عوامی اور قصہ گو خطباء کے ہاں یہ واقعہ بڑا مشہور ہے حافظ ابن کثیر ب رحمہ اللہ کہتے ہیں ابن ابی حاتم کی ایک بہت ہی غریب حدیث میں اس پوری سورت کا شان نزول لکھا ہے کہ ایک شخص کا کھجوروں کا باغ تھا، باغ والا جب اس درخت کی کھجوریں اتارنے آتا تو اس مسکین کے گھر میں جا کر وہاں کھجوریں اتارتا اس میں جو کھجوریں نیچے گرتیں انھیں اس غریب شخص کے بچے چن لیتے تو یہ آکر ان سے چھین لیتا بلکہ اگر کسی بچے نے منہ میں ڈال لی ہے تو انگلی ڈال کر اس کے منہ سے نکلوا لیتا، اس مسکین نے اس کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اچھا تم جاؤ اور آپ اس باغ والے سے ملے اور فرمایا کہ تو اپنا وہ درخت جس کی شاخیں فلاں مسکیین کے گھر میں ہیں، مجھے دے دے الله تعالیٰ اس کے بدلے تجھے جنت کا ایک درخت دے گا، کہنے لگا اچھا حضرت میں نے دیا مگر مجھے اس کی کھجوریں بہت اچھی لگتی ہیں میرے تمام باغ میں ایسی کھجوریں کسی اور درخت کی نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خاموشی کے ساتھ واپس تشریف لے گئے۔ ایک شخص جو یہ بات چیت سن رہا تھا وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا حضرت ؟ اگر یہ درخت میرا ہو جائے اور میں آپ کا کر دوں تو کیا مجھے اس کے بدلے جنتی درخت مل سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا : ہاں، یہ شخص اس باغ والے کے پاس آئے ان کا بھی ایک باغ کھجوروں کا تھا یہ پہلا شخص ان سے وہ ذکر کرنے لگا کہ حضرت مجھے فلاں درخت کھجور کے بدلے جنت کا ایک درخت کہہ رہے تھے میں نے یہ جواب دیا کہ یہ سن کر خاموش ہو رہے، پھر تھوڑی دیر بعد فرمایا کہ کیا تم اسے بیچنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا نہیں ؟ ہاں یہ اور بات ہے کہ جو قیمت اس کی مانگوں وہ کوئی مجھے دے دے لیکن کون دے سکتا ہے؟ پوچھا کیا قیمت لینا چاہتے ہو؟ کہا : چالیس درخت کھجوروں کے۔ اس نے کہا یہ تو بڑی زبردست قیمت لگا رہے ہو ایک کے چالیس پھر اور باتوں میں لگ گئے، پھر کہنے لگے اچھا میں اسے اتنے میں ہی خریدتا ہوں اس نے کہا : اچھا اگر سچ مچ خریدنا ہے تو گواہ کر لو، اس نے چند لوگوں کو بلا لیا اور معاملہ طے ہو گیا گواہ مقرر ہو گئے، پھر اسے کچھ سوجھی تو کہنے لگے کہ دیکھے صاحب جب تک ہم تم الگ نہیں ہوئے یہ معاملہ طے نہیں ہوا اس نے بھی ایسا کہا بہت اچھا میں ایسا احمق ہوں کہ تیرے درخت کے بدلے جو خم کھایا ہے اپنے چالیس درخت دے دوں تو یہ کہنے لگا، اچھا اچھا مجھے منظور ہے لیکن درخت جو میں لوں گا وہ تنے والے عمده لوں گا اس نے کہا : اچھا منظور چنانچہ گواہوں کے رو برو یہ سودا طے ہوا اور مجلس برخاست ہوئی۔ یہ شخص خوشی خوشی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ! اب وہ درخت میرا ہو گیا اور میں نے اسے آپ کو دے دیا، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اس مسکین کے پاس گئے اور فرمانے لگے یہ درخت تمھارا ہے اور تمھارے بچوں کا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔
تحقیق الحدیث :
اسناده ضعیف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ [تفسير ابن كثير، تفسير سورة اليل پاره ۳۰ الدر المنثور 62/6 الواحدى فى اسباب النزول 852]
اس میں حفص بن عمر العدنی راوی ضعیف ہے۔ نیز یہ سورت مکی ہے اور ان کا سیاق و سبق مدنی ہے۔