سنن ابن ماجه
كتاب الأذان والسنة فيه — کتاب: اذان کے احکام و مسائل اورسنن
بَابُ : فَضْلِ الأَذَانِ وَثَوَابِ الْمُؤَذِّنِينَ — باب: اذان کی فضیلت اور مؤذن کے ثواب کا بیان۔
حدیث نمبر: 723
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، وَكَانَ أَبُوهُ فِي حِجْر أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ ، قَالَ لِي أَبُو سَعِيدٍ : إِذَا كُنْتَ فِي الْبَوَادِي فَارْفَعْ صَوْتَكَ بِالْأَذَانِ ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " لَا يَسْمَعُهُ جِنٌّ وَلَا إِنْسٌ وَلَا شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا شَهِدَ لَهُ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبدالرحمٰن بن ابوصعصعہ ( جو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے زیر پرورش تھے ) کہتے ہیں کہ` مجھ سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا : جب تم صحراء میں ہو تو اذان میں اپنی آواز بلند کرو ، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : ” اذان کو جنات ، انسان ، درخت اور پتھر جو بھی سنیں گے وہ قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دیں گے “ ۱؎ ۔
وضاحت:
۱؎: تو جتنی دور آواز پہنچے گی گواہ زیادہ ہوں گے، اور صحراء و بیابان کی قید اس لئے ہے کہ آبادی میں گواہوں کی کمی نہیں ہوتی، آدمی ہی بہت ہوتے ہیں اس لئے زیادہ آواز بلند کرنے کی ضرورت نہیں، اگرچہ آواز بلند کرنا مستحب ہے۔
حوالہ حدیث سنن ابن ماجه / كتاب الأذان والسنة فيه / حدیث: 723
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: صحيح بخاري
تخریج « تفرد بہ ابن ماجہ ، ( تحفة الأشراف : 4105 ، ومصباح الزجاجة : 268 ) ، وأخرجہ : صحیح البخاری/الأذان 5 ( 608 ) ، بدء الخلق 12 ( 3296 ) ، التوحید 52 ( 7548 ) ، سنن النسائی/الأذان 14 ( 645 ) ، موطا امام مالک/الصلاة 1 ( 5 ) ، مسند احمد ( 3/35 ، 43 ) ( صحیح ) » ( «ولا شجر ولا حجر» کا لفظ صرف ابن ماجہ میں ہے ، اور ابن خزیمہ میں بھی ایسے ہی ہے )
حدیث نمبر: 724
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِي يَحْيَى ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : سَمِعْتُ مِنْ فِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " الْمُؤَذِّنُ يُغْفَرُ لَهُ مَدَ صَوْتِهِ ، وَيَسْتَغْفِرُ لَهُ كُلُّ رَطْبٍ وَيَابِسٍ ، وَشَاهِدُ الصَّلَاةِ يُكْتَبُ لَهُ خَمْسٌ وَعِشْرُونَ حَسَنَةً ، وَيُكَفَّرُ عَنْهُ مَا بَيْنَهُمَا " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ” مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے ، اور ہر خشک و تر اس کے لیے مغفرت طلب کرتا ہے ، اور اذان سن کر نماز میں حاضر ہونے والے کے لیے پچیس ( ۲۵ ) نیکیاں لکھی جاتی ہیں ، اور دو نمازوں کے درمیان کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں “ ۔
حوالہ حدیث سنن ابن ماجه / كتاب الأذان والسنة فيه / حدیث: 724
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: حسن صحيح , شیخ زبیر علی زئی: إسناده حسن
تخریج « سنن ابی داود/الصلاة 31 ( 515 ) ، سنن النسائی/الأذان 14 ( 644 ) ، ( تحفة الأشراف : 15466 ، ومصباح الزجاجة : 269 ) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( 2/429 ، 458 ) ( حسن صحیح ) » ( اس حدیث کو بوصیری نے زوائد ابن ماجہ میں داخل کیا ہے ، اور فرمایا ہے کہ ابوداود اور نسائی نے اسے مختصراً ذکر کیا ہے ، نیز احمد اور ابن حبان نے بھی اس کی تخریج کی ہے ، جب کہ ابو داود میں مکمل سیاق سے ہے ، نسائی میں مختصراً ہے اس لئے یہ حدیث زوائد میں نہیں ہے )
حدیث نمبر: 725
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَا : حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ ، قَالَ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْمُؤَذِّنُونَ أَطْوَلُ النَّاسِ أَعْنَاقًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مؤذنوں کی گردنیں قیامت کے دن سب سے زیادہ لمبی ہوں گی “ ۱؎ ۔
وضاحت:
۱؎: اور یہ ان کے شرف و اعزاز اور بلند رتبہ کی دلیل ہو گی، اور گردن لمبی ہونے کا یہ مطلب ہے کہ ان کے اعمال زیادہ ہوں گے، یا حقیقت میں گردنیں لمبی ہوں گی، اور وہ جنت کو دیکھتے ہوں گے، یا وہ لوگوں کے سردار ہوں گے، عرب لوگ سردار کو لمبی گردن والا کہتے ہیں، یا وہ پیاسے نہ ہوں گے، اس وجہ سے کہ گردن اٹھی ہو گی، اور لوگ پیاس کے مارے گردن موڑے ہوں گے۔
حوالہ حدیث سنن ابن ماجه / كتاب الأذان والسنة فيه / حدیث: 725
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: صحيح مسلم
تخریج « صحیح مسلم/الصلاة 8 ( 387 ) ، ( تحفة الأشراف : 11435 ) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( 4/95 ، 98 ) ( صحیح ) »
حدیث نمبر: 726
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عِيسَى أَخُو سُلَيْمٍ الْقَارِيُّ ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لِيُؤَذِّنْ لَكُمْ خِيَارُكُمْ ، وَلْيَؤُمَّكُمْ قُرَّاؤُكُمْ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم میں سے اچھے لوگ اذان دیں ، اور جو لوگ قاری عالم ہوں وہ امامت کریں “ ۔
حوالہ حدیث سنن ابن ماجه / كتاب الأذان والسنة فيه / حدیث: 726
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: ضعيف , شیخ زبیر علی زئی: ضعيف, إسناده ضعيف, سنن أبي داود (590), انوار الصحيفه، صفحه نمبر 404
تخریج « سنن ابی داود/الصلاة 61 ( 590 ) ، ( تحفة الأشراف : 6039 ) ( ضعیف ) » ( اس کی سند میں حسین بن عیسیٰ ضعیف ہیں ، نیز ملاحظہ ہو : ضعیف أبی داود : 91 )
حدیث نمبر: 727
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا مُخْتَارُ بْنُ غَسَّانَ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ الْأَزْرَقُ الْبُرْجُمِيُّ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ . ح وحَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَمْزَةَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ أَذَّنَ مُحْتَسِبًا سَبْعَ سِنِينَ ، كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بَرَاءَةً مِنَ النَّارِ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس شخص نے طلب ثواب کی نیت سے سات سال اذان دی تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم سے نجات لکھ دے گا “ ۔
حوالہ حدیث سنن ابن ماجه / كتاب الأذان والسنة فيه / حدیث: 727
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: ضعيف , شیخ زبیر علی زئی: ضعيف, إسناده ضعيف جدًا, جابر الجعفي: ضعيف رافضي, وله لون آخر (انظر ضعيف سنن الترمذي: 206), انوار الصحيفه، صفحه نمبر 404
تخریج « تفرد بہ ابن ماجہ ، ( تحفة الأشراف : 6017 ) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة 38 ( 206 ) ( ضعیف ) » ( اس حدیث کی سند میں جابر بن یزید الجعفی ضعیف ہیں ، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة ، للالبانی : 850 )
حدیث نمبر: 728
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ ، قَالَا : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنِ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَنْ أَذَّنَ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ ، وَكُتِبَ لَهُ بِتَأْذِينِهِ فِي كُلِّ يَوْمٍ سِتُّونَ حَسَنَةً ، وَلِكُلِّ إِقَامَةٍ ثَلَاثُونَ حَسَنَةً " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس شخص نے بارہ سال اذان دی ، اس کے لیے جنت واجب ہو گئی ، اور اس کے لیے ہر روز کی اذان کے بدلے ساٹھ نیکیاں ، اور ہر اقامت پہ تیس نیکیاں لکھ دی گئیں “ ۱؎ ۔
وضاحت:
۱؎: اوپر حدیث میں سات برس کا ذکر ہے، اور اس میں بارہ برس کا یہ تعارض نہیں ہے، کیونکہ سات برس کی اذان دینے میں جب جہنم سے برأت حاصل ہو گئی، تو بارہ برس کی اذان دینے میں جنت ضرور حاصل ہو گی، ان شاء اللہ اور بعضوں نے کہا سات برس خلوص نیت کے ساتھ کافی ہیں، اور بارہ برس ہر طرح کافی ہیں، اگرچہ نیت میں صفائی کامل نہ ہو، واللہ اعلم۔
حوالہ حدیث سنن ابن ماجه / كتاب الأذان والسنة فيه / حدیث: 728
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: ضعيف, إسناده ضعيف, ابن جريج عنعن, وللحديث طريق آخر عندالحاكم (2/ 205 ح 737) وسنده ضعيف, انوار الصحيفه، صفحه نمبر 404
تخریج « تفر د بہ ابن ماجہ ، ( تحفة الأشراف : 7788 ، ومصباح الزجاجة : 270 ) ( صحیح ) »