اولاد کے حقوق سے متعلق 28 ضعیف احادیث کی نشاندہی
یہ اقتباس شیخ جاوید اقبال سیالکوٹی کی کتاب والدین اور اُولاد کے حقوق سے ماخوذ ہے۔

◈ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر ساتویں روز عقیقہ نہ ہوا تو چودھویں روز، اور اگر چودھویں روز بھی نہ ہوا تو اکیسویں روز عقیقہ کیا جائے۔“
البیہقی، الطبراتی وغیرہما
تحقیق:
اس روایت کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں اسماعیل بن مسلم مکی راوی ضعیف ہے۔
تقریر الرقم: 484؛ میزان الاعتدال جلد 1 ص 409؛ المغنی فی الضعفاء الرقم 716؛ دیوان الضعفاء الرقم: 448
② عن أنس عن النبى ما قال: يعق عنه من الإبل والبقر والغنم
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچہ کی طرف سے عقیقہ کیا جائے اونٹ کی جنس سے اور گائے سے اور بکری سے۔“
الطبرانی معجم الصغیر: 229
تحقیق:
اس روایت کی سند ضعیف ہے اس لیے کہ اس کی سند میں مسعدہ بن الیسع الباہلی راوی ضعیف ہے۔
میزان الاعتدال جلد 6 ص 408؛ الجرح والتعديل جلد 8 ص 424؛ المغنی فی الضعفاء الرقم 6199؛ دیوان الضعفاء الرقم 4096
◈ واخبرنا أبو سعد الماليني، أنبأ أبو أحمد بن عدي الحافظ، ثنا الحسن بن سفيان، حدثني محمد بن المتوكل، ثنا الوليد بن مسلم عن زهير، ان محمد المكي، عن محمد بن المنكدر، عن جابر، قال: عق رسول الله ما عن الحسن والحسين وختنهما لسبعة أيام
بیہقی: 8638
حدثنا محمد بن أحمد بن الوليد البغدادي، نا محمد بن أبى السري العسقلاني، ثنا الوليد بن مسلم نا زهير بن محمد عن ابن عقيل عن محمد بن المنكدر، عن جابر، أن رسول الله عق عن الحسن والحسين، وختنهما لسبعة أيام. لم يقل فى هذا الحديث أحد من الرواة وختنهما لسبعة أيام إلا زهير بن محمد.
معجم طبراتی أوسط: 6708
◈ وروينا عن زهير بن محمد، عن محمد بن المنكدر، عن جابر رضي الله عنه، قال: عق رسول الله عن الحسن والحسين، وختنهما لسبعة أيام.
الشعب للبیہقی: 8638
◈ حدثنا محمد بن أحمد بن الوليد بن مسلم، حدثنا محمد بن أبى السري العسقلاني، حدثنا الوليد بن مسلم، عن زهير بن محمد، عن محمد بن المنكدر، عن جابر رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم عق عن الحسن واكحسين وختنهما لسبعة أيام. لم يروه عن محمد بن المنكدر إلا زهير بن محمد ، ولم يقل أحد ممن روى هذا الحديث . وختنهما لسبعة أيام. إلا الوليد بن مسلم
معجم طبراتی صغیر: 891
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے الحسن اور الحسین کا ختنہ ساتویں دن کیا۔
تحقیق:
یہ تمام روایتیں ضعیف ہیں کیونکہ پہلی، دوسری اور چوتھی روایت کی سند میں زہیر بن محمد راوی ہے۔ اور زہیر سے جب شامی بیان کریں تو ضعیف ہوتی ہے۔
تحقیق الکمال الرقم 2017
ان تینوں سندوں میں زہیر سے ولید بن مسلم بیان کر رہا ہے۔ اور وہ شامی ہے۔ تیسری سند میں زہیر سے پہلے سند ہی نا معلوم ہے۔
◈ عن أبى الدرداء قال: قال رسول الله: تدعون يوم القيامة بأسمائكم وأسماء آبائكم فأحسنوا أسماءكم
سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ یہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن تمہیں تمہارے ناموں اور تمہارے باپوں کے ناموں سے پکارا جائے گا اس لیے تم اپنے نام اچھے رکھو۔“
ابوداود: 4948
تحقیق:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
اس لیے کہ اسے سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے عبداللہ بن ابی زکریا راوی بیان کرتا ہے ان دونوں کا سماع (سننا) ثابت نہیں ہے، یعنی عبداللہ بن ابی زکریا نے سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا۔
