سنن نسائي
                            كتاب الزكاة          — کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل          
        
                            
            بَابُ : مَنْ آتَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَالاً مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ            — باب: جس شخص کو اللہ تعالیٰ بغیر مانگے مال دے دے۔          
              حدیث نمبر: 2605
      أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ بُكَيْرٍ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ السَّاعِدِيِّ الْمَالِكِيِّ ، قَالَ : اسْتَعْمَلَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الصَّدَقَةِ ، فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْهَا فَأَدَّيْتُهَا إِلَيْهِ أَمَرَ لِي بِعُمَالَةٍ , فَقُلْتُ لَهُ : إِنَّمَا عَمِلْتُ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَجْرِي عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ، فَقَالَ : خُذْ مَا أَعْطَيْتُكَ فَإِنِّي قَدْ عَمِلْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ لَهُ : مِثْلَ قَوْلِكَ ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا أُعْطِيتَ شَيْئًا مِنْ غَيْرِ أَنْ تَسْأَلَ ، فَكُلْ وَتَصَدَّقْ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبداللہ بن ساعدی مالکی کہتے ہیں کہ` عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے صدقہ پر عامل بنایا ، جب میں اس سے فارغ ہوا اور اسے ان کے حوالے کر دیا ، تو انہوں نے اس کام کی مجھے اجرت دینے کا حکم دیا ، میں نے ان سے عرض کیا کہ میں نے یہ کام صرف اللہ عزوجل کے لیے کیا ہے ، اور میرا اجر اللہ ہی کے ذمہ ہے ، تو انہوں نے کہا : ـ میں تمہیں جو دیتا ہوں وہ لے لو ، کیونکہ میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک کام کیا تھا ، اور میں نے بھی آپ سے ویسے ہی کہا تھا جو تم نے کہا ہے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : ” جب تمہیں کوئی چیز بغیر مانگے ملے تو ( اسے ) کھاؤ ، اور ( اس میں سے ) صدقہ کرو “ ۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب الزكاة / حدیث: 2605
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: صحيح مسلم
تخریج «صحیح البخاری/الزکاة51 (1473)، الأحکام17 (7163)، صحیح مسلم/الزکاة37 (1045)، سنن ابی داود/الزکاة28 (1647)، الخراج والإمارة10 (2944)، (تحفة الأشراف: 10487) ، مسند احمد 1/17، 40، 52، 2/99، سنن الدارمی/الزکاة 19 (1688، 1689)، وسیأتی بعد ھذا بأرقام2606-2608 (صحیح)»
حدیث نمبر: 2606
      أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبُو عُبَيْدِ اللَّهِ الْمَخْزُومِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ حُوَيْطِبِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى ، قَالَ : أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ السَّعْدِيِّ ، أَنَّهُ قَدِمَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنَ الشَّامِ فَقَالَ : أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَعْمَلُ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ الْمُسْلِمِينَ ، فَتُعْطَى عَلَيْهِ عُمَالَةً فَلَا تَقْبَلُهَا ، قَالَ : أَجَلْ إِنَّ لِي أَفْرَاسًا وَأَعْبُدًا وَأَنَا بِخَيْرٍ ، وَأُرِيدُ أَنْ يَكُونَ عَمَلِي صَدَقَةً عَلَى الْمُسْلِمِينَ ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : إِنِّي أَرَدْتُ الَّذِي أَرَدْتَ ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْمَالَ ، فَأَقُولُ : أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَفْقَرُ إِلَيْهِ مِنِّي ، وَإِنَّهُ أَعْطَانِي مَرَّةً مَالًا فَقُلْتُ لَهُ : أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَحْوَجُ إِلَيْهِ مِنِّي ، فَقَالَ : " مَا آتَاكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ هَذَا الْمَالِ مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ وَلَا إِشْرَافٍ ، فَخُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ أَوْ تَصَدَّقْ بِهِ وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبداللہ بن السعدی القرشی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ` وہ شام سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے