سنن نسائي
                            كتاب الزكاة          — کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل          
        
                            
            بَابُ : كَمِ الصَّاعُ            — باب: صاع کتنے مد کا ہوتا ہے۔          
              حدیث نمبر: 2521
      أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ ، قَالَ : أَنْبَأَنَا الْقَاسِمُ وَهُوَ ابْنُ مَالِكٍ ، عَنِ الْجُعَيْدِ , سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ ، قَالَ : " كَانَ الصَّاعُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُدًّا ، وَثُلُثًا بِمُدِّكُمُ الْيَوْمَ ، وَقَدْ زِيدَ فِيهِ " , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ : وحَدَّثَنِيهِ زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´سائب بن یزید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک صاع تمہارے آج کے مد سے ایک مد اور ایک تہائی مد اور کچھ زائد کا تھا ۔ اور ابوعبدالرحمٰن فرماتے ہیں : اس حدیث کو مجھ سے زیاد بن ایوب نے بیان کیا ہے ۔
وضاحت:
۱؎: امام مالک، امام شافعی اور جمہور علماء کے نزدیک ایک صاع پانچ رطل اور تہائی رطل کا ہوتا ہے، اور امام ابوحنیفہ اور صاحبین کے نزدیک ایک صاع آٹھ رطل کا ہوتا ہے، لیکن جب امام ابویوسف کا امام مالک سے مناظرہ ہوا اور امام مالک نے انہیں اہل مدینہ کے وہ صاع دکھلائے جو موروثی طور سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے چلے آ رہے تھے تو انہوں نے جمہور کے قول کی طرف رجوع کر لیا۔ اور موجودہ وزن سے ایک صاع لگ بھگ ڈھائی کیلو کا ہوتا ہے مدینہ کے بازاروں میں جو صاع اس وقت بنتا ہے، یا مشائخ سے بالسند جو صاع متوارث ہے اس میں گی ہوں ڈھائی کیلو ہی آتا ہے۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب الزكاة / حدیث: 2521
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: ضعيف، 2/ إسناده ضعيف، الثوري عنعن فى حديث: ’’المكيال مكيال أهل المدينة‘‘ ابو داود (3340) وانظر الحديث الآتي (4598) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 341
تخریج «صحیح البخاری/الکفارات 5 (6712)، والاعتصام 16 (7330)، (تحفة الأشراف: 3795) (صحیح)»
حدیث نمبر: 2521M
      أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ حَنْظَلَةَ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " الْمِكْيَالُ مِكْيَالُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ، وَالْوَزْنُ وَزْنُ أَهْلِ مَكَّةَ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پیمانہ اہل مدینہ کا پیمانہ ہے اور وزن اہل مکہ کا وزن ہے “ ۱؎ ۔
وضاحت:
۱؎: اس سے مراد سونا اور چاندی وزن کرنے کے بانٹ ہیں کیونکہ ان کا وزن دراہم سے کیا جاتا تھا اور اس وقت مختلف شہروں کے دراہم مختلف وزن کے ہوتے تھے اس لیے کہا گیا کہ زکاۃ کے سلسلہ میں اہل مکہ کے دراہم کا اعتبار ہو گا، اور ایک قول یہ ہے کہ چوں کہ اہل مدینہ کاشتکار تھے اس لیے وہ پیمائش اور ناپ کے احوال کے زیادہ جانکار تھے اور مکہ والے عام طور سے تاجر تھے اس لیے وہ تول کے احوال کے زیادہ واقف کار تھے اس لیے ایسا کہا گیا ہے۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب الزكاة / حدیث: 2521M
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح
تخریج «سنن ابی داود/البیوع 8 (3340)، (تحفة الأشراف: 7102)، ویأتی عند المؤلف برقم 4598 (صحیح)»
