نسطورا ولی کی کہانی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مال تجارت لے کر متعدد بار شام اور یمن تشریف لے گئے۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ آپ ایک بار بصریٰ بھی تشریف لے گئے تھے۔ لیکن اب وہاں ایک نیا ولی گدی نشیں تھا۔ جس کا نا م نسطورا تھا۔ اب یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ پہلا مومن و ولی بحیرا تا حال زندہ تھا یا مر گیا تھا۔ اور نسطورا نامی ولی نے بحیرا کی جگہ سنبھال لی تھی۔ یا اس کی کوئی نئی گدی تھی جس پر یہ براجمان تھا۔ ہم تو بہر صورت صرف اتنی بات جانتے ہیں کہ عیسائی متعصبین ان ہی دو واقعات کو پیش کر کے یہ کہا کرتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو جو کچھ بھی تعلیم دی اور قرآن کی صورت میں جو کتاب پیش کی وہ ہمارے ان ولیوں سے سیکھ کر دی تھی۔ گویا وہ ایسے صاحب کرامات بزرگ تھے کہ ایک ہی نظر میں انہوں نے سب کچھ سکھا دیا۔ خیر یہ باتیں تو ہمارے موضوع سے علیحدہ ہیں ہمارے نزدیک تو نفس واقعہ ہی کا کوئی وجود نہیں۔ آئیے پہلے اصل کہانی قاری احمد پیلی بھیتی کی زبانی سن لیجئے۔
قاری صاحب لکھتے ہیں۔
آپ کے ساتھ اس سفر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا غلام میسرہ بھی تھا۔ اس کی زبانی روایت ہے کہ ہر جگہ آپ پر ابر سایہ افگن رہتا۔ کبھی فرشتے اپنے پیروں کا سایہ کرتے تھے۔ ایک عیسائی خانقاہ کے قریب جہاں نسطورا نامی راہب رہتا تھا۔ آپ نے ایک درخت کے نیچے آرام کیا۔ راہب نے یہ دیکھا تو میسرہ سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے۔ اس نے نام ونشاں بتایا۔ راہب نے کہا کہ اس درخت کے نئے پیغمبر کے سوا اور کوئی نہیں ٹھہرا ہے۔ پھر دریافت کیا کہ کیا ان کی آنکھوں میں ہمیشہ یہ سرخی رہتی ہے۔ غلام نے اثبات میں جواب دیا۔ راہب نے کہا تو یقیناً یہ آخر زمانہ کا پیغمبر ہے۔ تم کبھی اس کی رفاقت نہ چھوڑنا۔ اسی درمیان میں ایک شخص سے خرید و فروخت میں کوئی جھگڑا پیش آیا۔ خریدار نے آپ سے کہا لات و عزی کی تم کھاؤ۔
آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”میں ان کی قسم نہیں کھاتا۔“ راہب نے میسرہ سے کہا : اللہ کی قسم یہ پیغمبر ہے۔ اس کی صفتیں ہماری کتابوں میں لکھی ہیں۔
میسرہ کا بیان ہے کہ جب دوپہر کی سخت دھوپ پڑتی تو دو فرشتے آپ پر سایہ کرتے۔ جب آپ تجارت سے فارغ ہو کر مکہ آ رہے تھے۔ اتفاق سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اس وقت چند سہیلیوں کے ساتھ کوٹھے پر تھیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی آپ پر نظر پڑی کہ آپ اونٹ پر سوار ہیں اور دو فرشتے آپ پر سایہ افگن ہیں۔ انہوں نے یہ منظر اپنی سہیلیوں کو دکھایا اور میسرہ سے اس کا تذکرہ کیا۔ میسرہ نے کہا : میں پورے سفر میں یہی منظر دیکھتا آیا ہوں۔ اور اس کے بعد اس نے نسطورا راہب کی گفتگو بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے دہرائی۔ [مدارج النبوت تاريخ مسلمانان عالم ص 123 ج2 ]
تحقیق الحدیث :
یہ واقعہ ابن اسحاق، ابن سعد، ابونعیم اور ابن عساکر میں ہے۔
ابن اسحاق میں اس روایت کی کوئی سند نہیں ہے۔
بقیہ کتابوں میں اس کی سند یہ ہے کہ ان کتابوں کے مصنفین واقدی سے اور واقدی موسی بن شیبہ سے اور وہ عمیرہ بنت عبد اللہ بن کعب سے اور عمیرہ ام سعد بنت کعب سے اور وہ یعلیٰ بن منيہ صحابی کی بہن نفیسہ بنت منیہ سے جو صحابیہ تھیں روایت کرتے ہیں۔ واقدی کی بے اعتباری تو محتاج بیان نہیں۔
اس کے علاوہ موسی بن شیبہ کی نسبت امام احمد بن حنبل کہتے ہیں اس کی حدیثیں منکر ہیں۔
عمیرہ بنت کعب اور ام سعد کا حال معلوم نہیں۔ [ سيرت النبى ص 764 ج3 ]