ماہ رمضان کا آغاز

 

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ
”رمضان کا چاند دیکھ کر روزے رکھو اور چاند دیکھ کر ہی عید کرو۔ “ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ: 1909]
فوائد :
بلاشبہ روزہ ایک مسلمان کے لئے بہت بڑی سعادت ہے۔ اس سے آخرت کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے اور روزہ دنیوی خوہشات میں کمی کا باعث ہے نیز اس کے ذریعے مساکین کے ساتھ ہمدردی اور ان کے دکھ درد کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ جب ماہ رمضان کے آغاز کا علم ہو جائے تو اس کے روزوں کی فرضیت شروع ہو جاتی ہے ماہ رمضان کا آغاز تین طرح سے ممکن ہے۔
رمضان کا چاند دیکھ کر اس کے آغاز کا پتہ چلتا ہے جیسا کہ حدیث بالا میں بیان ہوا ہے۔ قرآن کریم کی درج ذیل آیت سے اسی بات کا اشارہ ملتا ہے۔
”جو شخص اس مہینہ کو پائے تو وہ اس کا روزہ رکھے۔“ [البقره : 185]
اگر کوئی چاند کو خود نہ دیکھ سکے تو چاند دیکھنے کی گواہی سے اس کا آغاز کر دے۔ اس کے متعلق ایسے شخص کی گواہی قابل قبول ہو گی جو عاقل، بالغ اور قابل اعتبار ہو۔ چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے ماہ رمضان کا چاند دیکھنے کی کوشش کی، مجھے چاند نظر آ گیا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی، میری شہادت پر آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے خود ہی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام : 2342]
اگر کوئی چاند خود نہ دیکھ سکے اور نہ اسے شہادت ملے تو ماہ شعبان کے تیس دن مکمل ہو جانے کے بعد ماہ رمضان کا آغاز کر دیا جائے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
”اگر مطلع ابر آلود ہو تو شعبان کے تیس دن پورے کر لو۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ: 1909]
بہرحال جب ہر سہ طریقوں میں سے کسی ایک کے ساتھ رمضان کا آغاز ہو جائے تو روزہ رکھنا فرض ہو جاتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

1