کیا جہنم آسمان پر ہے یا زمین کے نیچے؟
سوال: دلائل سے اس کی وضاحت کریں کہ جہنم آسمان پر ہے یا زمین کے نیچے؟
جواب: بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جہنم زمین کے نیچے ہے یا پھر ساتویں زمین کی تہہ میں ہے ، یا سمندروں کی تہہ میں یا اس جگہ کو اللہ عزوجل کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ اللہ رب العزت نے جنت کے بارے میں فرمایا ہے:
﴿عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ ﴿١٤﴾ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ﴾ [النجم: 15 14]
”سدرۃ المنتہٰی کے پاس اسی کے پاس جنَّۃُ المَأْوى ہے ۔“
اللہ تعالیٰ نے بیان کیا کہ نیکوکاروں کا نامہ اعمال علیین کے مقام پر ہے یعنی تمام آسمانوں کی بلندی پر ہے ۔ نیز فرمایا کہ گناہ گاروں کا نامہ اعمال سجین کے مقام پر ہے اور مقام سچین کی تشریح کی گئی ہے کہ وہ زمین کی سب سے نچلی تہہ کے بھی نیچے اور نہایت ہی تنگ جگہ میں ہے ۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے:
﴿وَإِذَا أُلْقُوا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُّقَرَّنِينَ . . .﴾ [الفرقان: 13]
”اور جب یہ جہنم کی کسی تنگ جگہ میں مشکیں کس کر پھینک دئیے جائیں گے ۔“
یہ بات ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں بیان کی ہے ۔ اور اس کے دلائل میں سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہ قول بھی ہے:
﴿ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ﴾ [التين: 5]
”پھر اسے الٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچ کر دیا ۔“
ایک قول کے مطابق اس سے مراد اس کا جہنم میں لوٹایا جاتا ہے ، مگر جسے اللہ تعالیٰ محفوظ کر دے ۔ اور ابن رجب نے کتاب ”التخویف من النَّار“ کے پانچویں باب میں ”جنم کس جگہ ہے“ کے بارے میں دستیاب دلائل بیان کیے ہیں:
ایک دلیل یہ ہے جسے ابو نعیم نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جہنم ساتویں زمین کے نیچے ہے ۔
اور ابن مندہ نے روایت کیا ہے کہ مجاہد رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ جہنم کہاں ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جنم ساتویں سمندر کے نیچے بند کر کے رکھی ہوئی ہے ۔ اور اسی طرح کا قول حضرت عبد اللہ بن عباس ، عبد اللہ بن سلام اور قتادہ رضی اللہ عنہم سے نقل کیا گیا ہے ۔ اور بعض اہل علم نے آل فرعون کے بارے میں وارد فرمان الہی سے استدلال کیا ہے:
﴿النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا﴾ [غافر / المُؤمن: 46]
”آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح شام لائے جاتے ہیں ۔“
یہ معاملہ ان کے ساتھ زمانہ برزخ میں کیا جائے گا اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کافروں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے ۔ اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں روح کے قبض کرنے کے بارے میں آیا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافر کی روح کے متعلق فرمایا:
حتى ينتهوا بها إلى السماء الدنيا فيستفتحون له فلا يفتح له ثم قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم: ﴿لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ﴾ [الاعراف: 40] [مسند احمد 287/4 ، المستدرك 37/1] حدیث صحیح ہے ۔
”بالآخر فرشتے کافر کی روح کو لے کر آسمانِ دنیا تک پہنچتے ہیں اور آسمانِ دنیا کا دروازہ کھولنے کے لیے کہتے ہیں تو دروزاہ کھولا نہیں جاتا ۔“ پھر
اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت تلاوت فرمائی: ”ان کے لیے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے ۔“
کچھ دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم سمندروں کے نیچے ہے ۔ اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس قول:
﴿وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ﴾ [التكوير: 6]
”اور جب سمندر بھڑکائے جائیں گے“
اس کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ سارے سمندر پھٹ کر ایک سمندر کی شکل اختیار کر لیں گے ، پھر وہ بھڑکائے جائیں گے ، پس اُن میں آگ جلائی جائے گی ، نتیجتا وہ آگ بن جائیں گے ۔ سلف صالحین کی ایک اہلِ علم جماعت سے یہی تفسیر مروی ہے ۔
اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
وَإِنَّ جَہَنَّمَ
﴿وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ﴾ [العنكبوت: 53]
”اور (تسلی رکھیں) جہنم کافروں کو گھیر لینے والی ہے ۔“
اس آیت مذکورہ میں جہنم سے مراد سمندر ہے ۔
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک یہودی سے پوچھا جہنم کہاں ہے؟ یہودی نے جواب دیا کہ یہ سمندر ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے خیال میں یہودی سچا ہے ، اس لیے کہ اللہ رب العزت نے فرمایا ہے:
﴿وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ﴾ [القُلور: 6]
”اور بھڑکائے ہوئے سمندر کی قسم ہے ۔“ واللہ اعلم !