کتب حدیث ›
      سنن نسائي ›      ابواب
       › باب: نمازی کے سامنے سترہ نہ ہو تو کون سی چیز نماز توڑ دیتی ہے اور کون سی نہیں توڑتی؟    
      
  
  
          سنن نسائي
                            كتاب القبلة          — کتاب: قبلہ کے احکام و مسائل          
        
                            
            بَابُ : ذِكْرِ مَا يَقْطَعُ الصَّلاَةَ وَمَا لاَ يَقْطَعُ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَىِ الْمُصَلِّي سُتْرَةٌ            — باب: نمازی کے سامنے سترہ نہ ہو تو کون سی چیز نماز توڑ دیتی ہے اور کون سی نہیں توڑتی؟          
              حدیث نمبر: 751
      أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ ، قال : أَنْبَأَنَا يَزِيدُ ، قال : حَدَّثَنَا يُونُسُ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قال : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ قَائِمًا يُصَلِّي فَإِنَّهُ يَسْتُرُهُ إِذَا كَانَ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلُ آخِرَةِ الرَّحْلِ ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلُ آخِرَةِ الرَّحْلِ فَإِنَّهُ يَقْطَعُ صَلَاتَهُ الْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ " . قُلْتُ : مَا بَالُ الْأَسْوَدِ مِنَ الْأَصْفَرِ مِنَ الْأَحْمَرِ ؟ فَقَالَ : سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي ، فَقَالَ : " الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب تم میں سے کوئی کھڑا ہو کر نماز پڑھ رہا ہو تو جب اس کے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی جیسی کوئی چیز ہو تو وہ اس کے لیے سترہ ہو جائے گی ، اور اگر کجاوہ کی پچھلی لکڑی کی طرح کوئی چیز نہ ہو تو عورت ، گدھا اور کالا کتا اس کی نماز باطل کر دے گا “ ۔ عبداللہ بن صامت کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : پیلے اور لال رنگ کے مقابلہ میں کالے ( کتے ) کی کیا خصوصیت ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا : جس طرح آپ نے مجھ سے پوچھا ہے میں نے بھی یہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کالا کتا شیطان ہے “ ۱؎ ۔
وضاحت:
۱؎: بعض لوگوں نے اسے ظاہر پر محمول کیا ہے، اور کہا ہے کہ ان چیزوں کے گزرنے سے واقعی نماز باطل ہو جائے گی، لیکن جمہور نے اس کی تاویل کی ہے اور کہا ہے کہ باطل ہونے سے مراد نماز میں نقص ہے کیونکہ ان چیزوں کی وجہ سے دل نماز کی طرف پوری طرح سے متوجہ نہیں ہو سکے گا اور نماز کے خشوع و خضوع میں فرق آ جائے گا، اور کچھ لوگوں نے اس روایت ہی کو منسوخ مانا ہے۔ ۲؎: بعض لوگوں نے اسے حقیقت پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ شیطان کالے کتے کی شکل اختیار کر لیتا ہے، اور بعض لوگوں نے کہا کہ وہ دوسرے کتوں کے بالمقابل زیادہ ضرر رساں ہوتا ہے اس لیے اسے شیطان کہا گیا ہے (واللہ اعلم)۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب القبلة / حدیث: 751
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: صحيح مسلم
تخریج «صحیح مسلم/الصلاة 50 (501)، سنن ابی داود/فیہ 110 (702)، سنن الترمذی/فیہ 137 (338)، سنن ابن ماجہ/إقامة 38 (952) مختصراً، (تحفة الأشراف: 11939)، مسند احمد 5/149، 151، 155، 158، 160، 161، سنن الدارمی/الصلاة 128 (1454) (صحیح)»
حدیث نمبر: 752
      أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ ، قال : حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، قال : حَدَّثَنِي شُعْبَةُ ، وَهِشَامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قال : قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ زَيْدٍ : مَا يَقْطَعُ الصَّلَاةَ ؟ قَالَ : كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ : " الْمَرْأَةُ الْحَائِضُ وَالْكَلْبُ " . قَالَ يَحْيَى : رَفَعَهُ شُعْبَةُ .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´قتادہ کہتے ہیں کہ` میں نے جابر بن زید سے پوچھا : کون سی چیز نماز کو باطل کر دیتی ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ابن عباس رضی اللہ عنہم کہتے تھے : حائضہ عورت اور کتا ۔ یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ شعبہ نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے ۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب القبلة / حدیث: 752