ابوداود، کتاب الأدب، باب فی تغيير الأسماء، تحقیق الکمال الرقم 3292، تحقیق التحذیر الرقم: 3412
تو یہ روایت منقطع ہوئی اور منقطع ضعیف کی اقسام میں سے ہے۔
فائدہ:
باقی یہ بات صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے باپ کے نام پر پکارا جائے گا۔ جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے۔ اور یہ بات بھی احادیث سے ثابت ہے کہ نام اچھے رکھنے چاہییں۔
◈ عن ابن عباس قال: قال رسول الله ما: إن الله تعالي يدعو الناس بأمهاتكم سرا منه على عباده
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر پردہ ڈالتے ہوئے لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام سے پکارے گا۔“
المعجم الکبیر للطبراتی: 11242
تحقیق:
یہ روایت ضعیف ہے۔
اولاً: اس میں اسحاق بن بشیر راوی متروک اور کذاب ہے۔
میزان الاعتدال جلد 1 ص 335؛ المغنی فی الضعفاء الرقم 545؛ دیوان الضعفاء الرقم 324
ثانیاً: اس میں ابن جریج مدلس ہے اور اس نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
◈ اس طرح کی ایک روایت آتی ہے جس کے راوی ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ جب کوئی ایک تمہارے بھائیوں سے فوت ہو جائے پس تم اس کی قبر پر مٹی برابر کر کے اس کی قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر یہ کہو: اے فلاں بن فلانہ!… الی آخرہ
تحقیق:
یہ روایت ضعیف ہے۔
اولاً: اس میں محمد بن ابراہیم اجمعی راوی ضعیف ہے۔
میزان الاعتدال جلد 6 ص 35؛ المغنی فی الضعفاء الرقم 5219؛ دیوان الضعفاء الرقم 3582
◈ وعن مسروق رحمه الله قال: لقيت عمر فقال: من أنت؟ قلت: مسروق بن الأجدع قال: عمر سمعت رسول الله يقول: الأجدع شيطان
مسروق رحمہ اللہ کہتے ہیں، میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور انہوں نے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: مسروق اجدع کا بیٹا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اجدع شیطان ہے۔“
ابوداود: 4957، ابن ماجہ: 3731
تحقیق:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اس کی سند میں مجالد بن سعید راوی ضعیف ہے۔
تقریر الرقم: 6478؛ میزان الاعتدال جلد 2 ص 23؛ الجرح والتعديل جلد 8 ص 413؛ المغنی فی الضعفاء الرقم 5184 دیوان الضعفاء الرقم 3546-
◈ عن أيوب بن موسي عن أبيه عن جده أن رسول الله قال: ما نحل والد ولده من نحل أفضل من أدب حسن
بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کسی باپ نے اپنے بیٹے کو نیک ادب سے بڑھ کر کوئی بہتر عطیہ نہیں دیا۔“
الترمذی: 1952 البیہقی: 8652
تحقیق:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اس میں تین خرابیاں ہیں۔
① اس کی سند میں موسی بن عمرو بن سعید راوی مستور ہے۔
تقریر الرقم 6995 میزان الاعتدال جلد 2 ص 553
② اس میں ایک عامر بن صالح بن رستم راوی ضعیف ہے۔
تحریر تقریر التحذیر جلد 2 ص 171؛ الجرح والتعديل جلد 6 ص 416؛ دیوان الضعفاء الرقم 2052: المغنی فی الضعفاء الرقم 3007
③ یہ روایت مرسل ہے اور مرسل ضعیف کی اقسام سے ہے۔
فائدہ: یہ روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی آئی ہے۔ طبرانی میں ابن عمر رضی اللہ عنہما والی روایت میں محمد بن موسیٰ منکر الحدیث اور عمر بن دینار الأعور البصری کی ضعیف ہے۔ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی روایت میں مہدی بن ہلال کذاب ہے۔
انظر التفصیل فی سلسلة الأحادیث الضعیفة الرقم: 1121
◈ عن ابن عباس قال: قال رسول الله ما: من كانت له أنثي فلم يؤدها ولم يهنها ولم يؤثر ولده عليها (يعني الذكور) أدخله الله الجنة
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کی ایک بیٹی ہو اور اس کو (ایام جاہلیت کی طرح) زندہ دفن نہ کیا ہو، نہ اس کو ذلیل و خوار کر کے رکھا ہو (اور حقوق دینے میں) لڑکوں کو اس پر ترجیح نہ دی ہو اللہ تعالی اس کو جنت میں داخل کرے گا۔“
سنن ابی داود: 5146
تحقیق:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اس کی سند میں دو خرابیاں ہیں۔
① اس کی سند میں ابن حذیر راوی مجہول ہے۔
تحریر تقریر التحذیر جلد 4 ص 306؛ میزان الاعتدال جلد 7 ص 449 المغنی فی الضعفاء الرقم 7843
② ابو معاویہ مدلس ہے اور اس نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
◈ عن سراقة بن مالك أن النبى ما قال: ألا أدلكم على أفضل الصدقة؟ ابنتك مردودة إليك ليس لها كاسب غيرك
سیدنا سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں بہترین صدقہ سے آگاہ نہ کروں؟ وہ تیری اپنی بیٹی پر صدقہ کرنا ہے جو تیری طرف واپس کر دی گئی (یعنی اس کے شوہر نے طلاق دے دی ہے یا مر گیا ہے) اور تیرے سوا اب اس کے لیے کوئی کمانے والا نہیں ہے۔“
سنن ابن ماجہ: 3667
تحقیق:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
اس لیے سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے یہ روایت علی بن رباح بیان کرتا ہے حالانکہ علی بن رباح کا سماع( سننا) سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔ لہذا روایت منقطع ہوگی۔ كما صرح به البوصیری وغیرہ۔ اور منقطع روایت ضعیف کی اقسام میں سے ہے۔
◈ عن خولة بنت حكيم قالت: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم وهو محتضن أحد ابني ابنته وهو يقول: إنكم لتبخلون وتجبنون وتجهلون وإنكم لمن ريحان الله
سیدہ خولہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن نکلے اپنے ایک نواسے( حسن رضی اللہ عنہ یا حسین رضی اللہ عنہ) کو گود میں لیے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے: ”بے شک تم بخیل کر دیتے ہو اور تم بزدل کر دیتے ہو اور تم جاہل بنا دیتے ہو اور بے شک تم اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے پھلوں سے ہو۔“
جامع الترمذی: 1910
تحقیق:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اس روایت میں دو خرابیاں ہیں۔
① اس کی سند میں ابن سوید راوی مجہول ہے۔
تقریر الرقم: 45944 میزان الاعتدال جلد 6 ص 1186 الجرح والتعديل جلد 7 ص 370
② اس روایت کو سیدہ خولہ رضی اللہ عنہا سے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں اور عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کا سیدہ خولہ رضی اللہ عنہا سے سماع ثابت نہیں ہے اور روایت منقطع بھی ہوئی۔
جامع الترمذی جلد 2 ص 13؛ تحقیق التحذیر الرقم 5098
◈ عن أبى سعيد الخدري عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: الولد تمرة القلب
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اولاد دل کا پھل ہے۔“
تحقیق:
اس کی سند ضعیف ہے اس میں عطیہ عوفی راوی ضعیف ہے۔
تحریر تقریر التحذیر جلد 3 ص 120 دیوان الضعفاء الرقم: 2843؛ المغنی فی الضعفاء الرقم: 44139 مجمع الزوائد جلد 8 ص 199
◈ عن أبى سعيد الخدري قال: قال رسول الله: من كانت له ثلاث بنات أو ثلاث أخوات أو ابنتان أو أختان فأحسن صحبتهن واتقي الله فيهن فله الجنة
”سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں پھر اس نے اچھی طرح ان سے سلوک کیا اور ان کی پرورش و تربیت کرنے میں اللہ سے ڈرا پس اس کے لیے جنت ہے۔“
