صحيح البخاري
                            كتاب بدء الخلق          — کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی          
        
                            
            بَابٌ في النُّجُومِ:            — باب: ستاروں کا بیان۔          
              حدیث نمبر: Q3199-2
      وَقَالَ قَتَادَةُ وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ سورة الملك آية 5 خَلَقَ هَذِهِ النُّجُومَ لِثَلَاثٍ جَعَلَهَا زِينَةً لِلسَّمَاءِ ، وَرُجُومًا لِلشَّيَاطِينِ ، وَعَلَامَاتٍ يُهْتَدَى بِهَا ، فَمَنْ تَأَوَّلَ فِيهَا بِغَيْرِ ذَلِكَ أَخْطَأَ وَأَضَاعَ نَصِيبَهُ وَتَكَلَّفَ مَا لَا عِلْمَ لَهُ بِهِ ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ هَشِيمًا سورة الكهف آية 45 مُتَغَيِّرًا ، وَالْأَبُّ : مَا يَأْكُلُ الْأَنْعَامُ ، وَالْأَنَامُ : الْخَلْقُ ، بَرْزَخٌ سورة المؤمنون آية 100 حَاجِبٌ ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ أَلْفَافًا سورة النبأ آية 16 مُلْتَفَّةً ، وَالْغُلْبُ : الْمُلْتَفَّةُ ، فِرَاشًا سورة البقرة آية 22مِهَادًا ، كَقَوْلِهِ وَلَكُمْ فِي الأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ سورة البقرة آية 36 نَكِدًا سورة الأعراف آية 58 قَلِيلًا .
مولانا داود راز
 قتادہ نے ( قرآن مجید کی اس آیت کے بارے میں ) «ولقد زينا السماء الدنيا بمصابيح» ” کہ ہم نے زینت دی آسمان دنیا کو ( تاروں کے ) چراغوں سے ۔ “ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کو تین فائدوں کے لیے پیدا کیا ہے ۔ انہیں آسمان کی زینت بنایا ، شیاطین پر مارنے کے لیے بنایا ۔ اور ( رات کی اندھیریوں میں ) انہیں صحیح راستہ پر چلتے رہنے کے لیے نشانات قرار دیا ۔ پس جس شخص نے ان کے سوا دوسری باتیں کہیں ، اس نے غلطی کی ، اپنا حصہ تباہ کیا ( اپنا وقت ضائع کیا یا اپنا ایمان کھو دیا ) اور جو بات غیب کی معلوم نہیں ہو سکتی اس کو اس نے معلوم کرنا چاہا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سورۃ الکہف میں لفظ «هشيما» ہے اس کا معنی بدلا ہوا ۔ «الأب» کے معنی مویشیوں کا چارہ ۔ یہ لفظ سورۃ عبس میں ہے اور سورۃ الرحمن میں لفظ «الأنام» بمعنی مخلوق ہے اور لفظ «برزخ» بمعنی پردہ ہے ۔ اور مجاہد تابعی نے کہا کہ لفظ «ألفافا» بمعنی «ملتفة» ہے ۔ اس کے معنی گہرے لپٹے ہوئے ۔ «الغلب» بھی بمعنی «الملتفة» اور لفظ «فراشا» بمعنی «مهاد» ہے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں فرمایا «ولكم في الأرض مستقر» ( «مستقر» بھی بمعنی «مهاد» ہے ) اور سورۃ الاعراف میں جو لفظ «نكدا» ہے اس کا معنی تھوڑا ہے ۔
حوالہ حدیث صحيح البخاري / كتاب بدء الخلق / حدیث: Q3199-2