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: إسناده صحيح
تخریج «سنن ابی داود/الصلاة 110 (703)، سنن ابن ماجہ/إقامة 38 (949)، مسند احمد 1/437، (تحفة الأشراف: 5379)، (من طریق شعبة مرفوعاً) (صحیح)»
حدیث نمبر: 753
      أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، عَنْ سُفْيَانَ ، قال : حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، قال : أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قال : " جِئْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ عَلَى أَتَانٍ لَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ بِعَرَفَةَ ، ثُمَّ ذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا ، فَمَرَرْنَا عَلَى بَعْضِ الصَّفِّ فَنَزَلْنَا وَتَرَكْنَاهَا تَرْتَعُ ، فَلَمْ يَقُلْ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں :` میں اور فضل دونوں اپنی ایک گدھی پر سوار ہو کر آئے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے ( پھر انہوں نے ایک بات کہی جس کا مفہوم تھا : ) تو ہم صف کے کچھ حصہ سے گزرے ، پھر ہم اترے اور ہم نے گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کچھ نہیں کہا ۱؎ ۔
وضاحت:
۱؎: یعنی اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری کوئی سرزنش نہیں کی، کیونکہ امام مقتدیوں کا سترہ ہوتا ہے، اور وہ دونوں صف کے کچھ ہی حصہ سے گزرے تھے، امام کو عبور نہیں کیا تھا۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب القبلة / حدیث: 753
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: متفق عليه
تخریج «صحیح البخاری/العلم 18 (76)، الصلاة 90 (493)، الأذان 161 (861)، جزاء الصید 25 (1857)، المغازي 77 (4412)، صحیح مسلم/الصلاة 47 (504)، سنن ابی داود/الصلاة 113 (715)، سنن الترمذی/الصلاة 136 (337)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 38 (947)، (تحفة الأشراف: 5834)، موطا امام مالک/السفر 11 (38)، مسند احمد 1/219، 264، 265، 337، 342، سنن الدارمی/الصلاة 129 (1455) (صحیح)»
حدیث نمبر: 754
      أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ ، قال : حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، قال : قال ابْنُ جُرَيْجٍ : أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ ، قال : " زَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبَّاسًا فِي بَادِيَةٍ لَنَا وَلَنَا كُلَيْبَةٌ وَحِمَارَةٌ تَرْعَى ، فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ وَهُمَا بَيْنَ يَدَيْهِ فَلَمْ يُزْجَرَا وَلَمْ يُؤَخَّرَا " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´فضل بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ایک بادیہ میں عباس رضی اللہ عنہ سے ملنے آئے ، وہاں ہماری ایک کتیا موجود تھی ، اور ہماری ایک گدھی چر رہی تھی ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی ، اور وہ دونوں آپ کے آگے موجود تھیں ، تو انہیں نہ ہانکا گیا اور نہ ہٹا کر پیچھے کیا گیا ۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب القبلة / حدیث: 754
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: منكر ضعيف , شیخ زبیر علی زئی: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (718) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 326
تخریج «(اس کے راوی ’’محمد بن عمر‘‘ لین الحدیث ہیں، اور ان کی یہ روایت ثقات کی روایات کے خلاف ہے) (منکر) سنن ابی داود/الصلاة 114 (718)، (تحفة الأشراف: 11045)، مسند احمد 1/211، 212»
حدیث نمبر: 755
      أَخْبَرَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ ، قال : حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، قال : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، أَنَّ الْحَكَمَ أَخْبَرَهُ ، قال : سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ الْجَزَّارِ يُحَدِّثُ ، عَنْ صُهَيْبٍ ، قال : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يُحَدِّثُ أَنَّهُ " مَرَّ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ وَغُلَامٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ عَلَى حِمَارٍ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَنَزَلُوا وَدَخَلُوا مَعَهُ فَصَلَّوْا وَلَمْ يَنْصَرِفْ ، فَجَاءَتْ جَارِيَتَانِ تَسْعَيَانِ مِنْ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَأَخَذَتَا بِرُكْبَتَيْهِ فَفَرَعَ بَيْنَهُمَا وَلَمْ يَنْصَرِفْ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ` وہ اور بنی ہاشم کا ایک لڑکا دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے ایک گدھے پر سوار ہو کر گزرے ، آپ نماز پڑھ رہے تھے ، تو وہ دونوں اترے اور آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئے ، پھر ان لوگوں نے نماز پڑھی اور آپ نے نماز نہیں توڑی ، اور ابھی آپ نماز ہی میں تھے کہ اتنے میں بنی عبدالمطلب کی دو بچیاں دوڑتی ہوئی آئیں ، اور آپ کے گھٹنوں سے لپٹ گئیں ، آپ نے ان دونوں کو جدا کیا ، اور نماز نہیں توڑی ۱؎ ۔
وضاحت:
۱؎: مطلب یہ ہے کہ گدھے کے گزرنے سے لوگوں نے نماز میں کوئی حرج نہیں سمجھا، اسی لیے بعض علماء نے گدھے کو نماز باطل کرنے والی چیزوں میں سے مستثنیٰ کر دیا ہے، لیکن ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث (رقم: ۷۵۱) اس باب میں واضح اور قاطع ہے، نیز یہ قطعی نہیں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہم کا گدھا چھوڑ دینے کے بعد امام کے آگے سے گزرا بھی ہو، بلکہ حدیث (رقم: ۷۵۳) سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ صف کے کچھ ہی حصہ تک گدھا بھی محدود رہا، اور دونوں بچیاں چونکہ ابھی بالغ نہیں ہوئی تھیں اس لیے ان کے گزرنے سے کوئی حرج نہیں سمجھا گیا۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب القبلة / حدیث: 755
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: إسناده حسن
تخریج «سنن ابی داود/الصلاة 113 (716، 717)، (تحفة الأشراف: 5687)، مسند احمد 1/235، 341 (صحیح)»
حدیث نمبر: 756
      أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ ، قال : حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، قال : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قالت : " كُنْتُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَإِذَا أَرَدْتُ أَنْ أَقُومَ كَرِهْتُ أَنْ أَقُومَ فَأَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ انْسَلَلْتُ انْسِلَالًا " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ` میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تھی ، آپ نماز پڑھ رہے تھے تو جب میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو مجھے یہ بات ناگوار لگی کہ میں اٹھ کر آپ کے سامنے سے گزروں تو میں دھیرے سے سرک گئی ۱؎ ۔
وضاحت:
۱؎: ایک تو عائشہ رضی اللہ عنہا چارپائی پر سوئی ہوئی تھیں (جس کو آپ نے سترہ بنایا ہوا تھا) دوسرے وہ آپ کے آگے گزری نہیں بلکہ سرک گئی تھیں، «مرور»  کہتے ہیں ایک جانب سے دوسری جانب تک یعنی ادھر سے ادھر تک گزرنا، اور «السلال»  کہتے ہیں کہ ایک ہی جانب سے سرک جانا۔
حوالہ حدیث سنن نسائي / كتاب القبلة / حدیث: 756
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: متفق عليه
تخریج «صحیح البخاری/الصلاة 99 (508)، 102 (511)، 105 (514)، الاستئذان 37 (6276)، صحیح مسلم/الصلاة 51 (512)، (تحفة الأشراف: 15987)، مسند احمد 6/174، 266 (صحیح)»
