باب مَا جَاءَ فِي الْمُتَشَدِّقِ فِي الْكَلاَمِ
باب: ٹر ٹر باتیں کرنے والے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5005
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ الْبَاهِلِيُّ , وَكَانَ يَنْزِلُ الْعَوَقَةَ ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قال أبو داود : هُوَ ابْنُ عَمْرٍو ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُبْغِضُ الْبَلِيغَ مِنَ الرِّجَالِ الَّذِي يَتَخَلَّلُ بِلِسَانِهِ تَخَلُّلَ الْبَاقِرَةِ بِلِسَانِهَا " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ دشمنی رکھتا ہے تڑتڑ بولنے والے ایسے لوگوں سے جو اپنی زبان کو ایسے پھراتے ہیں جیسے گائے ( گھاس کھانے میں ) چپڑ چپڑ کرتی ہے ، یعنی بے سوچے سمجھے جو جی میں آتا ہے بکے جاتا ہے “ ۔
حوالہ حدیث سنن ابي داود / كتاب الأدب / حدیث: 5005
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: إسناده حسن, مشكوة المصابيح (4800), أخرجه الترمذي (2853 وسنده حسن)
تخریج « سنن الترمذی/الأدب 72 (2853)، (تحفة الأشراف: 8833)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/165، 187) (صحیح) »
حدیث نمبر: 5006
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ شُرَحْبِيلَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ تَعَلَّمَ صَرْفَ الْكَلَامِ لِيَسْبِيَ بِهِ قُلُوبَ الرِّجَالِ أَوِ النَّاسِ ، لَمْ يَقْبَلِ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو کوئی باتوں کو گھمانا اس لیے سیکھے کہ اس سے آدمیوں یا لوگوں کے دلوں کو حق بات سے پھیر کر اپنی طرف مائل کر لے ، تو اللہ قیامت کے دن اس کی نہ نفل ( عبادت ) قبول کرے گا اور نہ فرض “ ۔
حوالہ حدیث سنن ابي داود / كتاب الأدب / حدیث: 5006
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: ضعيف , شیخ زبیر علی زئی: ضعيف, إسناده ضعيف, في سماع الضحاك بن شرحبيل من الصحابة نظر كما أشار المنذري رحمه اﷲ (انظر عون المعبود 459/4), انوار الصحيفه، صفحه نمبر 174
تخریج « تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 13510) (ضعیف) » ( سند میں عبداللہ بن مسیب لین الحدیث ہیں )
حدیث نمبر: 5007
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ قَالَ : " قَدِمَ رَجُلَانِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَخَطَبَا فَعَجِبَ النَّاسُ يَعْنِي لِبَيَانِهِمَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لَسِحْرًا ، أَوْ إِنَّ بَعْضَ الْبَيَانِ لَسِحْرٌ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ` دو آدمی ۱؎ پورب سے آئے تو ان دونوں نے خطبہ دیا ، لوگ حیرت میں پڑ گئے ، یعنی ان کے عمدہ بیان سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بعض تقریریں جادو ہوتی ہیں ۲؎ یعنی سحر کی سی تاثیر رکھتی ہیں “ راوی کو شک ہے کہ «إن من البيان لسحرا» کہا یا «إن بعض البيان لسحر» کہا ۔
وضاحت:
۱؎: ان دونوں آدمیوں کے نام زبرقان بن بدر اور عمرو بن اہتم تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کی آمد کا وواقعہ ۹ ھ کا ہے۔
۲؎: یہ خوبی اگر حق کی طرف پھیرنے کے لئے ہو تو ممدوح ہوتی ہے اور اگر باطل کی طرف پھیرنے کے لئے ہو تو مذموم۔
۲؎: یہ خوبی اگر حق کی طرف پھیرنے کے لئے ہو تو ممدوح ہوتی ہے اور اگر باطل کی طرف پھیرنے کے لئے ہو تو مذموم۔
حوالہ حدیث سنن ابي داود / كتاب الأدب / حدیث: 5007
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: صحيح , شیخ زبیر علی زئی: صحيح بخاري (5767), مشكوة المصابيح (4887), و للحديث شاھد حسن عند الطبراني في الكبير (1/ 240 ح 662)
تخریج « صحیح البخاری/النکاح 47 (5146)، الطب 51 (5767)، سنن الترمذی/البر والصلة 81 (2029)، (تحفة الأشراف: 6727)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/16، 59، 62، 94، 4/263) (صحیح) »
حدیث نمبر: 5008
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْبَهْرَانِيُّ ، أَنَّهُ قَرَأَ فِي أَصْلِ إِسْمَاعِيل بْنِ عَيَّاشٍ ، وَحَدَّثَهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل ابْنُهُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ :حَدَّثَنِي ضَمْضَمٌ ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ عُبَيْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو ظَبْيَةَ ، أَنَّ عَمْرَو ابْنَ الْعَاصِ ، قال يَوْمًا وَقَامَ رَجُلٌ فَأَكْثَرَ الْقَوْلَ ، فَقَالَ عَمْرٌو : " لَوْ قَصَدَ فِي قَوْلِهِ لَكَانَ خَيْرًا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : لَقَدْ رَأَيْتُ أَوْ أُمِرْتُ أَنْ أَتَجَوَّزَ فِي الْقَوْلِ ، فَإِنَّ الْجَوَازَ هُوَ خَيْرٌ " .
ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی
´ابوظبیہ کا بیان ہے کہ عمرو بن العاص نے ایک دن کہا` اور ( اس سے پہلے ) ایک شخص کھڑے ہو کر بے تحاشہ بولے جا رہا تھا ، اس پر عمرو نے کہا : اگر وہ بات میں درمیانی روش اپناتا تو اس کے لیے بہتر ہوتا ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : مجھے مناسب معلوم ہوتا ہے یا مجھے حکم ہوا ہے کہ میں گفتگو میں اختصار سے کام یعنی جتنی بات کافی ہو اسی پر اکتفا کروں اس لیے کہ اختصار ہی بہتر روش ہے ۔
حوالہ حدیث سنن ابي داود / كتاب الأدب / حدیث: 5008
درجۂ حدیث شیخ الألبانی: حسن الإسناد , شیخ زبیر علی زئی: إسناده حسن, مشكوة المصابيح (4803)
تخریج « تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10747) (حسن الإسناد) »