صحيح البخاري : «باب: ترک ملاقات کا بیان۔»
کتب حدیثصحيح البخاريابوابباب: ترک ملاقات کا بیان۔
صحيح البخاري
كتاب الأدب — کتاب: اخلاق کے بیان میں
بَابُ الْهِجْرَةِ: — باب: ترک ملاقات کا بیان۔
حدیث نمبر: Q6073
وَقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ
مولانا داود راز
´اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ` کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو تین رات سے زیادہ چھوڑے رکھے ( اس میں ملاپ کرنے کی تاکید ہے ) ۔
حوالہ حدیث صحيح البخاري / كتاب الأدب / حدیث: Q6073
حدیث نمبر: 6073
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عَوْفُ بْنُ مَالِكِ بْنِ الطُّفَيْلِ هُوَ ابْنُ الْحَارِثِ ، وَهُوَ ابْنُ أَخِي عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُمِّهَا ، أَنَّ عَائِشَةَ ، حُدِّثَتْ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ ، قَالَ فِي بَيْعٍ أَوْ عَطَاءٍ أَعْطَتْهُ عَائِشَةُ : " وَاللَّهِ لَتَنْتَهِيَنَّ عَائِشَةُ أَوْ لَأَحْجُرَنَّ عَلَيْهَا ، فَقَالَتْ : أَهُوَ قَالَ هَذَا ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَتْ : هُوَ لِلَّهِ عَلَيَّ نَذْرٌ أَنْ لَا أُكَلِّمَ ابْنَ الزُّبَيْرِ أَبَدًا ، فَاسْتَشْفَعَ ابْنُ الزُّبَيْرِ إِلَيْهَا حِينَ طَالَتِ الْهِجْرَةُ ، فَقَالَتْ : لَا وَاللَّهِ لَا أُشَفِّعُ فِيهِ أَبَدًا وَلَا أَتَحَنَّثُ إِلَى نَذْرِي ، فَلَمَّا طَالَ ذَلِكَ عَلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ كَلَّمَ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ ، وَهُمَا مِنْ بَنِي زُهْرَةَ ، وَقَالَ لَهُمَا : أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ لَمَّا أَدْخَلْتُمَانِي عَلَى عَائِشَةَ ، فَإِنَّهَا لَا يَحِلُّ لَهَا أَنْ تَنْذِرَ قَطِيعَتِي ، فَأَقْبَلَ بِهِ الْمِسْوَرُ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ مُشْتَمِلَيْنِ بِأَرْدِيَتِهِمَا حَتَّى اسْتَأْذَنَا عَلَى عَائِشَةَ ، فَقَالَا : السَّلَامُ عَلَيْكِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ ، أَنَدْخُلُ ؟ قَالَتْ عَائِشَةُ : ادْخُلُوا قَالُوا : كُلُّنَا قَالَتْ : نَعَم ادْخُلُوا كُلُّكُمْ ، وَلَا تَعْلَمُ أَنَّ مَعَهُمَا ابْنَ الزُّبَيْرِ ، فَلَمَّا دَخَلُوا دَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ الْحِجَابَ فَاعْتَنَقَ عَائِشَةَ وَطَفِقَ يُنَاشِدُهَا وَيَبْكِي ، وَطَفِقَ الْمِسْوَرُ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ يُنَاشِدَانِهَا إِلَّا مَا كَلَّمَتْهُ وَقَبِلَتْ مِنْهُ ، وَيَقُولَانِ : إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَمَّا قَدْ عَلِمْتِ مِنَ الْهِجْرَةِ فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ ، فَلَمَّا أَكْثَرُوا عَلَى عَائِشَةَ مِنَ التَّذْكِرَةِ وَالتَّحْرِيجِ طَفِقَتْ تُذَكِّرُهُمَا نَذْرَهَا وَتَبْكِي وَتَقُولُ : إِنِّي نَذَرْتُ وَالنَّذْرُ شَدِيدٌ ، فَلَمْ يَزَالَا بِهَا حَتَّى كَلَّمَتِ ابْنَ الزُّبَيْرِ وَأَعْتَقَتْ فِي نَذْرِهَا ذَلِكَ أَرْبَعِينَ رَقَبَةً ، وَكَانَتْ تَذْكُرُ نَذْرَهَا بَعْدَ ذَلِكَ فَتَبْكِي حَتَّى تَبُلَّ دُمُوعُهَا خِمَارَهَا " .
مولانا داود راز
´ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے ، کہا مجھ سے عوف بن مالک بن طفیل نے بیان کیا` وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مادری بھتیجے تھے ، انہوں نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کوئی چیز بھیجی یا خیرات کی تو عبداللہ بن زبیر جو ان کے بھانجے تھے کہنے لگے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایسے معاملوں سے باز رہنا چاہیئے نہیں تو اللہ کی قسم میں ان کے لیے حجر کا حکم جاری کر دوں گا ۔ ام المؤمنین نے کہا کیا اس نے یہ الفاظ کہے ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ جی ہاں ۔ فرمایا پھر میں اللہ سے نذر کرتی ہوں کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے اب کبھی نہیں بولوں گی ۔ اس کے بعد جب ان کے قطع تعلقی پر عرصہ گزر گیا ۔ تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لیے ان سے سفارش کی گئی ( کہ انہیں معاف فرما دیں ) ام المؤمنین نے کہا ہرگز نہیں ، اللہ کی قسم ! اس کے بارے میں کوئی سفارش نہیں مانوں گی اور اپنی نذر نہیں توڑوں گی ۔ جب یہ قطعی تعلق عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لیے بہت تکلیف دہ ہو گئی تو انہوں نے مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن اسود بن عبد یغوث رضی اللہ عنہم سے اس سلسلے میں بات کی وہ دونوں بنی زہرہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ انہوں نے ان سے کہا کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کسی طرح تم لوگ مجھے عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں داخل کرا دو کیونکہ ان کے لیے یہ جائز نہیں کہ میرے ساتھ صلہ رحمی کو توڑنے کی قسم کھائیں چنانچہ مسور اور عبدالرحمٰن دونوں اپنی چادروں میں لپٹے ہوئے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو اس میں ساتھ لے کر آئے اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے اندر آنے کی اجازت چاہی اور عرض کی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ، کیا ہم اندر آ سکتے ہیں ؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا آ جاؤ ۔ انہوں نے عرض کیا ہم سب ؟ کہا ہاں ، سب آ جاؤ ۔ ام المؤمنین کو اس کا علم نہیں تھا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بھی ان کے ساتھ ہیں ۔ جب یہ اندر گئے تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما پردہ ہٹا کر اندر چلے گئے اور ام المؤمنین رضی اللہ عنہا سے لپٹ کر اللہ کا واسطہ دینے لگے اور رونے لگے ( کہ معاف کر دیں ، یہ ام المؤمنین کے بھانجے تھے ) مسور اور عبدالرحمٰن بھی ام المؤمنین کو اللہ کا واسطہ دینے لگے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بولیں اور انہیں معاف کر دیں ان حضرات نے یہ بھی عرض کیا کہ جیسا کہ تم کو معلوم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلق توڑنے سے منع کیا ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ والی حدیث یاد دلانے لگے اور یہ کہ اس میں نقصان ہے تو ام المؤمنین بھی انہیں یاد دلانے لگیں اور رونے لگیں اور فرمانے لگیں کہ میں نے تو قسم کھا لی ہے ؟ اور قسم کا معاملہ سخت ہے لیکن یہ بزرگ لوگ برابر کوشش کرتے رہے ، یہاں تک کہ ام المؤمنین نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بات کر لی اور اپنی قسم ( توڑنے ) کی وجہ سے چالیس غلام آزاد کئے ۔ اس کے بعد جب بھی آپ یہ قسم یاد کرتیں تو رونے لگتیں اور آپ کا دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا ۔
حوالہ حدیث صحيح البخاري / كتاب الأدب / حدیث: 6073
درجۂ حدیث محدثین: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
تخریج «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حدیث نمبر: 6074
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عَوْفُ بْنُ مَالِكِ بْنِ الطُّفَيْلِ هُوَ ابْنُ الْحَارِثِ ، وَهُوَ ابْنُ أَخِي عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُمِّهَا ، أَنَّ عَائِشَةَ ، حُدِّثَتْ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ ، قَالَ فِي بَيْعٍ أَوْ عَطَاءٍ أَعْطَتْهُ عَائِشَةُ : " وَاللَّهِ لَتَنْتَهِيَنَّ عَائِشَةُ أَوْ لَأَحْجُرَنَّ عَلَيْهَا ، فَقَالَتْ : أَهُوَ قَالَ هَذَا ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَتْ : هُوَ لِلَّهِ عَلَيَّ نَذْرٌ أَنْ لَا أُكَلِّمَ ابْنَ الزُّبَيْرِ أَبَدًا ، فَاسْتَشْفَعَ ابْنُ الزُّبَيْرِ إِلَيْهَا حِينَ طَالَتِ الْهِجْرَةُ ، فَقَالَتْ : لَا وَاللَّهِ لَا أُشَفِّعُ فِيهِ أَبَدًا وَلَا أَتَحَنَّثُ إِلَى نَذْرِي ، فَلَمَّا طَالَ ذَلِكَ عَلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ كَلَّمَ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ ، وَهُمَا مِنْ بَنِي زُهْرَةَ ، وَقَالَ لَهُمَا : أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ لَمَّا أَدْخَلْتُمَانِي عَلَى عَائِشَةَ ، فَإِنَّهَا لَا يَحِلُّ لَهَا أَنْ تَنْذِرَ قَطِيعَتِي ، فَأَقْبَلَ بِهِ الْمِسْوَرُ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ مُشْتَمِلَيْنِ بِأَرْدِيَتِهِمَا حَتَّى اسْتَأْذَنَا عَلَى عَائِشَةَ ، فَقَالَا : السَّلَامُ عَلَيْكِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ ، أَنَدْخُلُ ؟ قَالَتْ عَائِشَةُ : ادْخُلُوا قَالُوا : كُلُّنَا قَالَتْ : نَعَم ادْخُلُوا كُلُّكُمْ ، وَلَا تَعْلَمُ أَنَّ مَعَهُمَا ابْنَ الزُّبَيْرِ ، فَلَمَّا دَخَلُوا دَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ الْحِجَابَ فَاعْتَنَقَ عَائِشَةَ وَطَفِقَ يُنَاشِدُهَا وَيَبْكِي ، وَطَفِقَ الْمِسْوَرُ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ يُنَاشِدَانِهَا إِلَّا مَا كَلَّمَتْهُ وَقَبِلَتْ مِنْهُ ، وَيَقُولَانِ : إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَمَّا قَدْ عَلِمْتِ مِنَ الْهِجْرَةِ فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ ، فَلَمَّا أَكْثَرُوا عَلَى عَائِشَةَ مِنَ التَّذْكِرَةِ وَالتَّحْرِيجِ طَفِقَتْ تُذَكِّرُهُمَا نَذْرَهَا وَتَبْكِي وَتَقُولُ : إِنِّي نَذَرْتُ وَالنَّذْرُ شَدِيدٌ ، فَلَمْ يَزَالَا بِهَا حَتَّى كَلَّمَتِ ابْنَ الزُّبَيْرِ وَأَعْتَقَتْ فِي نَذْرِهَا ذَلِكَ أَرْبَعِينَ رَقَبَةً ، وَكَانَتْ تَذْكُرُ نَذْرَهَا بَعْدَ ذَلِكَ فَتَبْكِي حَتَّى تَبُلَّ دُمُوعُهَا خِمَارَهَا " .
مولانا داود راز
´ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے ، کہا مجھ سے عوف بن مالک بن طفیل نے بیان کیا` وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مادری بھتیجے تھے ، انہوں نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کوئی چیز بھیجی یا خیرات کی تو عبداللہ بن زبیر جو ان کے بھانجے تھے کہنے لگے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایسے معاملوں سے باز رہنا چاہیئے نہیں تو اللہ کی قسم میں ان کے لیے حجر کا حکم جاری کر دوں گا ۔ ام المؤمنین نے کہا کیا اس نے یہ الفاظ کہے ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ جی ہاں ۔ فرمایا پھر میں اللہ سے نذر کرتی ہوں کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے اب کبھی نہیں بولوں گی ۔ اس کے بعد جب ان کے قطع تعلقی پر عرصہ گزر گیا ۔ تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لیے ان سے سفارش کی گئی ( کہ انہیں معاف فرما دیں ) ام المؤمنین نے کہا ہرگز نہیں ، اللہ کی قسم ! اس کے بارے میں کوئی سفارش نہیں مانوں گی اور اپنی نذر نہیں توڑوں گی ۔ جب یہ قطعی تعلق عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لیے بہت تکلیف دہ ہو گئی تو انہوں نے مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن اسود بن عبد یغوث رضی اللہ عنہم سے اس سلسلے میں بات کی وہ دونوں بنی زہرہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ انہوں نے ان سے کہا کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کسی طرح تم لوگ مجھے عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں داخل کرا دو کیونکہ ان کے لیے یہ جائز نہیں کہ میرے ساتھ صلہ رحمی کو توڑنے کی قسم کھائیں چنانچہ مسور اور عبدالرحمٰن دونوں اپنی چادروں میں لپٹے ہوئے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو اس میں ساتھ لے کر آئے اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے اندر آنے کی اجازت چاہی اور عرض کی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ، کیا ہم اندر آ سکتے ہیں ؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا آ جاؤ ۔ انہوں نے عرض کیا ہم سب ؟ کہا ہاں ، سب آ جاؤ ۔ ام المؤمنین کو اس کا علم نہیں تھا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بھی ان کے ساتھ ہیں ۔ جب یہ اندر گئے تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما پردہ ہٹا کر اندر چلے گئے اور ام المؤمنین رضی اللہ عنہا سے لپٹ کر اللہ کا واسطہ دینے لگے اور رونے لگے ( کہ معاف کر دیں ، یہ ام المؤمنین کے بھانجے تھے ) مسور اور عبدالرحمٰن بھی ام المؤمنین کو اللہ کا واسطہ دینے لگے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بولیں اور انہیں معاف کر دیں ان حضرات نے یہ بھی عرض کیا کہ جیسا کہ تم کو معلوم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلق توڑنے سے منع کیا ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ والی حدیث یاد دلانے لگے اور یہ کہ اس میں نقصان ہے تو ام المؤمنین بھی انہیں یاد دلانے لگیں اور رونے لگیں اور فرمانے لگیں کہ میں نے تو قسم کھا لی ہے ؟ اور قسم کا معاملہ سخت ہے لیکن یہ بزرگ لوگ برابر کوشش کرتے رہے ، یہاں تک کہ ام المؤمنین نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بات کر لی اور اپنی قسم ( توڑنے ) کی وجہ سے چالیس غلام آزاد کئے ۔ اس کے بعد جب بھی آپ یہ قسم یاد کرتیں تو رونے لگتیں اور آپ کا دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا ۔
حوالہ حدیث صحيح البخاري / كتاب الأدب / حدیث: 6074
درجۂ حدیث محدثین: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
تخریج «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حدیث نمبر: 6075
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عَوْفُ بْنُ مَالِكِ بْنِ الطُّفَيْلِ هُوَ ابْنُ الْحَارِثِ ، وَهُوَ ابْنُ أَخِي عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُمِّهَا ، أَنَّ عَائِشَةَ ، حُدِّثَتْ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ ، قَالَ فِي بَيْعٍ أَوْ عَطَاءٍ أَعْطَتْهُ عَائِشَةُ : " وَاللَّهِ لَتَنْتَهِيَنَّ عَائِشَةُ أَوْ لَأَحْجُرَنَّ عَلَيْهَا ، فَقَالَتْ : أَهُوَ قَالَ هَذَا ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَتْ : هُوَ لِلَّهِ عَلَيَّ نَذْرٌ أَنْ لَا أُكَلِّمَ ابْنَ الزُّبَيْرِ أَبَدًا ، فَاسْتَشْفَعَ ابْنُ الزُّبَيْرِ إِلَيْهَا حِينَ طَالَتِ الْهِجْرَةُ ، فَقَالَتْ : لَا وَاللَّهِ لَا أُشَفِّعُ فِيهِ أَبَدًا وَلَا أَتَحَنَّثُ إِلَى نَذْرِي ، فَلَمَّا طَالَ ذَلِكَ عَلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ كَلَّمَ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ ، وَهُمَا مِنْ بَنِي زُهْرَةَ ، وَقَالَ لَهُمَا : أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ لَمَّا أَدْخَلْتُمَانِي عَلَى عَائِشَةَ ، فَإِنَّهَا لَا يَحِلُّ لَهَا أَنْ تَنْذِرَ قَطِيعَتِي ، فَأَقْبَلَ بِهِ الْمِسْوَرُ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ مُشْتَمِلَيْنِ بِأَرْدِيَتِهِمَا حَتَّى اسْتَأْذَنَا عَلَى عَائِشَةَ ، فَقَالَا : السَّلَامُ عَلَيْكِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ ، أَنَدْخُلُ ؟ قَالَتْ عَائِشَةُ : ادْخُلُوا قَالُوا : كُلُّنَا قَالَتْ : نَعَم ادْخُلُوا كُلُّكُمْ ، وَلَا تَعْلَمُ أَنَّ مَعَهُمَا ابْنَ الزُّبَيْرِ ، فَلَمَّا دَخَلُوا دَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ الْحِجَابَ فَاعْتَنَقَ عَائِشَةَ وَطَفِقَ يُنَاشِدُهَا وَيَبْكِي ، وَطَفِقَ الْمِسْوَرُ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ يُنَاشِدَانِهَا إِلَّا مَا كَلَّمَتْهُ وَقَبِلَتْ مِنْهُ ، وَيَقُولَانِ : إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَمَّا قَدْ عَلِمْتِ مِنَ الْهِجْرَةِ فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ ، فَلَمَّا أَكْثَرُوا عَلَى عَائِشَةَ مِنَ التَّذْكِرَةِ وَالتَّحْرِيجِ طَفِقَتْ تُذَكِّرُهُمَا نَذْرَهَا وَتَبْكِي وَتَقُولُ : إِنِّي نَذَرْتُ وَالنَّذْرُ شَدِيدٌ ، فَلَمْ يَزَالَا بِهَا حَتَّى كَلَّمَتِ ابْنَ الزُّبَيْرِ وَأَعْتَقَتْ فِي نَذْرِهَا ذَلِكَ أَرْبَعِينَ رَقَبَةً ، وَكَانَتْ تَذْكُرُ نَذْرَهَا بَعْدَ ذَلِكَ فَتَبْكِي حَتَّى تَبُلَّ دُمُوعُهَا خِمَارَهَا " .
مولانا داود راز
´ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے ، کہا مجھ سے عوف بن مالک بن طفیل نے بیان کیا` وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مادری بھتیجے تھے ، انہوں نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کوئی چیز بھیجی یا خیرات کی تو عبداللہ بن زبیر جو ان کے بھانجے تھے کہنے لگے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایسے معاملوں سے باز رہنا چاہیئے نہیں تو اللہ کی قسم میں ان کے لیے حجر کا حکم جاری کر دوں گا ۔ ام المؤمنین نے کہا کیا اس نے یہ الفاظ کہے ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ جی ہاں ۔ فرمایا پھر میں اللہ سے نذر کرتی ہوں کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے اب کبھی نہیں بولوں گی ۔ اس کے بعد جب ان کے قطع تعلقی پر عرصہ گزر گیا ۔ تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لیے ان سے سفارش کی گئی ( کہ انہیں معاف فرما دیں ) ام المؤمنین نے کہا ہرگز نہیں ، اللہ کی قسم ! اس کے بارے میں کوئی سفارش نہیں مانوں گی اور اپنی نذر نہیں توڑوں گی ۔ جب یہ قطعی تعلق عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لیے بہت تکلیف دہ ہو گئی تو انہوں نے مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن اسود بن عبد یغوث رضی اللہ عنہم سے اس سلسلے میں بات کی وہ دونوں بنی زہرہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ انہوں نے ان سے کہا کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کسی طرح تم لوگ مجھے عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں داخل کرا دو کیونکہ ان کے لیے یہ جائز نہیں کہ میرے ساتھ صلہ رحمی کو توڑنے کی قسم کھائیں چنانچہ مسور اور عبدالرحمٰن دونوں اپنی چادروں میں لپٹے ہوئے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو اس میں ساتھ لے کر آئے اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے اندر آنے کی اجازت چاہی اور عرض کی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ، کیا ہم اندر آ سکتے ہیں ؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا آ جاؤ ۔ انہوں نے عرض کیا ہم سب ؟ کہا ہاں ، سب آ جاؤ ۔ ام المؤمنین کو اس کا علم نہیں تھا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بھی ان کے ساتھ ہیں ۔ جب یہ اندر گئے تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما پردہ ہٹا کر اندر چلے گئے اور ام المؤمنین رضی اللہ عنہا سے لپٹ کر اللہ کا واسطہ دینے لگے اور رونے لگے ( کہ معاف کر دیں ، یہ ام المؤمنین کے بھانجے تھے ) مسور اور عبدالرحمٰن بھی ام المؤمنین کو اللہ کا واسطہ دینے لگے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بولیں اور انہیں معاف کر دیں ان حضرات نے یہ بھی عرض کیا کہ جیسا کہ تم کو معلوم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلق توڑنے سے منع کیا ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ والی حدیث یاد دلانے لگے اور یہ کہ اس میں نقصان ہے تو ام المؤمنین بھی انہیں یاد دلانے لگیں اور رونے لگیں اور فرمانے لگیں کہ میں نے تو قسم کھا لی ہے ؟ اور قسم کا معاملہ سخت ہے لیکن یہ بزرگ لوگ برابر کوشش کرتے رہے ، یہاں تک کہ ام المؤمنین نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بات کر لی اور اپنی قسم ( توڑنے ) کی وجہ سے چالیس غلام آزاد کئے ۔ اس کے بعد جب بھی آپ یہ قسم یاد کرتیں تو رونے لگتیں اور آپ کا دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا ۔
حوالہ حدیث صحيح البخاري / كتاب الأدب / حدیث: 6075
درجۂ حدیث محدثین: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
تخریج «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حدیث نمبر: 6076
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا ، وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ " .
مولانا داود راز
´ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا انہیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی ، انہیں ابن شہاب نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” آپس میں بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ، پیٹھ پیچھے کسی کی برائی نہ کرو ، بلکہ اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ تک بات چیت بند کرے ۔“
حوالہ حدیث صحيح البخاري / كتاب الأدب / حدیث: 6076
درجۂ حدیث محدثین: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
تخریج «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حدیث نمبر: 6077
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ ، يَلْتَقِيَانِ فَيُعْرِضُ هَذَا وَيُعْرِضُ هَذَا ، وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلَامِ " .
مولانا داود راز
´ہم سے عبدالرحمٰن بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی ، انہیں ابن شہاب نے ، انہیں عطاء بن یزید لیثی نے اور انہیں ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ اپنے کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ کے لیے ملاقات چھوڑے ، اس طرح کہ جب دونوں کا سامنا ہو جائے تو یہ بھی منہ پھیر لے اور وہ بھی منہ پھیر لے اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے ۔“
حوالہ حدیث صحيح البخاري / كتاب الأدب / حدیث: 6077
درجۂ حدیث محدثین: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
تخریج «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل