کیا ”اے اللہ کی رحمت“ کہنا جائز ہے؟
تحریر: علامہ عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین حفظ اللہ

کیا ”اے اللہ کی رحمت“ کہنا جائز ہے؟
سوال: کیا دعا مانگتے وقت یہ کہناجائز ہے: ”اے اللہ کی رحمت“ تو مجھے توفیق دے یا ”اے اللہ کی قوت“ تو میری حفاظت فرما ۔
جواب: اللہ رب العزت کا ارشاد گرامی ہے:
﴿وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا﴾ [الاعراف: 180]
”اور اللہ ہی کے لیے اچھے اچھے نام ہیں ، سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو ۔“
اس سے مانگا کرو اور ان ہی اسماء حسنی کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کا قرب تلاش کرو ۔
چنانچہ دعامانگنے والا کہے:
اللهم اغفرلي وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم
”اے اللہ مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما بے شک تو بہت بخشنے والا اور بڑا رحیم ہے ۔“
یا تم یہ کہو:
يا غفور اغفرلي و يا رحيم ارحمني
”اے بخشنے والے ! میری بخشش فرما اور اے رحم کرنے والے ! مجھ پر رحم و کرم فرما ۔“
اور یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا توسل اور اس ذات سے سوال ان اسماء حسنیٰ کے ذریعے کیا جائے جن ناموں سے اللہ نے اپنی صفات بیان کی ہیں ۔
اور حدیث میں ارشاد نبوی ہے:
الظوا بما ذا الجلال والإكرام [سنن الترمذي ، كتاب الدعوات باب 92 ح 3524 ۔ ومسند احمد 177/4 ۔ علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ السلسلة الصحيحة ح 1536]
”اللہ تعالیٰ سے لفظ ”یا ذا الجلال والاکرام“ کے ذریعے سوال کرو ۔“
یعنی اللہ تعالیٰ سے مانگو اور اُس پاک ذات سے اسی نام کے ذریعے دعا مانگو ۔
ایک دوسری حدیث میں وارد ہے کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو ان الفاظ کے ساتھ دعا مانگتے ہوئے سنا وہ اپنی دعا میں کہہ رہا تھا:
اللهم انى اسئلك بانى اشهد انك انت الله لا إله إلا انت الأحد الصمد الذى لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا احد
”اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ تو ہی اللہ ہے اور تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، تو ایک ہے اور بے نیاز ہے جس نے کسی کو نہیں جنا (جو کسی کا باپ نہیں) اور نہ اس کو کسی نے جنا ہے (وہ کسی کی اولاد نہیں) اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے ۔“
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لقد سال الله باسمه الأعظم الذى إذا سئل به أعطئ وإذا دعي به أجاب (53) [سنن الترمذي ، كتاب الدعوات باب 65 ح 3722 ۔ وسنن ابن ماجة كتاب الدُّعاء باب اسم الله الاعظم ، ح 3855]
بلاشبہ اس نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے اس کے اسم اعظم کے وسیلے سے دعا مانگی ہے ، جب اس (اسم اعظم) کے ذریعے سوال کیا جائے تو سوال پورا کر دیا جاتا ہے اور جب اس کے ذریعے دعا مانگی جائے تو وہ قبول فرماتا ہے ۔“
مذکورہ بالا دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ سوال اور دعا اللہ کے اسماء حسنیٰ کے وسیلے سے ہونی چاہئیے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ﴾ [الاسراء: 110]
”کہہ دیجئے کہ اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر جس نام سے بھی پکارو تمام اچھے نام اُسی کے ہیں ۔“
لفظ رحمت صفت بن کر وارد نہیں ہوا یعنی ”اے اللہ کی رحمت“ یا ”اے اللہ کی قوت“ یا ان جیسے الفاظ کے ساتھ دعا کرنا کہیں وارد نہیں ہوا ہے اور نہ کہیں اس کا ثبوت ہے ، اس لیے کہ لفظ رحمت کا اطلاق کبھی جنت کے لیے ہوا ہے جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
﴿يُدْخِلُ مَن يَشَاءُ فِي رَحْمَتِهِ﴾ [الدهر: 31]
”وہ جسے چاہے اپنی رحمت میں داخل کرے ۔“
(یہاں رحمت سے مراد جنت ہے) اور کبھی ”لفظ رحمت“ کا اطلاق بارش کے لیے ہوا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ﴾ [الاعراف: 57]
”وہ اپنی باران رحمت سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے ۔“
(یہاں رحمت سے مراد بارش ہے) اور یہ سب مخلوقات میں سے ہیں ۔ اور حدیث میں آتا ہے:
الخلق الله الرحمة مانة جزء . . . الخ [صحيح البخاري ، كتاب الادب ، باب جعل الله الرحمة فى مائة جزء ح 5654 ۔ صحيح مسلم ، كتاب التوبة باب 4 ، ح 2752]
”اللہ تعالیٰ نے رحمت کو سو حصوں میں پیدا کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ “
اور جہاں تک قوت ، قدرت اور ان جیسے الفاظ کا تعلق ہے تو یہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات ثابت ہیں جو اُس ذات وحدہ لا شریک لہ ہی کے لیے ہیں نیز ان دونوں صفات سے اللہ جل جلالہ کا صفاتی اسم بھی مشتق ہوا ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ (اچھے ناموں) میں سے ”القوى ، العزیز ، القدیر“ بھی ہیں لیکن صفاتی کلمات (جیسے ”اے اللہ کی رحمت“ یا ”اللہ کی قوت“ ) کے ذریعے (اللہ کو) پکارنا صحیح نہیں ، بلکہ موصوف ذات (اللہ سبحانہ) کو اس نام سے پکارا جاتا ہے جو اس نے اپنا نام رکھا ہے ۔
اور جہاں تک فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے:
اعوذ برضاك من سخطك وبعفوك من عقوبتك [سنن النسائي ، كتاب الاستعاذة باب 62 ح 5549]
”اللہ ! میں تیری ناراضگی سے تیری رضا کی پناہ چاہتا ہوں اور تیری عقوبت و سزا سے تیری معافی کی پناہ چاہتا ہوں ۔“
تو اس کا مطلب اللہ کی ناراضگی اور سزا سے پناہ مانگنا ہے ، نیز ان دونوں (ناراضگی وسزا) کی ضد کا طلب کرنا ہے اور وہ رضائے الہی اور عفو و درگزر ہے اور اس میں اس صفت کو پکارنا نہیں ہے ۔ واللہ اعلم !

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: