سنن نسائي : «باب: اس باب میں زید بن ثابت رضی الله عنہ کی حدیث میں علی بن أبی نجیح پر اختلاف کا ذکر۔»
کتب حدیثسنن نسائيابوابباب: اس باب میں زید بن ثابت رضی الله عنہ کی حدیث میں علی بن أبی نجیح پر اختلاف کا ذکر۔
سنن نسائي
كتاب الرقبى — کتاب: رقبیٰ (یعنی زندگی سے مشروط ہبہ) کے احکام و مسائل
بَابُ : ذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ فِي خَبَرِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ فِيهِ — باب: اس باب میں زید بن ثابت رضی الله عنہ کی حدیث میں علی بن أبی نجیح پر اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 3736
أَخْبَرَنَا هِلَالُ بْنُ الْعَلَاءِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ : حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ وَهُوَ ابْنُ عَمْرٍو ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " الرُّقْبَى جَائِزَةٌ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´زید بن ثابت رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ` نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : رقبیٰ لاگو ہو گا ۱؎ ۔
وضاحت:
۱؎: ایام جاہلیت کا رقبیٰ یہ تھا کہ آدمی اپنا گھر یا زمین کسی کو یہ کہہ کر دیتا تھا کہ اگر میں پہلے مر گیا تو یہ تمہارا ہو جائے گا اور اگر تم مر گئے تو میں اسے واپس لے لوں گا، اس طرح ہر ایک کو دوسرے کی موت کا انتظار رہتا تھا، لیکن شریعت اسلامیہ نے اس دو طرفہ شرط کو باطل کر کے اس طرح کے ہبہ وغیرہ کو صرف اس شخص کے لیے خاص کر دیا جس کو کسی نے ہبہ کیا تھا، وہ ہبہ کرنے والے سے پہلے مرے یا بعد میں، ہر حال میں ہبہ موہوب لہ (جس کے لیے ہبہ کیا گیا ہے) ہی کا ہو گا، اور موہوب لہ کی موت کے بعد اس کے وارثین میں منتقل ہو جائے گا، رقبیٰ اور عمریٰ جاہلی رواج کے مطابق تقریباً ہم معنی ہیں۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب الرقبى / حدیث: 3736
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: حسن
تخریج «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 3720) (صحیح)»
حدیث نمبر: 3737
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ وَهُوَ ابْنُ يُوسُفَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ " الرُّقْبَى لِلَّذِي أُرْقِبَهَا " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´زید بن ثابت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ` نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رقبیٰ کو اسی کا حق قرار دیا ہے جسے رقبیٰ کیا گیا ہے ۱؎ ۔
وضاحت:
۱؎: گویا کہ یہ ایک عطیہ ہے اور عطیہ دے کر واپس لینا صحیح نہیں ہے۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب الرقبى / حدیث: 3737
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح لغيره , شیخ زبیر علی زئی: حسن
تخریج «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 3701)، مسند احمد (5/186، 189) (صحیح) (اس سند میں ایک راوی مبہم ہے، لیکن اوپر اور نیچے طرق سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»
حدیث نمبر: 3738
أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلَاءِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ ، عَنْ طَاوُسٍ لَعَلَّهُ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : " لَا رُقْبَى فَمَنْ أُرْقِبَ شَيْئًا فَهُوَ سَبِيلُ الْمِيرَاثِ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ` رقبیٰ ( مصلحتاً جائز ) نہیں ہے ( لیکن اگر کسی نے کر دیا ہے ) تو جسے رقبیٰ کیا گیا ہے اس کے ورثاء کو میراث میں ملے گا ، دینے والے کو واپس نہ ہو گا ۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب الرقبى / حدیث: 3738
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: حسن
تخریج «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 5728)، مسند احمد (1/250) (صحیح)»

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل