ترجمہ و تفسیر القرآن الکریم (عبدالسلام بھٹوی) — سورۃ الفرقان (25) — آیت 36
فَقُلۡنَا اذۡہَبَاۤ اِلَی الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا ؕ فَدَمَّرۡنٰہُمۡ تَدۡمِیۡرًا ﴿ؕ۳۶﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
پھر ہم نے کہا کہ دونوں ان لوگوں کی طرف جائو جنھوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا تو ہم نے انھیں ہلاک کر دیا، بری طرح ہلاک کرنا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور کہا کہ دونوں ان لوگوں کے پاس جاؤ جن لوگوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی۔ (جب تکذیب پر اڑے رہے) تو ہم نے ان کو ہلاک کر ڈالا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور کہہ دیا کہ تم دونوں ان لوگوں کی طرف جاؤ جو ہماری آیتوں کو جھٹلا رہے ہیں۔ پھر ہم نے انہیں بالکل ہی پامال کردیا

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد بھٹوی

(آیت 36) ➊ { فَقُلْنَا اذْهَبَاۤ اِلَى الْقَوْمِ …:} اس سے پہلی آیت اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے قصے کی ابتدا کا ذکر فرمایا، پھر سارا طویل قصہ حذف کرکے ان دونوں کے قصے کی انتہا کا ذکر فرما دیا، کیونکہ یہاں مقصود اتنی بات ہی تھی، یہ اختصار کا کمال ہے۔
➋ {اِلَى الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا:} ان آیات سے مراد یا تو وہ معجزے ہیں جو موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے تھے، یا ایک اللہ کی عبادت، موسیٰ علیہ السلام کی نبوت تسلیم کرنے اور بنی اسرائیل کو آزادی دینے کے احکام ہیں، جو اللہ کی طرف سے موسیٰ علیہ السلام لے کر فرعون کے پاس گئے تھے۔ رسول بھیجنے سے پہلے ہی انھیں آیات جھٹلانے والے اس لیے قرار دیا کہ اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ انھوں نے آیات کو جھٹلا دینا ہے، یا اس لیے کہ قرآن کے مخاطب لوگوں کو معلوم تھا کہ فرعون نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا تھا۔ ان کے علم کے اعتبار سے { كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا } فرما دیا۔
➌ { فَدَمَّرْنٰهُمْ تَدْمِيْرًا: تَدْمِيْرًا } کسی چیز کو اس طرح توڑنا کہ پھر درست نہ ہو سکے۔ (المراغی) مزید وضاحت کے لیے دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۱۶)۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل