سنن نسائي
                            كتاب القبلة          — کتاب: قبلہ کے احکام و مسائل          
        
                            
            بَابُ : الْمُصَلِّي يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الإِمَامِ سُتْرَةٌ            — باب: نمازی اور امام کے درمیان پردہ حائل ہونے کا بیان۔          
              حدیث نمبر: 763
      أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ ، قال : حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قالت : كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَصِيرَةٌ يَبْسُطُهَا بِالنَّهَارِ وَيَحْتَجِرُهَا بِاللَّيْلِ فَيُصَلِّي فِيهَا ، فَفَطَنَ لَهُ النَّاسُ فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهِ وَبَيْنَهُ وَبَيْنَهُمُ الْحَصِيرَةُ ، فَقَالَ : " اكْلَفُوا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِيقُونَ ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا ، وَإِنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَدْوَمُهُ وَإِنْ قَلَّ " ، ثُمَّ تَرَكَ مُصَلَّاهُ ذَلِكَ فَمَا عَادَ لَهُ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَكَانَ إِذَا عَمِلَ عَمَلًا أَثْبَتَهُ .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چٹائی تھی جسے آپ دن میں بچھایا کرتے تھے ، اور رات میں اس کو حجرہ نما بنا لیتے اور اس میں نماز پڑھتے ، لوگوں کو اس کا علم ہوا تو آپ کے ساتھ وہ بھی نماز پڑھنے لگے ، آپ کے اور ان کے درمیان وہی چٹائی حائل ہوتی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ( اتنا ہی ) عمل کرو جتنا کہ تم میں طاقت ہو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں تھکے گا البتہ تم ( عمل سے ) تھک جاؤ گے ، اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر مداومت ہو گرچہ وہ کم ہو “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جگہ چھوڑ دی ، اور وہاں دوبارہ نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی ، آپ جب کوئی کام کرتے تو اسے جاری رکھتے تھے ۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب القبلة / حدیث: 763
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: حسن صحيح , شیخ زبیر علی زئی: متفق عليه
تخریج «صحیح البخاری/الأذان 81 (730) مختصراً، اللباس 43 (5861)، صحیح مسلم/المسافرین 30 (782)، سنن ابی داود/الصلاة 317 (1368) (من قولہ: اکلفوا من العمل الخ)، سنن ابن ماجہ/إقامة 36 (942) مختصراً، (تحفة الأشراف: 17720)، مسند احمد 6/40، 61، 241، (ولیس قولہ: ’’ ثم ترک م صلاة ۔۔۔حتی قبضہ اللہ‘‘ عند أحد سوی المؤلف (صحیح)»
