سنن ابن ماجه : «باب: جو چیز پاس میں نہ ہو اس کا بیچنا اور جس چیز کا ضامن نہ ہو اس میں نفع لینا منع ہے۔»
کتب حدیثسنن ابن ماجهابوابباب: جو چیز پاس میں نہ ہو اس کا بیچنا اور جس چیز کا ضامن نہ ہو اس میں نفع لینا منع ہے۔
سنن ابن ماجه
كتاب التجارات — کتاب: تجارت کے احکام و مسائل
بَابُ : النَّهْيِ عَنْ بَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ وَعَنْ رِبْحِ مَا لَمْ يُضْمَنْ — باب: جو چیز پاس میں نہ ہو اس کا بیچنا اور جس چیز کا ضامن نہ ہو اس میں نفع لینا منع ہے۔
حدیث نمبر: 2187
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ يُوسُفَ بْنَ مَاهَكَ يُحَدِّثُ ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ ، قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، الرَّجُلُ يَسْأَلُنِي الْبَيْعَ وَلَيْسَ عِنْدِي أَفَأَبِيعُهُ ؟ ، قَالَ : " لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` میں نے کہا : اللہ کے رسول ! ایک آدمی مجھ سے ایک چیز خریدنا چاہتا ہے ، اور وہ میرے پاس نہیں ہے ، کیا میں اس کو بیچ دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کو نہ بیچو “ ۔
حوالہ حدیث سنن ابن ماجه / كتاب التجارات / حدیث: 2187
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: إسناده حسن
تخریج « سنن ابی داود/البیوع 70 ( 3503 ) ، سنن الترمذی/البیوع 19 ( 1232 ، 1233 ) ، سنن النسائی/البیوع 58 ( 4617 ) ، ( تحفة الأشراف : 3436 ) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( 3/402 ، 434 ) ( صحیح ) »
حدیث نمبر: 2188
حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ ، قَالَا : حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا يَحِلُّ بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ ، وَلَا رِبْحُ مَا لَمْ يُضْمَنْ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو چیز تمہارے پاس نہ ہو اس کا بیچنا جائز نہیں ، اور نہ اس چیز کا نفع جائز ہے جس کے تم ضامن نہیں “ ۱؎ ۔
وضاحت:
۱؎: یعنی اگر وہ چیز برباد ہو جائے تو تمہارا کچھ نقصان نہ ہو، ایسی چیز کا نفع اٹھانا بھی جائز نہیں، یہ شرع کا ایک عام مسئلہ ہے کہ نفع ہمیشہ ضمانت کے ساتھ ملتا ہے، جو شخص کسی چیز کا ضامن ہو وہی اس کے نفع کا مستحق ہے، اور اس کی مثال یہ ہے کہ ابھی خریدار نے بیع پر قبضہ نہیں کیا اور وہ چیز خریدنے والے کی ضمانت میں داخل نہیں ہوئی، اب خریدنے والا اگر اس کو قبضے سے پہلے کسی اور کے ہاتھ بیچ ڈالے اور نفع کمائے، تو بیع جائز اور صحیح نہیں ہے۔
حوالہ حدیث سنن ابن ماجه / كتاب التجارات / حدیث: 2188
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: حسن صحيح , شیخ زبیر علی زئی: إسناده صحيح
تخریج «سنن ابی داود/البیوع 70 ( 3504 ) ، سنن الترمذی/البیوع 19 ( 1234 ) ، سنن النسائی/البیوع 58 ( 4615 ) ، ( تحفة الأشراف : 8664 ) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( 2/174 ، 178 ، 205 ) ، سنن الدارمی/البیوع 26 ( 2602 ) ( حسن صحیح ) »
حدیث نمبر: 2189
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ عَتَّابِ بْنِ أَسِيدٍ ، قَالَ : " لَمَّا بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَكَّةَ نَهَاهُ عَنْ شِفِّ مَا لَمْ يُضْمَنْ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں` جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مکہ بھیجا ، تو اس چیز کے نفع سے منع کیا جس کے وہ ضامن نہ ہوں ۔
حوالہ حدیث سنن ابن ماجه / كتاب التجارات / حدیث: 2189
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: ضعيف, إسناده ضعيف, الحديث ضعفه البوصيري وقال: ’’ وعطاء ھو ابن أبي رباح لم يدرك عتابًا ‘‘, انوار الصحيفه، صفحه نمبر 457
تخریج «تفرد بہ ابن ماجہ ، ( تحفة الأشراف : 9749 ) ( صحیح ) » ( سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہیں ، اور عطاء کی ملاقات عتاب رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے ، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے ، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة ، للالبانی : 1212 )

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل