وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمُ اسۡجُدُوۡا لِلرَّحۡمٰنِ قَالُوۡا وَ مَا الرَّحۡمٰنُ ٭ اَنَسۡجُدُ لِمَا تَاۡمُرُنَا وَ زَادَہُمۡ نُفُوۡرًا ﴿٪ٛ۶۰﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور جب ان سے کہا جاتا ہے رحمان کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں اور رحمان کیا چیز ہے؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کے لیے تو ہمیں حکم دیتا ہے اور یہ بات انھیں بدکنے میں بڑھا دیتی ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور جب ان (کفار) سے کہا جاتا ہے کہ رحمٰن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں رحمٰن کیا؟ کیا جس کے لئے تم ہم سے کہتے ہو ہم اس کے آگے سجدہ کریں اور اس سے بدکتے ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
ان سے جب بھی کہا جاتا ہے کہ رحمٰن کو سجده کرو تو جواب دیتے ہیں رحمٰن ہے کیا؟ کیا ہم اسے سجده کریں جس کا تو ہمیں حکم دے رہا ہے اور اس (تبلیﻎ) نےان کی نفرت میں مزید اضافہ کردیا
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد بھٹوی
(آیت 60) {وَ اِذَا قِيْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ …:} اس آیت کی دو تفسیریں ہیں، ایک یہ کہ مشرکین مکہ زمین و آسمان کے خالق کے لیے ”اللہ“ کا لفظ تو مانتے تھے، لیکن وہ اس کے نام ”رحمان“ سے مانوس نہ تھے، اس لیے اسے سنتے ہی چڑ جاتے تھے۔ دیکھیے سورۂ رعد (۳۰) اور بنی اسرائیل (۱۱۰) دوسری تفسیر اس کی یہ ہے کہ وہ لوگ یہ بات کہ ”رحمان چیز کیا ہے“ محض کافرانہ شوخی اور سراسر ہٹ دھرمی کی بنا پر کہتے تھے، جس طرح فرعون نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا: «{ وَ مَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ }» [الشعراء: ۲۳ ] ”اور رب العالمین کیا چیز ہے؟“ حالانکہ نہ کفار مکہ اس بے حد رحم والی ہستی سے بے خبر تھے اور نہ فرعون رب العالمین سے نا واقف تھا، جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اسے برملا کہا تھا: «{ لَقَدْ عَلِمْتَ مَاۤ اَنْزَلَ هٰۤؤُلَآءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ بَصَآىِٕرَ }» [ بنی إسرائیل: ۱۰۲ ] ”بلاشبہ یقینا تو جان چکا ہے کہ انھیں آسمانوں اور زمین کے رب کے سوا کسی نے نہیں اتارا، اس حال میں کہ واضح دلائل ہیں۔“