فضائل اعمال ، صدقہ

تالیف : ابوعمار عمر فاروق سعیدی حفظ اللہ صدقہ کی فضیلت فرشتوں کی دعائیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہےکہ : مَا مِنْ يَوْمٍ يُصْبِحُ الْعِبَادُ فِيهِ، إِلَّا مَلَكَانِ يَنْزِلَانِ، فَيَقُولُ أَحَدُهُمَا: اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، وَيَقُولُ الْآخَرُ اللَّهُمَّ: أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا ”ہر دن جب لوگ صدقہ کرتے ہیں تو دو فرشتے اترتے ہیں ایک کہتا ہے : اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو نعم البدل عنایت فرما، اور دوسرا کہتا ہے : اے اللہ ! خرچ کرنے والے ( بخیل ) کا مال ضائع کر دے ! “ [صحيح بخاري مسلم2336] صدقہ کی اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ : لَا يَتَصَدَّقُ أَحَدٌ بِتَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ، إِلَّا أَخَذَهَا اللَّهُ بِيَمِينِهِ، فَيُرَبِّيهَا…

Continue Reading

زیورات کی زکوٰۃ

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ سوال : ایک عورت کے پاس اتنا سونا ہے جو نصاب کو پہنچ چکا ہے۔ اسے سعودی کرنسی میں کس مقدار سے زکوٰۃ ادا کرنا ہو گی ؟ جواب : اسے ہر سال سونے کا کاروبار کرنے والوں یا دوسرے لوگوں سے زیر استعمال ایک قیراط کی قیمت معلوم کرنی چاہئیے۔ جب اسے سعودی ریال میں حاضر وقت قیراط کی قیمت معلوم ہو جائے تو اس کی قیمت کی زکوٰۃ ادا کرے، اسے راس المال جاننے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وجوب زکوٰۃ کے وقت اس کے مساوی پر عمل ہو گا۔

Continue Reading

مجاہدین کو زکوٰۃ دینا

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ سوال : ایک قابل اعتماد شخص کا کہنا ہے کہ وہ زکوٰۃ کا مال ایک ایسے معتمد علیہ عالم کے پاس پہنچا سکتا ہے جو اسے مجاہدین تک پہنچا دے، کیا میں اس طرح اپنے سونے کی زکوٰۃ ادا کر سکتی ہوں ؟ یا اس سے بہتر بھی کوئی راستہ ہے ؟ میرے لئے مستحق لوگوں کی تلاش مشکل ہے۔ جواب : مجاہدین کو زکوٰۃ دینا درست ہے، ممتاز علماء کا فتویٰ یہی ہے اور یہ اس لئے کہ مجاہدین اسلام، کفار اور سخت ترین اعداء دین کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ اگر کوئی قابل اعتماد شخص اموال زکوٰۃ مجاہدین تک پہنچا سکے یا کسی ایسے شخص کے حوالے کر سکے جو اسے مجاہدین تک پہنچا دے گا تو زکوٰۃ کا مال ایسے شخص کے حوالے کر دینا جائز ہوگا۔ زکوٰۃ ادا کرنے والا اپنی ذمہ داری…

Continue Reading

گھریلو استعمال کے خاص برتنوں میں زکوٰۃ نہیں ہے

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ سوال : میرے پاس گھریلو استعمال کے لئے بہت سے برتن ہیں، ان میں سے کچھ تو روزانہ کے استعمال کے لئے ہیں جبکہ کچھ عام مسمانوں کے لئے، اور کچھ خاص تقریبات کے لئے ہیں، اور یہ بہت زیادہ ہیں۔ میں برتن ادھار یا کرائے پر لینے کی بجائے انہی برتنوں کو استعمال کرتی ہوں، کیونکہ بیرونی برتن گندے اور پرانے ہونے کی وجہ سے میری سوسائٹی میں ناقابل استعمال ہوتے ہیں۔ میں یہ برتن گھر پر الماریوں میں سنبھال کر رکھتی ہوں اور بوقت ضرورت اپنے قریبی رشے داروں اور ہمسائیوں کے ساتھ تعاون کی غرض سے انہیں عاریتاً فراہم کرتی ہوں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ میں نے عورتوں کے ایک اجتماع میں ایک خاتون سے سنا وہ کہہ رہی تھی کہ انسان کا تمام سامان کے بارے…

