سنن نسائي
كتاب الوصايا — کتاب: وصیت کے احکام و مسائل
بَابُ : مَا لِلْوَصِيِّ مِنْ مَالِ الْيَتِيمِ إِذَا قَامَ عَلَيْهِ — باب: یتیم کے مال میں اس کے نگراں اور محافظ کا کیا حق ہے؟
حدیث نمبر: 3698
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ حُسَيْنٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : إِنِّي فَقِيرٌ لَيْسَ لِي شَيْءٌ وَلِي يَتِيمٌ ، قَالَ : " كُلْ مِنْ مَالِ يَتِيمِكَ غَيْرَ مُسْرِفٍ ، وَلَا مُبَاذِرٍ ، وَلَا مُتَأَثِّلٍ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ` ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا : میں محتاج و فقیر ہوں ، میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور میری سرپرستی میں ایک یتیم ہے ۔ آپ نے فرمایا : ” یتیم کے مال سے کھا لیا کرو ( لیکن دیکھو ) فضول خرچی اور اسراف مت کرنا اور نہ ہی یتیم کا مال لے لے کر اپنا مال بڑھانا “ ۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب الوصايا / حدیث: 3698
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: حسن صحيح , شیخ زبیر علی زئی: إسناده حسن
تخریج «سنن ابی داود/الوصایا 8 (2872)، سنن ابن ماجہ/الوصایا 9 (2718)، (تحفة الأشراف: 8681)، (تحفة الأشراف: 8681)، مسند احمد (2/186، 215) (حسن صحیح)»
حدیث نمبر: 3699
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو كُدَيْنَةَ ، عَنْ عَطَاءٍ وَهُوَ ابْنُ السَّائِبِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : " لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَلا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ سورة الأنعام آية 152, وَ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا سورة النساء آية 10 ، قَالَ : اجْتَنَبَ النَّاسُ مَالَ الْيَتِيمِ وَطَعَامَهُ فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ ، فَشَكَوْا ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ : وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَى قُلْ إِصْلاحٌ لَهُمْ خَيْرٌ سورة البقرة آية 220 , إِلَى قَوْلِهِ :لأَعْنَتَكُمْ سورة البقرة آية 220 .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ` جب آیت کریمہ : «ولا تقربوا مال اليتيم إلا بالتي هي أحسن» ” یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر اس طریقے سے جو کہ مستحسن ہو ( یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد کو پہنچ جائے ) “ ( الأنعام : ۱۵۲ ) اور «إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما» ” اور جو لوگ یتیموں کا مال ظلم و زیادتی کر کے کھاتے ہیں ( وہ دراصل مال نہیں کھاتے وہ اپنے پیٹوں میں انگارے بھر رہے ہیں “ ( النساء : ۱۰ ) نازل ہوئی تو لوگ یتیموں کے مال کے قریب جانے ( اور ان کی حفاظت کی ذمہ داریاں سنبھالنے ) اور ان کا مال کھانے سے بچنے لگے ۔ تو یہ چیز مسلمانوں پر شاق ( دشوار ) ہو گئی ، چنانچہ لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی جس پر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ : «ويسألونك عن اليتامى قل إصلاح لهم خير» سے «لأعنتكم» ” اور تم سے یتیموں کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں ۔ آپ کہہ دیجئیے کہ ان کی خیر خواہی بہتر ہے اگر تم ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں ۔ بدنیت اور نیک نیت ہر ایک کو اللہ خوب جانتا ہے ۔ اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا ، یقیناً اللہ تعالیٰ غلبہ اور حکمت والا ہے “ ( البقرہ : ۲۲۰ ) تک نازل فرمائی ۳؎ ۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب الوصايا / حدیث: 3699
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: حسن , شیخ زبیر علی زئی: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (2871) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 348
تخریج «سنن ابی داود/الوصایا 7 (2871)، (تحفة الأشراف: 5569)، مسند احمد (1/325) (حسن)»
حدیث نمبر: 3700
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ : إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا سورة النساء آية 10 ، قَالَ : كَانَ يَكُونُ فِي حَجْرِ الرَّجُلِ الْيَتِيمُ فَيَعْزِلُ لَهُ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ وَآنِيَتَهُ فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ سورة البقرة آية 220 فِي الدِّينِ , فَأَحَلَّ لَهُمْ خُلْطَتَهُمْ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما` آیت کریمہ : «إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما» کے سلسلہ میں کہتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری تو جس کی پرورش میں یتیم ہوتا تھا وہ اس کا کھانا پینا اور اس کا برتن الگ کر دیتا تھا لیکن یہ چیز مسلمانوں پر گراں گزری تو اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ : «وإن تخالطوهم فإخوانكم» ” اگر ان کو ملا کر رکھو تو وہ تمہارے بھائی ہیں “ ( البقرہ : ۲۲۰ ) نازل فرمائی اور یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے ساتھ ملا لینے کو جائز قرار دے دیا ۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب الوصايا / حدیث: 3700
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: حسن , شیخ زبیر علی زئی: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (2871) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 348
تخریج «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 5574) (حسن)»