سوال:
کیا بالغہ خود اپنا نکاح کر سکتی ہے؟
جواب:
نہیں کر سکتی، ولی کی اجازت شرط ہے۔
سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
خطب إلي أختي فجاءني ابن عم لي فزوجتها منه فطلقها طلاقا رجعيا ثم تركها حتى انقضت عدتها فلما خطبها الخطاب جاءني يخطبها فقلت لا والله لا أزوجك أبدا فنزلت هذه الآية وإذا طلقتم النساء فبلغن أجلهن فلا تعضلوهن أن ينكحن أزواجهن فكفرت عن يميني وزوجتها منه
مری طرف میری ایک بہن سے نکاح کے لیے پیغام آیا، میرا ایک چچا زاد بھی آیا، میں نے اس سے اپنی بہن کا نکاح کر دیا، پھر اس نے اسے رجعی طلاق دے دی، پھر اسے چھوڑ دیا حتی کہ اس کی عدت پوری ہو گئی، جب میری طرف (دوسرے لوگوں کی طرف سے) نکاح کے پیغام آنے لگے، تو وہ بھی نکاح کا پیغام لے کر آ گیا، میں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! میں کبھی اپنی بہن کا نکاح تجھ سے نہیں کروں گا۔
صحيح البخاري: 5130، سنن أبي داود: 2087، واللفظ له
میرے بارے میں ہی یہ آیت نازل ہوئی:
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ
﴿البقرة: 232﴾
پھر میں نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کیا اور اسی سے اپنی بہن کا نکاح کر دیا۔
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ بغیر ولی کے نکاح جائز نہیں، کیونکہ سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بہن نشیبہ رضی اللہ عنہا (طلاق یافتہ) تھی، اگر معاملہ نکاح اسی کے ہاتھ میں ہوتا، تو وہ خود اپنا نکاح کر لیتی اور اپنے ولی معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی محتاج نہ ہوتی، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ولیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے:
فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ
﴿البقرة: 232﴾
ان کو اپنے سابقہ خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو، لہذا اس آیت سے معلوم ہوا کہ معاملہ نکاح ولیوں کے ہاتھ میں ہے، ہاں عورتوں کی رضامندی بھی ضروری ہے۔
سنن الترمذي، تحت الحديث: 2981
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں واضح دلیل موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کا اختیار اولیاء کو سونپا ہے، نہ کہ خود عورتوں کو، نیز دلیل ہے کہ نکاح کا کچھ بھی اختیار خواتین، خواہ وہ شوہر دیدہ ہی ہوں، کو حاصل نہیں ہے۔
المستدرك للحاكم، تحت الحديث: 2719
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جاہلیت میں نکاح کی صورتیں بیان کرتی ہوئی فرماتی ہیں:
كان النكاح في الجاهلية على أربعة أنحاء فمنها نكاح الناس اليوم يخطب الرجل إلى الرجل وليته أو ابنته فيعطيها المهر فينكحها فلما بعث محمد صلى الله عليه وسلم أبطل نكاح الجاهلية إلا نكاح الناس اليوم
دور جاہلیت میں نکاح کے چار طریقے تھے، ان میں سے ایک تو وہی ہے جو آج لوگ اختیار کرتے ہیں، یعنی ایک آدمی دوسرے آدمی کی طرف اس کی زیرِ ولایت عورت یا بیٹی کے بارے میں پیغام نکاح بھیجتا، پھر اس عورت کو حق مہر دے کر اس سے نکاح کر لیتا۔ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث فرمائے گئے، تو آپ نے جاہلیت کے سارے نکاح ختم کر دیے سوائے اس نکاح کے جو لوگ آج کرتے ہیں۔
صحيح البخاري: 5127
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث میں موجود إلا نكاح الناس اليوم کے الفاظ سے ثابت کیا ہے کہ ولی کی اجازت نکاح میں ضروری ہے، کیونکہ جس نکاح کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا ہے، اس کا انداز سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہی بیان کیا ہے کہ ولی خود عورت کا نکاح کرے۔