سنن ابن ماجه : «باب: رمی کی کنکریاں کتنی بڑی ہونی چاہئیں؟»
کتب حدیثسنن ابن ماجهابوابباب: رمی کی کنکریاں کتنی بڑی ہونی چاہئیں؟
سنن ابن ماجه
كتاب المناسك — کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
بَابُ : قَدْرِ حَصَى الرَّمْيِ — باب: رمی کی کنکریاں کتنی بڑی ہونی چاہئیں؟
حدیث نمبر: 3028
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ ، عَنْ أُمِّهِ ، قَالَتْ : رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ عِنْدَ جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ وَهُوَ رَاكِبٌ عَلَى بَغْلَةٍ ، فَقَالَ : " يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِذَا رَمَيْتُمُ الْجَمْرَةَ ، فَارْمُوا بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´سلیمان بن عمرو بن احوص کی والدہ ( ام جندب الازدیہ رضی اللہ عنہا ) کہتی ہیں کہ` میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دسویں ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ کے پاس ایک خچر پر سوار دیکھا ، آپ فرما رہے تھے : ” لوگو ! جب جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارو تو ایسی ہوں جو دونوں انگلیوں کے درمیان آ جائیں “ ۔
حوالہ حدیث سنن ابن ماجه / كتاب المناسك / حدیث: 3028
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: حسن , شیخ زبیر علی زئی: ضعيف, إسناده ضعيف, سنن أبي داود (1966) انظر الحديث الآتي (3031،3532), انوار الصحيفه، صفحه نمبر 485
تخریج «سنن ابی داود/المناسک 78 ( 1966 ، 1967 ) ، ( تحفة الأشراف : 18306 ) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( 3/503 ، 5/270 ، 379 ، 6/379 ) ( حسن ) » ( اس سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف ہے ، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے )
حدیث نمبر: 3029
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحُصَيْنِ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ الْعَقَبَةِ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ : " الْقُطْ لِي حَصًى " ، فَلَقَطْتُ لَهُ سَبْعَ حَصَيَاتٍ ، هُنَّ حَصَى الْخَذْفِ ، فَجَعَلَ يَنْفُضُهُنَّ فِي كَفِّهِ ، وَيَقُولُ : " أَمْثَالَ هَؤُلَاءِ فَارْمُوا " ، ثُمَّ قَالَ : يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ ، فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ کی صبح کو فرمایا ، اس وقت آپ اپنی اونٹنی پر سوار تھے : ” میرے لیے کنکریاں چن کر لاؤ “ ، چنانچہ میں نے آپ کے لیے سات کنکریاں چنیں ، وہ کنکریاں ایسی تھیں جو دونوں انگلیوں کے بیچ آ جائیں ، آپ انہیں اپنی ہتھیلی میں ہلاتے تھے اور فرماتے تھے : ” انہیں جیسی کنکریاں مارو “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” لوگو ! دین میں غلو سے بچو کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں اسی غلو نے ہلاک کیا “ ۱؎ ۔
وضاحت:
۱؎: غلو: کسی کام کو حد سے زیادہ بڑھا دینے اور اس میں ضرورت سے زیادہ سختی کرنے کو غلو کہتے ہیں، مثلاً کنکریاں مارنے کا حکم ہے تو چھوٹی کنکریاں کافی ہیں، اب غلو یہ ہے کہ بڑی بڑی کنکریاں مارے یا پتھر پھینکے اور اس کو زیادہ ثواب کا کام سمجھے، دین کے ہر کام میں غلو کرنا منع ہے اور یہ حماقت کی دلیل ہے، یہ بھی غلو ہے کہ مثلاً کسی نے مستحب یا سنت کو ترک کیا تو اس کو برا کہے اور گالیاں دے، اگر کوئی سنت کو ترک کرے تو صرف نرمی سے اس کوحدیث سنا دینا کافی ہے، اگر لوگ فرض کو ترک کریں تو سختی سے اس کو حکم کرنا چاہئے، لیکن اس زمانہ میں یہ حال ہو گیا ہے کہ فرض ترک کرنے والوں کو کوئی برا نہیں کہتا ہے، لوگ تارکین صلاۃ، شرابیوں اور سود خوروں سے دوستی رکھتے ہیں، لیکن اذان میں کوئی انگوٹھے نہ چومے یا مولود میں قیام نہ کرے تو اس کے دشمن ہو جاتے ہیں، یہ بھی ایک انتہائی درجے کا غلو ہے، اور ایسی ہی باتوں کی وجہ سے مسلمان تباہ ہو گئے، اور جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، ویسا ہی ہوا۔
حوالہ حدیث سنن ابن ماجه / كتاب المناسك / حدیث: 3029
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: إسناده صحيح
تخریج «سنن النسائی/الحج 217 ( 3059 ) ، 219 ( 3061 ) ، ( تحفة الأشراف : 5427 ) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( 1/215 ، 347 ، 5/127 ) ( صحیح ) »

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل