بَابُ التَّرْغِيْبِ فِي التَّوَاضُعِ وَفَضْلِهِ
باب: تواضع کی ترغیب دلانے اور اس کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 9247
حدثنا يزيد أنبأنا عاصم بن محمد عن أبيه عن ابن عمر عن عمر رضي الله عنهما (قال لا أعلمه إلا رفعه) قال يقول الله عز وجل تبارك وتعالى من تواضع لي هكذا (وجعل يزيد باطن كفيه إلى الأرض وأدناها إلى الأرض) رفعته هكذا وجعل باطن كفه إلى السماء ورفعها نحو السماء
ترجمہ:محمد محفوظ اعوان
۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جس بندے نے میرے لیے اس طرح تواضع اختیار کی، پھر یزید راوی نے ہتھیلی کو زمین کی طرف کیا اور پھر زمین کے قریب کیا، تو میں اللہ اس کو ایسے بلند کروں گا، پھر راوی نے ہتھیلی کی پشت کو آسمان کی طرف کیا اور پھر آسمان کی طرف بلند کیا۔
وضاحت:
فوائد: … کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے سامنے ہیچ ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے بلندی عطا کرنا چاہی، وہی رفعت والا ہو گا اور جس کو اللہ تعالیٰ نے ذلیل کرنا چاہا، وہی حقارت والا ہو گا، دونوں جہانوں کی ہر مخلوق اللہ تعالیٰ کے حکم کی تابع ہے، جو اس کے قریب ہوا، جس نے اس کے لیے تواضع اختیار کی، رفعت و عظمت کا ستارہ اس کے ماتھے کا جھومر بن کر رہے گا۔
تواضع کا مطلب ہے، ایک دوسرے کے ساتھ عاجزی وانکساری، نرمی و رحمدلی اور محبت و الفت سے پیش آنا، حسب و نسب یا مال و دولت کی بنیاد پر کسی کو حقیر نہ سمجھنا اور نہ کسی پر ظلم و زیادتی کرنا۔وجہ یہ ہے اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو مقام و مرتبہ، مال و دولت حسب و نسب جیسی صلاحیتوں سے نوازا ہے، تو اس کو اس پراللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے، کیونکہ ان انعامات کے حصول میں اس کی صلاحتیں کارفرما نہیں ہیں، بلکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کے احسان کا نتیجہ ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان اس کے لیے مضرّ ثابت ہو اس طرح کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو بنظر حقارت دیکھےیا ان پر ظلم و زیادتی کا ارتکاب کرنے لگے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رفعت و منزلت اور عظمت و مرتبت کے انتہائی اعلی مراتب پر فائز تھے، کسی امتی کا آپ سے کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا: {وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ} (سورۂ شعرائ: ۲۱۵) … (اے محمد!) اپنے پیروکار مومنوں سے نرمی سے پیش آؤ۔
لیکنیہ حقیقت مدنظر رہے کہ آدمی نرمی و عاجزی اختیار کرنے سے بعض دفعہ یہ سمجھتا ہے کہ اس میں اس کی ذلت ہے، ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا، کیونکہ تواضع کا نتیجہ عزت و سرفرازی کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور آخرت میں بھی اس کا حسن انجام واضح ہے کہ اسے بلند درجات سے نوازا جائے گا۔
تواضع کا مطلب ہے، ایک دوسرے کے ساتھ عاجزی وانکساری، نرمی و رحمدلی اور محبت و الفت سے پیش آنا، حسب و نسب یا مال و دولت کی بنیاد پر کسی کو حقیر نہ سمجھنا اور نہ کسی پر ظلم و زیادتی کرنا۔وجہ یہ ہے اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو مقام و مرتبہ، مال و دولت حسب و نسب جیسی صلاحیتوں سے نوازا ہے، تو اس کو اس پراللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے، کیونکہ ان انعامات کے حصول میں اس کی صلاحتیں کارفرما نہیں ہیں، بلکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کے احسان کا نتیجہ ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان اس کے لیے مضرّ ثابت ہو اس طرح کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو بنظر حقارت دیکھےیا ان پر ظلم و زیادتی کا ارتکاب کرنے لگے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رفعت و منزلت اور عظمت و مرتبت کے انتہائی اعلی مراتب پر فائز تھے، کسی امتی کا آپ سے کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا: {وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ} (سورۂ شعرائ: ۲۱۵) … (اے محمد!) اپنے پیروکار مومنوں سے نرمی سے پیش آؤ۔
لیکنیہ حقیقت مدنظر رہے کہ آدمی نرمی و عاجزی اختیار کرنے سے بعض دفعہ یہ سمجھتا ہے کہ اس میں اس کی ذلت ہے، ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا، کیونکہ تواضع کا نتیجہ عزت و سرفرازی کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور آخرت میں بھی اس کا حسن انجام واضح ہے کہ اسے بلند درجات سے نوازا جائے گا۔
حوالہ حدیث الفتح الربانی / مسائل الأخلاق الحسنة وما يتعلق بها / حدیث: 9247
درجۂ حدیث محدثین: صحیح
تخریج «اسناده صحيح علي شرط الشيخين، أخرجه البزار: 175، وابويعلي: 187 ، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 309 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 309»
حدیث نمبر: 9248
عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال من تواضع لله درجة رفعه الله درجة حتى يجعله في عليين ومن تكبر على الله درجة وضعه الله درجة حتى يجعله في أسفل السافلين
ترجمہ:محمد محفوظ اعوان
۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے ایک درجہ تواضع اختیار کی، اللہ تعالیٰ اس کو بلحاظ درجے کے اتنا بلند کرے گا کہ اس کو علیین میں لے جائے گا اور جس نے اللہ تعالیٰ پر ایک درجہ تکبر کیا، اللہ تعالیٰ اس کو درجے کے لحاظ سے اتنا پست کر دے گا کہ اس کو سب سے نیچا اور گھٹیا ترین بنا دے گا۔
حوالہ حدیث الفتح الربانی / مسائل الأخلاق الحسنة وما يتعلق بها / حدیث: 9248
درجۂ حدیث محدثین: ضعیف
تخریج «اسناده ضعيف لضعف ابن لھيعة، ولضعف رواية دراج عن ابي الھيثم، أخرجه ابن ماجه: 4176 ، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 11724 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 11747»
حدیث نمبر: 9249
عن شريح بن عبيد رضي الله عنه قال كان عتبة يقول عرباض خير مني وعرباض يقول عقبة خير مني سبقني إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم بسنة
ترجمہ:محمد محفوظ اعوان
۔ شریح بن عبید سے مروی ہے کہ سیدنا عتبہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے: سیدنا عرباض رضی اللہ عنہ مجھ سے بہتر تھے اور سیدنا عرباض رضی اللہ عنہ کہتے تھے: سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ مجھ سے بہتر تھے، وہ مجھ سے ایک سال پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے تھے۔
حوالہ حدیث الفتح الربانی / مسائل الأخلاق الحسنة وما يتعلق بها / حدیث: 9249
درجۂ حدیث محدثین: ضعیف
تخریج «اسناده ضعيف لاضطراب متنه، أخرجه الطبراني في الكبير : 17/ 293، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 17659 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 17809»
حدیث نمبر: 9250
عن معاذ بن أنس الجهني رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إنه قال من ترك أن يلبس صالح الثياب وهو يقدر عليه تواضعا لله تبارك وتعالى دعاه الله تبارك وتعالى على رءوس الخلائق حتى يخيره الله تعالى في حلل الإيمان أيتهن شاء
ترجمہ:محمد محفوظ اعوان
۔ سیدنا معاذ بن انس جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے تواضع کرتے ہوئے اچھا لباس نہیں پہنا، حالانکہ وہ اس کی قدرت رکھتا تھا، تو اللہ تعالیٰ اس کوبھی ساری مخلوقات کے سامنے بلائے گا اور اسے یہ اختیار دے گا کہ وہ ایمان کی جو پوشاک پسند کرتا ہے، وہ پہن لے۔
وضاحت:
فوائد: … اس حدیث ِ مبارکہ کا مفہوم سمجھنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے ساتھ حقیقی اور گہرے تعلق کی ضرورت ہے، آپ ذیل میں پیش کی گئی بحث پر توجہ کریں، ممکن ہے اس حدیث کی فقہ سمجھ آ جائے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کنگھی کی بھی ہے اور بالوں کو اچھی طرح سنوارنے کا حکم بھی دیا ہے، لیکنیہ بھی حکم دے دیا کہ کوئی آدمی ہر روز کنگھی نہ کرے، یہی معاملہ لباس کا ہے۔
مقصودِ شریعتیہ ہے کہ مسلمان نہ تو ایسا ہو کہ ہفتوں تک نہانے اوربالوں کو سنوارنے کا اہتمام نہ کرے اور بالآخر اپنی حیثیت کو نہ سمجھنے والا قابل نفرت شخص بن جائے اور نہ ایسا ہو کہ ہر روز اور ہروقت اپنی ظاہری ٹیپ ٹاپ پر توجہ مرکوز رکھے، کیونکہ ہر وقت کی خوشحالی، آسودگی اور خوش عیشی بھی انسان کے مزاج میں فساد پیدا کر دیتی ہے اور وہ غرور و تکبر میںمبتلا ہو جاتا ہے اور کم صفائی رکھنے والے یا سادہ زندگی گزارنے والوں سے نفرت کرنے لگتا ہے یا کم از کم یہ ہوتا ہے کہ سادگی کی اہمیت اور فوائد کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔
ایک دن صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دنیا کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ((اَلَا تَسْمَعُوْنَ؟ اَلَا تَسْمَعُوْنَ؟ اِنَّ الْبَذَاذَۃَ مِنَ الْاِیْمَانِ۔)) … کیا تم نہیں سنتے؟ کیاتم نہیں سنتے؟ کہ سادگی ایمان کا حصہ ہے۔ (ابوداود: ۴۱۶۱)
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ عمدہ لباس کے ساتھ ساتھ سادہ لباس کو بھی ترجیح دینی چاہیے اور مرغوب، لذیذ اور انواع و اقسام کی خوراک کے مقابلے میں روکھی سوکھی اور سادہ خوراک بھی استعمال کرنی چاہیے، کیونکہ دنیا کی آسائشوں اور سہولتوں میں الجھنے کی وجہ سے آخرت کا دھیان کم پڑ جاتا ہے اور تکلفات سے اجتناب کرنے کی صورت میں توجہ آخرت کی طرف رہتی ہے۔ لیکنیہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ پاکیزگی، صفائی اور طہارت کا اہتمام کرنا اور چیز ہے اور عمدہ
اور قیمتی لباس کا اہتمام کرنا اور چیز ہے۔ سادگی، صفائی کی متضاد چیز نہیں ہے۔
اس کی دوسری مثال یوں سمجھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی جوتا استعمال کیا ہے اور اس کو پہننے کی ترغیب بھی دلائی ہے، لیکن ننگے پاؤں چلنے کا حکم بھی دیا ہے۔ غور کریں کہ قیمتی اور خوبصورت جوتا پہننے سے انسان کے جذبات کا کیا حال ہوتا ہے، ننگے پاؤں چل کر ان جذبات کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ درج ذیل حدیث سے اس مسئلہ کی توضیح ہو جائے گی۔
سیدنا معاذ بن انس جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ تَرَکَ اللِّبَاسَ تَوَاضُعًا لِلّٰہِ وَھُوَ یَقْدِرُ عَلَیْہِ، دَعَاہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی رُؤُوْسِ الْخَلَائِقِ حَتّٰییُخَیِّرَ مِنْ أَیِّ حُلَلِ الإِیْمَانِ شَائَ یَلْبَسُھَا۔)) … جس شخص نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے تواضع کے طورپر عمدہ لباس پہننا چھوڑ دیا، درآن حالیکہ وہ اس کی طاقت رکھتا تھا، تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کے سامنے اسے بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ ایمان کے جوڑوں میں سے جو جوڑا پسند کرے، پہن لے۔ (ترمذی، صحیحہ:۷۱۸) بات سمجھانے کے لیے حدیث دوبارہ پیش کی ہے۔
اس حدیث میں تواضع کی اور دوسروں پر برتری نہ جتلانے کی فضیلت ہے۔ ایمان کے جوڑے سے مراد، جنت کے وہ اعلی جوڑے ہیں، جو صرف اہل ایمان کو پہنائے جائیں گے۔
اگر درج ذیل احادیث پر غور کیا جائے تو سادگی سے متعلقہ گزارشات کو آسانی سے سمجھا جا سکے گا: سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ((کَانَ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَرْکَبُ الْحِمَارَ وَیَخْصِفُ النَّعْلَ وَیَرْقَعُ الْقَمِیْصَ وَیَقُوْلُ: ((مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنَّیْ۔)) (الصحیحۃ: ۲۱۳۰، و رواہ أبو الشیخ:۱۲۸، والسھمی فی تاریخ جرجان:۳۱۵) … آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گدھے پر سوار ہوتے تھے، جوتاسلائی کر تے تھے اور قمیص کو خود ہی پیوند لگا لیا کرتے تھے اور فرماتے تھے: جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ((مَا اسْتَکْبَرَ مَنْ أکَلَ مَعَہُ خَادِمُہُ وَرَکِبَ الْحِمَارَ بِالأسْوَاقِ، وَاعْتَقَلَ الشَّاۃَ فَحَلَبَھَا۔)) (الصحیحۃ: ۲۲۱۸، البخاری فی الأدب المفرد:۵۵۰، و الدیلمی: ۴/۳۳) … وہ شخص متکبر نہیں ہے،جس کے ساتھ اُس کے خادم نے کھانا کھایااور وہ بازاروں میں گدھے پر سوارہوا اوربکری کی ٹانگ کو اپنی ٹانگ میں پھنسا کر اس کو دوہا۔
بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے کوئی چیز اٹھانے میںیا کوئی کام کرنے میںیا اپنے سے کم مرتبہ آدمی کی خدمت کرنے میںیا ردّی سواری استعمال کرنے میں ہتک محسوس کرتے ہیں۔ یہی وہ مزاج ہے، جس کو شریعت کچلنا چاہتی ہے، اسی مقصد کے لیے مندرجہ بالا احادیث بیان کی گئی ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کنگھی کی بھی ہے اور بالوں کو اچھی طرح سنوارنے کا حکم بھی دیا ہے، لیکنیہ بھی حکم دے دیا کہ کوئی آدمی ہر روز کنگھی نہ کرے، یہی معاملہ لباس کا ہے۔
مقصودِ شریعتیہ ہے کہ مسلمان نہ تو ایسا ہو کہ ہفتوں تک نہانے اوربالوں کو سنوارنے کا اہتمام نہ کرے اور بالآخر اپنی حیثیت کو نہ سمجھنے والا قابل نفرت شخص بن جائے اور نہ ایسا ہو کہ ہر روز اور ہروقت اپنی ظاہری ٹیپ ٹاپ پر توجہ مرکوز رکھے، کیونکہ ہر وقت کی خوشحالی، آسودگی اور خوش عیشی بھی انسان کے مزاج میں فساد پیدا کر دیتی ہے اور وہ غرور و تکبر میںمبتلا ہو جاتا ہے اور کم صفائی رکھنے والے یا سادہ زندگی گزارنے والوں سے نفرت کرنے لگتا ہے یا کم از کم یہ ہوتا ہے کہ سادگی کی اہمیت اور فوائد کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔
ایک دن صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دنیا کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ((اَلَا تَسْمَعُوْنَ؟ اَلَا تَسْمَعُوْنَ؟ اِنَّ الْبَذَاذَۃَ مِنَ الْاِیْمَانِ۔)) … کیا تم نہیں سنتے؟ کیاتم نہیں سنتے؟ کہ سادگی ایمان کا حصہ ہے۔ (ابوداود: ۴۱۶۱)
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ عمدہ لباس کے ساتھ ساتھ سادہ لباس کو بھی ترجیح دینی چاہیے اور مرغوب، لذیذ اور انواع و اقسام کی خوراک کے مقابلے میں روکھی سوکھی اور سادہ خوراک بھی استعمال کرنی چاہیے، کیونکہ دنیا کی آسائشوں اور سہولتوں میں الجھنے کی وجہ سے آخرت کا دھیان کم پڑ جاتا ہے اور تکلفات سے اجتناب کرنے کی صورت میں توجہ آخرت کی طرف رہتی ہے۔ لیکنیہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ پاکیزگی، صفائی اور طہارت کا اہتمام کرنا اور چیز ہے اور عمدہ
اور قیمتی لباس کا اہتمام کرنا اور چیز ہے۔ سادگی، صفائی کی متضاد چیز نہیں ہے۔
اس کی دوسری مثال یوں سمجھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی جوتا استعمال کیا ہے اور اس کو پہننے کی ترغیب بھی دلائی ہے، لیکن ننگے پاؤں چلنے کا حکم بھی دیا ہے۔ غور کریں کہ قیمتی اور خوبصورت جوتا پہننے سے انسان کے جذبات کا کیا حال ہوتا ہے، ننگے پاؤں چل کر ان جذبات کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ درج ذیل حدیث سے اس مسئلہ کی توضیح ہو جائے گی۔
سیدنا معاذ بن انس جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ تَرَکَ اللِّبَاسَ تَوَاضُعًا لِلّٰہِ وَھُوَ یَقْدِرُ عَلَیْہِ، دَعَاہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی رُؤُوْسِ الْخَلَائِقِ حَتّٰییُخَیِّرَ مِنْ أَیِّ حُلَلِ الإِیْمَانِ شَائَ یَلْبَسُھَا۔)) … جس شخص نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے تواضع کے طورپر عمدہ لباس پہننا چھوڑ دیا، درآن حالیکہ وہ اس کی طاقت رکھتا تھا، تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کے سامنے اسے بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ ایمان کے جوڑوں میں سے جو جوڑا پسند کرے، پہن لے۔ (ترمذی، صحیحہ:۷۱۸) بات سمجھانے کے لیے حدیث دوبارہ پیش کی ہے۔
اس حدیث میں تواضع کی اور دوسروں پر برتری نہ جتلانے کی فضیلت ہے۔ ایمان کے جوڑے سے مراد، جنت کے وہ اعلی جوڑے ہیں، جو صرف اہل ایمان کو پہنائے جائیں گے۔
اگر درج ذیل احادیث پر غور کیا جائے تو سادگی سے متعلقہ گزارشات کو آسانی سے سمجھا جا سکے گا: سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ((کَانَ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَرْکَبُ الْحِمَارَ وَیَخْصِفُ النَّعْلَ وَیَرْقَعُ الْقَمِیْصَ وَیَقُوْلُ: ((مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنَّیْ۔)) (الصحیحۃ: ۲۱۳۰، و رواہ أبو الشیخ:۱۲۸، والسھمی فی تاریخ جرجان:۳۱۵) … آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گدھے پر سوار ہوتے تھے، جوتاسلائی کر تے تھے اور قمیص کو خود ہی پیوند لگا لیا کرتے تھے اور فرماتے تھے: جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ((مَا اسْتَکْبَرَ مَنْ أکَلَ مَعَہُ خَادِمُہُ وَرَکِبَ الْحِمَارَ بِالأسْوَاقِ، وَاعْتَقَلَ الشَّاۃَ فَحَلَبَھَا۔)) (الصحیحۃ: ۲۲۱۸، البخاری فی الأدب المفرد:۵۵۰، و الدیلمی: ۴/۳۳) … وہ شخص متکبر نہیں ہے،جس کے ساتھ اُس کے خادم نے کھانا کھایااور وہ بازاروں میں گدھے پر سوارہوا اوربکری کی ٹانگ کو اپنی ٹانگ میں پھنسا کر اس کو دوہا۔
بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے کوئی چیز اٹھانے میںیا کوئی کام کرنے میںیا اپنے سے کم مرتبہ آدمی کی خدمت کرنے میںیا ردّی سواری استعمال کرنے میں ہتک محسوس کرتے ہیں۔ یہی وہ مزاج ہے، جس کو شریعت کچلنا چاہتی ہے، اسی مقصد کے لیے مندرجہ بالا احادیث بیان کی گئی ہیں۔
حوالہ حدیث الفتح الربانی / مسائل الأخلاق الحسنة وما يتعلق بها / حدیث: 9250
درجۂ حدیث محدثین: صحیح
تخریج «حديث حسن، أخرجه الطبراني في الكبير : 20/ 451 ، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 15619 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 15704»
حدیث نمبر: 9251
عن أبي هريرة رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال وما تواضع أحد إلا رفعه الله عز وجل
ترجمہ:محمد محفوظ اعوان
۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اور جس نے بھی تواضع اختیار کی، اللہ تعالیٰ اس کو بلند کر دے گا۔
حوالہ حدیث الفتح الربانی / مسائل الأخلاق الحسنة وما يتعلق بها / حدیث: 9251
درجۂ حدیث محدثین: صحیح
تخریج «أخرجه مسلم: 2588 ، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 9008 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 8996»