کہا : کیا مجھے یہ خبر نہیں دی گئی ہے کہ تم مسلمانوں کے کاموں میں سے کسی کام پر عامل بنائے جاتے ہو ، اور اس پر جو تمہیں اجرت دی جاتی ہے تو اسے تم قبول نہیں کرتے ، تو انہوں نے کہا : ہاں یہ صحیح ہے ، میرے پاس گھوڑے ہیں ، غلام ہیں اور میں ٹھیک ٹھاک ہوں ( اللہ کا شکر ہے کوئی کمی نہیں ہے ) میں چاہتا ہوں کہ میرا کام مسلمانوں پر صدقہ ہو جائے ۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : جو تم چاہتے ہو وہی میں نے بھی چاہا تھا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مال دیتے تو میں عرض کرتا : اسے آپ اس شخص کو دے دیجئیے جو مجھ سے زیادہ اس کا ضرورت مند ہو ، ایک بار آپ نے مجھے مال دیا تو میں نے عرض کیا : آپ اسے اس شخص کو دے دیجئیے جو اس کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو ، تو آپ نے فرمایا : ” اللہ عزوجل اس مال میں سے جو تمہیں بغیر مانگے اور بغیر لالچ کئے دے ، اسے لے لو ، چاہو تم ( اسے اپنے مال میں شامل کر کے ) مالدار بن جاؤ ، اور چاہو تو اسے صدقہ کر دو ۔ اور جو نہ دے اسے لینے کے پیچھے مت پڑو “ ۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب الزكاة / حدیث: 2606
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: صحيح بخاري
تخریج «انظر ما قبلہ (صحیح)»
حدیث نمبر: 2607
      أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ، أَنَّ حُوَيْطِبَ بْنَ عَبْدِ الْعُزَّى أَخْبَرَهُ , أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ السَّعْدِيِّ أَخْبَرَهُ , أَنَّهُ قَدِمَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي خِلَافَتِهِ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : أَلَمْ أُحَدَّثْ أَنَّكَ تَلِي مِنْ أَعْمَالِ النَّاسِ أَعْمَالًا ، فَإِذَا أُعْطِيتَ الْعُمَالَةَ رَدَدْتَهَا ، فَقُلْتُ : بَلَى ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : فَمَا تُرِيدُ إِلَى ذَلِكَ ؟ فَقُلْتُ : لِي أَفْرَاسٌ وَأَعْبُدٌ وَأَنَا بِخَيْرٍ ، وَأُرِيدُ أَنْ يَكُونَ عَمَلِي صَدَقَةً عَلَى الْمُسْلِمِينَ ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : فَلَا تَفْعَلْ ، فَإِنِّي كُنْتُ أَرَدْتُ مِثْلَ الَّذِي أَرَدْتَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ ، فَأَقُولُ أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ أَوْ تَصَدَّقْ بِهِ مَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ ، وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبداللہ بن السعدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ` وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی خلافت کے زمانہ میں آئے ، تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : کیا مجھے یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ تم عوامی کاموں میں سے کسی کام کے ذمہ دار ہوتے ہو اور جب تمہیں مزدوری دی جاتی ہے تو قبول نہیں کرتے لوٹا دیتے ہو ؟ میں نے کہا : جی ہاں ( صحیح ہے ) اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اس سے تم کیا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا : میرے پاس گھوڑے ، غلام ہیں اور میں ٹھیک ٹھاک ہوں ( مجھے کسی چیز کی محتاجی نہیں ہے ) میں چاہتا ہوں کہ میرا کام مسلمانوں پر صدقہ ہو ۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : ایسا نہ کرو کیونکہ میں بھی یہی چاہتا تھا جو تم چاہتے ہو ( لیکن اس کے باوجود ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے عطیہ ( بخشش ) دیتے تھے تو میں عرض کرتا تھا : اسے میرے بجائے اس شخص کو دے دیجئیے جو مجھ سے زیادہ اس کا ضرورت مند ہو ، تو آپ فرماتے : ” اسے لے کر اپنے مال میں شامل کر لو ، یا صدقہ کر دو ، سنو ! تمہارے پاس اس طرح کا جو بھی مال آئے جس کا نہ تم حرص رکھتے ہو اور نہ تم اس کے طلب گار ہو تو وہ مال لے لو ، اور جو اس طرح نہ آئے اس کے پیچھے اپنے آپ کو نہ ڈالو “ ۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب الزكاة / حدیث: 2607
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: حسن
تخریج «انظر حدیث رقم: 2605 (صحیح)»
حدیث نمبر: 2608
      أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ ، وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ , عَنِ الْحَكَمِ بْنِ نَافِعٍ ، قَالَ : أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ ، أَنَّ حُوَيْطِبَ بْنَ عَبْدِ الْعُزَّى أَخْبَرَهُ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ السَّعْدِيِّ أَخْبَرَهُ ، أَنَّهُ قَدِمَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي خِلَافَتِهِ فَقَالَ عُمَرُ : أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَلِي مِنْ أَعْمَالِ النَّاسِ أَعْمَالًا فَإِذَا أُعْطِيتَ الْعُمَالَةَ كَرِهْتَهَا ، قَالَ : فَقُلْتُ : بَلَى ، قَالَ : فَمَا تُرِيدُ إِلَى ذَلِكَ ، فَقُلْتُ : إِنَّ لِي أَفْرَاسًا وَأَعْبُدًا وَأَنَا بِخَيْرٍ ، وَأُرِيدُ أَنْ يَكُونَ عَمَلِي صَدَقَةً عَلَى الْمُسْلِمِينَ ، فَقَالَ عُمَرُ : فَلَا تَفْعَلْ فَإِنِّي كُنْتُ أَرَدْتُ الَّذِي أَرَدْتَ ، فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ فَأَقُولُ : أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي ، حَتَّى أَعْطَانِي مَرَّةً مَالًا ، فَقُلْتُ : أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ وَتَصَدَّقْ بِهِ ، فَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ ، وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبداللہ بن السعدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ` وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ان کے پاس آئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : کیا مجھے یہ خبر نہیں دی گئی ہے کہ تم عوامی کاموں میں سے کسی کام کے والی ہوتے ہو تو جب تمہیں اجرت دی جاتی ہے تو تم اسے ناپسند کرتے ہو ؟ وہ کہتے ہیں : میں نے کہا : کیوں نہیں ( ایسا تو ہے ) انہوں نے کہا : اس سے تم کیا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا : میرے پاس گھوڑے اور غلام ہیں اور میں ٹھیک ٹھاک ہوں ، میں چاہتا ہوں کہ میرا کام مسلمانوں پر صدقہ ہو جائے ، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ایسا نہ کرو ، کیونکہ میں بھی وہی چاہتا تھا جو تم چاہتے ہو ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے عطایا ( بخشش ) دیتے تھے ، تو میں عرض کرتا تھا : آپ اسے دے دیں جو مجھ سے زیادہ اس کا ضرورت مند ہو ، یہاں تک کہ ایک بار آپ نے مجھے کچھ مال دیا ، میں نے کہا : آپ اسے اس شخص کو دے دیں جو مجھ سے زیادہ اس کا ضرورت مند ہو ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے لے کر اپنے مال میں شامل کر لو ، نہیں تو صدقہ کر دو ۔ ( سنو ! ) اس مال میں سے جو بھی تمہیں بغیر کسی لالچ کے اور بغیر مانگے ملے اس کو لے لو ، اور جو نہ ملے اس کے پیچھے نہ پڑو “ ۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب الزكاة / حدیث: 2608
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: صحيح بخاري
تخریج «انظر حدیث رقم: 2605 (صحیح)»
حدیث نمبر: 2609
      أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ ، قَالَ : أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ فَأَقُولُ : أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي ، حَتَّى أَعْطَانِي مَرَّةً مَالًا فَقُلْتُ لَهُ : أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي فَقَالَ : " خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ وَتَصَدَّقْ بِهِ ، وَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ ، وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ` میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے عطیہ دیتے تو میں کہتا : آپ اسے اس شخص کو دے دیجئیے جو مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو ۔ یہاں تک کہ ایک بار آپ نے مجھے کچھ مال دیا تو میں نے آپ سے عرض کیا : اسے اس شخص کو دے دیجئیے جو مجھ سے زیادہ اس کا حاجت مند ہو ، تو آپ نے فرمایا : ” تم لے لو ، اور اس کے مالک بن جاؤ ، اور اسے صدقہ کر دو ، اور جو مال تمہیں اس طرح ملے کہ تم نے اسے مانگا نہ ہو اور اس کی لالچ کی ہو تو اسے قبول کر لو ، اور جو اس طرح نہ ملے اس کے پیچھے اپنے آپ کو نہ ڈالو “ ۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب الزكاة / حدیث: 2609
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: متفق عليه
تخریج «صحیح البخاری/الزکاة 51 (1473)، الأحکام 17 (7164)، صحیح مسلم/الزکاة 37 (1045)، تحفة الأشراف: 10520)، مسند احمد (1/21، سنن الدارمی/الزکاة 19 (1688) (صحیح)»
