سنن نسائي
                            كتاب الزكاة          — کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل          
        
                            
            بَابُ : التَّغْلِيظِ فِي حَبْسِ الزَّكَاةِ            — باب: زکاۃ نہ دینے والوں پر وارد وعید کا بیان۔          
              حدیث نمبر: 2442
      أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ فِي حَدِيثِهِ ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : جِئْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ ، فَلَمَّا رَآنِي مُقْبِلًا , قَالَ : " هُمُ الْأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ " , فَقُلْتُ : مَا لِي لَعَلِّي أُنْزِلَ فِيَّ شَيْءٌ ؟ قُلْتُ : مَنْ هُمْ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي ، قَالَ : " الْأَكْثَرُونَ أَمْوَالًا ، إِلَّا مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا حَتَّى بَيْنَ يَدَيْهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ ، ثُمَّ قَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَمُوتُ رَجُلٌ فَيَدَعُ إِبِلًا أَوْ بَقَرًا لَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهَا ، إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْظَمَ مَا كَانَتْ ، وَأَسْمَنَهُ تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا ، وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا كُلَّمَا نَفِدَتْ أُخْرَاهَا ، أُعِيدَتْ أُولَاهَا حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ` میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، آپ خانہ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے ، جب آپ نے ہمیں آتے دیکھا تو فرمایا : ” وہ بہت خسارے والے لوگ ہیں ، رب کعبہ کی قسم “ ! میں نے ( اپنے جی میں ) کہا : کیا بات ہے ؟ شاید میرے بارے میں کوئی آیت نازل ہوئی ہے ، میں نے عرض کیا : کون لوگ ہیں میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ؟ آپ نے فرمایا : ” بہت مال والے ، مگر جو اس طرح کرے ، اس طرح کرے “ یہاں تک کہ آپ اپنے سامنے ، اپنے دائیں ، اور اپنے بائیں دونوں ہاتھ سے اشارہ کیا ، پھر آپ نے فرمایا : ” قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو شخص کوئی اونٹ یا بیل چھوڑ کر مرے گا جس کی اس نے زکاۃ نہ دی ہو گی تو وہ ( اونٹ یا بیل ) ( دنیا میں ) جیسا کچھ وہ تھا قیامت کے دن اس سے بڑا اور موٹا تازہ ہو کر اس کے سامنے آئے گا ، اور اسے اپنے کھروں سے روندے گا اور سینگوں سے مارے گا ، جب آخری جانور روند اور مار چکے گا تو پھر ان کا پہلا لوٹا دیا جائے گا ، اور یہ سلسلہ جاری رہے گا یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے “ ۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب الزكاة / حدیث: 2442
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: متفق عليه
تخریج «صحیح البخاری/الزکاة43 (1460)، الأیمان والنذور3 (6638)، صحیح مسلم/الزکاة9 (990)، سنن الترمذی/الزکاة1 (617)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 2 (1785)، (تحفة الأشراف: 11981) ، مسند احمد 5/152، 158، 169، سنن الدارمی/الزکاة 3 (1659)، ویأتي عند المؤلف فی باب11برقم: 2458 (صحیح)»
حدیث نمبر: 2443
      أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ أَبِي رَاشِدٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا مِنْ رَجُلٍ لَهُ مَالٌ لَا يُؤَدِّي حَقَّ مَالِهِ ، إِلَّا جُعِلَ لَهُ طَوْقًا فِي عُنُقِهِ شُجَاعٌ أَقْرَعُ وَهُوَ يَفِرُّ مِنْهُ وَهُوَ يَتْبَعُهُ " ، ثُمَّ قَرَأَ مِصْدَاقَهُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ : وَلا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَهُمْ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ سورة آل عمران آية 180 " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس شخص کے پاس مال ہو اور وہ اپنے مال کا حق ادا نہ کرے ( یعنی زکاۃ نہ دے ) تو وہ مال ایک گنجے زہریلے سانپ کی شکل میں اس کی گردن کا ہار بنا دیا جائے گا ، وہ اس سے بھاگے گا ، اور وہ ( سانپ ) اس کے ساتھ ہو گا “ ، پھر اس کی تصدیق کے لیے آپ نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی «ولا تحسبن الذين يبخلون بما آتاهم اللہ من فضله هو خيرا لهم بل هو شر لهم سيطوقون ما بخلوا به يوم القيامة» ” تم یہ مت سمجھو کہ جو لوگ اس مال میں جو اللہ نے انہیں دیا ہے بخیلی کرتے ہیں ان کے حق میں بہتر ہے ، یہ بہت برا ہے ان کے لیے ۔ عنقریب جس مال کے ساتھ انہوں نے بخل کیا ہو گا وہ قیامت کے دن ان کے گلے کا ہار بنا دیا جائے گا “ ( آل عمران : ۱۸ ) ۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب الزكاة / حدیث: 2443
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: إسناده صحيح
تخریج «سنن الترمذی/تفسیر آل عمران (3012)، سنن ابن ماجہ/الزکاة2 (1784) ، مسند احمد 1/377 (صحیح)»
حدیث نمبر: 2444
      أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الْغُدَانِيِّ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " أَيُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ إِبِلٌ ، لَا يُعْطِي حَقَّهَا فِي نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ! مَا نَجْدَتُهَا وَرِسْلُهَا ؟ قَالَ : " فِي عُسْرِهَا وَيُسْرِهَا ، فَإِنَّهَا تَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَغَذِّ مَا كَانَتْ وَأَسْمَنِهِ وَآشَرِهِ يُبْطَحُ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا ، إِذَا جَاءَتْ أُخْرَاهَا أُعِيدَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ فَيَرَى سَبِيلَهُ ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ بَقَرٌ لَا يُعْطِي حَقَّهَا فِي نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا ، فَإِنَّهَا تَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَغَذَّ مَا كَانَتْ وَأَسْمَنَهُ وَآشَرَهُ يُبْطَحُ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَنْطَحُهُ كُلُّ ذَاتِ قَرْنٍ بِقَرْنِهَا ، وَتَطَؤُهُ كُلُّ ذَاتِ ظِلْفٍ بِظِلْفِهَا ، إِذَا جَاوَزَتْهُ أُخْرَاهَا أُعِيدَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ فَيَرَى سَبِيلَهُ ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ غَنَمٌ لَا يُعْطِي حَقَّهَا فِي نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا ، فَإِنَّهَا تَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَغَذِّ مَا كَانَتْ وَأَكْثَرِهِ وَأَسْمَنِهِ وَآشَرِهِ ثُمَّ يُبْطَحُ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَطَؤُهُ كُلُّ ذَاتِ ظِلْفٍ بِظِلْفِهَا وَتَنْطَحُهُ كُلُّ ذَاتِ قَرْنٍ بِقَرْنِهَا لَيْسَ فِيهَا عَقْصَاءُ وَلَا عَضْبَاءُ ، إِذَا جَاوَزَتْهُ أُخْرَاهَا أُعِيدَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ فَيَرَى سَبِيلَهُ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ` میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جس شخص کے پاس اونٹ ہوں اور وہ ان کی تنگی اور خوشحالی میں ان کا حق ادا نہ کرے ( لوگوں نے ) عرض کیا : اللہ کے رسول ! «نجدتها ورسلها» سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا : تنگی اور آسانی ۱؎ تو وہ اونٹ جیسے کچھ تھے قیامت کے دن اس سے زیادہ چست ، فربہ اور موٹے تازے ہو کر آئیں گے ۔ اور یہ ایک کشادہ اور ہموار چٹیل میدان میں اوندھا لٹا دیا جائے گا ، وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے ، جب آخری اونٹ روند چکے گا تو پھر پہلا اونٹ روندنے کے لیے لوٹایا جائے گا ، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہو گی ، اور یہ سلسلہ برابر اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک لوگوں کے درمیان فیصلہ نہ کر دیا جائے گا ، اور وہ اپنا راستہ دیکھ نہ لے گا ، جن کے پاس گائے بیل ہوں اور وہ ان کا حق ادا نہ کرے یعنی ان کی زکاۃ نہ دے ، ان کی تنگی اور ان کی کشادگی کے زمانہ میں ، تو وہ گائے بیل قیامت کے دن پہلے سے زیادہ مستی و نشاط میں موٹے تازے اور تیز رفتار ہو کر آئیں گے ، اور اسے ایک کشادہ میدان میں اوندھا لٹا دیا جائے گا اور ہر سینگ والا اسے سینگوں سے مارے گا ، اور ہر کھر والا اپنی کھروں سے اسے روندے گا ، جب آخری جانور روند چکے گا ، تو پھر پہلا پھر لوٹا دیا جائے گا ، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہو گی ، یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے اور وہ اپنا راستہ دیکھ لے ، اور جس شخص کے پاس بکریاں ہوں اور وہ ان کی تنگی اور آسانی میں ان کا حق ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ بکریاں اس سے زیادہ چست فربہ اور موٹی تازی ہو کر آئیں گی جتنی وہ ( دنیا میں ) تھیں ، پھر وہ ایک کشادہ ہموار میدان میں منہ کے بل لٹا دیا جائے ، تو ہر کھر والی اسے اپنے کھر سے روندیں گی ، اور ہر سینگ والی اسے اپنی سینگ سے مارے گی ، ان میں کوئی مڑی ہوئی اور ٹوٹی ہوئی سینگ کی نہ ہو گی ، جب آخری بکری مار چکے گی تو پھر پہلی بکری لوٹا دی جائے گی ، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہو گی ، یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے ، اور وہ اپنا راستہ دیکھ لے ۔
وضاحت:
۱؎: مطلب یہ ہے کہ نہ تنگی و پریشانی کے زمانے میں زکاۃ دے کہ دینے سے اونٹ کم ہو جائیں گے، اور محتاجی و تنگی مزید بڑھ جائے گی، اور نہ خوش حالی و فارغ البالی کے دنوں میں زکاۃ دے یہ سوچ کر کہ ایسے موٹے تازے جانور کی زکاۃ کون دے؟
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب الزكاة / حدیث: 2444
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: إسناده حسن
تخریج «سنن ابی داود/الزکاة32 (1658)، (تحفة الأشراف: 15453) ، مسند احمد 2/383، 489، 490 (صحیح)»