Continue Reading

ماں کو زکوۃ دینا

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ سوال : کیا کوئی شخص اپنی ماں کو زکوٰۃ دے سکتا ہے ؟ جواب : مسلمان شخص اپنے والدین یا اولاد کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا۔ اگر وہ صاحب استطاعت ہے تو اپنے ضرورت مند والدین اور بچوں پر اپنے ذاتی مال سے خرچ کرے۔ وبالله التوفيق  

Continue Reading

عورت غریب و مقروض خاوند کو زکوٰۃ دے سکتی ہے

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ سوال : ایک عورت کا خاوند ملازم ہے، چار ہزار ریال تنخواہ پاتا ہے مگر تیس ہزار کا مقروض ہے کیا وہ اسے زکوٰۃ دے سکتی ہے ؟ جواب : عام دلائل کی رو سے، علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق اگر عورت اپنے زیورات یا غیر زیورات کی زکوٰۃ اپنے غریب یا مقروض خاوند (جو ادائیگی قرض کی طاقت نہ رکھتا ہو) کو دینا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس کی ایک دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی ہے : إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ [9-التوبة:60] ”صدقات (زکوٰۃ) فقراء و مساکین کے لئے ہیں۔ ‘‘ وبالله التوفيق  

Continue Reading

بیوی کی طرف سے خاوند کا زکوٰۃ ادا کرنا اور بھانجے کو زکوٰۃ دینا

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ سوال : کیا میری طرف سے میرا خاوند زکوٰۃ ادا کر سکتا ہے ؟ جبکہ یہ خاوند ہی کا دیا ہوا مال ہے۔ نیز کیا میں اپنے یتیم اور نوجوان بھانجے کو زکوۃ دے سکتی ہوں، جبکہ وہ شادی کی فکر میں ہے ؟ جواب : اگر آپ کا مال سونے، چاندی یا دیگر اموال زکوٰۃ میں سے نصاب یا اس سے زائد مقدار کو پہنچ چکا ہے تو اس کی زکوٰۃ ادا کرنا آپ پر واجب ہے۔ اگر آپ کا خاوند آپ کی اجازت (و مشاورت) سے زکوٰۃ ادا کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح آپ کی طرف سے آپ کا باپ، بھائی یا کوئی اور شخص آپ کی اجازت سے زکوٰۃ ادا کر دے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ اگر آپ کا بھانجا شادی کرنا…

Continue Reading

احکام عیدالفطر

 

176۔ عید الفطر :
عید الفطر کے دن صوم رکھنا جائز نہیں ہے۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صوم يوم الفطر و النحر . [صحيح البخاري : كتاب الصيام، باب 66 صوم يوم الفطر ]
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطر اور قربانی کے دن صوم سے منع فرمایا۔ “
اگر مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے 29 ویں رمضان کو عید کا چاند نظر نہ آئے، اور رویت کی کوئی معتبر شہادت بھی نہ مل سکے تو اس دن صوم رکھا جائے گا البتہ زوال سے پہلے اگر کوئی معتبر شہادت مل جائے تو افطار کر لینا چاہئے اور اسی دن عید کی صلاۃ پڑھ لینی چاہئے اور اگر چاند دیکھنے کی شہادت آفتاب ڈھلنے کے بعد ملے تو صوم افطار کر لینا چاہئے لیکن عید کی صلاۃ دوسرے دن پڑھنی چاہئے۔

177۔ مسنونات عید :

غسل کرنا، عمدہ سے عمدہ کپڑے پہننا، عید گاہ جاتے وقت بلند آواز سے تکبیر کہنا، پیدل عیدگاہ جانا، ایک راستہ سے جانا اور دوسرے راستہ سے واپس آنا، طاق کھجوریں یا چھوہارے یا کوئی دوسری میٹھی چیز کھا کر عیدگاہ جانا۔

178۔ صلاۃ العید :
عید کی صلاۃ سنت مؤکدہ ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس کو ترک نہیں فرمایا۔ اس کا و قت طلوع آفتاب کے بعد سے لے کر زوال کے کچھ پہلے تک رہتا ہے۔ صلاۃ العید میں اذان اور اقامت نہیں ہے، صلاۃ العید سے پہلے یا بعد میں عیدگاہ میں صلاۃ نافلہ پڑھنے کا کوئی ثبوت نہیں۔ اسی طرح صلاۃ سے پہلے خطبہ اور وعظ کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے، عورتوں کو عیدگاہ لے جانا سنت ہے۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يخرج الأبكار و العواتق وذوات الخدور و الحيض فى العيدين فأما الحيض فيعتزلن المصلي ويشهدن دعوة المسلمين قالت إحداهن يا رسول الله صلى الله عليه وسلم إن لم يكن لهاجلباب قال : فلتعرها اختهامن جلبابها [سنن الترمذي : كتاب الصلوٰة، باب38، خروج النساء فى العيدين ]
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باکرہ، نو عمر، پردہ نشین اور حائضہ عورتوں کو عیدین میں لے جایا کرتے تھے، رہیں حائضہ عورتیں تو وہ مصلی (جائے صلاۃ) سے تو الگ رہیں گی لیکن مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں گی۔ ایک عورت نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! اگر اس (عورت )کے پاس چادر نہ ہو تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی بہن اس کو اپنی چادر عاریۃً دے دے “۔
اور صحیح مسلم میں ہے۔ ام عطیہ کہتی ہیں : كنانؤمر (الحدیث) یعنی ہمیں اللہ کے رسول عورتوں کو عیدگاہ میں لے جانے کا حکم دیتے تھے۔

179۔ صلاۃ عید کاطریقہ :
صلاۃ العیدین کا طریقہ عام صلاۃ ہی کی طرح ہے، البتہ پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے بعد دعاء ثنا سے پہلے سات اور دوسری رکعت میں قراء ت سے پہلے پانچ تکبیریں زائد کہی جاتی ہیں، جنہیں تکبیر زوائد کہتے ہیں، تکبیر زوائد کے ساتھ رفیع الیدین کسی صحیح اور مرفوع حدیث سے ثابت نہیں۔

180۔ شوال کے صوم :

رمضان کے بعد شوال میں چھ صوم رکھنے کی بڑی فضیلت ہے :
(more…)

Continue Reading

رمضان سے متعلق چند اہم مسائل (11)

130۔ صلاۃ عید ترک کرنے کا حکم :
——————

سوال : کیا مسلمان کے لئے بغیر عذر صلاۃِ عید سے پیچھے رہنا جائز ہے ؟ کیا عورتوں کو مردوں کے ساتھ عید کی ادائیگی سے روکنا جائز ہے ؟
جواب : اکثر اہل علم کے نزدیک صلاۃ عید فرض کفایہ ہے۔ بعض افراد کا اس سے پیچھے رہنا جائز ہے، لیکن آدمی کا اس میں حاضر ہونا اور اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ شریک ہونا سنتِ مؤکدہ ہے، بغیر عذر شرعی اس کا چھوڑنا مناسب نہیں ہے۔ اور بعض علماء کا مذہب یہ ہے کہ صلاۃ عید، صلاۃ جمعہ کی طرح فرض عین ہے۔ لہٰذا کسی مکلف آزاد مقیم مرد کے لئے اس سے پیچھے رہنا جائز نہیں ہے۔ دلیل کے لحاظ سے یہ قول زیادہ نمایاں ہے۔
عورتوں کے لئے پردہ کے اہتمام اور خوشبو سے اجتناب کے ساتھ صلاۃِ عید میں شریک ہو نا مسنون ہے۔ جیسا کہ صحیحین میں ام عطیہ رضی اللہ عنہاسے ثابت ہے۔ انہوں نے کہا:
أمرنا أن نخرج فى العيدين العواتق والحيض، ليشهدن الخير ودعوة المسلمين، وتعتزل الحيض المصلي [صحيح: صحيح بخاري، الحيض 6 باب شهود الحائض العيدين ودعوة المسلمين …. 26 رقم 324 والصلاة 8 باب وجوب الصلاة فى الثيا ب … 2 رقم 351 والعيدين 13 باب التكبير أيام مني 12 رقم 971 وباب خروج النساء والحيض إلى المصلي 15 رقم 974 وباب إذا لم يكن لها جلباب فى العيد 20 رقم 980 وباب اعتزال الحيض المصلي 21 رقم 981، والحج 25 باب تقضي الحائض المناسك كلها إلا الطواف با لبيت 81 رقم 1652،صحيح مسلم، صلاة العيدين 8 باب ذكر إباحة خروج النساء فى العيدين إلى المصلي 1 رقم 10، 12، 890]
” ہمیں اس بات کا حکم دیا گیاکہ ہم عیدین میں دوشیزہ اور حائضہ عورتوں کو گھر سے نکال کر عیدگاہ لے جائیں، تاکہ وہ خیر اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں۔ البتہ حائضہ عورتیں مقام صلاۃ سے الگ رہیں “۔
اور حدیث کے بعض الفاظ میں یوں ہے :
فقالت إحداهن يا رسول الله صلى الله عليه وسلم لاتجد إحداناجلباباتخرج فيه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لتلبسها أختها من جلبابها [صحيح: صحيح بخاري، الحيض 6 باب شهود الحائض العيدين ودعوة المسلمين 24 رقم 324 بروايت أم عطيه رضي الله عنها، والصلاة 8 باب وجوب الصلاة فى الثياب 2 رقم 351 والعيدين 13 باب إذا لم يكن لها جلباب فى العيد 20 رقم 980 والحج 25 باب تقضي الحائض المناسك كلها إلا الطواف با لبيت 81 رقم 1652، صحيح مسلم، صلاة العيدين 7 باب ذكر إباحة خروج النساء فى العيدين 1 رقم 12، 890]
’’ ان میں سے ایک عورت نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! اگر ہم میں سے کوئی عورت چادر نہ پائے جس کو اوڑھ کر نکلے ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی بہن اپنی چادر میں سے کچھ حصہ اسے پہنا دے “۔
بلاشبہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں کا صلاۃ عیدین کے لئے نکلنا مؤکّد ہے، تاکہ وہ خیر اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہیں۔
اور توفیق دینے والا اللہ تعالیٰ ہے۔
’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “

(more…)

Continue Reading

زکوٰۃ ادا کرنے سے قبل سونا فروخت کرنے کا حکم

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ سوال : کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنا زیر استعمال سونا فروخت کر دیا، جبکہ میں نے اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی تھی۔ اب اس کی زکوٰۃ کیسے ادا ہو گی ؟ معلوم ہونا چاہئیے کہ میں نے وہ زیور چار ہزار ریال میں فروخت کیا تھا۔ جواب : اگر آپ کو سونا فروخت کرنے کے بعد اس پر وجوب زکوٰۃ کا علم ہوا ہے تو اس صورت میں آپ پر کوئی حرج نہیں ہے اور اگر (فروخت سے پہلے) آپ کو اس مسئلے کا علم تھا تو اس رقم میں سے ریٹ (اڑھائی فیصد) سالانہ کے حساب سے زکوٰۃ ادا کریں، اسی طرح گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ بھی مارکیٹ میں سونے کی قیت کے حساب سے ادا کرنا پڑے گی۔ آپ معروف کرنسی کے ساتھ 4/10 یعنی اڑھائی فیصد…

Continue Reading

ہیرے جواہرات کے جڑاؤ والے زیورات پر زکوٰۃ

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ سوال : ایسے زیورات کی زکوٰۃ کس طرح ادا ہو گی جو خالص سونے کے نہیں بلکہ کئی طرح کے ہیرے، جواہرات اور نگینوں سے مرصع ہوں ؟ کیا سونے کے ساتھ ان ہیرے جواہرات کا وزن بھی شمار ہو گا ؟ کیونکہ انہیں اس سے الگ کرنا مشکل ہے۔ جواب : سونا ہی وہ (اصل) چیز ہے کہ جس پر زکوٰۃ ہے اگرچہ وہ پہننے، کے لئے ہی ہو۔ ہیرے، جواہرات، موتیوں اور نگینوں پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ اگر زیورات سونے اور ہیرے جواہرات کے جڑاؤ والے ہوں تو عورت، اس کے خاوند یا اس کے دیگر سرپرستوں کو چاہئیے کہ وہ انتہائی احتیاط سے سونے کا اندازہ کریں یا تجربہ کار لوگوں سے ان کی راۓ معلوم کریں، اس بارے میں طن غالب معتبر ہو گا۔ ظن غالب کی…

Continue Reading

زیوارت پر زکوٰۃ

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : کیا اس سونے پر زکوٰۃ فرض ہے جسے عورت صرف اپنی زیب و زینت اور استعمال کے لئے سنبھال رکھتی ہے اور وہ تجارتی مقاصد کے لئے نہیں ہے ؟
جواب : زیورات اگر تجارتی مقاصد کے لئے نہ ہوں تو ان پر وجوب زکوٰۃ کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ اگرچہ ایسے زیورات محض زیب و زینت کے لئے ہوں، پھر بھی ان پر زکوۃ واجب ہے۔ سونے کا نصاب بیس مثقال ہے۔ جس کا وزن ٹھیک بانوے گرام (ساڑھے سات تولے) ہے اگر زیور (سونا) اس سے کم مقدار میں ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں، ہاں زیورات اگر تجارت کے لئے ہوں تو ان میں مطلق طور پر زکوٰۃ فرض ہے، بشرطیکہ ان کی قیمت نصاب کو پہنچ جائے۔ چاندی کا نصاب ایک سو چالیس مثقال ہے، جس کی مقدار چھپن سعودی ریال ہے۔ اگر چاندی کے زیورات اس سے کم ہوں تو ان میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ البتہ تجارت کے لئے ہوں اور ان کی قیمت نصاب کو پہنچ جائے تو ان میں مطلق طور پر زکوٰۃ فرض ہے۔
استعمال کے لئے تیار کئے گئے سونے اور چاندی کے زیورات پر زکوٰۃ فرض ہونے کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمومی ارشار ہے :
ما من صاحب ذهب ولا فضة لا يؤدى زكاتها إلا إذا كان يوم القيامة صفحت له صفائح من نار فيكوي بها جنبه وجبينهٔ و ظهرهٔ [رواه مسلم كتاب الزكاة حديث : 2]
”سونے اور چاندی کا کوئی بھی مالک جو اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا قیامت کے دن اس حالت میں ہو گا کہ اس کے لئے آگ کی چوڑی پتریاں بچھائی جائیں گی، پھر ان سے اس کے پہلو، پیشانی اور پیٹھ پر داغ دئیے جائیں گے۔ “
نیز عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس کی بیٹی کے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا !
”کیا تم اس کی زکوٰۃ دیتی ہو ؟“ اس نے جواباً عرض کیا : ”نہیں “ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ايسرك أن يسورك الله بهما يوم القيامة سوارين من نار، فألقتهما وقالت : هما لله ورسوله [سنن أبى داؤد و سنن نسائى بإسناد حسن] (more…)

Continue Reading

سبزیوں پر زکوۃ (عشر)

تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری

سوال : کیا سبزیوں پر زکوۃ (عشر) ہے ؟
جواب : سبزیوں پر زکوۃ (عشر) واجب نہیں ہوتی۔
اس پر دلائل ملاحظہ فرمائیں :
اجماع امت :
اہلِ علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ سبزیوں پر زکوٰۃ (عشر) واجب نہیں، جیسا کہ :
◈ امام ابوعبید قاسم بن سلام فرماتے ہیں :
فالعلماء اليوم مجمعون من أهل العراق، والحجاز، والشام على أن لا صدقة فى قليل الخضر ولا فى كثيرها، إذا كانت فى أرض العشر
”عراق، حجاز اور شام کے اہلِ علم آج اس بات پر متفق ہیں کہ سبزیاں کم ہوں یا زیادہ، اگر وہ عشر والی زمین میں ہوں، تو ان پر کوئی زکوٰۃ نہیں۔“ [كتاب الأموال : 502 ]
◈ نیز اس سلسلے میں امام مالک رحمہ اللہ کا قول ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
وكذٰلك قول سفيان، وأهل العراق جميعا، غير أبى حنيفة، فانه قال: فى قليل ما تخرج الارض وكثيره الصدقة … وخالفه اصحابه، فقالوا كقول الاخرين، وعليه الآثار كلها، وبه تعمل الامة اليوم
”امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اور تمام اہل عراق کا یہی موقف ہے، سوائے امام ابو حنیفہ کے کہ ان کے بقول زمین کی پیداوار کم ہو یا زیادہ، اس میں زکوٰۃ ہو گی… امام صاحب کے شاگردوں نے بھی اس سلسلے میں ان کی مخالفت کی ہے اور باقی تمام اہل علم کے موافق فتویٰ دیا ہے۔ تمام آثار بھی یہی بتاتے ہیں۔ اور آج تمام اُمت کا عمل بھی اسی پر ہے (کہ سبزیوں پر زکوٰۃ نہیں)۔“ [كتاب الأموال : 501 ]
◈ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والعمل على هذا عند اهل العلم انه ليس فى الخضراوات صدقة
”اہل علم کے ہاں عمل اسی بات پر ہے کہ سبزیوں پر کوئی زکاۃ نہیں ہے۔“ [سنن الترمذي : 638 ]
اس کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں۔
(more…)

Continue Reading

زکوٰۃ کے انفرادی اور اجتماعی فوائد

 تحریر:الشیخ الفقیہ ابن العثیمین رحمہ اللہ اسلام کاتیسرا بنیادی رکن زکوٰۃ ہے ۔ صحیح طریقے سے مستحقین تک زکوٰۃ پہنچانے والے کو درج ذیل انفرادی و اجتماعی  حکمتیں اور فائدے حاصل ہوتے ہیں: ۱:        بندے کے اسلام کا اتمام و اکمال ؛ کیونکہ یہ (زکوٰۃ) ارکانِ اسلام میں سے ہے ، لہٰذا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ہر مسلمان کا عظیم مقصد ہے ، پس ہر مسلمان شخص اپنے دین کے اکمال کے لئے کوشاں رہتا ہے ۔ ۲:        یہ زکوٰۃ دینے والے کے صدق و ایمان کی دلیل ہے ، اس لئے کہ مال دلوں کو بہت پیارا ہوتا ہے اور پیاری و محبوب چیز صرف اسی صورت میں خرچ کی جاتی ہے جب اس جتنی یا اس سے زیادہ محبوب چیز کا حصول مقصود ہو بلکہ اس سے محبوب تر چیز کے حصول پر اس پسندیدہ چیز کو…

Continue Reading

End of content

No more pages to load

Close Menu

ہمارا فیس بک پیج جوائن کریں

واٹس اپ پر چیٹ کریں
1
السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُ اللهِ
السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُ اللهِ

ہمارا فیس بک پیج ضرور فالو کریں

https://www.facebook.com/pukar01

اس کے علاوہ اگر آپ ویب سائٹ سے متعلق فیڈبیک دینا چاہیں تو ہمیں واٹس اپ کر سکتے ہیں

جَزَاكُمُ اللهُ خَيْرًا كَثِيْرًا وَجَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاء