سنن ابن ماجه : «باب: تنعیم سے عمرہ کا بیان۔»
کتب حدیثسنن ابن ماجهابوابباب: تنعیم سے عمرہ کا بیان۔
سنن ابن ماجه
كتاب المناسك — کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
بَابُ : الْعُمْرَةِ مِنَ التَّنْعِيمِ — باب: تنعیم سے عمرہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 2999
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو إِسْحَاق الشَّافِعِيُّ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ شَافِعٍ ، قَالَا : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ أَوْسٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ ، أَنْ يُرْدِفَ عَائِشَةَ ، فَيُعْمِرَهَا مِنَ التَّنْعِيمِ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں` نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنے ساتھ سوار کر کے لے جائیں ، اور انہیں تنعیم سے عمرہ کرائیں ۔
وضاحت:
تنعیم: مسجد الحرام سے تین میل (۵ کلومیٹر) کے فاصلہ پر ایک مقام ہے، جہاں پر اس وقت مسجد عائشہ کے نام سے مسجد تعمیر ہے۔
۲؎: محرم سے مراد شوہر ہے یا وہ شخص جس سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہو مثلاً باپ دادا، نانا، بیٹا، بھائی چچا ماموں، بھتیجا، داماد وغیرہ یا رضاعت سے ثابت ہونے والے رشتہ دار، عمرے کا احرام حرم سے نکل کر باندھنا چاہئے، یہ مقام بہ نسبت اور مقاموں کے قریب ہے، اس لئے آپ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو وہیں سے عمرہ کرانے کا حکم دیا۔
حوالہ حدیث سنن ابن ماجه / كتاب المناسك / حدیث: 2999
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: متفق عليه
تخریج «صحیح البخاری/العمرة 6 ( 1784 ) ، الجہاد 125 ( 2985 ) ، صحیح مسلم/الحج 17 ( 1212 ) ، سنن الترمذی/الحج 91 ( 934 ) ، ( تحفة الأشراف : 9687 ) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الحج 81 ( 1995 ) ، مسند احمد ( 1/197 ) ، سنن الدارمی/المناسک 41 ( 1904 ) ( صحیح ) »
حدیث نمبر: 3000
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ نُوَافِي هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ أَنْ يُهِلَّ بِعُمْرَةٍ فَلْيُهْلِلْ ، فَلَوْلَا أَنِّي أَهْدَيْتُ ، لَأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ " ، قَالَتْ : فَكَانَ مِنَ الْقَوْمِ مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ ، وَمِنْهُمْ مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ ، فَكُنْتُ أَنَا مِمَّنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ . (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَتْ : فَخَرَجْنَا حَتَّى قَدِمْنَا مَكَّةَ ، فَأَدْرَكَنِي يَوْمُ عَرَفَةَ ، وَأَنَا حَائِضٌ لَمْ أَحِلَّ مِنْ عُمْرَتِي ، فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : " دَعِي عُمْرَتَكِ ، وَانْقُضِي رَأْسَكِ ، وَامْتَشِطِي وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ " ، قَالَتْ : فَفَعَلْتُ ، فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ ، وَقَدْ قَضَى اللَّهُ حَجَّنَا أَرْسَلَ مَعِي عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ ، فَأَرْدَفَنِي وَخَرَجَ إِلَى التَّنْعِيمِ ، فَأَحْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ فَقَضَى اللَّهُ حَجَّنَا وَعُمْرَتَنَا ، وَلَمْ يَكُنْ فِي ذَلِكَ هَدْيٌ وَلَا صَدَقَةٌ وَلَا صَوْمٌ .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ` ہم حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( مدینہ سے ) اس حال میں نکلے کہ ہم ذی الحجہ کے چاند کا استقبال کرنے والے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم میں سے جو عمرہ کا تلبیہ پکارنا چاہے ، پکارے ، اور اگر میں ہدی نہ لاتا تو میں بھی عمرہ کا تلبیہ پکارتا “ ، تو لوگوں میں کچھ ایسے تھے جنہوں نے عمرہ کا تلبیہ پکارا ، اور کچھ ایسے جنہوں نے حج کا ، اور میں ان لوگوں میں سے تھی جنہوں نے عمرہ کا تلبیہ پکارا ، ہم نکلے یہاں تک کہ مکہ آئے ، اور اتفاق ایسا ہوا کہ عرفہ کا دن آ گیا ، اور میں حیض سے تھی ، عمرہ سے ابھی حلال نہیں ہوئی تھی ، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اپنا عمرہ چھوڑ دو ، اور اپنا سر کھول لو ، اور بالوں میں کنگھا کر لو ، اور نئے سرے سے حج کا تلبیہ پکارو “ ، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا ، پھر جب محصب کی رات ( بارہویں ذی الحجہ کی رات ) ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ہمارا حج پورا کرا دیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ عبدالرحمٰن بن ابی بکر کو بھیجا ، وہ مجھے اپنے پیچھے اونٹ پر بیٹھا کر تنعیم لے گئے ، اور وہاں سے میں نے عمرہ کا تلبیہ پکارا ( اور آ کر اس عمرے کے قضاء کی جو حیض کی وجہ سے چھوٹ گیا تھا ) اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے حج اور عمرہ دونوں کو پورا کرا دیا ، ہم پر نہ «هدي» ( قربانی ) لازم ہوئی ، نہ صدقہ دینا پڑا ، اور نہ روزے رکھنے پڑے ۱؎ ۔
وضاحت:
۱؎: کیونکہ «هدي» حج تمتع کرنے والے پر واجب ہوتی ہے، اور عائشہ رضی اللہ عنہا کا حج حج افراد تھا کیونکہ حیض آ جانے کی وجہ سے انہیں عمرہ چھوڑ دینا پڑا تھا۔
حوالہ حدیث سنن ابن ماجه / كتاب المناسك / حدیث: 3000
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: متفق عليه
تخریج «صحیح البخاری/العمرة 5 ( 1783 ) ، صحیح مسلم/الحج 17 ( 1211 ) ، ( تحفة الأشراف : 17048 ) ( صحیح ) »

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل