاري، حديث نمبر:2156]
 حدیث حاشیہ:  
(1)
ولاء اس تعلق کو کہتے ہیں جو کسی آزاد کردہ غلام اور اس کے آزا دکرنے والے کے درمیان قائم ہوتا ہے۔
اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ غلام مرتے دم تک خاندانی طور پر اپنی نسبت اپنے محسن آزاد کرنے والے کی طرف کرتا ہے اور مرنے کے بعد اس کے ترکے کا حق دار بھی وہی محسن ہوتا۔
دور جاہلیت میں اس نسبت کا حق دار سابقہ مالک ہوتا تھا،خواہ آزاد کرنے والا کوئی دوسرا ہی کیوں نہ ہو۔
حضرت بریرہ ؓ کے مالکان اسی شرط جاہلیت پر اصرار کرتے تھے جس کی رسول اللہ ﷺ نے برسرما تردیدد فرمائی۔
(2)
اس حدیث سے حضرت عائشہ ؓ کا حضرت بریرہ ؓ کو خریدنے کا ثبوت ملتا ہے اور عنوان کے ساتھ مطابقت بھی یہی ہے کہ عورتیں خریدوفروخت کرسکتی ہیں۔
اس میں شرعاً کو ئی قباحت نہیں ہے۔
(3)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں جن کی موقع ومحل کے اعتبار سے وضاحت ہوتی رہے گی۔
(4)
اس روایت کے آخر میں حضرت بریرہ ؓ کے خاوند حضرت مغیث ؓ کے متعلق حضرت نافع نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا ہے کہ حضرت بریرہ ؓ کی آزادی کے وقت وہ غلام تھا یا آزاد،اسی طرح ایک روایت میں شعبہ نے اپنے شیخ عبدالرحمٰن بن قاسم سے اس کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے بھی فرمایا کہ مجھے علم نہیں۔
(صحیح البخاري، الھبة، حدیث: 2578)
البتہ حضرت ابن عباس ؓ نے صراحت بیان کی ہے کہ حضرت بریرہ ؓ کی آزادی کے وقت اس کا خاوند غلام تھا اور وہ اپنی شریکہ حیات کے فراق پر مدینے کے گلی کوچوں میں روتا اور آنسو بہاتا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس کی اس کیفیت پر بڑے تعجب کا اظہار کیا۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت بریرہ ؓ کو اسے بطور خاوند قبول کرنے کے متعلق مشورہ بھی دیا لیکن انھوں نے علیحدگی کو اختیار کیا۔
(صحیح البخاري، الطلاق، حدیث: 5283،5282)
(1)
ولاء اس تعلق کو کہتے ہیں جو کسی آزاد کردہ غلام اور اس کے آزا دکرنے والے کے درمیان قائم ہوتا ہے۔
اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ غلام مرتے دم تک خاندانی طور پر اپنی نسبت اپنے محسن آزاد کرنے والے کی طرف کرتا ہے اور مرنے کے بعد اس کے ترکے کا حق دار بھی وہی محسن ہوتا۔
دور جاہلیت میں اس نسبت کا حق دار سابقہ مالک ہوتا تھا،خواہ آزاد کرنے والا کوئی دوسرا ہی کیوں نہ ہو۔
حضرت بریرہ ؓ کے مالکان اسی شرط جاہلیت پر اصرار کرتے تھے جس کی رسول اللہ ﷺ نے برسرما تردیدد فرمائی۔
(2)
اس حدیث سے حضرت عائشہ ؓ کا حضرت بریرہ ؓ کو خریدنے کا ثبوت ملتا ہے اور عنوان کے ساتھ مطابقت بھی یہی ہے کہ عورتیں خریدوفروخت کرسکتی ہیں۔
اس میں شرعاً کو ئی قباحت نہیں ہے۔
(3)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں جن کی موقع ومحل کے اعتبار سے وضاحت ہوتی رہے گی۔
(4)
اس روایت کے آخر میں حضرت بریرہ ؓ کے خاوند حضرت مغیث ؓ کے متعلق حضرت نافع نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا ہے کہ حضرت بریرہ ؓ کی آزادی کے وقت وہ غلام تھا یا آزاد،اسی طرح ایک روایت میں شعبہ نے اپنے شیخ عبدالرحمٰن بن قاسم سے اس کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے بھی فرمایا کہ مجھے علم نہیں۔
(صحیح البخاري، الھبة، حدیث: 2578)
البتہ حضرت ابن عباس ؓ نے صراحت بیان کی ہے کہ حضرت بریرہ ؓ کی آزادی کے وقت اس کا خاوند غلام تھا اور وہ اپنی شریکہ حیات کے فراق پر مدینے کے گلی کوچوں میں روتا اور آنسو بہاتا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس کی اس کیفیت پر بڑے تعجب کا اظہار کیا۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت بریرہ ؓ کو اسے بطور خاوند قبول کرنے کے متعلق مشورہ بھی دیا لیکن انھوں نے علیحدگی کو اختیار کیا۔
(صحیح البخاري، الطلاق، حدیث: 5283،5282)
درج بالا اقتباس هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2156 سے ماخوذ ہے۔