جامع الترمذی، الرقم: 1916
تحقیق:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
التاریخ الکبیر للبخاری ج 3 ص 407
اس روایت میں دو خرابیاں ہیں۔
① سعید بن عبد الرحمن الأعشی راوی مجہول ہے۔ ابن حبان کے علاوہ کسی نے اس کو ثقہ قرار نہیں دیا۔
② اس میں انقطاع ہے اس لیے کہ سعید بن عبد الرحمن الأعشی کو حافظ ابن حجر نے (تقریر الرقم: 2354) میں چھٹے طبقہ میں ذکر کیا ہے اور چھٹے طبقہ کے راویوں کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہوئی (مقدمہ تقریر) یعنی وہ تابعی نہیں ہوتا اسی طرح ابن حبان نے بھی اس راوی کو تبع تابعین میں ذکر کیا ہے تو خلاصہ یہ نکلا کہ یہ تبع تابعی ہے اور صحابی سے بیان کر رہا ہے۔
◈ عن أبى سعيد الخدري قال: لا يكون لأحدكم ثلاث بنات أو ثلاث أخوات فيحسن إليهن إلا دخل الجنة
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کسی کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں پھر وہ ان کے ساتھ احسان کرے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔“
جامع الترمذی: 1912
تحقیق:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اس میں بھی سابقہ حدیث والی دو خرابیاں ہیں۔
◈ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
من مسح رأس يتيم لم يمسحه إلا لله كان له بكل شعرة عليها يده حسنات ومن أحسن إلى يتيمة أو يتيم كنت أنا وهو فى الجنة كهاتين وقرن بين إصبعيه
”جس نے اللہ کی رضا کے لیے یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا، اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آگئے اتنی اسے نیکیاں ملے گی اور جس نے یتیم بچے یا بچی کے ساتھ اچھا سلوک کیا میں اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں انگلیوں کو ملایا یعنی جس طرح یہ دونوں انگلیاں اکٹھی ہیں اسی طرح میں اور یتیم کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا جنت میں اکٹھے ہوں گے۔“
طبرانی، الرقم: 22185
تحقیق:
اس میں علی بن یزید الأہانی راوی ضعیف ہے۔
مجمع الزوائد جلد 8 ص 207
◈ عن أبى سعيد وابن عباس قالا: قال رسول الله ما: من ولد له ولد فليحسن اسمه وآدابه فإذا بلغ ولم يزوجه فأصاب إثما فإنما إثمه على أبيه
ابو سعید رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہوا وہ اس کا بہترین نام رکھے اور اس کو ادب سکھائے اور جب بلوغت کو پہنچے تو اس کا نکاح کرے اگر بلوغت کے بعد اس کا نکاح نہیں کیا اور اس سے گناہ ہو گیا تو گناہ اس کے والد پر ہوگا۔“
شعب الإیمان للبیہقی: 8666
تحقیق:
اس کی سند ضعیف ہے اس میں دو خرابیاں ہیں۔
① اس کی سند میں محمد بن عبد اللہ العسکری مجہول ہے۔
② سعید الجریری کو اختلاط ہو گیا تھا۔ یہ روایت اس سے شداد بیان کر رہا ہے اور اس کے متعلق علم نہیں کہ یہ اختلاط سے پہلے بیان کرتا تھا یا بعد میں۔
الكواكب النيرات في معرفة من اختلط من الرواة – هذا ما عندي والله اعلم بالصواب
◈ عن عمر بن الخطاب وأنس بن مالك عن رسول الله ما قال صلى الله عليه وسلم فى التوراة مكتوب من بلغت ابنته اثني عشرة سنة ولم يزوجها فأصابت إثما فإثم ذلك عليه
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کی بیٹی بارہ سال کو پہنچ گئی اور اس نے اس کی شادی نہ کی اور اس نے گناہ کا ارتکاب کر لیا تو اس کا گناہ اس (کے والد) پر ہے۔“
شعب الايمان للبيهقي: 8670
تحقیق:
یہ روایت بھی ضعیف ہے اس کی سند میں ابوبکر بن ابی مریم راوی ضعیف ہے۔
تقريب الرقم 7974؛ میزان الاعتدال جلد 7 ص 335؛ المغني في الضعفاء: 7341۔
◈ عن معاذ بن جبل قال: قال رسول الله ما: ما من مسلمين يتوفي لهما ثلاثة إلا أدخلهما الله الجنة بفضل رحمة الله إياهما فقالوا: يا رسول الله أو اثنان؟ قال: أو اثنان قالوا: أو واحد؟ قال: أو واحد ثم قال: والذي نفسي بيده أن السقط ليجر أمه بسرره إلى الجنة إذا احتسبته
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ یہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس مسلمان میاں بیوی کے تین بچے فوت ہو جائیں تو اپنی بے پایاں رحمت سے اللہ تعالی ان کو جنت میں داخل فرمائے گا۔“ انہوں نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! کیا (یہ حکم) دو بچوں کو بھی شامل ہے؟ آپ نے فرمایا: ”دو بچوں کو بھی شامل ہے۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! ایک بچے کے لیے بھی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ایک بچے کے لیے بھی ہے۔“ بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ناتمام بچہ اپنی والدہ کو اپنی ناف کے ساتھ جنت میں پہنچائے گا جبکہ اس کی والدہ نے اس پر صبر کیا ہو۔“
احمد ابن ماجه، الرقم: 21989
تحقیق:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اس کی سند میں یحییٰ بن عبید اللہ بن موہب التیمی راوی متروک اور ضعیف ہے۔
تقريب الرقم 7599؛ میزان الاعتدال جلد 7 ص 201 ؛ ديوان الضعفاء الرقم 4661
◈ عن على قال: قال رسول الله: إن السقط ليراغم ربه إذا أدخل أبويه النار فيقال: أيها السقط المراغم ربه أدخل أبويك الجنة فيجرهما بسرره حتي يدخلهما الجنة
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بلا شبہ ناتمام پیدا ہونے والا بچہ اپنے رب سے جھگڑا کرے گا جب (اللہ تعالی) اس کے والدین کو دوزخ میں داخل کرے گا، چنانچہ کہا جائے گا: اے ناتمام بچے جو اپنے رب سے جھگڑا کر رہا ہے۔ اپنے والدین کو جنت میں داخل کیجئے چنانچہ بچہ اپنے والدین کو اپنی ناف کے ساتھ کھینچ کر جنت میں داخل کرے گا۔“
ابن ماجہ، الرقم: 1608
تحقیق:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اس میں دو خرابیاں ہیں۔
① اس کی سند میں منڈل بن علی راوی ضعیف ہے۔
تقريب الرقم: 6883 ميزان الاعتدال جلد 6 ص 513؛ التاريخ الكبير للبخاري جلد7 ص 377؛ الجرح والتعديل جلد 8 ص 495
② اس کی سند میں ایک راویہ اسماء بنت عابس ہے جو کہ مجہولہ (یعنی غیر معروفہ) ہے۔
تقريب الرقم: 8529
◈ عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله مع: من قدم ثلاثة من الولد لم يبلغوا الحنث كانوا له حصنا حصينا من النار فقال أبو ذر: قدمت اثنين؟ قال: واثنين فقال أبى ابن كعب سيد القراء: قدمت واحدا؟ قال: وواحدا
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے تین نابالغ بچوں کو آگے بھیجا وہ (بچے) اس کے لیے دوزخ سے بچاؤ کا سامان ہوں گے۔“ ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے دو بچے آگے بھیجے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اور دو بھی (یعنی جس کے دو بچے بھی فوت ہو گئے ہیں وہ اس کے لیے دوزخ سے بچاؤ کا سامان ہوں گے)۔“ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے ایک بچہ (آگے )بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ایک بھی (دوزخ سے بچاؤ کا سامان ہوگا۔)“
سنن ابن ماجه، الرقم: 1606
تحقیق:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
① اس روایت کو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ان کا بیٹا ابو عبیدہ بیان کرتا ہے اور ان دونوں کا سماع ثابت نہیں تو روایت منقطع ہوئی۔
امام ترمذی یہ روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وأبو عبيدة لم يسمع من أبيه
ابو عبیدہ نے اپنے باپ سے نہیں سنا۔
جامع الترمذی جلدا ص 402
② اس روایت کی سند میں ابو محمد مولی عمر بن الخطاب راوی مجہول ہے۔
تقريب الرقم: 8345
◈ عن أبى سعيد الخدري قال: لعن رسول الله ما الطائحة والمستمعة
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوحہ کرنے والی اور سننے والی عورت پر لعنت کی ہے۔
سنن ابی داود، الرقم: 3128
تحقیق:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اس میں تین خرابیاں ہیں۔
① اس کی سند میں محمد بن حسن بن عطیہ العوفی راوی ضعیف ہے۔
تقريب التهذيب ج 3 ص 229
② حسن بن عطیہ نامی راوی بھی اس سند میں ضعیف ہے۔
تقريب التهذيب الرقم:1256
③ عطیہ بن سعد نامی راوی بھی اس روایت میں ضعیف ہے۔
تحرير تقريب التهذيب جلد 3 ص 20
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
قال الحافظ فى التلخيص: كلها ضعيفة
اس حدیث کی جتنی سندیں آتی ہیں ساری ضعیف ہیں۔
تلخيص الحبير جزء 2 ص 139
◈ عن ابن عباس قال: ماتت زينب بنت رسول الله فبكت النساء فجعل عمر يضربهن بسوطه فأخره رسول الله ما بيده وقال: مهلا يا عمر ثم قال: إياكم ونعيق الشيطان ثم قال: إنه مهما كان من العين ومن القلب فمن الله عزوجل ومن الرحمة وما كان من اليد ومن اللسان فمن الشيطان
”سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی فوت ہو گئی۔ اس پر عورتوں نے رونا شروع کر دیا پس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان کو کوڑے کے ساتھ مارنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اپنے ہاتھ سے باز رکھا، آپ نے فرمایا: عمر! رک جائیے۔“
مسند أحمد، الرقم: 2127 البیہقی
( نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کو مخاطب کیا )اور فرمایا: ”تم خود شیطانی نوحہ گری سے باز رہو۔“ پھر فرمایا: ”جو گریہ زاری آنکھ اور دل سے ہو وہ اللہ کی جانب سے رحمت ہے اور جس گریہ زاری میں سینہ کوبی وغیرہ اور زبان سے (نوحہ گری ہو) تو وہ شیطان کی طرف سے ہے۔“
تحقیق:
اس روایت کی سند ضعیف ہے اس لیے کہ اس میں علی بن زید بن جدعان راوی ضعیف ہے۔
تقریر الرقم: 4734؛ میزان الاعتدال جلد 6 ص 156؛ الجرح والتعديل جلد 6 ص 240؛ دیوان الضعفاء الرقم: 2926؛ المغنی فی الضعفاء الرقم: 4265
◈ عن البهي رحمه الله قال: لما مات إبراهيم بن النبى صلى الله عليه وسلم صلى عليه رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم
”سیدنا بہی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیٹا ابراہیم فوت ہوا تو آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔“
سنن ابی داود، الرقم: 3188
تحقیق:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اس لیے کہ یہ روایت مرسل ہے کیونکہ بہی تابعی ہے اور تابعی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کرے تو ایسی روایت کو مرسل کہتے ہیں اور مرسل ضعیف کی اقسام میں سے ہے۔ بہی کا نام ابو محمد عبد اللہ بن بیمار مولی معصب بن زبیر ہے۔
عون المعبود
قال المنذري:
هذا مرسل
عون المعبود
نوٹ: اسی طرح کی ایک اور روایت ہے کہ سیدنا عطاء بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراہیم کی نماز جنازہ پڑھی۔
ابو داود
اس روایت کی سند بھی ضعیف ہے۔ اس لیے کہ سیدنا عطاء تابعی ہے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کر رہے ہیں اور جب تابعی اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کرے تو اس کو مرسل کہتے ہیں۔
رواهما البيهقي وقال: هذه الآثار مرسلة.
عون المعبود جلد 3 ص 182
فائدہ:
پیچھے صحیح حدیث گزر چکی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابراہیم کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی۔
◈ عن جابر أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: الطفل لا يصلي عليه ولا يرث ولا يورث حتي يستهل
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بچے کی نماز جنازہ نہ ادا کی جائے، نہ بچہ کسی کا وارث ہوگا اور نہ بچے کا کوئی وارث ہوگا جب تک کہ وہ بچہ( پیدا) ہونے کے بعد چیخ نہ مارے۔“
جامع الترمذی: 1032
تحقیق:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ یہ روایت ترمذی اور ابن ماجہ میں آئی ہے۔
ترمذی والی سند میں دو خرابیاں ہیں۔
① اسماعیل بن مسلم مکی راوی ضعیف ہے۔
تقریر الرقم 4484 میزان الاعتدال جلد 2 ص 409؛ تحقیق التحذیر الرقم 4524 الجرح والتعديل الرقم 669؛ تحقیق الکمال الرقم 483: المغنی فی الضعفاء الرقم: 716؛ کتاب الضعفاء للعقیلی -105
② اس روایت کی سند میں ابو زہیر راوی مدلس ہے اور اس نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
ابن ماجہ والی روایت میں بھی دو خرابیاں ہیں۔
① ربیع بن بدر راوی متروک ہے۔
تقریر الرقم: 1883؛ تحقیق التحذیر الرقم 41945 الکامل لابن عدی جلد 4 ص 29 تحقیق الکمال الرقم 1854؛ میزان الاعتدال جلد 3 ص 460 المغنی فی الضعفاء الرقم 2087؛ الجرح والتعديل جلد 3 ص 4419 دیوان الضعفاء الرقم: 1386؛ کتاب الضعفاء للعقیلی الرقم: 485
② ابو زبیر مدلس ہے اور اس نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
◈ من عوي مصابا فله مثل أجره
”جو مصیبت زدہ سے تعزیت کرے تو اس کے لیے اتنا ہی اجر ہے جتنا مصیبت زدہ کے لیے ہے۔“
ترمذی، الرقم: 1073؛ ابن ماجہ، الرقم: 1602
تحقیق:
یہ روایت ضعیف ہے اس لیے کہ اس کی سند میں علی بن عاصم الواسطی راوی ضعیف ہے۔
تحریر تقریر التحذیر جلد 3 ص 47؛ تحقیق التحذیر الرقم 4903؛ تحقیق الکمال الرقم 44721 الجرح والتعديل جلد 6 ص 257؛ میزان الاعتدال جلد 6 ص 165؛ المغنی فی الضعفاء الرقم: 4290
(ہدایت الرواة قال الألبانی: وقد روی الحدیث من طرق واہیة، انظرہا فی إرواء الغلیل، 4765 ہدایت الرواة، ج 2 ص 230)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے