سنن ابن ماجه : «باب: آدمی سے کہا جائے: صبح کیسے کی؟»
کتب حدیثسنن ابن ماجهابوابباب: آدمی سے کہا جائے: صبح کیسے کی؟
سنن ابن ماجه
كتاب الأدب — کتاب: اسلامی آداب و اخلاق
بَابُ : الرَّجُلِ يُقَالُ لَهُ كَيْفَ أَصْبَحْتَ — باب: آدمی سے کہا جائے: صبح کیسے کی؟
حدیث نمبر: 3710
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ , حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ , عَنْ جَابِرٍ , قَالَ : قُلْتُ : كَيْفَ أَصْبَحْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : " بِخَيْرٍ , مِنْ رَجُلٍ لَمْ يُصْبِحْ صَائِمًا , وَلَمْ يَعُدْ سَقِيمًا " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے صبح کیسے کی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس نے نہ آج روزہ رکھا ، نہ بیمار کی عیادت ( مزاج پرسی ) کی خیریت سے ہوں “ ۱؎ ۔
وضاحت:
۱؎: یہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں اپنی تقصیر ظاہر کی باوجود اس کے کہ میں نے روزہ نہیں رکھا بیمار پرسی نہیں کی، لیکن مالک کا احسان ہے کہ میری صبح خیریت کے ساتھ اس نے کرائی، سبحان اللہ، رسول اکرم ﷺ باوجود کثرت عبادت، ریاضت، قرب الٰہی اور گناہوں سے پاک اور صاف ہونے کے اپنی تقصیر کا اقرار اور مالک کی نعمتوں کا اظہار کرتے تھے، اور کسی بندے کی کیا مجال ہے جو اپنی عبادت و طاعت اور تقویٰ پر نازاں ہو، یا اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے ہم کو کھلاتا اور پلاتا ہے، اور خیریت اور عافیت سے ہماری صبح اور شام گزارتا ہے، اے اللہ! ہم تیرے احسان اور نعمت کا شکر جتنا شکر کریں سب کم ہے۔
حوالہ حدیث سنن ابن ماجه / كتاب الأدب / حدیث: 3710
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: ضعيف , شیخ زبیر علی زئی: حسن
تخریج «تفرد بہ ابن ماجہ ، ( تحفة الأشراف : 2380 ، ومصباح الزجاجة : 1293 ) ( حسن ) » ( سند میں عبداللہ بن مسلم ضعیف راوی ہے ، لیکن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاہد اور دوسری احادیث کی وجہ سے یہ حسن ہے ، ملاحظہ ہو : تراجع الالبانی 100 و صحیح الأدب المفرد : 878- 1133 )
حدیث نمبر: 3711
حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق الْهَرَوِيُّ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَاتِمٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ إِسْحَاق بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ , حَدَّثَنِي جَدِّي أَبُو أُمِّي مَالِكُ بْنُ حَمْزَةَ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ السَّاعِدِيُّ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ أَبِي أُسَيْدٍ السَّاعِدِيِّ , قَالَ : قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ : وَدَخَلَ عَلَيْهِمْ , فَقَالَ : " السَّلَامُ عَلَيْكُمْ " , قَالُوا : وَعَلَيْكَ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ , قَالَ : " كَيْفَ أَصْبَحْتُمْ ؟ " , قَالُوا : بِخَيْرٍ نَحْمَدُ اللَّهَ , فَكَيْفَ أَصْبَحْتَ بِأَبِينَا وَأُمِّنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : " أَصْبَحْتُ بِخَيْرٍ أَحْمَدُ اللَّهَ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´ابواسید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لے گئے تو فرمایا : ” «السلام عليكم» “ انہوں نے ( جواب میں ) «وعليك السلام ورحمة الله وبركاته» کہا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” «كيف أصبحتم» آپ نے صبح کیسے کی “ ؟ جواب دیا : «بخير نحمد الله» خیریت سے کی اس پر ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں ، لیکن آپ نے کیسے کی ؟ ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” «الحمد لله» میں نے بھی خیریت کے ساتھ صبح کی “ ۔
حوالہ حدیث سنن ابن ماجه / كتاب الأدب / حدیث: 3711
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: ضعيف , شیخ زبیر علی زئی: ضعيف, إسناده ضعيف, عبد اللّٰه بن عثمان بن إسحاق: مستور (تقريب: 3464), انوار الصحيفه، صفحه نمبر 510
تخریج «تفرد بہ ابن ماجہ ، ( تحفة الأشراف : 11193 ، ومصباح الزجاجة : 1294 ) ( ضعیف ) » ( سند میں عبد اللہ بن عثمان مستور راوی ہیں ، امام بخاری فرماتے ہیں ، «مالک بن حمزہ عن أبیہ عن جدہ أن النبی ﷺ دعا للعباس ، الحدیث لایتابع علیہ» اس کا کوئی متابع نہیں ہے )

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل