بَابُ : مَا جَاءَ فِي تَأْخِيرِ السُّحُورِ
باب: سحری دیر سے کھانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1694
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : " تَسَحَّرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ قُمْنَا إِلَى الصَّلَاةِ " ، قُلْتُ : كَمْ بَيْنَهُمَا ؟ ، قَالَ : " قَدْرُ قِرَاءَةِ خَمْسِينَ آيَةً " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی پھر ہم نماز کے لیے کھڑے ہوئے ۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا : سحری اور نماز کے درمیان کتنا فاصلہ تھا ؟ کہا : پچاس آیتیں پڑھنے کی مقدار ۱؎ ۔
وضاحت:
۱؎: یعنی جتنی دیر میں پچاس آیتیں پڑھی جائیں، اس حدیث سے صاف نکلتا ہے کہ نبی کریم ﷺ سحری صبح صادق کے قریب کھاتے تھے اتنا کہ سحری سے فارغ ہو کر نماز فجر کو کھڑے ہوتے، جس کو صبح صادق کی پہچان ہو، اس کے لیے ایسا ہی کرنا سنت ہے، اگر یہ نہ ہو تو صبح سے پاؤ گھنٹہ یا آدھا گھنٹہ پہلے سحری سے فارغ ہو، یہ نہیں کہ آدھی رات کو یا ایک بجے یا دو بجے سحری کرے جیسے ہمارے زمانہ کے عوام کرتے ہیں۔
حوالہ حدیث سنن ابن ماجه / كتاب الصيام / حدیث: 1694
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: حسن , شیخ زبیر علی زئی: بخاري ومسلم
تخریج « صحیح البخاری/المواقیت 27 ( 575 ) ، الصوم 19 ( 1921 ) ، صحیح مسلم/الصوم 9 ( 1097 ) ، سنن الترمذی/الصوم 14 ( 703 ، 704 ) ، سنن النسائی/الصوم 11 ( 2157 ) ، ( تحفة الأشراف : 3696 ) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( 5/182 ، 185 ، 86ا ، 188 ، 192 ، سنن الدارمی/الصوم 8 ( 1737 ) ( صحیح ) »
حدیث نمبر: 1695
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ : " تَسَحَّرْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ النَّهَارُ ، إِلَّا أَنَّ الشَّمْسَ لَمْ تَطْلُعْ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری فجر کے طلوع ہو جانے کے وقت کھائی ، لیکن ابھی طلوع نہیں ہوئی تھی ۔
حوالہ حدیث سنن ابن ماجه / كتاب الصيام / حدیث: 1695
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: حسن
تخریج « سنن النسائی/الصوم 10 ( 2154 ) ، ( تحفة الأشراف : 3325 ) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( 5/396 ، 400 ) ( حسن الإسناد ) »
حدیث نمبر: 1696
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ مِنْ سُحُورِهِ ، فَإِنَّهُ يُؤَذِّنُ لِيَنْتَبِهَ نَائِمُكُمْ ، وَلِيَرْجِعَ قَائِمُكُمْ ، وَلَيْسَ الْفَجْرُ أَنْ يَقُولَ هَكَذَا ، وَلَكِنْ هَكَذَا يَعْتَرِضُ فِي أسْفَلِ َالسَّمَاءِ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم میں سے کسی کو بلال کی اذان اس کی سحری سے نہ روکے ، وہ اذان اس لیے دیتے ہیں کہ تم میں سونے والا ( سحری کھانے کے لیے ) جاگ جائے ، اور قیام ( یعنی تہجد پڑھنے ) والا اپنے گھر چلا جائے ، اور فجر اس طرح سے نہیں ہے ، بلکہ اس طرح سے ہے کہ وہ آسمان کے کنارے عرض ( چوڑان ) میں ظاہر ہوتی ہے “ ۱؎ ۔
وضاحت:
۱؎: اور جو لمبی دھاری بھیڑئے کی دم کی طرح آسمان پر ظاہر ہوتی ہے وہ صبح کاذب ہے اس کا اعتبار نہیں ہے، اس وقت کھانا پینا جائز ہے، یہاں تک کہ صبح صادق ظاہر ہو جائے جو مشرق (پورب) کی طرف آسمان کے کنارے عرض (لمبائی) میں ظاہر ہوتی ہے، یہ سورج کی روشنی ہے اسی کو پو پھٹنا کہتے ہیں۔
حوالہ حدیث سنن ابن ماجه / كتاب الصيام / حدیث: 1696
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: بخاري ومسلم
تخریج « صحیح البخاری/الأذان 13 ( 621 ) ، الطلاق 24 ( 5298 ) ، أخبارالآحاد 1 ( 7247 ) ، صحیح مسلم/الصوم 8 ( 1092 ) ، سنن ابی داود/الصوم 17 ( 2347 ) ، سنن النسائی/الأذان 11 ( 642 ) ، ( تحفة الأشراف : 9375 ) ، مسند احمد ( 1/386 ، 392 ، 435 ) ( صحیح ) »