سنن نسائي : «باب: شکاری کتے کی قیمت لینے کی رخصت کا بیان۔»
کتب حدیثسنن نسائيابوابباب: شکاری کتے کی قیمت لینے کی رخصت کا بیان۔
سنن نسائي
كتاب الصيد والذبائح — کتاب: شکار اور ذبیحہ کے احکام و مسائل
بَابُ : الرُّخْصَةِ فِي ثَمَنِ كَلْبِ الصَّيْدِ — باب: شکاری کتے کی قیمت لینے کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4300
أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ الْمِقْسَمِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " نَهَى عَنْ ثَمَنِ السِّنَّوْرِ ، وَالْكَلْبِ إِلَّا كَلْبَ صَيْدٍ " . قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ : وَحَدِيثُ حَجَّاجٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ ، لَيْسَ هُوَ بِصَحِيحٍ .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلی ۱؎ اور کتے کی قیمت لینے سے منع فرمایا ، سوائے شکاری کتے کے ۔ ابوعبدالرحمٰن ( نسائی ) کہتے ہیں : حماد بن سلمہ سے حجاج ( حجاج بن محمد ) نے جو حدیث روایت کی ہے وہ صحیح نہیں ہے ۲؎ ۔
وضاحت:
۱؎: چونکہ بلی سے کوئی ایسا فائدہ جو مقصود ہو حاصل ہونے والا نہیں اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے اور یہی اس کے حرام ہونے کی علت اور اس کا سبب ہے۔ ۲؎: اس کے راوی ابوالزبیر مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، اور یہ لفظ مسلم کی روایت میں ہے بھی نہیں ہے، انہیں اسباب و وجوہ سے بہت سے ائمہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے، تفصیل کے لیے دیکھئیے فتح الباری (۴/۴۲۷) اور التعلیقات السلفیہ۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب الصيد والذبائح / حدیث: 4300
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: ضعيف، إسناده ضعيف، الحديث الآتي (4672) أبو الزبير عنعن. وللحديث شواهد ضعيف،ة. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 353
تخریج «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 2697)، ویأتي عند المؤلف في البیوع 90 (برقم: 4672) (صحیح) ’’إلا کلب صید‘‘ کا جملہ امام نسائی کے یہاں صحیح نہیں ہے، لیکن البانی صاحب نے طرق اور شواہد کی روشنی میں اس کو بھی صحیح قرار دیا ہے، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی 2971، 2990، وتراجع الالبانی 226)»
حدیث نمبر: 4301
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ ، قَال : حَدَّثَنَا ابْنُ سَوَاءٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ لِي كِلَابًا مُكَلَّبَةً فَأَفْتِنِي فِيهَا ؟ ، قَالَ : " مَا أَمْسَكَ عَلَيْكَ كِلَابُكَ فَكُلْ " ، قُلْتُ : وَإِنْ قَتَلْنَ ؟ ، قَالَ : " وَإِنْ قَتَلْنَ " ، قَالَ : أَفْتِنِي فِي قَوْسِي ؟ ، قَالَ : " مَا رَدَّ عَلَيْكَ سَهْمُكَ فَكُلْ " ، قَالَ : وَإِنْ تَغَيَّبَ عَلَيَّ ؟ ، قَالَ : " وَإِنْ تَغَيَّبَ عَلَيْكَ مَا لَمْ تَجِدْ فِيهِ أَثَرَ سَهْمٍ غَيْرَ سَهْمِكَ ، أَوْ تَجِدْهُ قَدْ صَلَّ يَعْنِي قَدْ أَنْتَنَ " . قَالَ ابْنُ سَوَاءٍ : وَسَمِعْتُهُ مِنْ أَبِي مَالِكٍ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَن النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ` ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا : اللہ کے رسول ! میرے پاس کچھ شکاری کتے ہیں ، آپ نے فرمایا : ” تمہارے لیے تمہارے کتے جو پکڑ کر لائیں اسے کھاؤ “ ۔ میں نے عرض کیا : اگرچہ وہ اسے قتل کر ڈالیں ؟ آپ نے فرمایا : ” اگرچہ قتل کر ڈالیں “ ، اس نے کہا : ( میں اپنے تیر کمان سے فائدہ اٹھاتا ہوں لہٰذا ) مجھے تیر کمان کے سلسلے میں بتائیے ، آپ نے فرمایا : ” جو شکار تمہیں تیر سے ملے تو اسے کھاؤ “ ، اس نے کہا : اگر وہ ( شکار تیر کھا کر ) غائب ہو جائے ؟ آپ نے فرمایا : ” اگرچہ وہ غائب ہو جائے ، جب تک کہ تم اس میں اپنے تیر کے علاوہ کسی چیز کا نشان نہ پاؤ یا اس میں بدبو نہ پیدا ہوئی ہو “ ۱؎ ۔ ابن سواء کہتے ہیں : میں نے اسے ابو مالک عبیداللہ بن اخنس سے سنا ہے وہ اسے بسند عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما عن النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روایت کرتے ہیں ۔
وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے مؤلف نے باب پر اس طرح استدلال کیا ہے کہ جب شکار کے لیے کتے استعمال کرنے کی رخصت ہے تو بھر اس کی خرید و فروخت کی بھی رخصت ہے، لیکن جمہور اس استدلال کے خلاف ہیں، پچھلی احادیث میں صراحت ہے کہ کتے کی قیمت لینی دینی حرام ہے۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب الصيد والذبائح / حدیث: 4301
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: حسن صحيح , شیخ زبیر علی زئی: حسن
تخریج «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 8758)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصید2(2857)، مسند احمد (2/184) (حسن صحیح)»

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل