سنن ابن ماجه : «باب: تہائی یا چوتھائی پیداوار پر کھیت کو بٹائی پر دینے کا بیان۔»
کتب حدیثسنن ابن ماجهابوابباب: تہائی یا چوتھائی پیداوار پر کھیت کو بٹائی پر دینے کا بیان۔
سنن ابن ماجه
كتاب الرهون — کتاب: رہن کے احکام و مسائل
بَابُ : الْمُزَارَعَةِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ — باب: تہائی یا چوتھائی پیداوار پر کھیت کو بٹائی پر دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2449
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ ، قَالَ : " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ ، وَقَالَ : إِنَّمَا يَزْرَعُ ثَلَاثَةٌ رَجُلٌ لَهُ أَرْضٌ فَهُوَ يَزْرَعُهَا وَرَجُلٌ مُنِحَ أَرْضًا فَهُوَ يَزْرَعُ مَا مُنِحَ وَرَجُلٌ اسْتَكْرَى أَرْضًا بِذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ بیع و مزابنہ سے منع کیا ، اور فرمایا : ” کھیتی تین آدمی کریں : ایک وہ جس کی خود زمین ہو ، وہ اپنی زمین میں کھیتی کرے ، دوسرے وہ جس کو زمین ( ہبہ یا مستعار ) دی گئی ہو ، تو وہ اس دی گئی زمین میں کھیتی کرے ، تیسرے وہ جو سونا یا چاندی ( نقد ) دے کر زمین ٹھیکے پر لے لے “ ۔
وضاحت:
۱؎: اس حدیث میں محاقلہ سے مراد مزارعت (بٹائی) ہی ہے، اور اس کی ممانعت کا معاملہ اخلاقاً ہے نہ کہ بطور حرمت، یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا بعد میں نبی اکرم ﷺ نے نہ یہ کہ اس کی اجازت دی، بلکہ خود اہل خیبر سے بٹائی پر معاملہ کیا جیسا کہ «باب النخيل والكرم» میں آئے گا۔
حوالہ حدیث سنن ابن ماجه / كتاب الرهون / حدیث: 2449
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: حسن صحيح , شیخ زبیر علی زئی: إسناده حسن
تخریج « سنن ابی داود/البیوع 32 ( 3400 ) ، سنن النسائی/المزراعة 2 ( 3921 ) ، ( تحفة الأشراف : 3557 ) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحرث 18 ( 2340 ) ، الھبة 35 ( 2632 ) ، صحیح مسلم/البیوع 17 ( 1547 ) ، موطا امام مالک/کراء الارض 1 ( 1 ) ، مسند احمد ( 3/302 ، 304 ، 354 ، 363 ، 464 ، 465 ، 466 ) ( صحیح ) »
حدیث نمبر: 2450
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، قَالَا : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ : " كُنَّا نُخَابِرُ وَلَا نَرَى بِذَلِكَ بَأْسًا حَتَّى سَمِعْنَا رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ ، يَقُولُ : نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ فَتَرَكْنَاهُ لِقَوْلِهِ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ` ہم مزارعت ( بٹائی کھیتی ) کیا کرتے تھے ، اور اس میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتے تھے ، یہاں تک کہ ہم نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے تو پھر ہم نے ان کے کہنے سے اسے چھوڑ دیا ۱؎ ۔
وضاحت:
۱؎: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ممانعت تنزیہی، یعنی خلاف اولیٰ تھی، تحریمی نہیں کیونکہ آپ ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ اپنے مسلمان بھائی کو کھیتی کے لئے مفت زمین دینی چاہئے، اسے بٹائی پر دینا کیا ضروری ہے، چونکہ عرب میں زمین کی کمی نہیں، پس جس قدر اپنے سے ہو سکے اس میں خود زراعت کرے، اور جو بچ رہے وہ اپنے مسلمان بھائی کو عاریت کے طور پر دے دے تاکہ ثواب حاصل ہو۔
حوالہ حدیث سنن ابن ماجه / كتاب الرهون / حدیث: 2450
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: صحيح مسلم
تخریج « صحیح مسلم/البیوع 21 ( 1547 ) ، سنن ابی داود/البیوع 31 ( 3389 ) ، سنن النسائی/المزراعة 2 ( 3927 ، 3928 ) ، ( تحفة الأشراف : 3566 ) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( 1/234 ، 2/11 ، 3/463 ) ، 465 ، 4/142 ) ( صحیح ) »
حدیث نمبر: 2451
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنِي عَطَاءٌ ، قَالَ : سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ : كَانَتْ لِرِجَالٍ مِنَّا فُضُولُ أَرَضِينَ يُؤَاجِرُونَهَا عَلَى الثُّلُثِ وَالرُّبُعِ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ كَانَتْ لَهُ فُضُولُ أَرْضِينَ فَلْيَزْرَعْهَا أَوْ لِيُزْرِعْهَا أَخَاهُ فَإِنْ أَبَى فَلْيُمْسِكْ أَرْضَهُ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ` ہم میں سے کچھ لوگوں کے پاس زائد زمینیں تھیں ، جنہیں وہ تہائی یا چوتھائی پیداوار پر بٹائی پر دیا کرتے تھے ، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس کے پاس زائد زمینیں ہوں تو ان میں وہ یا تو خود کھیتی کرے یا اپنے بھائی کو کھیتی کے لیے دیدے ، اگر یہ دونوں نہ کرے تو اپنی زمین اپنے پاس ہی روکے رہے “ ۔
حوالہ حدیث سنن ابن ماجه / كتاب الرهون / حدیث: 2451
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: متفق عليه
تخریج « صحیح البخاری/الحرث 18 ( 2340 ) ، الہبة 35 ( 2632 ) ، صحیح مسلم/البیوع 17 ( 1536 ) ، سنن النسائی/المزارعة 2 ( 3907 ) ، ( تحفة الأشراف : 2424 ) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( 3/302 ، 304 ، 312 ، 354 ، 363 ) ، سنن الدارمی/البیوع 72 ( 2657 ) ( صحیح ) »
حدیث نمبر: 2452
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ سَلَّامٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا أَوْ لِيَمْنَحْهَا أَخَاهُ فَإِنْ أَبَى فَلْيُمْسِكْ أَرْضَهُ .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس کے پاس زمین ہو وہ خود کھیتی کرے یا اپنے بھائی کو ( مفت ) دیدے ، ورنہ اپنی زمین اپنے پاس ہی روکے رہے “ ۱؎ ۔
وضاحت:
۱؎: اس مفہوم کی احادیث کو ابتدائے اسلام کے احکام پر محمول کیا جائے، کیونکہ سونے اور چاندی کے عوض تو کرایہ پر زمین دینا بالاتفاق جائز ہے جبکہ ان میں اس کی بھی ممانعت ہے۔
حوالہ حدیث سنن ابن ماجه / كتاب الرهون / حدیث: 2452
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: متفق عليه
تخریج « صحیح البخاری/الحرث 18 ( 2341 ) ، صحیح مسلم/البیوع 17 ( 1544 ) ، ( تحفة الأشراف : 15415 ) ( صحیح ) »

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل