طلاق کے بعد بچے کی حضانت (پرورش اور دیکھ بھال) کون کرے گا؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

طلاق کے بعد بچے کی حضانت (پرورش اور دیکھ بھال) کون کرے گا؟

جواب:

اسلام نے بچے کی حضانت کے لیے ماں یا باپ میں سے کسی ایک کو خاص نہیں کیا، بلکہ اس کے لیے ماں باپ کی صلاحیت کو دیکھا جائے گا کہ کون اس کی پرورش کر پائے گا، اسے مکمل دینی، روحانی، جسمانی اور عقلی ضروریات فراہم کر سکے گا۔ اگر ماں کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے، تو بچہ ماں کے نام اور اگر باپ کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے، تو بچہ باپ کی پرورش میں دیا جائے گا۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہم نے جسے اختیار یا قرعہ کے ذریعہ مقدم کیا ہے، وہ بچے کی مصلحت کی پیش نظر ہے۔ باپ کی بہ نسبت ماں زیادہ خیال رکھنے والی اور غیرت مند ہو، تو اسے مقدم کریں گے، اس حالت میں کسی قرعہ یا بچے کے اختیار کا اعتبار نہیں ہوگا، کیونکہ وہ کم عقل ہے، ڈھیل اور کھیل کود کو ترجیح دے گا۔ بچہ جب ماں باپ میں سے کسی ایسے کو اختیار کر لے، جو فضولیات میں اس کی مدد کرتا ہے، اس صورت میں بچے کا اختیار نا قابل التفات ہوگا اور اس کے پاس رہے گا، جو اس کے حق میں شرعی طور پر خیر اور حفاظت کا باعث ہو۔ شریعت اسی کی گنجائش دیتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أمروا أولادكم بالصلاة إذا بلغوا سبعا واضربوهم عليها إذا بلغوا عشرا وفرقوا بينهم في المضاجع
اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو اور دس برس کی عمر میں نماز چھوڑنے پر زدوکوب کرو۔ نیز بستر بھی علیحدہ کرو۔
سنن أبي داود: 495، وسنده صحيح
فرمان باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ
﴿التحريم: 6﴾
مومنو! خود اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ، جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھیں۔
ماں جب اسے مکتب میں رکھے گی اور قرآن کی تعلیم سے آشنا کرے گی اور بچہ کھیل کود اور اپنے ساتھیوں کی محفل کو ترجیح دے، جب کہ باپ بھی اس سب کا اہتمام کر سکتا ہے، تو باپ بغیر کسی قرعہ کے زیادہ حق دار ہے۔ اس کے برعکس ہو، تو بھی یہی حکم ہے۔ اگر دونوں میں سے کوئی بچے میں اللہ اور رسول کے اوامر نافذ کرنے کی استعداد نہیں رکھتا اور دوسرا ان سب کا خیال رکھ سکتا ہے، تو یہی حق دار ہوگا۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے شیخ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو فرماتے سنا تھا: کسی حاکم کے ہاں والدین کا ایک بچے کے متعلق جھگڑا ہو گیا۔ قاضی کے اختیار دینے پر بچے نے باپ کو اختیار کر لیا۔ ماں نے قاضی سے کہا کہ بچے سے پوچھیں کہ باپ کو کیوں چنا؟ پوچھنے پر کہنے لگا: میری ماں مجھے روزانہ لکھاری کے پاس بھیجتی ہے اور استاد مجھے مارتا ہے، جب کہ میرے ابو مجھے بچوں کے ساتھ کھیلنے دیتے ہیں۔ قاضی نے ماں کے حق میں فیصلہ کر کے فرمایا: آپ ہی اس کی زیادہ حق دار ہیں۔
ہمارے استاد محترم فرمایا کرتے تھے کہ جب ماں باپ میں سے کوئی اپنے بچے کی تعلیم اور فرائض کو چھوڑ دے، وہ گناہ گار ہے اور اس کی کوئی ولایت نہیں، بلکہ جو بھی بچے کے واجب امور کا اہتمام نہ کرے وہ ولایت کا اہل نہیں ہے۔ یا تو اس سے ولایت چھین کر کسی مہتم کو دے دی جائے گی یا اس کے ساتھ کسی ایسے کو شریک کر دیا جائے گا جو واجبات کا اہتمام کروائے، کیونکہ مقصود جہاں تک ممکن ہو اللہ و رسول کی اطاعت کرنا ہے۔
ہمارے شیخ فرماتے ہیں: یہ کوئی موروثی حق نہیں ہے کہ جو رشتہ داری، نکاح یا ولا سے حاصل ہو جائے اور وارث پارسا ہو یا فاسق و فاجر، بلکہ یہ ایسی ولایت ہے، جس میں واجبات، اس کا علم اور جتنا ممکن ہو عمل میں لانے کی بساط ہو۔
نیز فرماتے ہیں: فرض کیا ایک بندہ کسی عورت سے شادی کر لے اور وہ عورت اس کی بیٹی کا خیال رکھے، نہ اس کی مصلحت کو سمجھے، جب کہ اس کی ماں اپنی سوتن سے زیادہ اس کی مصلحت کا خیال رکھتی ہے اور تربیت بھی بخوبی کر سکتی ہو۔ اس صورت حال میں پرورش ماں کا حق ہے۔
نیز فرماتے ہیں کہ یہ معلوم ہونا چاہیے کہ شارع علیہ السلام نے والدین میں سے کسی کو بھی مطلق طور پر مقدم نہیں کیا اور نہ ہی عمومی طور پر بچے کو اختیار دیا ہے۔ علمائے کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ پرورش کرنے میں علی الاطلاق کوئی بھی مقدم نہیں ہے۔ لہذا کسی سرکش اور مفرط کو نیک، عادل اور محسن پر مقدم نہیں کیا جا سکتا۔
زاد المعاد في هدي خير العباد: 475/4
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک اور ضابطہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مسئلہ حضانت میں یہ کہنا انتہائی مناسب ہوگا کہ یہ ایسی ولایت ہے، جس میں شفقت، تربیت اور لطف و کرم کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ اس کا زیادہ حق دار بھی وہی ہے، جو اس بچے کے زیادہ قریب ہو اور ان صفات کا زیادہ حامل ہو۔ یہ اس کے قریبی رشتہ دار ہی ہو سکتے ہیں۔ پھر ان میں سے بھی زیادہ قریبی اور ان صفات سے متصف کو مقدم کیا جاتا ہے۔ اگر ان صفات کے حاملین میں دو یا زیادہ برابر ہو جائیں، تو مؤنث کو مذکر پر ترجیح دی جائے گی۔ لہذا ماں کو باپ پر، دادی کو دادا پر، خالہ کو ماموں پر، پھوپھی کو چچا پر اور بہن کو بھائی پر ترجیح دی جائے گی۔ اگر دو برابر مذکر یا مؤنث جمع ہو جائیں، تو اسے قرعہ کے ذریعے مقدم کیا جائے گا۔ اگر بچے کے ساتھ ان کے درجات مختلف ہوں اور قرابت ایک ہی جہت سے ہو، تو بہن کو بیٹی پر، بچے کی خالہ کو والدین کی خالہ پر، والدین کی خالہ کو دادا کی خالہ پر اور نانا/نانی کو اخیافی بھائی پر مقدم کیا جائے گا، کیونکہ حضانت کے مسئلہ میں ابو اور چچا کی جہت بھائیوں کی جہت سے زیادہ قوی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اخیافی بھائی کو مقدم کیا جائے گا، کیونکہ میراث میں نانا سے زیادہ قوی ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مذہب میں یہ دونوں صورتیں موجود ہیں۔
زاد المعاد في هدي خير العباد: 50/5

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے