الفتح الربانی : «نبی کریم ﷺ کا بنوا شہل کے نوجوانوں پر اس وقت اسلام پیش کرنا ، جب وہ قریش کو اپنی قوم خزرج کی مخالفت میں اپنا حلیف بنانا چاہتے تھے ، بیچ میں سیدنا ایاس بن معاذ رضی اللہ کی منقبت اور واقعہ بعاث کا بیان»
کتب حدیثالفتح الربانیابوابباب: نبی کریم ﷺ کا بنوا شہل کے نوجوانوں پر اس وقت اسلام پیش کرنا ، جب وہ قریش کو اپنی قوم خزرج کی مخالفت میں اپنا حلیف بنانا چاہتے تھے ، بیچ میں سیدنا ایاس بن معاذ رضی اللہ کی منقبت اور واقعہ بعاث کا بیان
بَابُ مَا جَاءَ فِي عَرْضِهِ الْإِسْلَامَ عَلَى فِتْيَةِ بَنِي الأَنْهَل حِينَمَا جَاء وَا يَلْتَمِسُونَ الْحَلْفَ مِنْ قُـرَیْـشٍ عَلَى قَوْمِهِمْ مِنَ الْخَزْرَجِ وَمَنْقَبَةِ لَا يَاسِ بْنِ مُعَادٍ وَذِكْرِ وَقَعَةِ بُعَاثٍ باب: نبی کریم ﷺ کا بنوا شہل کے نوجوانوں پر اس وقت اسلام پیش کرنا ، جب وہ قریش کو اپنی قوم خزرج کی مخالفت میں اپنا حلیف بنانا چاہتے تھے ، بیچ میں سیدنا ایاس بن معاذ رضی اللہ کی منقبت اور واقعہ بعاث کا بیان
حدیث نمبر: 10599
عن محمود بن لبيد أخي بني عبد الأشهل قال لما قدم أبو الجليس أنس بن رافع مكة ومعه فتية من بني عبد الأشهل فيهم إياس بن معاذ يلتمسون الحلف من قريش على قومهم من الخزرج سمع بهم رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فأتاهم فجلس إليهم فقال لهم هل لكم إلى خير مما جئتم له قالوا وما ذاك قال أنا رسول الله بعثني إلى العباد أدعوهم إلى أن يعبدوا الله لا يشركوا به شيئا وأنزل علي كتابا ثم ذكر الإسلام وتلا عليهم القرآن فقال إياس بن معاذ وكان غلاما حدثا أي قوم هذا والله خير مما جئتم له قال فأخذ أبو جليس أنس بن رافع حفنة من البطحاء فضرب بها في وجه إياس بن معاذ وقام رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم عنهم وانصرفوا إلى المدينة فكانت وقعة بعاث بين الأوس والخزرج قال ثم لم يلبث إياس بن معاذ أن هلك قال محمود بن لبيد فأخبرني من حضره من قومي عند موته أنهم لم يزالوا يسمعونه يهلل الله ويكبره ويحمده ويسبحه حتى مات فما كانوا يشكون أن قد مات مسلما لقد كان استشعر الإسلام في ذلك المجلس حين سمع من قول رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ما سمع
ترجمہ:محمد محفوظ اعوان
۔ بنو عبد الاشہل کے بھائی سیدنا محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابو جلیس انس بن رافع مکہ مکرمہ میں آیا، اس کے ساتھ سیدنا ایاس بن معاذ رضی اللہ عنہ بھی تھے، وہ اپنی قوم خزرج کی مخالفت میں قریش کو اپنا حلیف بنانا چاہتے تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کا پتہ چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس آ کر بیٹھے اور ان سے فرمایا: جس مقصد کے لیے تم آئے ہو، کیا تم کو اس سے بہتر چیز کی رغبت ہے؟ انھوں نے کہا: وہ کون سی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں، اس نے مجھے بندوں کی طرف بھیجا ہے ، میں لوگوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس نے مجھ پر کتاب بھی نازل کی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سامنے اسلام کا ذکر کیا اور قرآن مجید کی تلاوت بھی کی۔ یہ سن کر نو عمر لڑکے ایاس بن معاذ نے کہا: اے میری قوم! جس مقصد کے لیے تم آئے ہو، اللہ کی قسم ہے، یہ چیز اس سے بہتر ہے، یہ تبصرہ سن کر ابو جلیس انس نے وادیٔ بطحاء سے ایک چلو بھرا اور ایاس بن معاذ کے چہرے پر دے مارا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس سے کھڑے ہو گئے اور وہ لوگ مدینہ کو واپس چلے گئے، جب اوس اور خزرج میں بعاث کی لڑائی واقع ہوئی تو سیدنا ایاس رضی اللہ عنہ جلد ہی اس میں فوت ہو گئے۔ سیدنا محمود بن لبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میری قوم کے جو لوگ ایاس کی موت کے وقت اس کے پاس موجود تھے، انھوں نے مجھے بتلایا کہ وہ ایاسکو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اور سُبْحَانَ اللّٰہِ کہتے ہوئے سنتے رہے، یہاں تک کہ وہ وفات پا گئے، ان لوگوں کو یقین تھا کہ وہ اسلام کی حالت میں فوت ہوئے ہیں، انھوں نے مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس سے ہی اسلام کو سمجھ لیاتھا۔
وضاحت:
فوائد: … مدینہ منورہ کے قریب ایک جگہ کا نام بعاث ہے، زمانۂ جاہلیت میں اسی مقام پر اوس اور خزرج کے درمیان ایک لڑائی ہوئی تھی، جس میں دونوں قبیلوں کے سردار وں سمیت بہت سے لوگ قتل ہو گئے۔
حوالہ حدیث الفتح الربانی / كتاب سيرة أول النبيين وخاتم المرسلين نبينا محمد بن عبد الله صلى الله عليه وآله وسلم / حدیث: 10599
درجۂ حدیث محدثین: صحیح
تخریج «اسناده حسن، أخرجه الحاكم: 3/ 180، والبيھقي في الدلائل : 2/ 420 ، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 23619 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 24018»
حدیث نمبر: 10600
عن عائشة رضي الله عنها قالت كان يوم بعاث يوما قدمه الله عز وجل لرسوله صلى الله عليه وآله وسلم فقدم رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم المدينة وقد افترق ملؤهم وقتلت سرواتهم ورفقوا لله عز وجل ولرسوله في دخولهم في الإسلام
ترجمہ:محمد محفوظ اعوان
۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: اللہ تعالیٰ نے واقعۂ بعاث کے دن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے پہلے بنا دیا تھا، اس لیے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو ان کی جماعت تتر بتر ہو چکی تھے، اس کے سردار قتل ہو چکے تھے اور انھوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لیے نرمی برتی اور اسلام میں داخل ہو گئے۔
وضاحت:
فوائد: … ان وجوہات کی بنا پر ان کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت آسان ہو گئی۔
حوالہ حدیث الفتح الربانی / كتاب سيرة أول النبيين وخاتم المرسلين نبينا محمد بن عبد الله صلى الله عليه وآله وسلم / حدیث: 10600
درجۂ حدیث محدثین: صحیح
تخریج «أخرجه البخاري: 3777، 3846، 3930 ، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 24320 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 24824»
حدیث نمبر: 10601
عن جابر بن عبد الله قال كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يعرض نفسه على الناس بالموقف فيقول هل من رجل يحملني إلى قومه فإن قريشا قد منعوني أن أبلغ كلام ربي عز وجل فأتاه رجل من همدان فقال ممن أنت فقال الرجل من همدان قال فهل عند قومك من منعة قال نعم ثم إن الرجل خشي أن يحقره قومه فأتى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فقال آتيهم فأخبرهم ثم آتيك من عام قابل قال نعم فانطلق وجاء وفد الأنصار في رجب
ترجمہ:محمد محفوظ اعوان
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (عرفات کے) موقف میں اپنے آپ کو لوگوں پر پیش کرتے اور فرماتے: کیا کوئی ایسا آدمی ہے، جو مجھے اپنی قوم کے پاس لے جائے تاکہ میں اللہ تعالیٰ کا کلام لوگوں تک پہنچا سکوں، کیونکہ قریش نے مجھے ایسا کرنے سے روک دیا ہے؟ ہمدان سے ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا: تو کس قبیلے سے ہے؟ اس نے کہا: جی میں ہمدان سے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تیری قوم کے پاس طاقت و عزت ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، لیکن پھر وہ آدمی ڈر گیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی قوم اس کو حقیر قرار دے، پس وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: میں اپنی قوم کے پاس جا رہا ہوں، ان کو یہ تفصیل بتاؤں گا اور پھر اگلے سال آپ کے پاس آؤں گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ پس وہ چلا گیا اور پھر رجب میں انصاریوں کا وفد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ گیا تھا۔
وضاحت:
فوائد: … ہمدان، یمن کا ایک قبیلہ تھا۔
حوالہ حدیث الفتح الربانی / كتاب سيرة أول النبيين وخاتم المرسلين نبينا محمد بن عبد الله صلى الله عليه وآله وسلم / حدیث: 10601
درجۂ حدیث محدثین: صحیح
تخریج «اسناده صحيح علي شرط البخاري، أخرجه ابوداود: 4734، وابن ماجه: 201، والترمذي: 2925 ، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 15192 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 15260»

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل