فروخت کرنے والوں کا اپنے پاس موجود سامان کی قیمت بڑھانے پر اتفاق
اگر فروخت کرنے والے، جیسے: تاجر وغیرہ اپنے پاس موجود سامان کی قیمت خودغرضی کی بنا پر بڑھا دیں، تو حاکم چیزوں کی عادلانہ قیمتیں مقرر کر سکتا ہے، تاکہ خریداروں اور فروخت کنندگان کے درمیان عدل قائم کر سکے، نیز جلب منفعت اور دفع مصرت کے عام قاعدے کی رو سے بھی وہ ایسا کر سکتا ہے، اگر تاجروں کا اتفاق نہ ہو بلکہ رسد (سامان) کی قلت اور طلب کی کثرت کی وجہ سے قیمتیں بڑھ جائیں اور کوئی حیلہ سازی بھی نہ ہو تو ایسی حالت میں حاکم کو یہ اجازت نہیں کہ وہ قیمت مقرر کرے بلکہ اسے اپنی رعایا کو چھوڑ دینا چاہیے، اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے سے رزق عطا کرتے ہیں، اس بنیاد پر تاجروں کے لیے مروجہ بھاؤ سے بھاؤ بڑھانا جائز ہے نہ نرخ مقرر کرنا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث بھی اسی مفہوم پر محمول کی جائے گی کہ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھاؤ بڑھ گیا، تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! اگر آپ بھاؤ مقرر کر دیتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا:
”اللہ تعالیٰ ہی رزق میں تنگی اور کشادگی کرنے والا ہے، وہی رزق دینے والا ہے اور بھاؤ بڑھانے والا، میں اس امید کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی شخص مجھ سے کسی بدلے کا تقاضا نہ کرے کہ میں نے کسی کی جان اور مال پر ظلم کیا ہو۔“ [سنن أبى داود، برقم 3451 سنن الترمذي1314 سنن ابن ما جه 2200]
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! نرخ مقرر کر دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلکہ اللہ تعالیٰ سے دعا کر، پھر ایک دوسرا آدمی آیا اور اس نے بھی نرخ مقرر کرنے کا کہا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”بلکہ اللہ ہی کم کرتا اور بڑھاتا ہے۔“ [سنن ابي داود، رقم الحديث 3450]
[اللجنة الدائمة: 6374]