اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
✿ « إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ﴿١﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ ﴿٢﴾ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ﴿٣﴾ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ ﴿٤﴾ سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ ﴿٥﴾ » [القدر: 1-5]
ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ فرشتے اور جبریل اس میں اپنے رب کی اجازت سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں۔ وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک۔“
ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
✿ «حم ﴿١﴾ وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ ﴿٢﴾ إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ ﴿٣﴾ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ﴿٤﴾ أَمْرًا مِّنْ عِندِنَا ۚ إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ ﴿٥﴾ رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿٦﴾ » [الدخان: 1-6]
”حم۔ قسم ہے اس کتاب مبین کی، کہ ہم نے اسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے، کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ یہ وہ رات تھی جس میں ہر معاملے کا حکیمانہ فیصلہ ہمارے حکم سے صادر کیا جاتا ہے۔ ہم ایک رسول بھیجنے والے تھے، تیرے رب کی رحمت کے طور پر۔ یقیناً وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔“
شب قدر کی فضیلت
❀ « عن أبى هريرة رضي الله عنه عنه، عن النبى صلى الله عليه وسلم، قال: من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من به، ومن قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه. »
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس نے رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں اور اللہ کی خوشنودی کے لیے رکھے، تو اس کے گز شتہ گناہ بخش دیے گئے۔ اور جس نے شب قدر میں ایمان کی حالت میں اور اللہ کی خوشنودی کے لیے عبادت کی، تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے گئے۔“ [صحيح بخاري 2014، صحيح مسلم 760]
آخری عشرے میں نبی صلى اللہ علیہ وسلم کی عبادت کا معمول
«عن عائشة رضي الله عنها، قالت: كان النبى صلى الله عليه وسلم إذا دخل العشر شد مئزره، وأحيا ليله، وأيقظ أهله.»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آخری عشرہ آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (عبادت کے لیے) کمر کس لیتے، اور پوری رات جاگتے، اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے۔ [صحيح بخاري 2024، صحيح مسلم 1174]
❀ «عن عائشة رضي الله عنها، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجتهد فى العشر الأواخر، ما لا يجتهد فى غيره. »
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے میں (عبادات و طاعات کی ادائیگی میں) اتنی محنت کرتے جتنی دوسرے دنوں میں نہیں کرتے۔ [صحيح مسلم 1175]
شب قدر کی علامتیں
❀ « عن زر بن حبيش، يقول: ابي بن كعب رضي الله عنه، فقلت: إن اخاك ابن مسعود، يقول: من يقم الحول يصب ليلة القدر، فقال: ” رحمه الله اراد ان لا يتكل الناس اما إنه قد علم انها فى رمضان، وانها فى العشر الاواخر، وانها ليلة سبع وعشرين، ثم حلف لا يستثني انها ليلة سبع وعشرين "، فقلت: باي شيء تقول ذلك يا ابا المنذر؟، قال: ” بالعلامة او بالآية التى اخبرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، انها تطلع يومئذ لا شعاع لها ".»
زر بن حبیش فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ کے بھائی حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو آدمی پورے سال قیام کرے گا تو وہ شب قدر کو پا لے گا۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ ان پر رحم فرمائے، وہ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ایک ہی رات پر بھروسہ کر کے بیٹھ نہ جائیں، ورنہ یقیناً وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ شب قدر رمضان میں ہے، اور وہ بھی رمضان کے آخری عشرے میں ہے، اور وہ رات ستائیسویں رات ہے، پھر انہوں نے بغیر استثناء کیسے (یعنی ان شاء اللہ کے بغیر) قسم کھائی کہ شب قدر ستائیسویں رات ہے، میں نے عرض کیا: اے ابوالمنذر! آپ یہ بات کس وجہ سے فرما رہے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا: اس دلیل اور نشانی کی بنا پر، جس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دی تھی کہ یہ وہ رات ہے جس کے بعد کے دن جو سورج طلوع ہوتا ہے اس کی شعائیں نہیں ہوتیں۔ [صحيح مسلم 762: 220]
❀ «عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إني كنت اريت ليلة القدر، ثم نسيتها، وهى فى العشر الأواخر من ليلتها، وهى ليله طلقه بلجة، لا حارة ولا باردة، وزاد الزيادي: كان فيها قمرا يفضح كواكبها، وقالا: لا يخرج شيطانها حتى يضيء فجرها.»
حضرت جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھے شب قدر دکھائی گئی، پھر بھلا دی گئی، یہ رمضان کی آخری دس راتوں میں ہے، یہ ایک خوشگوار اور روشن رات ہے، نہ گرم ہے اور نہ ٹھنڈی۔ گویا کہ اس میں چاند ستاروں کی روشنی کو ماند کر رہا ہے۔ اس کا شیطان اس وقت تک نہیں نکل سکتا جب تک کہ اس کی فجر روشن نہ ہو جائے۔“ [صحيح ابن خزيمه 2190، صحيح ابن حبان 3688، حسن۔]
شب قدر کی دعا
❀ «عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قلت: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم، أرأيت إن علمت أى ليلة ليلة القدر، ما أقول فيها؟ قال: قولي: اللهم إنك عفو، تحب العفو فاعف عني.»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ کون سی رات شب قدر ہے، تو میں اس میں کیا کہوں ؟ آپ نے فرمایا: تم کہو: «اللهم إنك عفو، تحب العفو فاعف عني.»، یعنی ”اے اللہ! یقیناً تو معاف کرنے والا ہے، اور معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے، اس لیے مجھے بھی معاف فرما دے۔“ [سنن ترمذي 3513، سنن ابن ماجه 3850، صحيح]
شب قدر کس رات میں ہے ؟
شب قدر کس رات میں ہے؟ اس سلسلے میں متعدد الگ الگ روایتیں ہیں۔ پہلے ان روایتوں کو پیش کیا جا رہا ہے، طوالت سے بچنے کے لیے ہر ایک کے بارے میں صرف ایک روایت کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے:
➊ آخری دس دنوں میں:
❀ «عن عائشة رضي الله عنها، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجاور فى العشر الأواخر من رمضان، ويقول: تحروا ليلة القدر فى العشر الأواخر من رمضان. »
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے، اور فرماتے تھے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو۔ [صحيح بخاري 2020، صحيح مسلم 1169]
➋ آخری دس دنوں کی طاق راتوں میں:
❀ «عن عائشة رضي الله عنها : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: تحروا ليلة القدر فى الوتر من العشر الأواخر من رمضان. »
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔“ [صحيح بخاري 2017]
➌ اکیسویں شب میں:
❀ «عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجاور فى رمضان العشر التى فى وسط الشهر، فإذا كان حين يمسي من عشرين ليلة تمضي، ويستقبل إحدى وعشرين، رجع إلى مسكنه، ورجع من كان يجاور معه، وانه اقام فى شهر جاور فيه الليلة التى كان يرجع فيها، فخطب الناس، فامرهم ما شاء الله، ثم قال: كنت اجاور هذه العشر، ثم قد بدا لي ان اجاور هذه العشر الاواخر، فمن كان اعتكف معي فليثبت فى معتكفه، وقد اريت هذه الليلة ثم انسيتها، فابتغوها فى العشر الاواخر، وابتغوها فى كل وتر، وقد رايتني اسجد فى ماء وطين، فاستهلت السماء فى تلك الليلة فامطرت، فوكف المسجد فى مصلى النبى صلى الله عليه وسلم ليلة إحدى وعشرين، فبصرت عيني رسول الله صلى الله عليه وسلم ونظرت إليه، انصرف من الصبح، ووجهه ممتلئ طينا وماء”» .
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف کرتے تھے، جب بیسویں رات گزر جاتی اور اکیسویں رات آ جاتی تو اپنے گھر کو واپس آ جاتے اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعتکاف میں ہوتے وہ بھی واپس ہو جاتے۔ ایک مرتبہ ایک رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس رات کو اعتکاف میں رہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہو جاتے تھے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا، اور جو کچھ اللہ نے چاہا اس کا حکم دیا، پھر فرمایا: ”میں اس عشرے میں اعتکاف کرتا تھا، مگر اب آشکارا ہوا کہ اس آخری عشرے میں اعتکاف کروں، اس لیے جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف میں ہیں وہ اپنے اعتکاف کی جگہ میں ٹھہر ے رہیں، اور مجھے خواب میں شب قدر دکھائی گئی، پھر وہ مجھ سے بھلا دی گئی، اس لیے اسے آخری عشرے کی ہر طاق رات میں تلاش کرو، اور میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ پانی اور کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔“ پھر رات میں آسمان سے پانی برسا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھنے کی جگہ سے مسجد ٹپکنے لگی، وہ اکیسویں رات تھی، پھر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں سے فارغ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ کیچڑ اور پانی سے بھر ہو اتھا۔ [صحيح بخاري 2018، صحيح مسلم 1167: 213]
➍ تئیسویں شب میں:
❀ «عن عبد الله بن أنيس رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: أريت ليلة القدر، ثم أنسيتها، وأراني صبحها أسجد فى ماء وطين، قال: فمطرنا ليلة ثلاث وعشرين، فصلي بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانصرف وإن أثر الماء والطين على جبهته وأنفه، قال: وكان عبد الله أنيس رضي الله عنه يقول: ثلاث وعشرين.»
حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے شب قدر دکھائی گئی، پھر اسے بھلا دیا گیا، اور میں نے اس کی صبح دیکھا کہ میں پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔“ حضرت عبد الله رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تئیسویں رات بارش ہوئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اور ناک پر پانی اور مٹی کے نشان تھے۔ حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ فرماتے: تئیسویں رات (شب قدر ہے)۔ [صحيح مسلم 1168]
➎ اکیسویں، تئیسویں اور پچیسویں شب میں:
❀ «عن ابن عباس رضي الله عنهما : أن النبى صلى الله عليه وسلم، قال: التمدوها فى العشر الأواخر من رمضان ليلة القدر، فى تاسعة تبقى، فى سابعة تبقى، فى خامسة تبقى.»
حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو، اور یہ ان راتوں میں ہے جب نو یا سات یا پانچ راتیں باقی رہ جائیں۔“ [صحيح بخاري 2021]
➏ آخری سات دنوں میں:
❀«عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما : أن رجالا من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم، أروا ليلة القدر فى المنام فى السبع الأواخر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أرى رؤياكم قد تواطأت فى السبع الأواخر، فمن كان متحريها فليتحرها فى السبع الأواخر. »
حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کو شب قدر خواب میں آخری سات راتوں میں دکھلائی گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے خواب آخری سات راتوں کے بارے میں متفق ہو گئے ہیں، اس لیے جو شخص اس کو تلاش کرنے والا ہو وہ اسے آخری سات راتوں میں تلاش کرے۔“ [صحيح بخاري 2015، صحيح مسلم 1165 : 205]
➐ ستائیسویں شب میں:
❀ «عن زر بن حبيش، يقول: سألت أبى بن كعب ربي رضي الله عنه، فقلت: إن أخاك ابن مسعود رضى الله عنه يقول: من يقم الحؤل يصب ليلة القدر، فقال: رحمه الله، أراد أن لا يتكل الناس، أما إنه قد علم أنها فى رمضان، وأنها فى العشر الأواخر، وأنها ليلة سبع وعشرين، ثم حلف لا يستثني، أنها ليلة سبع وعشرين، فقلت: بأي شيء تقول ذلك يا أبا المنذر؟ قال: بالعلامة، أو بالآية التى أخبرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أنها تطلع يومين، لا شعاع لها. »
زر بن حبیش فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ کے بھائی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو آدمی پورے سال قیام کرے گا تو وہ شب قدر کو پا لے گا۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ ان پر رحم فرمائے، وہ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ایک ہی رات پر بھروسہ کر کے بیٹھ نہ جائیں، ورنہ یقیناً وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ شب قدر رمضان میں ہے، اور وہ بھی رمضان کے آخری عشرے میں ہے، اور وہ رات ستائیسویں رات ہے، پھر انہوں نے بغیر استثناء کے (یعنی ان شاء اللہ کے بغیر) قسم کھائی کہ شب قدر ستائیسویں رات ہے، میں نے عرض کیا: اے ابوالمنذر! آپ یہ بات کس وجہ سے فرما رہے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا: اس دلیل اور نشانی کی بنا پر، جس کی خبر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دی تھی کہ یہ وہ رات ہے جس کے بعد کے دن جو سورج طلوع ہوتا ہے اس کی شعائیں نہیں ہوتیں۔ [صحيح مسلم 762 : 220]
نوٹ: ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی صاحب فرماتے ہیں: ”سابقہ ابواب کی احادیث سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ شب قدر ایک رات سے دوسری رات میں منتقل ہوتی رہتی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی اکثر روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آخری دس دنوں کی طاق راتوں میں ہے یعنی اکیس، تیس، پچیس، ستائیس اور انتیس۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جیسا کہ امام ترمذی (150/3) نے ذکر کیا ہے :”میرے نزدیک یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جیسا پوچھا جاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ویسا ہی جواب دیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جاتا کہ ہم اسے فلاں رات میں تلاش کریں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ فلاں رات میں تلاش کرو۔ ابوقلابہ سے مروی ہے کہ شب قدر آخری دس دنوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ اس میں یہ حکمت الہیٰ ہو کہ یہ ملک ملک کے لحاظ سے مختلف ہو، اور سال بہ سال مختلف ہو، تا کہ لوگ آخری عشرے کے پورے ایام میں کوشش کریں، جبیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے میں اتنی محنت کرتے جتنی دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔ [الجامع الكامل فى الحديث الصحيح الشامل 853/4-854]