بَابُ التَّرْغِيْبِ فِي الْقِنَاعَةِ وَالْعِفَّةِ
باب: قناعت اور عفت کی ترغیب دلانے کابیان
حدیث نمبر: 9260
عن أبي هريرة رضي الله عنه يبلغ به النبي صلى الله عليه وآله وسلم لا ينظر إلى من فوقه في الخلق أو الخلق أو المال ولكن ينظر إلى من هو دونه
ترجمہ:محمد محفوظ اعوان
۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آدمی اس شخص کی طرف نہ دیکھے جو تخلیق میں یا اخلاق میں یا مال میں اس سے بلند رتبہ ہو، بلکہ اس کو دیکھے جو اس سے کم تر ہو۔
حوالہ حدیث الفتح الربانی / مسائل الأخلاق الحسنة وما يتعلق بها / حدیث: 9260
درجۂ حدیث محدثین: صحیح
تخریج «أخرج بنحوه البخاري: 6490، ومسلم: 2963 ، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 7319 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 7317»
حدیث نمبر: 9261
(وعنه من طريق ثان) قال قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم انظروا إلى من أسفل منكم ولا تنظروا إلى من هو فوقكم فإنه أجدر أن لا تزدروا نعمة الله قال أبو معاوية عليكم
ترجمہ:محمد محفوظ اعوان
۔ (دوسری سند) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کی طرف دیکھو جو تم سے کم تر ہے اور اس کی طرف نہ دیکھو جو تمہاری بہ نسبت بلند رتبہ ہے، اس سے زیادہ لائق ہو گا کہ تم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو حقیر نہ سمجھو، جو تم پر ہے۔
وضاحت:
فوائد: … جب آدمی دنیوی اعتبار سے اپنے سے کم تر آدمی کو دیکھے گا تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا اور نعمتوںکی قدر کو سمجھنا آسان ہو جائے گا، لیکن اگر اس نے اپنا آئیڈیل اپنے سے بالا تر لوگوں کو بنایا تو وہ اپنی زندگی میں قناعت جیسی نعمت سے محروم ہو جائے گا۔
حوالہ حدیث الفتح الربانی / مسائل الأخلاق الحسنة وما يتعلق بها / حدیث: 9261
درجۂ حدیث محدثین: صحیح
تخریج «انظر الحديث بالطريق الأول ترقیم بيت الأفكار الدولية: 7442»
حدیث نمبر: 9262
عن نافع قال كنت أتجر إلى الشام أو إلى مصر قال فتجهزت إلى العراق فدخلت على عائشة أم المؤمنين رضي الله عنها فقلت يا أم المؤمنين إني قد تجهزت إلى العراق فقالت ما لك ولمتجرك إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول إذا كان لأحدكم رزق في شيء فلا يدعه حتى يتغير له أو يتنكر له فأتيت العراق ثم دخلت عليها فقلت يا أم المؤمنين والله ما رددت رأس مال فأعادت عليه الحديث أو قالت الحديث كما حدثتك
ترجمہ:محمد محفوظ اعوان
۔ امام نافع کہتے ہیں: میں تجارت کے لیے شام یا مصر میں جاتا تھا، ایک دفعہ میں عراق کے لیے تیار ہوا اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور کہا: اے ام المؤمنین! اس دفعہ میں عراق کے لیے تیار ہوا ہوں، انھوں نے کہا: تیری پہلی تجارت کو کیا ہوا ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب ایک چیز کسی کے رزق کا سبب بنا ہوا ہو تو وہ اس کو نہ چھوڑے، یہاں تک کہ وہ چیز خود تبدیل ہو جائے۔ بہرحال میں عراق چلا گیا اور واپس آ کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور کہا: اے ام المؤمنین! اللہ کی قسم! (نفع تو کجا) میں تو اصل مال بھی واپس لے کر نہ آ سکا، سیدہ نے اس کو دوبارہ وہی حدیث بیان کی،یا کہا: حدیث تو وہی ہے، جو میں نے تجھے بیان کر دی تھی۔
وضاحت:
فوائد: … عام طور پر سمجھ دار لوگ یہی نصیحت کرتے ہیں کہ اگر کسی کا کوئی منافع بخش کاروباری سلسلہ چل رہا ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ اس کو برقرار رکھے، کئی لوگوں کو دیکھا کہ جب وہ زیادہ مال کے حرص میں اپنے کام کو تبدیل کرتے ہیں تو برکت ختم ہو جاتی ہے، ہاں اگر کوئی معقول وجہ ہو تو ایسا کر لینے میں حرج بھی کوئی نہیں ہے۔
حوالہ حدیث الفتح الربانی / مسائل الأخلاق الحسنة وما يتعلق بها / حدیث: 9262
درجۂ حدیث محدثین: ضعیف
تخریج «اسناده ضعيف، والد الضحاك: ھو مخلد بن الضحاك ضعيف لايتابع علي حديثه، والزبير بن عبيد في عداد المجاھيل، أخرجه ابن ماجه: 2148 ، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 26092 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 26620»
حدیث نمبر: 9263
عن فضالة بن عبيد رضي الله عنه أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول طوبى لمن هدي إلى الإسلام وكان عيشه كفافا وقنع
ترجمہ:محمد محفوظ اعوان
۔ سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس آدمی کے لیے خوشخبری ہے، جس کو اسلام کی طرف ہدایت دی گئی اور اس کی زندگی بقدر ضرورت روزی پر مشتمل ہو اور وہ قناعت کرے۔
وضاحت:
فوائد: … طُوْبٰی کے معانی جنت اور جنت میں ایک درخت کے بھی کیے گئے ہیں۔
مال و دولت اللہ تعالیٰ کی نعمت ِ عظمی ہے، یہ نعمت کئی نیکیاں سرانجام دینے کا سبب بنتی ہے، بہرحال اکثر و بیشتر لوگوں کی حالت کو سامنے رکھا جائے تو کہنا پڑتا ہے کہ اگر بقدر سد رمق روزی اور اس پر قناعت کرنے کی توفیق مل جائے تو اخروی انجام کے لیے وہ بہت بہتر ہے۔
عقلمند مسلمان کو چاہیے کہ وہ فقر و فاقہ کی سختیوں سے بچنے کے لیے اپنے لیے معتدل اور مناسب سا معیارِ زندگی منتخب کر لے اور زائد از ضرورت مال و دولت کے پیچھے مت پڑے، جس کا انجام خوشحالی، آسودہ حالی اور فارغ البالی ہوتا ہے اور کم لوگ ہی ایسی حالت میں ہیں کہ وہ مال و دولت کے جمع کرنے کے انجام بد سے محفوظ رہ سکے ہوں۔ بالخصوص اس پُر فتن اور ذرائع آمدن کی کثرت والے دور میں۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اس سے پناہ میں رکھے اور گرز بھر روزی عطا فرمائے۔
مگر افسوس ہے کہ آج کا مسلمان مال و دولت کے انبار کو ہی اپنے کامیابی کا راز سمجھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگوں میں قناعت اور شکر و صبر جیسی صفات مفقود ہو چکی ہیں، عام مزدور بھی اپنے رزقِ حلال پر قانع و شاکر نظر آنے کے بجائے راتوں رات کروڑ پتی بننے کے خواب میں مبتلا ہو کر بے چین نظر آتا ہے۔
مال و دولت اللہ تعالیٰ کی نعمت ِ عظمی ہے، یہ نعمت کئی نیکیاں سرانجام دینے کا سبب بنتی ہے، بہرحال اکثر و بیشتر لوگوں کی حالت کو سامنے رکھا جائے تو کہنا پڑتا ہے کہ اگر بقدر سد رمق روزی اور اس پر قناعت کرنے کی توفیق مل جائے تو اخروی انجام کے لیے وہ بہت بہتر ہے۔
عقلمند مسلمان کو چاہیے کہ وہ فقر و فاقہ کی سختیوں سے بچنے کے لیے اپنے لیے معتدل اور مناسب سا معیارِ زندگی منتخب کر لے اور زائد از ضرورت مال و دولت کے پیچھے مت پڑے، جس کا انجام خوشحالی، آسودہ حالی اور فارغ البالی ہوتا ہے اور کم لوگ ہی ایسی حالت میں ہیں کہ وہ مال و دولت کے جمع کرنے کے انجام بد سے محفوظ رہ سکے ہوں۔ بالخصوص اس پُر فتن اور ذرائع آمدن کی کثرت والے دور میں۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اس سے پناہ میں رکھے اور گرز بھر روزی عطا فرمائے۔
مگر افسوس ہے کہ آج کا مسلمان مال و دولت کے انبار کو ہی اپنے کامیابی کا راز سمجھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگوں میں قناعت اور شکر و صبر جیسی صفات مفقود ہو چکی ہیں، عام مزدور بھی اپنے رزقِ حلال پر قانع و شاکر نظر آنے کے بجائے راتوں رات کروڑ پتی بننے کے خواب میں مبتلا ہو کر بے چین نظر آتا ہے۔
حوالہ حدیث الفتح الربانی / مسائل الأخلاق الحسنة وما يتعلق بها / حدیث: 9263
درجۂ حدیث محدثین: صحیح
تخریج «اسناده صحيح، أخرجه الترمذي: 2349 ، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 23944 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 24442»
حدیث نمبر: 9264
عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه أن رجلا من الأنصار كانت له حاجة فقال له أهله ائت النبي صلى الله عليه وآله وسلم فاسأله فأتاه وهو يخطب وهو يقول من استعف أعفه الله ومن استغنى أغناه الله ومن سألنا فوجدنا له أعطيناه قال فذهب ولم يسأل
ترجمہ:محمد محفوظ اعوان
۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری آدمی کی کوئی ضرورت تھی، اس کے اہل خانہ نے اس سے کہا: تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کرو، پس وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطاب کر رہے تھے اوریہ فرما رہے تھے: جس نے پاکدامنی اختیار کی، اللہ تعالیٰ اسے پاکدامن کر دے گا اور جس نے (لوگوں سے) بے نیاز ہونا چاہا، اللہ اسے بے نیاز کر دے گا اور جس نے ہم سے سوال کیا اور ہمارے پاس کچھ ہوا تو ہم اس کو دے دیں گے۔ یہ حدیث سن کر وہ آدمی چلا گیا اور کوئی سوال نہ کیا۔
وضاحت:
فوائد: … عبادات کو مرتّب کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمان کی بسیار کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ خود کمائی کر کے اپنا نظام چلانے کی کوشش کرے اور کسی سے سوال نہ کرے، اگر آمدنی کم ہو تو قناعت اور شکر کے ذریعے اطمینان حاصل کرے اور حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کرے، لیکن شرعی حدود کو پورا کر کے۔
حوالہ حدیث الفتح الربانی / مسائل الأخلاق الحسنة وما يتعلق بها / حدیث: 9264
درجۂ حدیث محدثین: صحیح
تخریج «اسناده صحيح علي شرط مسلم، أخرجه النسائي: 5/ 98، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 10989 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 11002»