صحيح البخاري
كتاب الزكاة— کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
بَابُ الصَّدَقَةِ عَلَى مَوَالِي أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:— باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کی لونڈیوں اور غلاموں کو صدقہ دینا درست ہے۔
حدیث نمبر: 1493
حَدَّثَنَا آدَمُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا " أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ لِلْعِتْقِ ، وَأَرَادَ مَوَالِيهَا أَنْ يَشْتَرِطُوا وَلَاءَهَا , فَذَكَرَتْ عَائِشَةُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اشْتَرِيهَا ، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ ، قَالَتْ : وَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ ، فَقُلْتُ : هَذَا مَا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ ، فَقَالَ : هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ ، وَلَنَا هَدِيَّةٌ " .
مولانا داود راز
´ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے حکم بن عتبہ نے بیان کیا ‘ ان سے ابراہیم نخعی نے ‘ ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ` ان کا ارادہ ہوا کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو ( جو باندی تھیں ) آزاد کر دینے کے لیے خرید لیں ۔ لیکن اس کے اصل مالک یہ چاہتے تھے کہ ولاء انہیں کے لیے رہے ۔ اس کا ذکر عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم خرید کر آزاد کر دو ‘ ولاء تو اسی کی ہوتی ہے ‘ جو آزاد کرے ۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا ۔ میں نے کہا کہ یہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو کسی نے صدقہ کے طور پر دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ان کے لیے صدقہ تھا ۔ لیکن اب ہمارے لیے یہ ہدیہ ہے ۔
حوالہ حدیث صحيح البخاري / كتاب الزكاة / حدیث: 1493
درجۂ حدیث محدثین: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
اس موضوع سے متعلق مزید احادیث و آثار کے حوالے ملاحظہ کریں : صحيح مسلم: 3776 | صحيح مسلم: 3777 | صحيح مسلم: 3779 | صحيح مسلم: 3781 | صحيح مسلم: 3782 | صحيح مسلم: 3783 | صحيح مسلم: 3786 | سنن نسائي: 2615 | سنن نسائي: 3477 | سنن نسائي: 3478 | سنن نسائي: 3479 | سنن نسائي: 3480 | سنن نسائي: 3481 | سنن نسائي: 3483 | سنن نسائي: 3484 | سنن نسائي: 4646 | سنن نسائي: 4647 | سنن نسائي: 4659 | سنن نسائي: 4660 | سنن ترمذي: 1256 | سنن ترمذي: 2124 | سنن ترمذي: 2125 | صحيح البخاري: 0 | صحيح البخاري: 1493 | صحيح البخاري: 2155 | صحيح البخاري: 2156 | صحيح البخاري: 2168 | صحيح البخاري: 2536 | صحيح البخاري: 2561 | صحيح البخاري: 2565 | صحيح البخاري: 2578 | صحيح البخاري: 2717 | صحيح البخاري: 2726 | صحيح البخاري: 5097 | صحيح البخاري: 5279 | صحيح البخاري: 5284 | صحيح البخاري: 5430 | صحيح البخاري: 6717 | صحيح البخاري: 6751 | صحيح البخاري: 6754 | صحيح البخاري: 6758 | صحيح البخاري: 6760 | سنن ابن ماجه: 2076 | سنن ابي داود: 2916 | سنن ابي داود: 3929 | موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 288 | بلوغ المرام: 657 | بلوغ المرام: 858 | بلوغ المرام: 1227
تشریح، فوائد و مسائل
✍️ مولانا داود راز
1493. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت بریرہ ؓ کو آزاد کرنے کے لیے انھیں خریدنے کاارادہ کیا لیکن حضرت بریرہ ؓ کے مالکان نے اپنے لیے ان کی ولا کی شرط عائد کردی۔ حضرت عائشہ نے نبی کریم ﷺ سے اس کا ذکر یا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اسے خرید لو، ولا تو اس کےلیے ہے جو اسے آزاد کرے۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ پھر ایک بار نبی کریم ﷺ کی خدمت میں گوشت لایا گیا تو میں نے عرض کیا کہ یہ وہ گوشت ہے جو حضرت بریرہ ؓ صدقے میں ملا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’یہ اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔‘‘[صحيح بخاري، حديث نمبر:1493]
 حدیث حاشیہ:  غلام کے آزاد کردینے کے بعد مالک اور آزاد شدہ غلام میں بھائی چارہ کے تعلق کو ولاء کہا جاتا ہے۔
گیا غلام آزاد ہونے کے بعد بھی اصل مالک سے کچھ نہ کچھ متعلق رہتا تھا۔
اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو اس شخص کا حق ہے جو اسے خرید کر آزاد کرا رہا ہے۔
اب بھائی چارے کا تعلق اصل مالک کی بجائے اس خرید کر آزاد کرنے والے سے ہوگا۔
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
گیا غلام آزاد ہونے کے بعد بھی اصل مالک سے کچھ نہ کچھ متعلق رہتا تھا۔
اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو اس شخص کا حق ہے جو اسے خرید کر آزاد کرا رہا ہے۔
اب بھائی چارے کا تعلق اصل مالک کی بجائے اس خرید کر آزاد کرنے والے سے ہوگا۔
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
درج بالا اقتباس صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1493 سے ماخوذ ہے۔
✍️ الشیخ عبدالستار الحماد
1493. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت بریرہ ؓ کو آزاد کرنے کے لیے انھیں خریدنے کاارادہ کیا لیکن حضرت بریرہ ؓ کے مالکان نے اپنے لیے ان کی ولا کی شرط عائد کردی۔ حضرت عائشہ نے نبی کریم ﷺ سے اس کا ذکر یا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اسے خرید لو، ولا تو اس کےلیے ہے جو اسے آزاد کرے۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ پھر ایک بار نبی کریم ﷺ کی خدمت میں گوشت لایا گیا تو میں نے عرض کیا کہ یہ وہ گوشت ہے جو حضرت بریرہ ؓ صدقے میں ملا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’یہ اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔‘‘[صحيح بخاري، حديث نمبر:1493]
 حدیث حاشیہ:  
(1)
غلام کو آزاد کر دینے کے بعد جو تعلق آزاد کنندہ اور آزاد کردہ کے درمیان قائم ہوتا ہے اسے ولاء کہتے ہیں۔
یہ تعلق اصل مالک کے بجائے آزاد کرنے والے سے قائم ہوتا ہے، اس کا فائدہ یہ ہے کہ آزاد شدہ غلام کے مرنے کے بعد اگر اس کا کوئی نسبی وارث نہ ہو تو اس کا ترکہ آزاد کنندہ کو ملتا ہے۔
(2)
حضرت بریرہ ؓ چونکہ حضرت عائشہ ؓ کی آزاد کردہ لونڈی تھیں، اس لیے ان کے لیے صدقہ جائز تھا اور جب صدقہ اپنے محل پر پہنچ جائے تو اس کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔
اب دوسروں کے لیے استعمال کرنا جائز ہوتا ہے جو پہلے اسے استعمال کرنے کے مجاز نہیں ہوتے کیونکہ جو چیز کسی علت کے باعث حرام ہوئی ہو اس علت کے زائل ہونے سے حلال ہو جاتی ہے، اس لیے صدقہ کردہ گوشت رسول اللہ ﷺ استعمال کر لیتے تھے۔
(3)
صدقے میں ثواب کے ساتھ عبادت کا پہلو غالب ہوتا ہے جبکہ ہدیہ میں ثواب کے ساتھ باہمی محبت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔
واللہ أعلم
(1)
غلام کو آزاد کر دینے کے بعد جو تعلق آزاد کنندہ اور آزاد کردہ کے درمیان قائم ہوتا ہے اسے ولاء کہتے ہیں۔
یہ تعلق اصل مالک کے بجائے آزاد کرنے والے سے قائم ہوتا ہے، اس کا فائدہ یہ ہے کہ آزاد شدہ غلام کے مرنے کے بعد اگر اس کا کوئی نسبی وارث نہ ہو تو اس کا ترکہ آزاد کنندہ کو ملتا ہے۔
(2)
حضرت بریرہ ؓ چونکہ حضرت عائشہ ؓ کی آزاد کردہ لونڈی تھیں، اس لیے ان کے لیے صدقہ جائز تھا اور جب صدقہ اپنے محل پر پہنچ جائے تو اس کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔
اب دوسروں کے لیے استعمال کرنا جائز ہوتا ہے جو پہلے اسے استعمال کرنے کے مجاز نہیں ہوتے کیونکہ جو چیز کسی علت کے باعث حرام ہوئی ہو اس علت کے زائل ہونے سے حلال ہو جاتی ہے، اس لیے صدقہ کردہ گوشت رسول اللہ ﷺ استعمال کر لیتے تھے۔
(3)
صدقے میں ثواب کے ساتھ عبادت کا پہلو غالب ہوتا ہے جبکہ ہدیہ میں ثواب کے ساتھ باہمی محبت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔
واللہ أعلم
درج بالا اقتباس هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1493 سے ماخوذ ہے۔
